برســـــــوں کے انتظار کا انجام لکھ دیا کاغذ پہ شام کاٹ کے پھر شام لکھ دیا بکھری پڑی تھی ٹوٹ کے کلیاں زمین پر ترتیب دے کے میں نے تـــیرا نام لکھ دیا آساں نہیں تھی ترکِ محبت کی دستاں دو آنســـــــــــو نے آخری پیغام لکھ دیا ہم کو کسی کے حسن نے شاعر بنا دیا ہونٹوں کا نام لے نہ سکے جام لکھ دیا اللہ زندگی سے کـــہاں تک نبھاؤں میں کس بے وفا کی ساتھ میرا نام لکھ دیا تقســـــیم ہو رہی تھی خدا کی نعمتیں اِک عشق بچ گیا سو میرے نام لکھ دیا قیصر کسی کی دین شـــــــــــاعری میری اُس کی غزل پہ کِس نے میرا نام لکھ دیا
میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے مئے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزا آ گیا بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا، دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر، سُرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر اس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جُھکائی مزا آ گیا اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرُو اپنے ہاتھوں سے اُس نے مری قبر پہ، چادرِ گُل چڑھائی مزا آ گیا یہ کلام نصرت فتح علی خان نے بہت عمدہ انداز میں پڑھا تھا
تیری یادوں کے راستے کی طرف اِک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر اب تیرے خط نہیں پڑھوں گا میں شاعر : جون ایلیا کتاب نام : گُمان