1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امتیاز عالم کا غیر مہذب بیانیہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏19 جنوری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    امتیاز عالم کا غیر مہذب بیانیہ
    15 جنوری 2017
    آج کے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں امتیازعالم صاحب فرماتے ہیں کہ "جرات تحقیق، پاک سرزمین پر سراٹھانے والوں، تکفیری دہشت گردوں کو ملامت کرنے والوں کو دن دیہاڑے دارلحکومت سے اٹھا لیا گیا، ریاست اور شدت پسند گروہ، قانون ہاتھ میں لینے والے خود جلاد بننے نکل کھڑے ہوئے ہیں، تکفیر اور توہین گھڑنے کی فیکٹریاں اب بند کر دینی چاہیے۔ قلمی تکفیر کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور حضور ﷺ نے کبھی کسی خارجی اور گستاخ کے ساتھ ایسا نہیں کیا تھا"

    جناب امتیاز عالم صاحب ! کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ نے سلمان حیدر اور اسکے ساتھیوں کی "حرکات" کی تحقیق کر لی ہے اور کیا سوشل میڈیا پر "بھینسا اور روشنی" جیسے پیجز وغیرہ کو وہ نہیں چلا رہے تھے؟
    آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ وہ بالکل پاک صاف ہیں؟
    اب تک کی رپورٹس کے مطابق متنازعہ اور توہین آمیز مواد تو انہیں پیجز سے برآمد ہو رہا ہے۔ آپ نے انہیں جرات مند اور پاک سرزمین پر سر اٹھانے والا کیسے قرار دے دیا؟
    آپ ایک سینئر صحافی ہیں، بجائے اس کے کہ آپ کہتے کہ معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہیے، انہیں بازیاب کرایا جائے اور اگر وہ اس طرح کی سرگرمی میں ملوث ہوں تو قانون کے مطابق انہیں سزا دی جائے۔ آپ نے تصویر کا ایک رخ پیش کر کے دراصل انکے نظریات وخیالات کی حمایت کی اور جو لوگ ان کی اہانت آمیز حرکات پر بول یا لکھ رہے ہیں ان کو آپ برا بھلا کہہ رہے ہیں، کیا آپ کا یہ بیانیہ خود تعصب پر مبنی نہیں؟

    میرے نزدیک آپ کا مجوزہ "مہذب بیانیہ" مہذب نہیں بلکہ غیرمہذب ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی اس ملک میں امن اور ترقی کے داعی ہیں اور باقی سب فسادی اور جاہل ہیں۔۔۔

    پیغمبر اسلام ﷺ کی ازدواجی زندگی کا مذاق اڑانے کو آپ جرات تحقیق قراردیتے ہیں؟؟؟
    امتیاز عالم صاحب ! کسی کو بغیر تحقیق کے تکفیری دہشت قرار دینا کون سی صحافتی اخلاقیات ہیں؟
    تکفیر اور توہین گھڑنے کی فیکٹریاں واقعتا بند ہونی چاہییں، قانون ہاتھ میں لینا چاہیے اور نہ ہی کسی کو جلاد بننے کی اجازت ہو نی چاہیے۔ بالکل درست! کاش آپ "بھینسا گروپ" کی ہرزہ سرائیوں کا بھی ذکر فرما دیتے تا کہ توازن برقرار رہتا۔ بدقسمتی سے شدت پسندی پر مبنی چند افراد کے انفرادی فعل کی آڑ میں پاکستان میں "دانش وروں" کا ایک غول اسلام اور بانی اسلام ﷺ پر بڑے مخصوص انداز سے حملہ آور ہے ، ان کی اکثریت قرآن وسنت کے علم سے بالکل بے بہرہ ہے، اسلام کا مطالعہ بھی وہ شائد "مولوی دشمنی" کی بنیاد پر کرنا پسند نہیں کرتے، وہ ایمانیات اور عقائد کو نشانہ بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، ان کا استدلال عقلی اور منطقی ہر لحاظ سے ناقابل فہم ہے۔

    آزاد خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ ظاہراََ بڑی پرکشش نظر آتی ہے مگر اس طبقہ کے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ نظریاتی تنگ نظری اور انتہاپسندی کے دائروں نے انہیں بھی جکڑ رکھا ہے۔ ایک کم علم اور کج فہم انسان سے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھری اور ضد کی بنا پر دلیل کی بجائے گالی کو ترجیح دیتا ہے مگر ایک دانشور اور صاحب علم تنگنائیوں میں مبتلا ہو جائے تو اس سے بڑھ کر علمی زوال کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے؟؟

    امتیاز عالم نے بھی اسی تشویش کا اظہار کیا جو کل امریکہ اور برطانیہ نے کیا کہ سلمان حیدر اور اسکے ساتھیوں کو کچھ نہ کہا جائے، انہوں نے تو دو ہاتھ آگے بڑھ کر ملحدانہ اور سرکش خیالات کے حامل سوشل ایکٹویسٹ کی وکالت کا حق ادا کیا۔ اظہار رائے کا ان کے پاس حق ہے وہ ہم چھین نہیں سکتے مگر جس طرح انہوں نے سلمان حیدر وغیرہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو تکفیری قرار دیا یہ مفروضہ بھی بڑے فتویانہ انداز میں پیش کیا کہ آنحضور ﷺ نے اپنے مخالفین اور خارجیوں پر کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا تھا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انسانی ہمدردی اور قانون کی بالادستی کا حقیقی تقاضا ہے کہ ہر شہری کو قانون وانصاف کا برابر موقع ملنا چاہیے، غائب افراد کو حاضر کر کے ثبوتوں کے ساتھ انکے خلاف مقدمات درج کر کے قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ترقی یافتہ معاشرے جب روشن خیال آئیڈیالوجی کی بنیاد پر مظلوم اقوام کے لوگوں یا اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا قتال کراتی ہیں تو وہ بھی قابل مذمت ہیں، معصوم لوگوں کا محض خود سے مخالف نظریات رکھنے کی پاداش میں قتل عام خواہ کسی مذہبی رجعت پسند کے ہاتھوں سے ہو یا آزاد اورروشن خیالی کے مبلغ کی دہشت پسند طبع کا نتیجہ ہو؟ ایک ہی جیسے قابل مذمت ہیں۔

    امریکا، برطانیہ اور مغرب میں لاتعداد ملحد صرف ملاؤں، پادریوں اور راہبوں کے ردِ عمل میں پیدا ہوئے ہیں، انھیں سرمایہ داری نظام کے بطن میں تضادات کی نوعیت اور شدت سے کوئی غرض نہیں ہے، نہ ہی انھیں اس نظام کی انسانوں پر برپا کی جانیوالی دہشت و بربریت سے ہی کچھ لینا دینا ہے، سماج کو طبقاتی یعنی سائنسی بنیادوں پر بھی وہ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں، وہ عہد حاضر میں برپا کی گئی ہر قسم کی دہشت پسندی کو قومی سطح پر طبقاتی تقسیم اور قومی اور بین الاقوامی کے مابین تضاد کی بنیاد پر سمجھنے کی بجائے صرف مذہب کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ توہین رسالت کی سزا کی بات ہوتی ہے تو لبرل یا سیکولریہ کہتے ہیں آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ ﷺ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ ﷺ پر پتھراؤ تک کیا گیا، حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ ﷺ کے جوتوں میں جم گیا، آپ ﷺ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمت للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ کی توہین پر قتل کی سزا کی ٹھیک نہیں۔ امتیاز عالم صاحب نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی ہے۔

    آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ کا رحمت اور درگزر کا پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہؓ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اْصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہے، نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا اور صحابہؓ کرام کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اْن کو قتل کرنے کی دعوت عام دی، ایسے جانثار صحابہؓ کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اْن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولیدؓ ، حضرت زبیرؓ ، عمیر بن عدیؓ اور محمد بن مسلمہؓ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ ﷺ نے کھلی دعوت دی تھی۔

    محمد بن مسلمہؓ کو آپﷺ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اْن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی، ایسے ہی حضرت حسان بن ثابتؓ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ’’روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما! "دین کا ابتدائی دور ہے اور اس دور میں آپ ﷺ کے پاس کوئی بھی قوت موجود نہ تھی اسلئے اللہ کے رسول ﷺ نے درگزر سے کام لیا ایسے تمام واقعات مکے کے ابتدائی دور سے متعلق ہیں.

    دوسری وہ کیفیت ہے جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ چکا اور شریعت کا قانون نافذ ہوگئی اس کیفیت میں ریاست کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ریاست کے اور مسلمانوں کے حکمران اور ان کے مذہبی پیشوا کی ناموس کی حفاظت قوت کے ساتھ کرے، بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خود ایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اْس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی اور نبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ ﷺ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے، عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں اور دیوانہ ہے؟ چنانچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سے ہمکنار کیا، قرآن کریم میں صحابہؓ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی۔۔۔

    البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤ گے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
    (آل عمران 186)

    سیدنا اْسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ ’نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ ﷺ کو ان کے بارے اجازت دے دی، پھر جب آپ ﷺ نے غزوہ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔
    (صحیح بخاری: رقم 5739)

    گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں،

    یہ وساوس پیدا کرنے والے یہی مغالطہ دیتے ہیں، مکے کے ابتدائی دور کے واقعات کی مثالیں دیتے ہیں اور اسلامی ریاست کے قیام عمل میں آنے کے بعد کے واقعات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔مسلمانوں کو قوت مل جانے کے بعد کے ایسے واقعات پر حضور ﷺ کے ردعمل کی مثالیں حاضر ہیں،

    • نبی کریم ﷺ نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
    • ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سے قتل کرایا۔
    • آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عتیکؓ کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔.
    • حضرت زبیرؓ کو آپ ﷺ نے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔
    • عمیر بن اْمیہؓ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ ﷺ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔.
    • بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنتِ مروان کو عمیر بن عدی خطمیؓ نے قتل کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے اس فعل پر عمیر بن عدیؓ کی تحسین کی۔
    • دور نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم ﷺ کو دشنام کیا کرتی اور گستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اْس کا خون رائیگاں قرار دیا۔
    • سیدنا عمر بن خطابؓ نے اپنے دور خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔۔
    • عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کو قتل کیا جو آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہیں تھا۔
    (الصارم المسلول، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    ہمیں شخصی اذیت دینے والے اور آپ ﷺ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں بھی فرق کرنا ہو گا۔ جن لوگوں نے آپ کو جسمانی اذیت دی آپ ﷺ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ ﷺ کے منصب رسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اْنہیں آپ ﷺ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصبِ رسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا اور اپنے رسول مکرم ﷺ کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔

    پہلے دہشت گردی نے اسلام کے خوب صورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی، ابدانشور دہشت گردوں سے قوم کا پالا پڑا ہوا ہے،


    اسلام کے خلاف تاریخ کی اس بدترین جنگ کے اندر امت کے عقیدے اور شریعت کا علم تھام کر میدان میں اترنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں ایسے موحد اور صالح دانشور وں کی ضرورت ہے جو نظریات کے اس عظیم ترین گھمسان اور تہذیبوں کے اس بے رحم ترین تصادم کے اندر امت کو اس کا ہاتھ پکڑ کر چلائیں، اور جو اِس بحر ظلمات کے اندر سے اس کیلئے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں، اور جو ایک زیرک و مکار دشمن کے حربوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اِس قوم کو علم اور فکر اور تدبیر اور بصیرت سے لیس کریں۔ اسلام دشمن قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے ہر طرف ہم پر "دانش وروں" کے غول چھوڑ دیے ہیں جو ہمارے اِس بچے کھچے نظریاتی وجود کو بڑی بے رحمی کے ساتھ بھنبھوڑ رہے ہیں، اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔

    (تحریر: ڈاکٹر رانا تنویر قاسم)

    کچھ لکھاری کے بارے میں
    : ڈاکٹر رانا تنویر قاسم انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں "مذاہب ثلاثہ میں امن اور جنگ کے تصورات" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، تدریسی و صحافتی شعبوں سے برابر وابستہ ہیں، ایک ٹی وی چینل میں بطور اینکر بھی کام کر رہے ہیں۔
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سب جاہلانہ باتیں ہمارے دماغ میں ٹھونسنا چاہتے ہیں
     
  4. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سلمان حیدر چالیس پینتالیس برس کے جوان پاکستانی ہیں‘ یہ فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی کے شعبہ جینڈر اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں‘ یہ ادب‘ تھیٹر‘ اداکاری‘ ڈرامہ نگاری اور صحافت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ یہ نظمیں بھی لکھتے ہیں‘ ان کی ایک متنازعہ نظم ’’میں بھی کافر تو بھی کافر‘‘ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی‘
    یہ 6 جنوری کی رات بنی گالہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ تھے‘ یہ گھر جانے کے لیے نکلے اور غائب ہو گئے‘ اہلیہ نے دس بجے فون کیا ‘ سلمان حیدر نے فون نہ اٹھایا‘ اہلیہ کو بعد ازاں سلمان حیدر کے نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوا’’میری گاڑی کرال چوک میں کھڑی ہے‘ آپ گاڑی وہاں سے منگوا لیں‘‘ گاڑی اگلے دن کورنگ ٹاؤن سے ملی‘ خاندان نے تھانہ لوئی بھیر میں اغواء کا پرچہ درج کرا دیا۔

    سلمان حیدر ان پانچ مسنگ پرسنز میں شامل ہیں جنھیں 4 سے 7 جنوری کے درمیان اغواء کیا گیا‘
    عاصم سعید اور وقاص گورایا کو 4 جنوری کو لاہور سے اٹھایا گیا‘
    عاصم سعید سنگا پور سے لاہور پہنچا تھا
    جب کہ وقاص گورایا ہالینڈ میں رہتا تھا‘ یہ دونوں چار جنوری کو لاہور سے غائب ہو گئے‘
    احمد رضا نصیر اور ثمر عباس 7 جنوری کو اٹھا لیے گئے‘
    رضا نصیر ننکانہ صاحب میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا‘ یہ وہاں سے اغواء کر لیا گیا‘
    ثمر عباس کراچی کا رہائشی تھا‘ یہ کاروبار کے سلسلے میں اسلام آباد آیا اور غائب ہو گیا۔

    یہ لوگ اگر عام حالات میں غائب ہو تے تو شاید یہ بڑی خبر نہ بنتے لیکن یہ پانچوں حضرات ایک ہی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ بلاگرز ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر ایک ہی قسم کا مواد پھیلاتے تھے‘
    سلمان حیدر مبینہ طور پر فیس بک کے دو متنازعہ پیجز کے ایڈمن تھے ‘
    ایک پیج پر طویل عرصے سے مذہب کا مذاق اڑایا جا رہا تھا ‘ مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز فقرے بھی لکھے جاتے تھے
    جب کہ دوسرے پیج پر پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا تھا‘
    عاصم سعید اور وقاص گورایا بھی فیس بک کا ایک پیج چلا رہے تھے‘ یہ اس پیج کے ذریعے کراچی آپریشن پر تنقید بھی کرتے تھے اور یہ سینئر عہدیداروں پر کرپشن کے الزامات بھی لگاتے تھے۔

    احمد رضا نصیر بھی سیکولر خیالات کا مالک ہے‘ یہ ایف اے پاس ہے‘ یہ خود بلاگ نہیں لکھتا تھا لیکن ایک بے راہ رو برطانوی لڑکی اس کی سوشل میڈیا فرینڈ تھی‘ یہ لڑکی قابل اعتراض بلاگ لکھتی تھی اور یہ ان بلاگز کو اپنے فیس بک پیج پر شیئر کر دیتا تھا
    جبکہ ثمر عباس ہیومن رائیٹ ایکٹوسٹ تھا‘ یہ سول پروگریسیو الائنس پاکستان
    (سی پی اے پی) کا صدرتھا‘ یہ متعدد فورمز پر اقلیتوں کے بارے میں آواز اٹھاتا تھا ‘ یہ اسٹیبلشمنٹ کا ناقد بھی سمجھا جاتا تھا اور یہ سوشل میڈیا پر مذہبی تنظیموں کے خلاف بھی سرگرم تھا۔

    (جاوید چوھدری کے کالم سے)

     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں