بہاروں سے کیا مجھے تو خزاں کے ترنم یاد ہیں تشنہ آنکھوں سے نکلے جو وہ اشک پرنم یاد ہیں شب بھر ڈھونڈتے تھے کہکشائوں میں ایک انجم پیڑوں کی اوٹ کیے ہوئے وہ ستم یاد ہیں