1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیداری شعورو احساس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏20 ستمبر 2011۔

  1. وحدانی
    آف لائن

    وحدانی ممبر

    شمولیت:
    ‏29 دسمبر 2013
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    سعدیہ بی بی۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ نئی نسل تمام تر تعصبات سے پاک ہوکر بنی نوعِ انسان کےمختلف گروہوں کے درمیان عداوتوں کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے نہ کہ ان کے مابین تفریق بڑھانے کی۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. وحدانی
    آف لائن

    وحدانی ممبر

    شمولیت:
    ‏29 دسمبر 2013
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالمطلب صاحب۔ خلافت کے لفظ کی اصل خلف ہے۔ ’’خلیفۃ‘‘ عربی زبان میں اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جواپنے باپ یا کسی کے بعد اس کی جائیداد و اختیار و اقتدار کے مالک کی حیثیت سے اس کی جگہ لے ۔ خَلْفُ ۔ کے معنی ہیں پیچھے۔ نیز یہ بعد کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً خَلْفَکَ۔ تیرے بعد ۔ اَ لْخَلْفُ۔ ابن برّی کے مطابق الخَلَفُ آدمی کے بعد اس کے پسماندہ جانشینوں کے لیے، نیز بدل و عوض کے معنوں میں آتا ہے اور الخَلْفُ اس کے لیے جو پہلے کے بعد آئے، جیسے قرن کے بعد قرن۔ یا لوگوں کے جانشین خواہ وہ لوگ مر چکے ہوں یا زندہ ہوں۔ ہلاک ہو جانے والوں کے بعد باقی رہ جانے والے۔ ابن اثیر نے کہا ہے کہ خَلْفٌ ہو یا خَلَفٌ ، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی گزرے ہوؤں کے بعد آنے والے،البتہ فرق یہ ہے کہ خَلَفٌ خیر میں استعمال ہوتا ہے اور خَلْفٌ شر میں۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اس مادہ کے تین بنیادی معنی ہیں۔(1)ایک چیز کا دوسری چیز کے بعد آنا اور اس کی جگہ لے لینا (2)آگے کی ضد۔ یعنی پیچھے، اور (3)تغیر و تبدل، خِلْفَةٌ ان پتوں کو کہتے ہیں جو پت جھڑ کے بعد درخت پر نکلیں۔ ایک دوسرے کے بعد آنے اور اس کی جانشینی کرنے کے لیے بھی خِلْفَةٌ بولا جاتا ہے۔
    اب بلاول خلیفہ ہے آصف علی زرداری کا، مریم خلیفہ ہے نواز شریف کی ۔اب بس یہی خلافت ہے۔
     
    عبدالمطلب اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    محترم وحدانی صاحب ۔۔!
    بہت بہت شکریہ آپ نے بہت عمدہ وضاحت کی خلیفہ لفظ کی وضاحت سے اب مزید واضح ہو چکا ہے کہ میں نے جس خلافت کی تائید کا کہا وہ خلافت راشدہ کا ہے
    خلف اگر بعد میں آنے والے کے ہیں تو میں نے خلافت راشدہ کے بعد وہی خلافت مانگی ہے
    جبکہ آصف علی زرداری کا خلیفہ بلاول ہوگا زرداری کا جو صدارت کے زمرے میں آتا ہے خلافت کے نہیں
    خلافت راشدہ کے بعد ایک خلا ہے جس کے بعد خلافت ختم ہو چکی تھی اور اس کے بعد خلافت نہیں آئی اور موجودہ نظام کو خلافت کہہ کر میں گناہگار نہیں ہو نا چاہتا
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    جیسا کہ ہم اپنے بڑوں سے بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان پر اللہ کی خاص رحمت ہے یا پاکستان 27 رمضان کو وجود میں آیا اور یہ اللہ کا انعام ہے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اس لیے اسے کبھی بھی کچھ نہیں ہوسکتا چاہیے ہم کچھ بھی کرلیں اس ملک کے ساتھ
    تو پروفیسر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں یہ تمام باتیں محظ باتیں ہیں اور ہمارے ارباب اختیار جن پالیسیوں کے تحت ملک کو چلا رہے ہیں تو خدا نہ کرے خدا نہ کرے ملک ٹکروں میں تقسیم ہوسکتا ہے ،
    حیرت کی بات ہے کہ ہم پہلے بھی ایسے سانحہ ( سقوط ڈھاکہ ) سے گزر چکے ہیں پھر بھی ہمارے حکمران اور پالیسی میکرز ( دفاعی ادارے ) ہوش کے ناخن نہیں لے رہے بلکہ اپنی روش پر برقرار ہیں
     
  5. وحدانی
    آف لائن

    وحدانی ممبر

    شمولیت:
    ‏29 دسمبر 2013
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    عزیزم عبدالمطلب صاحب۔ خدا کرےآپ کی خواہش کبھی پوری ہو سکے اور ہم وقت کے الٹی طرف سفر کر کے قریب قریب ڈیڑھ ہزار سال پیچھےاسی دور میں واپس جا سکیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہمارے ہاں خلیفہ کے تقرر کا کوئی متفقہ طریقہ بھی موجودہے یا نہیں، پھر ہم یہ بھی تعین کرسکیں گےکہ ہمارے خلفائے راشدین چار تھے، یا پانچ یا شاید چھ۔ نیز ہم نے ان میں سے کتنوں کو شہید کرکے خلافت کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ شاید یہ دیکھ کرہمیں دکھ ہو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی جنابِ فاطمہ صلواۃ علیہا اور ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسجد نبوی سے ملحقہ گھر پر ہم نے خلیفہ کے حکم پر حملہ کیا اور اسکے دروازے کو آگ لگاکر گرا دیا اور شیرِ خدا کی گردن میں رسی باندھ کر قصرِ خلافت میں لا کے زبردستی بیعت کا مطالبہ کیا۔ ہمیں اس پر تو شاید اعتراض نہ ہو کہ بی بی فاطمہ صلواۃ علیہا کو ان کے والد کی جائیداد باغِ فدک نہ دیا گیا اور قومی ملکیت میں لے لیا گیا کیونکہ اس کی آمدنی کو خلافت کے خلاف بغاوت میں استعمال کیا جانے کا خدشہ تھامگر ہمیں یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوگا کہ خلیفہ اول کا بیٹا محمد بن ابوبکر ، ہمارے محترم خلیفہ ثالث پر اقربا پروری اور بددیانتی کا الزام عائد کرے ،قصرِ خلافت میں پھاند کے گھسنے والے باغیوں کی سربراہی کرے، خلیفہ راشد کی ریشِ مبارک پکڑے اوراسکے ساتھی اسکی موجودگی میں خلیفہ کو انکے دارالحکومت میں واقع قصرِ خلافت میں ہی شہید کر دیں پھر وہ باغی فقظ مدینہ کے عوام کے ساتھ مل کر اپنی پسند کے خلیفہ کی بیعت کر لیں اور وسیع و عریض اسلامی ریاست میں اور کسی شہر کے مسلمانوں کی رائے تک نہ لی جائے۔پھر اس منتخب شدہ خلیفہ کے خلاف ایک صوبے کے گورنر اور ہمارے قابل احترام صحابی رسول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بغاوت کا اعلان کرکے ام المومنین حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنگ پر آمادہ کر کے روانہ کریں اور جنگِ جمل واقع ہو۔ بعد ازاں اقتدارِخلافت کی خاطر جنگ صفین میں ہزاروں مسلمان دونوں طرف سے شہید ہوں۔ برادرم۔۔ مجھے تو ڈر اس امر کا ہے کہ اللہ میاں اور حضور صلعم نے جس خلافت کا کوئی طریقہ وضع نہ کیا ہو، ہم خاکی گنہگار انسانوں کی کہاں مجال کہ اس خلافت کو رائج کر سکیں اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی عدم موجودگی میں کسی کو صدیق اور امین فرض کرکے خلیفہ مقرر کر سکیں؟ ہمارے کون کون سے علمائے کرام اس قابل ہیں کہ جن پر امتِ مسلمہ خلافت کا بوجھ ڈالنے پر اتفاق کر سکے؟ اب یا تو طالبان کے خلیفہ ملا عمر رضی اللہ عنہ کے طریقہ سے اتفاق کیجیے یا داعش کے طریقے سے، کیونکہ عام انتخابات تو مغربی یعنی طاغوتی طریقہ ہے۔میری کسی بات سے آپ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے تو پلیز مجھے معاف کر دینا کہ میں تاریخِ اسلام پڑھ پڑھ کر اور پینتالیس سال سے سوچ سوچ کر شاید نفسیاتی مریض بن چکا ہوں جسے دورِخلافتِ راشدہ کے دوران بیسیوں قوموں کو محکوم بنانے اور ان کے ممالک کو اسلامائز کرنے کے عظیم کارنامے نظر نہیں آتے اورمحض تاریک پہلو ہی دکھائی دیتے ہیں۔
     
  6. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    محترم وحدانی صاحب۔۔!!
    معزرت کے ساتھ کہنا چاہوںگا آپ نے خلافت کے موضوع کو ایک نیا رخ دے کر ایک نئے موضوع کی ابتدا کر دی ہے۔
    آپ کی خلافت کے زمرے میں بیان کی گئی یہ گفتگو امّتِ مسلمہ کو منتشر کرنے اور ان میں منافرت کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک من گھڑت کہانی کو صرف الزامات کی حد تک اچھالا گیا ۔ صرف منافقین جو اپنے مفادات کو مدّ نظر رکھے ہوئے تھے دروازہ جلانے اور اس قسم کے واقعات کو خلیفہ راشد سے جوڑ کر اور باغ فدک کے اصل مسئلہ کو جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی میں فیصلہ کیا گیا اسے بھی بغض کی نذر کیا گیا۔

    محترم وحدانی صاحب اس قسم کی گفتگو انتشارِ امت کا باعث ہے اس لیئے میرا خیال ہے کہ اجتناب کرنا چاہیے اور انکے فیصلے کے لئے اللہ ربّ کریم کافی ہیں۔ ہم ان ہستیوں کے فیصلے کرنے لگتے ہیں جن کو دنیا میں جنت کی بشارت مل چکی ہے۔ اگر ہم میں ہمت ہے تو صرف اپنے گھرمیں بیٹھ کر اپنے باپ دادا کے کسی فیصلے کی مخالفت کریں کہ ہمارے آباء کا یہ فیصلہ غلط تھا تو اتنے چھتر پڑیں کہ طبعیت ہری ہو جائے۔

    بقول آپ کے خلیفہ بعد والے کو کہتے ہیں تو آپ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے شکایات ہیں تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ملحوظ خاطر رکھیں
    ان کی پیروی کریں ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اپنا جائے نماز امامت کے لیے پیش کیا انکی بات چھوڑ دیں آپ جن کے لئے اللہ سے دعا کی کہ مجھے دے دیں ان کی بات بھی نہ کریں ۔ جن کی حفاظت کی ذمہ داری حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو حضرت علی نے سونپی اور پھر بھی منافقین نے ان کو شہید کر دیا ان کی موجودگی میں ان کی بھی بات نہ کریں آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

    کامیاب ادوارِ خلافت کی مثال رہتی دنیا تک کہیں نہیں ملتی ۔ عجب ہے کہ آج کے عظیم لوگ 1400 سال پہلے مثالی ادوار کو بھی نشانہء تنقید بنا لیتے ہیں۔
    52 اسلامی ممالک میں صرف گنتی کے چند منافقین ہی ہیں جو کسی مخصوص ملک میں یا چند علاقوں میں من گھڑت کہانیوں کی بنیاد پر اپنی دین کامل کر کے بیٹھے ہیں

    دین دراصل کہانیوں پر نہیں بلکہ قرآن و احادیث کے ٹھوس حقائق پر قائم ہے۔
     
  7. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    اپنا تو ایک ہی اصول ہے ۔۔۔ اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نعیم بھائی آپ کی بیداری شعور اور احساس کو تالا لگنے کا ٹائم آرہا ہے ۔ ۔ ۔ شاید
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    گزارش ہے کہ تنقیدی و اختلافی امور پر نئی بحث چھیڑنے کی بجائے لڑی کے عنوان کے مطابق بات کی جائے. مناسب یہ ہے کہ تعمیری و مثبت مباحثہ ہو. مسائل کی نشاندہی کرنا بہت آسان کام ہے اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ان مسائل کا اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق حل پیش کیا جائے اور تاکہ گفتگو مثبت رخ میں جاری رہے.
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55، عبدالمطلب اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم !
    لڑی کا عنوان "بیداری شعور " گفتگو کہاں سے چل کر یہاں پہنچی کہ ! انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔
    محترم پروفیسر صاحب نے اس لڑی میں اپنے دوسرے ہی رپلائی میں محترمہ "سعدیہ سسٹر" کو جواب دیتے ہوئے اعلٰی ترین اخلاقی عمارت کھڑی کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔۔ "سعدیہ بی بی۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ نئی نسل تمام تر تعصبات سے پاک ہوکر بنی نوعِ انسان کےمختلف گروہوں کے درمیان عداوتوں کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے نہ کہ ان کے مابین تفریق بڑھانے کی۔۔۔۔" مگر افسوس کہ جیسے ہی عبدالمطلب بھائی نے" خلافت "کا لفظ استعمال کیا جو کہ محترم پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے خلاف تھا تو حضرت کی چند ساعتیں قبل تعمیر کردہ اعلٰی اخلاقیات کی عمدہ ترین عمارت نام نہاد ثابت ہوئی اور یوں زمین بوس ہوئی کہ الامان والحفیظ ۔یعنی اوپر جن اعلٰی اخلاقی اقدار کا تذکرہ حضور نے فرمایا تھا ان اقدار کا تتبع بس وہیں تک تھا کہ جہاں تک انکے ذاتی نقطہ نظر اور فہم و فراست کی سرحدیں پامال نہ ہوں مگر جیسے ہی کسی نے اختلاف کی جسارت کی سب دھرے کا دھرا رہ گیا اور پھر حضور کا قلم تاریخ کے نام پر یوں برہنہ ہوا کہ جس پر خود تاریخ بھی شرما گئی اور یوں واشگاف ہوئی کہ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔
    مانا کہ تاریخ میں رطب و یابس سب کچھ ہے مگر جو کچھ حضور نے نقل فرمایا وہ تو خود تاریخ کے نام پر ایک "کلنک "ہے ۔یعنی اس قدر مجروح اور مسخ شدہ تاریخی روایات کہ جنھے " علم روایت و درایت " پر پرکھنا تو دور کی بات۔
    فقط اگر "کامن سینس " سے ایک اچنٹی سے نگاہ ہی ان مجروح شدہ روایات پر ڈال دی جائے تو کوئی بھی ادنٰی سے ادنٰی "مبتدی طالب علم تاریخ" بیک جنبش قلم انکو رد کردے ۔جب کہ ہر عقل سلیم والا تو فی الفور ان پر پکار اٹھے "سبحانک ھذا بہتان عظیم " ۔۔۔۔

    یعنی یک طرف شیر خدا اور "اسد اللہ الغالب" کا لقب ہے۔جبکہ دوسری طرف تاریخ کی مسخ شدہ روایت کی رو سے نقل کفر کفر نہ باشد کی مصداق یہ عالم ہے کے حضرت کی زوجہ جو کہ دختر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں پر جبرو تشدد ہوتا ہے ۔اور اسد اللہ غالب کا کہیں دور دور کوئی نام و نشان تک نہیں ۔۔۔حالت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی گاؤں میں کسی چوڑھے چمار کی عورت پر اگر کوئی طاقت ور ترین آدمی فقط میلی نظر ہی ڈال دے تو وہ چوڑھا چمار بھی کم از کم کوئی "منخنی" سا احتجاج تو ریکارڈ کروا ہی ڈالتاہے۔ جبکہ تاریخ کی جس مجروح روایت کا سہارا پروفیسر صاحب نے " محل استدلال" میں لیا ہے وہ اس باب میں یکسر خاموش ہے کہ اس سارا کچھ میں خود شیر خدا کا کیا کردار تھا وہ کہاں تھے اور کیا کررہے تھے؟؟؟ ا
    اچھا چلو برسبیل تنزل نقل کفر کفر نہ باشد کی مصداق ہم یہاں اسد اللہ الغالب کو اپنی جان بچانے کہ چکر میں مغلوب مان ہی لیتے ہیں۔ مگر اب اس کا کیا کرں کہ بنی ہاشم جو کہ قبیلہ قریش کا سب سے بڑا او رمضبوط خاندان سمجھا جاتا تھا جس کے متعددافراد بارہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے خلافت کے حق کے لیے تم کھڑے ہو ہم تمہارا مکمل ساتھ دیں گے بنی ہاشم تو بنی ھاشم خود بنو امیہ جو کہ بنو ہاشم کی ٹکر کا خاندان تھا اس کے افراد بھی حضرت علی سے کہہ چکے کہ اگر تم خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہو تو بس ایک بار اعلان کردو ہم سواروں کے سوار مہیا کردیں گے ۔ اب عقل مسلسل حیران ہے اور سراپا احتجاج ہے کہ جب بنو ہاشم کی سب سے معتبر ہستی کے ساتھ قبیلہ قریش کے ایک نحیف اور کمزور خاندان بنو عدی اور بنو تمیم کے چند لوگ ظلم ڈھا رہے تھے تو یہ سارے کہ سارے قبیلہ قریش کے اعلٰی خاندان (بنو ھاشم و بنو امیہ وغیرہ) والے کہاں چلے گئے تھے انکی طرف سے بھی کوئی مزاحمت کیوں نہیں ہوئی؟ کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی ؟کوئی نعرہ انتقام بلند کیوں نہ ہوا ؟ کوئی مہم کیوں نہ چلی؟ جب کہ الٹا ہم دیکھتے ہیں اتنا ظلم و جبر ہونے کے باوجود سارے کا سارا بنی ہاشم خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت اور سارے کا سارا بنو امیہ خود ابو سفیان و حضرت عثمان رضی اللہ عنھما سمیت حضرت ابوبکر ضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیتا ہے بلکہ ان سے مختلف عہدے بھی لیے جاتے ہیں انکو مشراء اور وزرا کا قلمدان بھی سنبھالا جاتا ہے، ایں چہ بو العجبی است؟؟؟؟
    آخر میں بس فقط اتنا ہی عرض کروں گا تاریخ اسلام کے بعض واقعات پر ہمارا بھی دل کڑھتا ہے مگر خدارا تاریخ کا مطالعہ قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں کیجیئے تو کوئی الجھن باقی نہ رہے گی جبکہ ایسی ہر روایت جو کہ قرآن و سنت کا منہ چڑھا رہی ہو اسے دیوار پر دے ماریئے تو آپ کو ہرگز کوئی تردد نہ کرنا پڑے گا اپنے موقف کو کسی بھی تاریخی تناظر میں باور کروانے کے لیے ۔۔۔فقط والسلام من اتبع الھدیٰ
     
    Last edited: ‏4 جولائی 2016
    آصف احمد بھٹی، عبدالمطلب، ملک بلال اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس لڑی کی موضوع سے غیر متعلقہ گذشتہ چند پوسٹس کو یہاں سے کسی اور لڑی میں منتقل کردیا جائے۔ شکریہ
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آبی بھائی ایک علمی مسئلہ کو انتہائی زیرک نظری اور منطقی انداز میں سمجھانے پر بہت شکریہ۔
    جزاک اللہ خیر
     
  12. وحدانی
    آف لائن

    وحدانی ممبر

    شمولیت:
    ‏29 دسمبر 2013
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    دوستو۔۔میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے نقطہ نظر سے کئی دوستوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنے طے شدہ عقائد کے خلاف کوئی بھی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ "خدارا تاریخ کا مطالعہ قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں کیجیئے تو کوئی الجھن باقی نہ رہے گی" لیکن اگرتاریخ کے قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں کسی کےمطالعہ کے بعد نتیجہ ہماری مرضی کے مطابق نہ آئے تو ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے اور اصرار کرتے ہیں کہ نتیجہ وہی آنا چاہیے جو ہم نے یا ہمارے پسندیدہ گروہ نے طے کر رکھا ہے۔عدم برداشت کے یہی رویے ہمیں منطقی اور سائنسی اندازِ فکر اپنانے سے دور رکھتے ہیں اور میں جو " چاہتا ہوں کہ نئی نسل تمام تر تعصبات سے پاک ہوکر بنی نوعِ انسان کےمختلف گروہوں کے درمیان عداوتوں کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے نہ کہ ان کے مابین تفریق بڑھانے کی۔۔۔۔" وہ ممکن نہیں رہتا۔ میرے الفاظ کا حوالے دینے والے دوستوں نے شاید درست طور پر "تمام تر تعصبات سے پاک ہوکر" اور "بنی نوعِ انسان کےمختلف گروہوں کے درمیان عداوتوں کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے نہ کہ ان کے مابین تفریق بڑھانے کی" بات کو نہیں سمجھا۔ تمام تعصبات سے الگ ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ بچپن میں ہمارے ناپختہ اذہان میں جو کچھ صحیح یا غلط فیڈ کر دیا گیا تھا، آج شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اسے عقل و منطق کے ذریعے پرکھنے کی کوشش کریں۔اندھا عقیدہ دراصل عقل کے استعمال کا راستہ روکتا ہے۔ علاوہ ازیں، براہِ کرم "بنی نوعِ انسان کےمختلف گروہوں" سے مراد "مسلمانوں کے مختلف گروہ" نہ لیا جائے۔خلافت ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا کی اکثریت تو کجا، خود ہم مسلمان متفق نہیں۔اب اس کے ممکنہ تین حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام غیر متفق اقوام اور افراد کو جہاد کے ذریعے نیست و نابود کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ منطقی دلائل کے ذریعے انہیں اپنے نقطہ نظر کا قائل کر لیا جائے اور تیسرا یہ کہ اپنے نظریہ کو دوسروں پر تھوپنے کی کوششیں ترک کردی جائیں۔ ہمارے ہاں اپنی اپنی دانش اورانتخاب کے مطابق تینوں قسم کے حل پر یقین رکھنے والے گروہ پائے جاتے ہیں جن میں داعش و طالبان،حزب التحریر اور بے ترتیب سیکولر گروہ شامل ہیں۔ (ممکن ہے کوئی چوتھا حل اور دیگر گروہ بھی ہوں)۔
    مخلص انسان سے معذرت چاہتا ہوں کہ ان کے اصول "اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں " سے اتفاق مشکل ہے۔ اس سے تو یہ فورم "انجمن ستائش باہمی" بن جائے گا اور ہم سب ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے۔ اختلافی امور کا ذکر کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے سے ہی دماغ کے دریچے وا ہوتے ہیں۔
    جناب عبدالمطلب صاحب کی اس بات سے کہ "اگر ہم میں ہمت ہے تو صرف اپنے گھرمیں بیٹھ کر اپنے باپ دادا کے کسی فیصلے کی مخالفت کریں کہ ہمارے آباء کا یہ فیصلہ غلط تھا تو اتنے چھتر پڑیں کہ طبعیت ہری ہو جائے۔" مجھے ان سے ہمدردی ہے کہ ان کے گھر کا ماحول ایسا ہے۔ میں بھی کبھی دیہاتی تھا مگر جب سے شہرمیں آباد ہوا، اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ہمت کی۔ آج میرے خاندان میں ایک بیوی اور ایک بیٹا شیعہ،ایک بیٹا بریلوی مسلک، ایک بیٹی دیوبندی مسلک، ایک بیٹا لامذہب، ایک غیر ملکی بیوی عیسائیت اور بدھ مت کا ملغوبہ روحانیت کی دلدادہ اور ایک کرسچن بیٹا شامل ہیں۔ خود میں معتدل مگر شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والا، دیوبندی مدرسے سے فارغ التحصیل، عقلیت پسند شخص ہوں۔ ہمارے ہاں کوئی ایک دوسرے کو "چھتر" نہیں مارتا نہ ہی ایسی حرکت قابلِ معافی سمجھی جاتی ہے۔ میں ایک کم علم آدمی ہوں لہٰذا اپنے شاگردوں کو فقط سوال اٹھانا اور جواب کی تحقیق کرنا سکھاتا ہوں، نتیجہ ان کی استعداد پر منحصر ہوتا ہے مگر ان کے دریافت کردہ نتیجے کو دوسروں پر تھوپنے کی مذمت کرتا ہوں۔البتہ اپنی اور دوسروں کی تحقیق سے، میں اپنے علم کو بڑھانے کے لیے کوشاں رہتا ہوں۔
    آئی ٹو کول صاحب نے جن باتوں کو تاریخی رطب و یابس قرار دیا ہے ان باتوں کا بیشتر حصہ ہماری ان کتب میں ملتا ہے جنہیں مسلمانوں کی اکثریت صحاح ستہ کہتی ہے اور قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتی ہے نیز تفسیرِ ابن کثیر اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی کتاب میں، جو سیرت ابنِ ہشام کے نام سے معروف ہے۔۔اب یا تو ان کتب پر پابندی لگا دی جائے یا میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کے مصداق، ان کتابوں سے ہر شخص اپنی پسند کا مواد لے لیا کرے جو اسکے عقیدے کے مطابق ہو۔میرے دوست، ہم عرب ایک جاہل اور محض جنگ و جدل کی عادی قوم تھے، ہمارے ہاں کتابیں لکھنے کا دستور ہی نہیں تھا۔موطاامام مالک کے علاوہ سب کتابیں د یگر قوموں کے مصنفین و مولفین نے تحریر کیں اور رسول اللہ صلعم کے انتقال (ہماری اکثریت ان کے انتقال پربھی یقین نہیں رکھتی، بلکہ یہ عقیدہ ہے کہ حضورصلعم اپنی لحد مبارک میں زندہ موجود ہیں اور ہم مسلمانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں) کے سو سال کے بعد لکھی گئیں۔
    ملک بلال صاحب کی باتوں سے مجھے اتفاق ہے، اس لیے اس پلیٹ فارم پر نازک مسائل پر مزید بات کرنے سے احتراز کروں گا۔انٹرنیٹ پر اور بہت سے فورم ان باتوں کے لئے موجود ہیں جو اختلافی امور پر ریسرچ کرنے والے اور صداقت کے متلاشی افراد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
    میں یہ ضرور درخواست کروں گا کہ میرے خیالات پر ناراض ہونے والا کوئی دوست مجھے خلفائے راشدین کی متفقہ علیہ تعداد اور حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ(جن کے خال المومنین، کاتبِ وحی اور جنتی ہونے کے شواہد موجود ہیں) کا شمار راشدین میں نہ کرنے کی وجوہات، تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں، بتائیں تاکہ میری رہنمائی ہوسکے۔ان صفحات پر ایسےچشم کشا مباحث مناسب نہیں لہٰذا براہِ راست مجھے ای میل ارسال فرمائیں۔
     
    Last edited: ‏3 جولائی 2016
    مخلص انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    پروفیسر صاحب اگر آپ کے پاس دین کا علم ہے تو آپ کو ایسی تحریر لکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔اسلام میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو ۔نہیں ہے بلکہ سختی سے پابندی اور ادب اور احترام لازمی ہے۔
    اور گمراہ کن باتوں سے سخت پرہیز ہے ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    وحدانی صاحب۔ اوپر اپنی والی تحریر کو دوبارہ غور سے پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ پاکستان کے قائم و دائم رہنے پر اعتراض کرنے ، کائنات کی کسی بھی شئے کو دوام نہ ہونے اور ۔۔ جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔۔سقوط ڈھاکہ جیسی دھمکیوں والے جملوں کے ذریعے آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے گویا معاذ اللہ پاکستان کو دوام نہیں۔ یا پھر آپ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوگئے یا کردیے جائیں تو کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوگا۔
    میرے وضاحت طلب کرنے پر آپ نے تعصبات سے پاک ہو کر عداوتوں کو ختم کرنے کی بات لکھ دی
    نمبر1۔۔ ذرا اپنی پہلے والے تحریر سے مجھے بتلا دیں کہ پاکستان کے خاتمے یا ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی نوید دینے میں آپ نے بنی نوع انسانی کے درمیان کونسی عداوتوں کو ختم کرنے کی کاوش کی ہے؟
    نمبر2۔۔دوٹوک بتائیے گا کہ دوقومی نظریہ پاکستان کو آپ درست مانتے ہیں ؟
     
    آصف احمد بھٹی، نعیم اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    وحدانی صاحب آپ کی ہمدردی کا بہت بہت شکریہ کافی دلچسپ انداز میں ہماری گفتگو سے آپ نے ہمارے گھریلو ماحول کو اخذ کر لیا بالکل ان کہانیوں جیسا جو آپ نے اوپر خلفائے راشدین کے بارے میں اخذ کی ہوئی ہیں
    اور انفرادییت پر گولا داغ دیا جو اجتماعی بحث سے کا تسلسل تھا۔ آپ کی روشن خیالی اور ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا اس لئے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی کر کچھ دیر اپنے بٹن کھول کر بیٹھ جائیے آرام آنے پر دوبارہ گفتگو میں شامل ہو جائیے

    ہمارے توخاندان میں دادا جی اور والدِ محترم کے سامنے ہم سرِ تسلیمِ خم رہتے تھے کیوںکہ ہماری تربیّت ایسی تھی کہ ہم بزرگوں کا کہنا مانتے تھے اور ہمارے خاندان میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ کوئی لا مذہب تو کوئی بدھ مت کوئی عیسائی اور کوئی مختلف مسالک سے جڑے ہوئے تھے۔

    عیسائی بیوی سے شادی کو کس عالم نے کنفرم کیا تھا؟ جواب دینا لازمی نہیں ہاہاہاہا

    وہ شخص شاگردوں کوکیا سکھائے گا جس نے ابھی تک اپنی فیملی کو ایک ڈگر پر چلنے کے قابل نہیں بنایا۔
    اندازہ لگائے بقول آپ کے
    ایک بیوی اور ایک بیٹا شیعہ،
    ایک بیٹا بریلوی مسلک،
    ایک بیٹی دیوبندی مسلک،
    ایک بیٹا لامذہب،
    ایک غیر ملکی بیوی عیسائیت اور بدھ مت کا ملغوبہ روحانیت کی دلدادہ
    اور ایک کرسچن بیٹا شامل ہیں۔
    خود میں معتدل مگر شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والا، دیوبندی مدرسے سے فارغ التحصیل، عقلیت پسند شخص ہوں۔

    میرا تمام بھائیوں سے سوال ہے کہ "چوں چوں کا مربہ کیا ہوتا ہے

    وحدانی صاحب آپ تمام مباحثے چھوڑ کر اپنی فیملی کو راہ مستقیم پر لانے کی کوشش کیجیئے اور ہم آپ کے اور آپ کی فیملی کے لئے دعا گو رہیںگے۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں؟
    ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ
    *بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہئے یا نہیں؟*
    اس *موضوع* پہ اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں.مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فیصد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللّہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی.
    1- *بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں*
    آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں.
    2- *بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں*
    تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے.
    3- *بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں.*
    اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
    4- *بچوں کو فارغ مت رکھیں*
    فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.
    5- *ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں*
    تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
    6- *بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں*
    یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. *اللّہ تعالی*ٰ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.
    7- *بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ھی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے.*
    8- *اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں.*
    کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
    9- *بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں.*
    *_حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے._* ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.
    10- *بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں.*
    اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
    11- *بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں.*
    یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے.
    12- *بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں.* بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.
    14- *بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.*
    15- *بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں.*

    آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے
    اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
    16- *بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں*
    17- *والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.*

    ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں. ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
    18- بچوں کی اسلامی تربیت کریں۔
    تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں* یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح *حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں *اللّہ تعالی*ٰ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں *انشاءاللّہ تعالیٰ*اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
    _آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو *انشاءاللّہ تعالیٰ*آخرت میں *اللّہ سبحان وتعالیٰ*کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے._*اللّہ تعالیٰ*امت _مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے.!!!_ *آمین!*

    فیس بک کے ایک پیج سے منقول
     
    سعدیہ اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    بھولے بادشاہ پچھلے کچھ عرصے سے میں خود اس پریشانی میں مبتلا تھا ( میرا بیٹا عباس 13 سال کا اور بیٹی عائشہ 9 سال کی ہو چکی ہے ) اس لئے کہ آپ کے اس مضمون میں تجویز کی گئی کم و بیش تمام تجاویز بہترین ، قابل فہم اور قابل عمل ہیں ، ان کی مدد سے ہم بہت حد تک اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں ۔ اور یہ آنے والے وقتوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بننے والا ہے ۔ ۔ ۔
    میری والدین اور گھر کے تمام بڑوں سے گزارش کہ اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں اور ان تجاویز پر غور کریں ، عمل کریں بلکہ ان میں مزید آضافہ کریں ۔ ۔ ۔
     
    سعدیہ اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے کسی سمجھدار بزرگ نے بتایا تھا کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ انکے ہم عمر دوست بن جائیں، انکو گھر سے اتنا پیار دیں کہ باہر سے کسی قسم کے پیار کی بات انہیں زائد از ضرورت اور جھوٹی محسوس ہو۔والد، والدہ، دوست، یار، ہر طرح کا پیار انہیں گھر سے ہی ملتا رہے تو انشاءاللہ بچے والدین کی مرضی کے خلاف کوئی غلط قدم نہیں اٹھائیں گے۔
     
    سعدیہ، پاکستانی55 اور آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ابھی ایک لڑی میں عزیز بھائی جناب عبدالمطلب صاحب نے پاکستان میں حکومتی بنانے کے نام نہاد انتخابی نظام کے متعلق ایک مشہور جملہ بولا "سرکار بھی عوام کی طاقت سے بنتی ہے"۔
    جس کا بہت ادب سے میں نے جواب تحریر کیا۔ اس لڑی کے قارئین کے پیش نظر ہے۔
    معافی کے ساتھ عرض کروں گا عبدالمطلب بھائی ۔ حقیقی جمہوری ملکوں میں یقینا سرکار عوام کی طاقت ہی سے بنتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو "اشرافیہ" نے ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ اس میں عوام کے اس نعرے "یعنی سرکار عوام کے ساتھ بنتی ہے" کے ذریعے صرف بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ اور ہماری اکثریت بےوقوف بنتی ہے۔
    جمہوریت کا مطلب ہے "اکثریتی رائے"
    بہت سے فلاسفر و دانشور حتی کہ علامہ اقبالؒ بھی مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ، لیکن تعلیم، شعور، قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے اور ساتھ ہی فرمایا کہ "دو سو گدھے (بےشعور و جاہل ) ملک کر بھی ایک "انسان" کی عقل کا مقابلہ نہیں کرسکتے"۔
    یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ جس سے یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہمارے ملک میں موجودہ تماشا کسی طرح بھی جمہوریت کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور ہمیں ایک اسلامی جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پہلے بھی الیکشن 2013 کے بعد اس مسئلہ پر بات ہوئی تھی ۔ ہمارے ہاں کا حلقہ جاتی نظام ہماری عوام کا سب سے بڑآ دشمن اور اشرافیہ (جاگیردار، امیر، طاقتور، غنڈہ گرد اور دہشتگرد) طبقات کا سب سے بڑآ محافظ ہے۔ چند استثنایات کو چھوڑ کر ہر حلقہ میں 3-4 طاقتور خاندان ہیں۔ جو اکثر کرپشن، غنڈہ گردی، سمگلنگ، اور رسہ گیری کے لیے مشہور بھی ہوتے ہیں موجودہ نظام میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہوکتنے ہی اعلی پروگرام رکھتی ہو، کتنی ہی باکردار قیادت ہو ۔ حتی کہ قائد اعظم بھی اگر دوبارہ زندہ ہوکر آجائیں تو وہ انہی 3-4 خاندانوں میں سے کسی کو ٹکٹ دے کر جیت سکتے ہیں ورنہ کوئی شریف، متوسط طبقہ کا باکردار آدمی جو کروڑہا روپے نہ لگا سکتا ہو۔ وہ جیتنا تو درکنار، اس نظام میں کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ۔ اسکی بہن بیٹیوں اور عزت آبرو کا جنازہ نکال کر موت کے گھاٹ تک اتارا جا سکتا ہے۔ یا اگر ان سب سے بچ نکلے تو چند ہزار ووٹ لے کر گھر بیٹھ جائے گا۔
    اب حلقہ جاتی نظام کے ذریعے جیتنے کا طریقہ بھی سن لیں۔ اگر ایک حلقہ میں فرض کریں 3 امیدوار ہیں۔ کل ڈالے گئے ووٹ کی تعداد ایک لاکھ ہے، فرض کریں ایک امیدوار 30 ہزار ووٹ لیتا ہے۔ دوسرا بھی 30 ہزار لیتا ہے۔ جبکہ تیسرا 40 ہزار لے کر جیت جائے گا۔ اب خود عقل ودانش سے کام لے کر سوچیں اور وہی اصول پیش نظر رکھیں کہ "عوام کی اکثریتی رائے ہی جمہوریت ہے" تو اس جیتنے والے کو اس حلقے کے 60 ہزار لوگ اپنا نمائندہ نہیں بنانا چاہتے۔ لیکن اس نظام میں وہ ممبر اسمبلی بن جاتا ہے۔
    اسی غلیظ نظام کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں تقریبا ساڑھے آٹھ کروڑ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ جس میں سے گذشتہ الیکشن میں نوازشریف نے حقیقی و جعلی ملا کر تقریبا ڈیڑھ کروڑ ووٹ لیے تھے۔ اب اندازہ کریں کہ پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 7 کروڑ ووٹر نوازشریف کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے لیکن وہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر ملک کا سب سے طاقتور وزیراعظم بن گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    الیکشن 2013 کے بعد خود وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اسمبلی میں کہا تھا کہ 60 فیصد انگوٹھوں کے نشان ایسے ہیں جن کی تصدیق ہی نہیں ہوسکتی۔ گویا ڈالے گئے ووٹوں میں 60 فیصد ووٹ تو سیدھے سیدھے جعلی ہونے کا خود حکومت اقرار کرلے تو اس الیکشن نظام کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ابھی جولائی میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسکا تجزیہ پیش خدمت ہے
    ن لیگ کے کل حاصل کردہ ووٹ = 689000 ۔۔۔ ن لیگ کی سیٹ =32
    تحریک انصاف کے حاصل کردہ ووٹ = 383000 ۔ سیٹ = 2
    پیپلز پارٹی کے حاصل کردہ ووٹ = 352000 ۔۔۔ سیٹ = 2
    اب جمہوری تماشے کا نتیجہ = 689000 ووٹ کے ساتھ 32 سیٹیں
    پی پی اور پی ٹی آئی کے کل ووٹ = 735000 ووٹ کے ساتھ سیٹیں صرف 4
    اب سوچیئے کہ کہاں گئی اکثریتی رائے والی جمہوریت ؟

    یاد رہے ان سب میں ابھی ضمیرخریدنے ، ہزاروں لاکھوں سے برادری سربراہان کو خریدنے، پکی گلیوں، پکی نالیوں اور بچوں کو نوکریوں کے چکمے دینے والی سیاست اور ہر حلقے میں 10-15 یا 20 کروڑ لگا کر جمہوری کا جنازہ نکالنے اور عوامی ضمیر پر تھوکنے کا کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    المختصر پاکستان کا نظام نہ اسلامی ہے، نہ جمہوری ہے بلکہ ایک اشرافیہ کا تماشا ہے جس کے ذریعے سادہ لوح عوام کومیڈیا کی مدد سے بے وقوف بنایا جاتا ہے اور عوام بن جاتی ہے۔
     
    Last edited: ‏9 ستمبر 2016
    سعدیہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم بھائی۔ میں اگر یہ نہ کہوں کہ "سرکار بھی عوام کی طاقت سے بنتی ہے" تو کیا کہوں عوام کی کوئی طاقت نہیں حکمران خود بخود بن جاتے ہیں۔ میرے بھائی آپ دھاندلی اور دردِ دل کو لے بیٹھے ہیں میرے کہنے کا مقصد تو آپ نے سمجھا ہی نہیں۔
    جمہوریت وہ نظام ہے جس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے- عوام جس کو چاہتے ہیں منتخب کرتے ہیں
    عوام کے ہاتھ میں ہے کہ کسی بھی حکومت کو بنانا یا تختہ الٹنا۔ عوام ہی اچھے اور برے حکومت کی ذمہ دار ہے۔
    میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مفہوم کے مطابق جیسی عوام ہوگی ایسا ہی حکمران ان پر مسلط ہوگا۔
    --------------------------------------------------
    محترم نعیم بھائی آپ کے کہنے کے مطابق
    "یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ جس سے یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہمارے ملک میں موجودہ تماشا کسی طرح بھی جمہوریت کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور
    ہمیں ایک اسلامی جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے۔"

    اب آپ نے اسلام کا نام لیا تو اس پر بھی کچھ عرض کروں۔
    میرے بھائی اسلام کے ساتھ جمہوریت کا نام جوڑ کر آپ نے بھی مغربی مربّہ بنا ڈالا ۔
    مسلمانوں میں نظام حکومت کے دو ہی تصور تھے: 1- خلافت 2- ملوکیت -
    اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں جمہوریت تھی ہی نہیں وہ اس نام سے سرے سے ہی نا واقف تھے، یہ پیداور ہی مغرب کی ہے، اور مغرب کی ذھنی غلامی کے صلہ میں مسلمانوں کو ملی-

    برصغیر پاک و ہند میں الیکشن کہاں تھے؟ کون جانتا تھا کہ جمہوریت کس بلا کا نام ہے؟
    مسلمانوں میں نظام حکومت کے دو ہی تصور تھے: 1- خلافت 2- ملوکیت -
    مغرب کے غلبہ سے پہلے مسلمان اس تیسرے تصور کو جانتے ہی نہ تھے-

    ادھر میں اللہ کے رسول ۖ کی حدیث پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو خلافت اور ملوکیت کا تصور اسلامی ملے گا۔ ان شاءاللہ

    "پہلے نبوت ہوگی، جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر خلافت منہاح نبوت کا دور ہوگا یہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر جبرو استبداد والی ملوکیت کا دور ہوگا یہ دھر بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گا- آخر میں خلافت علی المنہاج نبوت کا دور ہوگا- پھر آپ خاموش ہوگئے- یعنی اس خلافت پر دنیا کا خاتمہ ہوگا-"
    [ سلسلہ احادیث صحیحہ1/8 رقم 5، مسند احمد 4/273، رقم 17939]


    جہاں اسلام ہو وہاں جمہوریت نہیں۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کے قانون کے ساتھ شیطان کا قانون بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوں۔۔۔۔!!؟؟
    اب سب سے پہلے تو اللہ نے ان حکمرانوں کو حکم دیا ہےجو مسلمانوں کی جان و مال کے ذمیوار ہیں اور ان پر حکومت کرتے ہیں کہ:
    "اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ ان میں فیصلہ کیا کر، لوگوں کی مرضی پر نہ چل" (المائدہ:49)

    جو لوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت نہ چلائيں اللہ تعالی نے ان کو 3 قسم کے لوگوں میں تقسیم کیا ہے:

    1/ "جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)

    2/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)

    3/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ: 47)


    اب ان تینوں آیات کے مطابق ہمارے ملک کے حکمران کس زمرے میں شمار کیے جائیں گے ۔آپ ہی فیصلہ کریں

    بادشاہ نیک بھی ہوتے ہیں جس طرح کچھ اسلامی بادشاہوں نے خلافت کی یاد تازہ کردی تھی اور کجھ بادشاہ طالم بھی ہوتے ہیں- ملوکیت اگرچہ اسلام کی آئیڈیل نظام نہیں مگر نیک بادشاہ اسلامی خلافت کی یاد تازہ کرسکتا ہے اور اس میں خیر بھی ہے اور شر بھی ہے مکر جمہوریت میں تو شر ہی شر ہے-
    اب آپ سعودی عرب میں دیکھے وہاں خلافت نہیں ہے مگر ملوکیت ہے اور کچھ حد تک صحیح ہے یہ اور بات ہے کہ وہ ملوکیت اسلام کے صحیح نمائدگی نہیں کرتی مگر جمہوریت جیسے شیطانی شر سے تو کہیں درجہ بہتر ہے اور اگر بادشاہ صحیح اسلامی اقدار قائم کرے تو بادشاہ اور خلیفہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا-۔ الحمد اللہ
    جمہوریت مغرب کا ایک ایسا ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے یہ لوگ اسلامی مملکتوں کو ٹکرے ٹکرے کرتے ہیں-
    خلفاء راشدین میں سے ہر خلیفہ زندگی بھر خلیفہ رہا اور کسی کو بھی الیکشن کرانے کا خیال نہیں آیا؟

    ------------------------------

    اب آپ کے ایک اور سوال کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں
    محترم نعیم بھائی آپ نے فرمایا
    اب حلقہ جاتی نظام کے ذریعے جیتنے کا طریقہ بھی سن لیں۔ اگر ایک حلقہ میں فرض کریں 3 امیدوار ہیں۔ کل ڈالے گئے ووٹ کی تعداد ایک لاکھ ہے، فرض کریں ایک امیدوار 30 ہزار ووٹ لیتا ہے۔ دوسرا بھی 30 ہزار لیتا ہے۔ جبکہ تیسرا 40 ہزار لے کر جیت جائے گا۔ اب خود عقل ودانش سے کام لے کر سوچیں اور وہی اصول پیش نظر رکھیں کہ "عوام کی اکثریتی رائے ہی جمہوریت ہے" تو اس جیتنے والے کو اس حلقے کے 60 ہزار لوگ اپنا نمائندہ نہیں بنانا چاہتے۔ لیکن اس نظام میں وہ ممبر اسمبلی بن جاتا ہے۔


    تو نعیم بھائی اسکول میں بچے امتحان دیتے ہیں 100 نمبر کا پرچہ ہوتا ہے مگر اول ، دوم اور سوم نمبر پر آنے والوں کو انعام دیا جاتا ہے اگر چہ پہلے نمبر اور دوسرے نمبر پر آنے والے کا فرق چاہے ایک ہی نمبر سے کیوں نہ ہو فرسٹ کو فرسٹ پرائز دی جاتی ہے۔
    معاف کیجئےگا بھائی یہ تو آپ کا بالکل بچکانا سا سوال ہوا۔
    وہ الگ بات کہ جمہوریت کا میں قائل نہیں ہوں۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے ملک و قوم کو کوسنے لگے۔
    لوگ جمہوریت کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں اور عوام کی طاقت کا مذاق بھی اڑاتے ہیں حالانکہ جمہوریت ہی در اصل عوام کو طاقت منتقل کرتا ہے

     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جمہوریت مسلمانوں نے ہی متعارت کروائی ہے ۔ ۔ ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگ آج جمہوریت سے مراد الیکشن لیتے ہیں جبکہ الیکشن مکمل جمہوری نظام کا ایک حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ ملوکیت اسلامی نظام نہیں بلکہ مسلمانوں پر مسلط کی گئی یہ الگ بات ہے کہ اُس کی اپنی افادیت ہے جس سے انکار نہیں اور خلافت کہ جو اسلامی جمہوریت میں حکمرانی کا اصل طریقہ ہے وہ بزریعہ انتخاب ہی ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ پہلے خلیفہ راشد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی کو جمہوری طریقے سے منتخب کیا گیا تھا وہ اپنے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو نامزد کر گئے ( اگر ملوکیت اسلامی ہوتی تو عبداللہ بن ابو بکر ہمارے دوسرے خلیفہ ہوتے ) عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلامی جمہوری طریقے سے دوسرے خلیفہ منتخب کیا گیا وہ اپنے بعد چھ لوگوں کو نامزد کر گئے جن میں سے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ چن لیا گیا ، سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بحیثیت خلیفہ انتخاب بھی جمہوری تھا اور اُس میں کوئی اختلاف نہ تھا اختلاف سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قصاص کے معاملے پر ہوا تھا اور یہ معاملہ اللہ کی عدالت میں موجود ہے اب اصل بات ہے کہ اسلامی جمہوریت میں طریقہ انتخاب کیا ہے ؟ خلافت راشدہ کے زمانے میں امت کا بہترین حصہ وہ تھا کہ جو حضور اکرم سے تربیت یافتہ تھا سو وہ جس کو چن لیتے باقی ملک کی عوام اُس کی بعیت کر لیتی ۔ ۔ ۔ یہ ہے اسلامی جمہوریت جس میں بندوں کو گنا نہیں تولا جاتا ہے اور جب تولا جائے گا تو یقینا وزن میں وہی لوگ زیادہ ہونگے کہ جو متقی اور پرہیز گار ہونگے چاہے ایک ہی ہو اور دوسری طرف کروڑوں ہی کیوں نہ ہوں ۔ ۔ ۔ اسلامی جمہوریت میں ( چاہے وہ جس ملک مین بھی ہو ) مقامی متقی اور پرہیز گار لوگ جس کو نامزد کر دیں عام عوام اُسے اپنا رہنما اور حکمران تسلیم کر لیتے ہیں اسی لیے ہی تو ایک اعراب اُٹھ کرسیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی سے پوچھ سکتا ہے کہ یہ کرتا تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ اگر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی کا احتساب کرنے والے موجود تھے تو یقینا وہ لوگ متقی و پرہیز گار ہی تھے نا وہ رسول اللہ سے تربیت یافتہ تھے وہ اپنا جمہوری حق جانتے اور اُسے استعمال کرتے تھے یہ ہے اسلامی جمہوریت اور جس بات کی طرف نعیم بھائی نے توجہ دلائی ہے وہ قابل غور ہے اگر الیکشن ہی پیمانہ ہیں تو پھر اسے اسمبلی کی نشستوں سے جوڑ لینا درست نہیں ۔ ۔ ۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔ ۔ ۔
     
    سعدیہ اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالمطلب ۔۔ اسلامی جمہوریت کے حوالے سے بہت خوبصورت اور مبنی بر حقیقت جواب آصف احمد بھٹی بھائی نے دے دیا ہے۔ امید ہے خلافت و جمہوریت کی مطابقت واضح ہوگئی ہوگی۔
    شکریہ و جزاک اللہ آصف بھائی ! سلامت رہیں۔ اللہ کریم آپکے علم و دانش میں اضافہ فرمائے۔ آمین
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور ایک اور بات۔ انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی نظآم سو فیصد غلط بھی نہیں ہوتا اور سو فیصد ہی درست بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے مغربی جمہوریت کو محض غیرمسلم کا نظامِ حکومت سمجھ کر سو فیصد مسترد کرنا بھی دانشمندی نہیں ۔ بلکہ فراغ دلی کے ساتھ اسکی اچھائیوں کو تسلیم کرنا اور برائیوں کو مسترد کرنا ہی انصاف ہے۔
    ہمارا ایمان ہے کہ ۔
    سو فیصد درست نظآم صرف اللہ و رسول صل اللہ علیہ وسلم ہی کا عطا کردہ نظام ہوتا ہے۔ بشرطیکہ اسکا نفاذ کرنے والے بھی پوری ایمانداری ، خلوص اور دانش و حکمت کے ساتھ نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وگرنہ تو ملعون یزید پلید بھی خلافت ہی دعویدار تھا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالمطلب بھائی آپکا یہ جملہ "اسلامی کا تصور فقط خلافت و ملوکیت ہے۔ " درست نہیں ہے۔ آصف بھائی نے بھی وضاحت کر دی۔ کہ اسلام کا تصور "خلافت" ہے جو آجکل کے نظام سیاست میں کسی نہ کسی حد تک "صدارتی نظام" سے مشابہہ ہے۔
    لیکن ملوکیت نہ کبھی اسلام کا تصور سیاست تھی۔ نہ اسلام میں اسکی گنجائش تھی نہ ہے ۔

    آلِ سعود کیا ہیں اور انہوں نے عالم اسلام کی تباہی میں حالیہ صدی میں کیا کردار ادا کیا ہے اور کیا کردار ادا کررہے ہیں یہ ہم معتدل اور صاحبِ نظر مسلمان کو بخوبی علم ہے۔ ویسے بھی یہ الگ بحث ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏6 ستمبر 2016
    سعدیہ اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    محترم بھائی میرا آپ سے ایک ہی سوال ہے
    خلفائے راشدین کے انتخابات (ووٹنگ) کو مستند طریقے سے ثابت کیجئے جو عوامی رائے دہی سے ہوئی؟

    میرے ناقص علم کے مطابق حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں ہی منتخب کیا تھا۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی منتخب فرمایا تھا۔

    اسلام میں جمہوریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ورنہ آج عرب ممالک میں بھی جہموریت کا نفاظ ہوتا۔ جو شیطانی نظام ہے۔
     
  24. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    میرے بھائی بہترین نظام اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا گیا نظام ہے اور میں نے اب اگر ہمیں غیر مسلموں کے نظام میں اچھائیاں نظر آتی ہیں تو یہ ہماری کمبختی ہے۔

    اوپر والی تحریر میں قرآن کی آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے

    جو لوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت نہ چلائيں اللہ تعالی نے ان کو 3 قسم کے لوگوں میں تقسیم کیا ہے:

    1/ "جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)
    2/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)
    3/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ: 47)

    اب اس کے بعد بھی ہم اپنے لیئے راستے تلاش کریں کہ انسان کا قانون سو فیصد غلط نہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    خلافائے راشدین کا انتخاب الیکشن کے ذریعے نہیں ہوا اگر ایسا ہے تو ثابت کریں کیوں کہ نامزد کرنے اور منتخب ہونے میں کافی فرق ہے۔
    پاکستان کا عدالتی نظام انتخابی نظام اور جہموری نظام خلافت سے متصادم ہے۔
     
    سعدیہ، آصف احمد بھٹی اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرے بھائی اسلام نے خواہ مخواہ ہر غیرمسلم کے لیے دل میں نفرت و نخوت کی تعلیم ہرگز نہیں دی۔ اسلام عالمی امن و بھائی چارے کا پرچار کرتا ہے۔
    تعالو الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ۔۔ کے ذریعے غیرمسلموں کے ساتھ بھی مشترکہ بنیادوں پر ایک اخوت و امن پسند معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اس لیے کسی بھی اچھائی کو یہ سمجھ کر قبول نہ کرنا کہ یہ کسی غیر مسلم کی طرف سے ہے ۔۔۔ یہ اسلامی طرز فکر نہیں ۔۔۔ اپنی اپنی طبیعت ہوسکتی ہے۔
    غیرمسلموں کو بھی اللہ کریم نے عقل و دانش عطا کررکھی ہے۔ کنویں کے مینڈک نہیں بننا چاہیے۔ جو لوگ عالمی سطح پر مغربی معاشروں میں امن، انصاف، قانون کی بالادستی، جمہوری ریاستوں میں عام شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا نظام دیکھ چکے ہیں ۔۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں کا نظام اسلام سے متصادم نہیں ۔ بلکہ برٹش اور بعض سکینڈینیون ملکوں میں تو چائلڈ کئیر اور اولڈ کئیر بینیفٹس کے قوانین کا نام بھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی مناسبت سے "عمر لاز" کہلاتا ہے۔
    کیا مصطفی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا " علم مسلم کی میراث ہے جہاں سے بھی ملے لے لو " ؟
    کیا فتح مکہ کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کافر قیدیوں کے لیے حکم نہیں فرمایا تھا کہ جو مکہ کا کافر پڑھا لکھا ہو وہ اگر مدینہ کے 10 آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے تو یہ اسکا فدیہ ہوگا اور وہ آزاد ہوگا"
    کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام غیرمسلموں سے بھی کچھ سیکھنے میں منع نہیں کرتا ؟
    آج کے دور میں جب عقل و تحقیق اور علم و حکمت کے مراکز اسلامی دنیا کی بجائے غیر اسلامی دنیا میں منتقل ہوچکے ہیں وہاں تعلیم اور علم کی شرح مسلم ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہاں کے معاشرتی ماحول انسانی ذہن کی پرورش میں زیادہ مددگار ہیں۔ وہاں پر اسلامی دنیا سے "ذہین و عقل مند " افراد کو کھینچ کر اپنے معاشرے میں باعزت مقام دینے کا رواج بھی ہے۔
    جبکہ مسلمان ملکوں میں الا ماشاءاللہ (چند استثناء کے ساتھ) ۔۔ اول تو شرحِ خواندگی ہی انتہائی کم ہے۔ اور جہاں کچھ تعلیمی ادارے ہیں بھی تو ان میں نظآم تعلیم بھی صرف ڈگریاں دیتا ہے۔ شعور نہیں ۔
    اندریں حالات خود فریبی دینے کے لیے، خود کو محض مسلمان کا لیبل لگا کر دنیا کا ارسطو و آئن سٹائن نہیں منوایا جاسکتا ۔۔۔ اس کے لیے صدیوں علم و تحقیق کے سمندروں میں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور دیگر اقوام یہ کام کررہی ہیں۔ اس لیے کسی کی صلاحیت اور مرتبہ کا اعتراف نہ کرنا بھی تنگ نظری ہے۔ جو کہ اسلامی مزاج نہیں بلکہ ذاتی مزاج ہے۔
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرے بھائی میں نے یا آصف بھائی نے کب کہا کہ موجودہ الیکشن کا نظام ہی جمہوریت ہے ؟ میں تو اوپر اس نظامِ انتخاب کی مخالفت میں پورا مضمون لکھ چکا ہوں۔ خدارا بحث برائے بحث میں سیاق و سباق کو یاد رکھ کر فرمان جاری کریں۔ کیونکہ آپ نے خود اس پیغام میں وہی کچھ فرما دیا جو میں نے اور آصف بھائی نے اوپر واضح کرنے کی کوشش کی۔ کہ پاکستان کا نظام تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
    میں تو اوپر عرض کرچکا کہ موجودہ انتخابی نظام ہی سراسر ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہے۔ اسی طرح آمرانہ یا ملوکانہ نظام بھی اسلام سے متصادم ہے۔
    خلفائے راشدین کا انتخاب مختلف انداز میں مختلف اوقات میں صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مشاورت ہی سے عمل میں آیا تھا ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    باقی عبدالمطلب بھائی اس موضوع پر آپ نے، میں نے اور آصف بھائی نے بہت محبت اور ذوق و شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کردیا ہے۔ اب باہم محبت و رواداری کے تقاضوں کے پیش نظر بہتر ہے کہ ہم اس بحث کو یہیں ختم کریں ۔ کیونکہ ایسی گفتگو سے مثبت تبادلہ خیال مقصود ہوتا ہے جس سے مجھ جیسا کم علم انسان دوسرے اہل علم سے کچھ سیکھ سکے۔
    بحث برائے بحث سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا۔ اس لیے اس گفتگو کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی اور عبدالمطلب .نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ ۔ ۔ محترم بھائی ! جب ہم جمہوریت کہتے ہیں تو اس سے مراد ہر گز مغربی جمہوریت نہیں مگربی جمہوریت کو تو میں خود کفر کہتا ہوں اور یہی عرض کر رہا ہوں کہ جمہوریت میں بندو کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔ ۔ ۔ آپ جسے خلافت کہہ رہے ہیں میں اُسے ہی اسلامی جمہوریت کہتا ہوں ۔ ۔ ۔ دراصل خلافت ہی وہ نظام ہے کہ جس پر اس دُنیا کا خاتمہ ہو گا اور یہ رسول اللہ کی حدیث کا مفہوم ہے جسے آپ نے خود اقتباس کیا ہے ۔ ۔ ۔ جس طرح آپ نے فرمایا کہ آپ کے ناقص علم کے مطابق حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں ہی منتخب کیا تھا ۔ میرا بھی عقیدہ یہی ہے ۔ ۔ ۔ دیکھئے حضور موجودہ مغربی جمہوریت میں بھی جب کوئی امیدوار انتخاب لڑتا ہے تو ایلکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت کوئی رُکن اسمبلی ( موجودہ یا سابقہ ) یا پھر کوئی معزز شخص اُسے نامزد کرتا ہے ( اسے لیے اُسے کاغزات نامزدگی کہا جاتا ہے ) دو عدد لوگ اُس نامزدگی کے تائید کنندہ کے طور پر پیش ہوتے ہیں اور پھر اگر وہ کسی پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے تو اُس پارٹی کے سربراہ یا شورا کی طرف سے دستخط شدہ ٹکٹ ساتھ میں لگایا جاتا ہے یہ ہے نامزدگی ۔ ۔ ۔ اس کے بعد انتخاب کا مرحلہ آتا ہے جس میں عام عوام یا اگر انتخاب کسی اعوان میں ہو رہا ہے تو عوام کے منتخب نمائبدے اُسے منتخب کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ اس نظام میں بندو تو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔ ۔ ۔ جبکہ اسلامی جمہوریت یا خلافت میں خلافت کے اُمیدوار یا اُمیدواران کو سب سے معزز و معتبر شخص نامزد کرتا ہے اور جیسا کہ آپ نے خود فرما دیا کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں ہی منتخب کیا تھا ۔ یہ نامزدگی تھی حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ باقاعدہ اپنا خلیفہ کبھی نہیں کہا بلکہ اہل تشیع حضرات تو اس ہی بات کو اپنی دلیل بناتے ہیں کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ( من کنت: مولا فا علی مولا ) کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ تعالی کو اپنا جانشین بنایا تھا حالانکہ وہ ایک الگ معاملہ تھا خیر ۔ ۔ ۔ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جبکہ ابھی مسلمان انتہائی دُکھ و رنج میں مبتلا تھے انصار کے کچھ لوگوں نے بنی سعد میں خلافت پر مشاورت شروع کر دی اور قریب تھا کہ وہ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لیتے ( اگروقع ایسا تھا کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں ہی منتخب کیا تھا تو کیا انصار کبار کو اس کا علم نہ تھا ) جب واقع کا اس کا علم سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی کو ہوا یہ دونوں شیخین کریمین فورا اس انتخاب کو روکوانے وہاں پہنچے کہ مبادا اگر ایسا ہو گیا تو پھر ایک منتخب امیر کی اطاعت لازم ہو جائے گی جبکہ ابھی حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر اپنے حجرے میں موجود تھا دونوں شیخین کریمین کا خیال تھا کہ ایک بار مسلمان اس دُکھ کی گھڑی سے نکل آئی تو پھر خلافت کا معاملہ بھی دیکھ لیا جائے گا مگر وہاں انصار کی دلیل یہ تھی کہ کبھی کوئی ریاست اپنے سربراہ کے بغیر نہیں رہتی ( موجودہ وقت میں بھی ایسا ہی ہے اسی لیے نائب صدر اور نائب وزیر اعظم کا عہدہ ہوتا ہے کہ اگر کسی سبب ملک یا حکومت کا سربراہ اس قابل نہ رہے کہ وہ قیادت کر سکے تو اُس کا نائب فورا اور ازخود اُس کی جگہ متعین ہو جاتا ہے اُس کے لیے کسی دوبارہ انتخاب کی ضرورت نہیں ہوتی اور حکومت کی بقیہ مدت یا عبوری مدت پھر نائب اپنے اصل کی جگہ قانونی طور پر فائز رہتا ہے ) اس لیے فل فور خلیفہ کا انتخاب ضروری ہے ۔ ۔ ۔ اُن کی اس دلیل سے دونوں ژیکین کریمین قائل ہو گئے جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فورا سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے ) میں مسلمانون کے لیے سب سے اُن میں سب سے بہتر شخص کو اُن کا خلیفہ نامزد کرتا ہوں اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں اس پر وہاں موجود تمام انصار متفق ہو گئے اور فورا سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کر لی ( یہ تھا اسلامی جمہوری انتخاب ) وہاں پر حالانکہ تمام انصار بھی موجود نہ تھے اور مہاجرین کا تو سوال ہی نہین پیدا ہوتا سوائے شیخین کریمین کے صرف چبد انصار گھرانوں نے آپ کا خلیفہ منتخب کر لیا تھا اور یہ اسلامی روایت ہے کہ امیر کے انتخاب کے بعد آپ کو پاس کوئی دوسری چوائس نہیں رہتی اس لیے پھر کم و بیش سب لوگوں نے سوائے سیدنا علی اور قریش کے کچھ نوجوانوں کے اُس روز آپ کی بیعت کر لی آپ کو متفقہ طور پر (9۔99 فیصد نمبروں کے ساتھ ) آپ کو اپنا امیر اور خلیفہ منتخب کر لیا کچع عرصے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور باقی لوگوں نے بھی آپ کی بیعت کر لی ( نمبر 100 % ہو گئے ) اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی ریاست سے مراد صرف مدینہ منورہ ہے ؟ کیونکہ جب تک خلافت راشدہ رہی صرف مدینے کے لوگ ہی خلیفہ کا انتخاب کرتے تھے اور باقی ملک اُس کی توسیق کر دیتا تھا ۔ ۔ ۔ دراصل اسلامی طریقہ انتخاب یہ ہے کہ ملک کا بہترین طبقہ یعنی متقی و پرہیزگار لوگ امیر کا انتخاب کریں اور یہ سب لوگوں کی طرف سے تسلیم کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ کیونکہ اسلام ہر شخص کو صاحب رائے نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ صاحب رائے ہونے کے لیے اپ کو اپنا متقی ، پرہیزگار اور صادق ہونا ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسلام خواتین کی شہادت کو آدھی شہادت تسلیم کرتا ہے اور اس میں کبھی اور کسی کو استثناء حاسل نہیں رہی حالانکہ اکثر خواتین عقل و سمجھ میں مردوں سے بہت بہتر ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ وجہ یہی ہوتی ہے کہ اکثر خواتین صاحب رائے نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ یہ ایک الگر بحث ہے اس پر پھر کبھی سہی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہاں خلافت کے بارے میں بھی بتا دوں اوپر مجھ سے بھی ایک غلطی ہو چکی ہے اسلامی طرز حکومت خلافت نہیں بلکہ امارت ہے خلیفہ صرف ابو بکر صدیق تھے بقیہ کو ہم لوگ خلیفہ ضرور کہتے ہیں مگر وہ امیر المومنین تھے ۔ ۔ ۔ سدینا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفۃ الخلیفۃ الرسول تھے اس لیے اُنہون نے اپنے لیے اور بعد میں آنے والے تمام خلفاء کے لیے امیر المومنین کا لقب پسند کیا تھا ۔ باقی پھر کبھی ۔ ۔ ۔ انشاء اللہ ۔ ۔ ۔ وسلام ۔ ۔ ۔
     
    سعدیہ، نعیم اور عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی فکر نہ کریں ہم ایک دوسرے کے خیالات سے کچھ سیکھ بھی رہے ہیں
    اور محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم رہےگی انشاء اللہ
    ہم سب آزاد ہیں اپنی رائے میں۔
    اب بات آئی غیر مسلم کی تو بے شک تعلق اچھا رکھو مگر غیرمسلم کی تعلیمات ہمارے لیئے نہیں ہیں ہمارے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات جو احکام الہیہ ہیں کافی ہیں۔
    تعلیم اور زندگی گزارنے کے اصول دو مختلف چیزیں ہیں ہمیں تعلیم حاصل کرنا چاہئے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے گئے زندگی کے اصولوں پر ہی کار بند رہ کر اسلام کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ نا کہ مغرب سے اتنے متاثر ہو جائیں کہ زندگی کے تمام اصولوں میں انہیں مشغلِ راہ سمجھ لیں۔

    قرآن ہمیں زندگی گزارنے کا فن سکھاتا ہے اور کامیابی پورے پورے دین پر کاربند رہنے میں ہے۔ میں نے کئی مسلم سائینس دانوں کو دیکھا ہے جو مغرب سے متاثر نہیں تھے پھر بھی کامیاب تھے۔ بے شک علم حاصل کرو اور حدود اللہ کا لحاظ رکھتے ہوئے استفادہ حاصل کرو۔

    اسلامی شرعی قانون کے نفاذ سے مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر ہم مغرب پرست کیسے مغربی قوانین سے انکار کریں۔
    آصف احمد بھٹی بھائی انتخابات کے لئے نامزدگی کو اگر اسلامی جمہوری نظام کہیں تو کہہ سکتے ہیں مگر الیکشن کو ابھی تک کوئی ثابت نہیں کر پایا۔ ایک بڑا چور چھوٹے چور کو الیکشن میں فقط اس لیئے منتخب کرتا ہے کہ پارٹی فنڈ میں کافی رقم جمع کرا دیا ہوتا ہے۔ ورنہ کسی متوسط طبقے کے کسی فرد کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ جمہوری شیطانی نظام مغربی انعامات ہیں جو ہمارے دین سے متصادم ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے عزیز تر ہیں۔
     
  30. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی آپ دو باتیں کر رہے ہیں ایک طرف آپ کہتے ہیں

    "انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی نظآم سو فیصد غلط بھی نہیں ہوتا اور سو فیصد ہی درست بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے مغربی جمہوریت کو محض غیرمسلم کا نظامِ حکومت سمجھ کر سو فیصد مسترد کرنا بھی دانشمندی نہیں ۔ بلکہ فراغ دلی کے ساتھ اسکی اچھائیوں کو تسلیم کرنا اور برائیوں کو مسترد کرنا ہی انصاف ہے۔ "

    دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ

    "سو فیصد درست نظآم صرف اللہ و رسول صل اللہ علیہ وسلم ہی کا عطا کردہ نظام ہوتا ہے۔ بشرطیکہ اسکا نفاذ کرنے والے بھی پوری ایمانداری ، خلوص اور دانش و حکمت کے ساتھ نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔"

    ان دو باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ نظام سو فیصد درست ہے۔ تو پھر کیوں ہم اسی نظام کو اپنانے کیلئے تگ و دو کریں جو ناٖقص ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں