1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈاکٹر یا تاجر؟

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏20 فروری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر یا تاجر؟
    20 فروری 2017

    گزشتہ دنوں کی بات ہے۔ میرا ایک پڑوسی پریشانی کی حالت میں ہاتھ میں ایک پرچہ تھامے میرے پاس آیا۔ بولا ’’بھیا میں بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ کچھ مدد کریں‘‘
    دریافت کیا ’’ہوا کیا ہے؟‘‘
    بولا ’’میری بیٹی بہت بیمار ہے۔ ڈاکٹر کو چیک کروانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ جو کماتا ہوں گھر کا خرچ بڑی مشکل سے چل رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جائیں یہ ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کروا کے لائیں۔ اب میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، میں کیا کروں۔ آپ بھی اسی شعبے سے ہیں دیکھیں یہ ٹیسٹ کیا ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے بہت ضروری ٹیسٹ ہیں۔ یہ ہوں گے تو دوائی ملی گی‘‘

    میں نے وہ پرچہ دیکھا تو واقعی کافی سارے ٹیسٹ لکھے تھے۔ میں نے پوچھا ’’بھیا آپکی بچی کی بیماری کے متعلقہ اس میں ایک ہی ٹیسٹ ہے۔ باقی سب غیر ضروری ہیں۔ چلو میں کر دیتا ہوں ٹیسٹ‘‘

    اسکو حوصلہ دیا اور واپس بھیج دیا۔ افسوس ہوا ان انسانیت کے مسیحاؤں پر جنہوں نے ڈاکٹری کو پیشہ بنا لیا ہے۔ جب ایک بچہ سکول جانا شروع کرتا ہے تو والدین کہتے ہیں ہمارا بیٹا ڈاکٹر بنے گا اور انسانیت کی خدمات کرے گا۔ اور جب یہ بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹربنتا ہے تو قوم کی ایسی ’’خدمت‘‘ کرتا ہے کہ اسے دیکھ کر یا سن کر ڈاکٹری پیشہ سے اعتماد ہی اٹھ جاتا ہے۔

    اندرونی کہانی کچھ اور ہے۔ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر اسکو دیکھنے کے بعد ڈرانے کے انداز میں کہتا ہے
    ’’یہ ٹیسٹ ہونا ضروری ہیں۔ جلدی کروائیں ورنہ مریض کی ذمہ داری میں نہیں لے سکتا‘‘۔
    ڈاکٹر صاحب یہ بھی بتاتے ہیں کہ فلاں لیبارٹری سے کروائیں۔ اصل میں اس لیب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا کمیشن تہہ ہوتا ہے۔ ٹیسٹوں کی فیس میں ڈاکٹر صاحب کا حصہ ہوتا ہے۔ اب مریض بیچارہ چار و نا چار ٹیسٹ کروانے لیب میں جاتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ یہ ٹیسٹ ہو جائیں توشائد اسکی جان بچ جائے اور وہ زندگی کے کچھ دن اور دیکھ لے۔ لیکن اسکو یہ نہیں پتا ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اسکے خون اور پیشاب کے سمپل لیے جاتے ہیں۔ مریض بہت خوش ہوتا ہے، یہ خوش لباس خوش شکل لڑکی جس نے اسکا اسمپل لیا ہے کوئی بہت بڑی ڈاکٹر ہوگی۔ حالانکہ اس کی تعلیم بمشکل میٹرک ہو گی. خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔

    مریض کے سمپل لے کے جب لیب کے بنے اندرونی حصہ میں لے جایا جاتا ہے تو وہاں کیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب والا پرچہ جس پر ٹیسٹ لکھے ہوتے ہیں وہ لیب ٹیکنیشن کے پاس ہوتا ہے، وہ دیکھتے ساتھ ہی سمجھ جاتا ہے کہ کو نسا ٹیسٹ کرنا ہے اور کونسا فارمولا نمبر دو کے تحت صرف لکھنا ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے نشان بنائے ہوتے ہیں۔ خیر ٹیکنیشن متعلقہ ٹیسٹ کرتا ہے، باقی نارمل رپورٹ بنا کر مریض کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔
    آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے یہ فارمولا نمبر دو کیا ہے تو سنیے ۔

    فارمولا نمبر دو یہ ہے کے مریض کا سمپل آتا ہے تو اسکو کچرے کی بالٹی میں پھینک دیا جاتا ہے اور رپورٹس نارمل بنائی جاتی ہیں۔ جب وہ رپورٹس ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں تو بڑے غور سے دیکھنے کے بعد کہتا ہے شکر ہے آپکو بڑی بیماری نہیں ہے، سب ٹیسٹ نارمل ہیں۔ میرا شک دور ہو گیا۔ اللہ کے بندے تیرا شک تو دور ہو گیا لیکن اس غریب کی جیب تو خالی ہو گئی۔

    میں واقفان حال ہوں۔ ایسے ڈاکٹرز کو پتا ہوتا ہے کے مریض کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو بیماری سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اسکو اپنے کمیشن سے مطلب ہوتا ہے. لیکن انسانیت کے اس مسیحا کو یہ خیال نہیں آتا کہ جس مریض کو وہ دس دس ہزار کے ٹیسٹ لکھ کے دے رہا ہے اس بیچارے کے پاس اتنے پیسے بھی ہیں یا نہیں؟ کیا پتہ کتنے دن کے فاقے کاٹ کر وہ پیسے جمع کر کے ٹیسٹوں کے پیسے پورے کر کے لیب گیا تھا ۔

    اب جہاں تک لیب ٹیکنیشن کی بات ہے کہ وہ ٹیسٹ پر فارم کیوں نہیں کرتا، وہ اس لیے نہیں کرتا کہ لیب مالک کے حکم پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر عمل نہیں کرے گا تو اسکی نوکری چلی جائے گی ۔ اگر لیب مالکان کمیشن نہیں دیں گے تو ڈاکٹر صاحب ٹیسٹ نہیں لکھیں گے۔ دیکھا جائے تو یہ حقیقت بڑی سفاک ہے۔ وہ بھی غلط کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اسکی قوت ایمانی کی کمزوری ہے رزق تو اللہ نے دینا ہی ہے ۔

    ڈاکٹر کا کام لیب کی ٹیسٹوں پر ہی ختم نہیں ہوا ابھی آگے چلیں۔ ٹیسٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کافی ساری دوائی لکھتے ہیں اور مریض کو تاکید کرتے ہیں یہ دوائی کھائیں اور ہاں یہ دوائی میری ہی فارمیسی سے ملی گی باقی کہیں سے نہیں ملتی ۔

    دوائی ملے گی بھی کیوں؟ تمام لوکل ادوایات تو ڈاکٹر صاحب نے رکھی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو دوائی میں سے بھی تو پچاس فیصد کمانا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو مریض کی بیماری کا تو پہلے ہی پتا لگ جاتا ہے بس اس بیماری کی دوائی لکھ دیتے ہیں، باقی ساری برائے نام ہی ہوتی ہیں۔ لیکن اس مریض کو کیا پتہ؟ وہ بیچارہ سمجھتا ہے کوئی بڑی بیماری ہے جس وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے یہ تھیلا بھر کے دوائی دی ہے۔ سو وہ دوائی لے کر جیب خالی کر کے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کر کے بوجل قدموں سے گھر کو لوٹ جاتا ہے ۔

    اب لوکل اور ملٹی نیشنل کمپنی کی دوائی کہ ماجرہ سن لیجئے۔ ملٹی نیشنل کمپنی کی دوائی میں دس سے پندرہ فیصد بچت ہے جب کہ لوکل کمپنی کی دوائی میں پچاس فیصد تک بچتا ہے۔ کیوں کہ لوکل دوائی میں خام میٹریل کی جگہ میٹھا کڑوا پوڈر اور نیلے پیلے رنگوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کارنامے زیادہ تر وہ کرتے ہیں جو ڈاکٹر نہیں ہوتے جو کہ بس ٹیکہ لگانا سکیھ کر اپنے کلینک چلا رہے ہوتے ہیں۔ جن کو عطا ئی ڈاکٹر کہا جاتا ہے ۔

    میری حکومت سے اتنی سی اپیل ہے مہربانی کر کے اس مہذب چوری کی روک تھام کے لیے انتظامات کییجئے اور انسانی جانوں کو ضائع ہونے سی بچا ئیں۔ یاد رکھیں جس غریب کو روٹی چھوڑ کر فاقوں کے ساتھ علاجہ کرانا ہوتا ہے اسکی زندگی بہت دوبھر ہوتی ہے۔ حکمران اور مہذب لٹیروں ایسے لوگ انکے مجرم ہیں۔


    تحریر: ثاقب شیر دل راٹھور
     

اس صفحے کو مشتہر کریں