1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میرے ذمہ قرض

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرزاق قادری, ‏18 جنوری 2016۔

  1. عبدالرزاق قادری
    آف لائن

    عبدالرزاق قادری ممبر

    شمولیت:
    ‏14 جون 2012
    پیغامات:
    164
    موصول پسندیدگیاں:
    121
    ملک کا جھنڈا:
    اب مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے اردگرد موجود لوگوں سے وابستہ یادیں قلمبند کرنا میرا فریضہ ہے بلکہ یہ ایک فرض ہے اور فرض ایک قرض کی طرح ہوتا ہے اُسے قرضے کی طرح بروقت پوری مقدار میں ادا کر دینا چاہئیے۔ لہٰذا اب مجھے سنجیدگی سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اپنے ہم جولیوں کی یادوں کو جلد از جلد لکھ دیا کروں، کیونکہ جو خیالات آتے ہیں انہیں لکھ دیا جائے تو اچھا ہے ورنہ یہ رہتے رہتے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں پھر ایک عرصے کے بعد کسی کے یاد دلانے پر بھی انسان کہتا ہے کہ شاید یہ بات میں نے کی ہو۔ تقریباً 25 سال کی عمر تک یا اس کے کچھ بعد تک میں یہ سوچتا تھا کہ یاداشت کیسے خراب ہوسکتی ہے، انسان کیسے بھول سکتا ہے کہ یہ بات اس کی ہے یا نہیں۔ لیکن بعد میں ذاتی ادراک کی وجہ سے معلوم ہوا کہ یہ ایک معمول کی چیز ہے ہے ویسے بھی تحقیق کے مطابق لفظ انسان کا مادہ نسیان سے نکلا ہے جو بھول جانے کی بیماری کا نام ہے۔ یوں تو انسان کئی زاویوں سے کئی چیزوں کو بھول سکتا ہے لیکن میرا موضوع صرف اپنی باتوں اوریادوں کو بھولنے سے متعلق ہے۔
    میں کئی دنوں سے کہہ رہا ہوں کہ میں اپنے دوستوں کے بارے میں ایک تحریری سلسلہ شروع کرنے والا ہوں، جس کا نام ہوگا "دوستوں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے" یہ مصرع دراصل مرزا غالب کے مصرعے میں تصریف کرکے بنایا گیا ہے انہوں نے کہا تھا ' کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ، شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے'۔ تو اس سلسلے میں ہر دوست کے بارے میں ایک تحریر آئے گی جس میں اس کا وہ عکس جو میرے دل میں ہے سامنے لایا جائے گا۔ اس سلسلے کا آغاز تو لاشعوری طور پر کافی عرصہ پہلے سے ہوچکا تھا مثلاً میں نے اپنے بلاگ پر حسیب نذیر گِل اور محمد دانش کے حوالے سے تھوڑی سی باتیں شائع کی تھیں۔ ابھی حال ہی میں محمد کامران اختر کے حوالے سے ایک مضمون نوائے منزل کے لئے لکھا ہے، میں ایک فکاہیہ یا مزاح کا طرزِ نگارش اختیار کرنا چاہتا ہوں لیکن ڈاکٹر تنویر حسین کی طرح میرا بھی وہی مسئلہ ہے جو بے شمار پاکستانیوں کا ہے کہ یہاں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مزاح لکھنے کی بجائے ایک تیسرے درجے کا تنقیدی مضمون بن کے رہ جاتا ہے۔ کچھ اس قسم کی وجوہات کی بنا پر کامران اختر والا مضمون ایک سنجیدہ مزاج کے مطابق لکھا گیااور دیگر دوستوں کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی اسلوب اختیار کیا جائے گا لیکن ممکن ہے کہ ان کی شخصیت کا عکس اس طریقے سے نہ بن پائے جیسا کہ کامران کا ہے کیونکہ کامران کے ساتھ زیادہ وقت گزرا ۔ اور اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، شاید اتنا سنجیدہ، متین، متحرک اور منظم کوئی شخص میں نے نہ دیکھا ہو(نوٹ: اپنی تحریروں میں صرف میرے ہم عمر یا مجھ سے چھوٹی عمر کے دوستوں کا تذکرہ کرتا ہوں، سینئرز اس سے مستثنیٰ ہیں)۔ اس کے علاوہ متاثر کرنے والے لوگوں میں سے محمد زید مصطفیٰ ہے جو ایک حافظِ قرآن، علامہ اور بی ایڈ ہے اس کی منظم اور متحرک اور تقوے والی زندگی قابلِ رشک ہے البتہ اس سے چند اختلافات بھی ہیں کہ وہ تیسرے درجے کے اشتعال انگیز قائدین کا پیروکار ہے ۔ مجھے اس سلسلے میں سب سے زیادہ اختلاف اس بات پہ ہے کہ اُس کا پیر کوئی ہے، لیڈر کوئی دوسرا ہے، فلاسفی کسی تیسرے کی پسند ہے اور عملی طور پر کسی چوتھے یا پانچویں کی تنظیم کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا اختلاف یہ کہ اگر کسی دوسرے گروپ کا بندہ ایک بات کرے جو زید مصطفیٰ کو غلط لگے تو وہ اُسے کافر لگتا ہے لیکن اگر اسی طرح کی کوئی بات اپنے فرقے کا بندہ کرے یا اُس سے بھی شدید تر حرکت کرے تو وہ بدستور قائدِ اسلام، مفکرِاسلام اور شانِ اسلام رہتا ہے۔ وہ حضرت صاحب بھی ہیں پیر صاحب بھی ہیں وہ سب کچھ ہے لیکن اگر دوسرے فرقے کا بندہ شرعی حدود کے اندر رہ کر یا بالفرض مصلحت کے طور پر شرعی عذر کے بغیر کوئی بات کرے تو وہ کافر، مُرتد اور گستاخ ہو جاتا ہے۔ حافظ زید مصطفیٰ کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ کہ وہ ایک جگہ ٹِک کر بیٹھ کے کوئی کام نہیں کرتا، نہ وہ مطالعہ کرتا ہے نہ وہ کچھ لکھتا ہے اور نہ ہی کسی آڈیو، وڈیو تقریر یا پروگرام کو مرتکز ہو کر دیکھ سکتا ہے، شاید دیکھ سکنے کی اہلیت رکھتا ہو لیکن خود پر کنٹرول کرنا اور اپنا محاسبہ کرنا بھی ایک فن ہے۔ اس کا اگر میں ایک مثبت پہلو بتانے کی کوشش کروں تو وہ شاید یہی ہے کہ وہ خود کو اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکے دار مانتا ہے، اس کا خیال ہے کہ اگر اس نے پندرہ تنظیموں کے ساتھ احتجاج اور ریلیوں میں شرکت نہ کی تو شاید اسلام کی چھت گر جائے گی۔ پنجابی میں ایک جانور کو' ٹٹیولی' یا ٹٹیری کہتے ہیں جسے شاید اردو میں ٹٹیرا کہا جاتا ہو، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ رات کو ٹانگیں اوپر کرکے سوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے آسمان کو نیچے سے سہارا دے رکھا ہے اگر وہ ایسا کرکے نہ سوئے تو شاید آسمان گر جائے گا کچھ ایسا ہی معاملہ علامہ زید مصطفیٰ اور ان کے قائدین کا ہے ان میں ہر کسی کے حالات یوں دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے بس میں نہیں ہے ورنہ وہ خود کو 'بانیِ اسلامِ' کا لقب بھی دے لیں۔ یہاں ہمارے محلے میں ایک صاحب ہیں ان کا خیال ہے کہ شاید فلاں مولوی ایک دن مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں اعلان کرے گا کہ وہ "امام مہدی" ہے۔بہرحال پھر بھی میں مولویوں اور زید مصطفیٰ کو کچھ نہیں کہتا کیونکہ میں بھی اہلسنت ہوں بلکہ اہلسنت حق پر ہیں یہ وہی مسئلہ میرے ساتھ ہے جو زید مصطفیٰ کے ساتھ ہے کہ میں بھی اپنے مولویوں کے خلاف نہیں بولتا۔ آپ چاہے اسے تعصب کا نام دے لیں، کامران اختر ضرور اسے تعصب کہے گا لیکن وہ دیوبندیوں کی حمایت میں اس سے کہیں شدید تر تعصب رکھتا ہے لیکن بہرحال خود وہ سنی ہے دیوبندی نہیں ہے۔ البتہ تعصب کی تعریف جو سرکارِ دوعالم نے فرمائی ہے وہی درست ہے وہی حق ہے، سرکار نے فرمایا کہ تعصب یہ نہیں کہ تُو اپنی قوم سے محبت کرے، تعصب یہ ہے کہ تو ظلم کرنے میں اپنی قوم کاساتھ دے۔ سرکار کے اس فرمان سے یہی پتا چلتا ہے کہ اپنی قوم سے محبت کرنی چاہئیے لیکن ظلم کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے۔ زید مصطفیٰ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے لیکن بہت فعال اور با صلاحیت نوجوان ہے، جس دن اس نے کراچی جانے کے لئے کراچی کی ٹرین میں سفر کرنا شروع کردیا اُس دن سے منزل اس سے قریب ہونا شروع ہوجائے گی، ورنہ پشاور والی ٹرین تو صوبہ خیبر پختونخواہ سے گزرے گی اُدھر کوئی کراچی نہیں ہے۔ یعنی آپ مغرب میں امریکا کی طرف جانا چاہتے ہیں تو مشرق میں واقع جاپان والی فلائٹ کا انتظام کرکے تو امریکا نہیں جایا جا سکتا وہ تو شاید آپ کو ٹوکیو پہنچا دے گا۔ مستقبل میں زید مصطفیٰ پر ایک تفصیلی مضمون جلد آئے گا۔
     
  2. عبدالرزاق قادری
    آف لائن

    عبدالرزاق قادری ممبر

    شمولیت:
    ‏14 جون 2012
    پیغامات:
    164
    موصول پسندیدگیاں:
    121
    ملک کا جھنڈا:
    عین ممکن ہے کہ مجھے کہنا پڑے کہ اس سارے فساد کی جڑ حافظ محمد حسنین شاہ ہے۔ وہ میرے ساتھ 2001ء سے 2004ء تک جامعہ عنایت صدیق میں حفظ کے دوران پڑھتا رہا پھر ہم اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ وہاں مدرسے میں ہر سال 21 شعبان کو حفظ مکمل کرلینے والوں کی دستار بندی ہوتی تھی اس سالانہ محفل میں اور اس کے علاوہ کسی طالب علم کے انفرادی تکمیلِ حفظ کی محفل میں کئی علماء تشریف لاتے تھے۔ خصوصاً علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری، علامہ الٰہی بخش ضیائی قادری اور دیگر معتبر علماء محفل میں شریک ہوتے تھے۔ وہاں سے حفظِ قرآن کے بعد میں میٹرک کی تعلیم کیلئے وہاڑی چلا گیا اور حسنین شاہ کسی اور مدرسے میں چلا گیا سن 2005ء کے مارچ میں میرے نویں کلاس کے امتحانات ہوئے، میں پھر واپس لاہور آگیا اور چھوٹا ساندہ کے پار دریا کی جانب ایک جامع مسجد "یا رسول اللہ" میں قاری محمد اسلم صاحب کے پاس اپنی منزل دہرانے کیلئے جانے لگا۔ اس سال کے اواخر میں رمضان شریف کے مہینے سے ایک روز قبل میرے پُرانے استاد جی قاری محمد صدیق احمد نے مجھے علامہ اسماعیل تابش کے پاس وسن پورہ کے علاقے میں بھیجا وہ ایک مسجد میں امام اور خطیب تھے وہ ٹینکی والی مسجد مشہور تھی۔ وسن پورہ ایک محلہ ہے جو لاہور ریلوے سٹیشن اور شاد باغ کے درمیان واقع ہے۔ علامہ اسماعیل تابش نے مجھے جامعہ اسلامیہ لاہور نزد ٹھوکر نیاز بیگ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا بلکہ مجھے مفتی محمد خان قادری کی ایک کتاب منہاج الصرف بھی پڑھنے کو دی۔ عید کے بعد مجھے ملتان تعلیمی بورڈ سے تبادلہ کرکے اپنا دسویں کا امتحان لاہور بورڈ میں دینے کا معاملہ درپیش تھا چونکہ میں ایک پرائیویٹ طالب علم تھا لہٰذا بہت ساری دوڑ دھوپ اور خرچے کے بعد میں نے بورڈ آفس میں داخلہ بھیج دیا۔ پھر جامعہ اسلامیہ لاہور میں داخلہ لینے کی سوجھی تو حسنین شاہ یاد آیا۔ میری اس سے کہیں ملاقات ہوئی تو میں نے اسے بھی اس جامعہ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا لیکن وہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں داخل ہوچکا تھا پھر بھی اُسے وہاں سے چھڑا کر جامعہ اسلامیہ لاہور میں لے آیا اس کے بعد ضمانت کے لئے ایک ملاقات پھر علامہ اسماعیل تابش سے ہوئی لیکن اس جامعہ میں مجھے داخلہ نہ دیا، سرگانہ صاحب نے فرمایا کہ آپ دو ماہ کے بعد کہیں گے کہ میرے دسویں کے پیپر ہیں مجھے چھٹی دیں لیکن ہم تو چھٹی نہیں دیں گے اس لئے آپ کو داخلہ نہیں دیا جاسکتا۔ حسنین مجھے کہتا رہا کہ آجاؤ، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن میں ٹھہرا ،اصولوں کا پابند۔ میں ان دنوں نہ صرف بےروزگار، بے آسرا بلکہ چھت اور دو وقت کی روٹی سے شدت کے ساتھ محروم تھا۔ حسنین شاہ جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا لیکن ہمیشہ میری کمی محسوس کرتا رہا، میں نے کئی علاقوں کا سفر کیا تعلیم اور مزدوری ساتھ ساتھ جاری رکھی بلکہ انہی کاموں کے لئے سفر کرتا رہا۔ مدرسے میں حسنین شاہ کو ایک باصلاحیت کلاس فیلو ملا جس میں اسے تھوڑی سی میری جھلک نظر آئی وہ اس کا دوست بن گیا اس کا نام صلاح الدین تھا۔ وہیں اُسے حافظ زید مصطفیٰ ملا۔ زید کو ایک سعادت حاصل تھی کہ وہ جامعہ کے قرب میں واقع علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری کے گھر میں رہتا تھا جبکہ تعلیم جامعہ میں حاصل کرتا تھا وہ واقعی انتہائی ذہین تھا جس کے ہم آج تک معترف ہیں گزشتہ تین سالوں سے زید مصطفیٰ کے ساتھ میں بھی علیک سلیک ہے، ہمارے پاس ایک دوسرے کے موبائل نمبر پہلے سے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ زید مصطفیٰ، حسنین شاہ سے ملاقات کے وقت کِھل اُٹھتا ہے۔ اسی جامعہ میں محمد کامران اختر آ ٹپکا، جس میں صحافیانہ سرگرمیاں جھک رہی تھیں۔ اس کی تعمیری سوچوں سے متاثر ہوکر حسنین شاہ نے اسے بھی میرے جیسا سمجھ لیا اور دوستی کرلی، زید مصطفیٰ کے بقول حسنین شاہ کے ساتھ سارے کلاس فیلو بہت فرینک تھے شاہ صاحب ان سب کے سانجھے دوست تھے۔ اسی جامعہ سے کئی دوسرے لوگ مجھے جانتے ہیں اور میں انہیں پہچانتا ہوں جن میں عبدالرؤف چکوالی، محمد آصف قصوری، علی عرفان، مقدس، یاسین، اکرام اور اجمل کے نام نمایاں ہیں۔ ان سب دوستوں کے حوالے سے میں سر نعیم قیصر کا ایک شعر پیش کرنا چاہوں گا
    مجھے زندہ لیے پھرتا ہے یہ احساس کہ اب تک
    تیری پہچان میں، میں ہوں، میری پہچان میں تم ہو
    اس گروپ کے بعد میرے بچپن کے کلاس فیلو، جامعہ عنایت صدیق کے دوست، گاؤں کے دوست، وہاڑی والے کلاس فیلو، انٹرنیٹ سے ملے ہوئے دوست، اور علمی و ادبی دنیا سے ملے ہوئے دوست، کئی استاد اور رہنما اور ان سے وابستہ یادیں میرے لئے سرمایہ ہیں۔ خصوصاً انٹرنیٹ سے ملے ہوئے دوستوں میں سید فراز (باباجی)، اویس قرنی (جوگی، چھوٹا غالب)، حسیب نذیر گِل اور محمد دانش قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ کئی لوگ مجھے محلے سے ملے جن میں سر رفیق خلیل، علی بخاری، اسماعیل جٹ، صوفی غلام سرور، احمد حسن، حافظ علامہ عثمان انور، علی رضا، حافظ علامہ اویس اظہر، مولانا طیب نورانی، امجد رشید اور حافظ ایثار عالم کے نام سرِ فہرست ہیں۔ میرے ساتھ نہ صرف دوستی کرنا مشکل ہے بلکہ اُسے نبھانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے لوگ کہتے ہیں کہ میرا مزاج بہت سخت ہے۔اگر مجھے اپنی وکالت کرنے کی اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ میں ایک سچا اور کھرا انسان ہوں۔ میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں جبکہ لوگ اسے دودھ سمجھتے ہیں۔ مجھے دوستی کی وہ تعریفیں کبھی سمجھ میں نہیں آتیں جن میں سب کچھ جائز ہوتا ے، میرے نزدیک صرف اصولی چیز جائز ہوتی ہے اور غلط بات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اب اس میں سے کوئی دوستی کا دعوے دار کیسے برتاؤ کرتا ہے یہ میرا معاملہ نہیں، میرا معاملہ صرف سچ کا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک میرا تنقیدی ذہن ہر وقت دوسروں کی خامیوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن میں خود اپنی خامیوں پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہوں اور اپنی حرکتوں پر نظرِ ثانی کرتا رہتا ہوں۔ ایک وقت تک میرا خیال تھا کہ نظریات نہیں بدلے جا سکتے لیکن تنوع کی وجہ سے اب احساس ہوا ہے کہ جامد پانی سے بدبو آتی ہے جبکہ چلتا ہوا ذہن بہتے پانی کی مانند ہے جو پاک رہتا ہے، اس لئے معلومات، حالات و واقعات اور بے شمار وجوہ سے تناظر بدلتے رہتے ہیں لہٰذا نئے نظریات پرانے نظریات کی جگہ گھیر لیتے ہیں۔لیکن انسان کا بات کرنے کا طریقہ سلجھا ہوا ہونا چاہئیے، میں کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ کوئی دوستی کے نام پر میرے نظریات سے کھلواڑ شروع کردے خاص طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی گفتگو کسی صورت گوارا نہیں۔
    مجھے کسی کی ذات سے اس کے مذہب، فرقے یا قوم کی بنا پر خدا واسطے کا بیر ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت معاملہ میری برداشت سے باہر ہے جب کوئی میرے عقائد پر جان بوجھ کر تنقید کرے، میں کسی کو کبھی کسی فرقے کی وجہ سے نہیں چھیڑتا لیکن پھر مجھے کوئی زچ کرنے کی کوشش کیونکر کرے۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں ان فرقوں کے ٹھیکے داروں سے بھی زیادہ ان کی تاریخ سے واقف ہوں لیکن یہ معلومات میں نے انہیں زچ کرنے کے لئے اور ان کے خلاف پروپیگنڈے کرنے کے لئے نہیں بلکہ حقائق کو جاننے لئے گہرا مطالعہ کرکے حاصل کی ہیں۔ میرے عقائد لوگوں کو چھیڑنے کے لئے یا لوگوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے نہیں ہیں۔ میں نے ٹٹیرے کی طرح ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ میری طرف سے لوگ جائیں بھاڑ میں! میں اپنے معاملات کو سچ کی عینک سے دیکھتا ہوں ممکن ہے میرے کچھ جھوٹ تاریخ کا حصہ بنیں لیکن میں ان کا فیصلہ مستقبل کے نقادوں اور تاریخ دانوں پر چھوڑ دیتا ہوں۔ بلکہ ایک اشارہ کر جاتا ہوں کہ کبھی کبھی میں خاموش رہ لیتا ہوں اور بات کو ظاہر نہیں کرتا، اب اگر کوئی چاہے تو اسے جھوٹ سے تعبیر کرلے۔ بہرحال یہاں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں ہمارے ایک گروپ میں سے ایک لڑکے نے کبھی کہیں کہا تھا کہ تم سب میرے دوست ہو، میں کسی کا دوست نہیں۔ ہم نے اس کے منہ کی طرف دیکھا، اس نے کہا کہ میں نے تم سب کو اپنا دوست بنایا ہے اس لئے تم میرے دوست ہو جبکہ تم میں سے کسی نے نہ تو مجھے اپنا دوست بنایا اور نہ ہی مجھے کبھی دوست سمجھا اس لئے اس منطق کے تحت میں کسی کا دوست نہیں۔۔۔ وہ لڑکا سچا تھا، میں نے بھی کبھی اسے اپنا دوست نہیں مانا تھا اس لئے میرا سر بھی جھکا رہا وہ سچ کہہ رہا تھا بلکہ وہ ہم سب کا بہت خیال رکھتا تھا اور بہت مدد کرتا تھا۔
    کچھ یہی حال اب میرا ہے میرے بھی بہت سے دوست ہیں لیکن میں کسی کا دوست نہیں ہوں۔ کیونکہ ان سب کو میں نے اپنا دوست مانا ہوا ہے جبکہ ان کے دل کا معاملہ کچھ اور ہے۔ کچھ اسی وجہ سے کہا چاہتا ہوں کہ
    کھلتا کیوں کسی پہ میرے دل کا معاملہ
    'دوستوں' کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے
    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں