1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سانحہ فرانس اور ہم

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرزاق قادری, ‏24 نومبر 2015۔

  1. عبدالرزاق قادری
    آف لائن

    عبدالرزاق قادری ممبر

    شمولیت:
    ‏14 جون 2012
    پیغامات:
    164
    موصول پسندیدگیاں:
    121
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے سانحہ فرانس پر کئی بار لکھنے کا سوچا پھر سوچا کہ رہنے دوں، اس جنونی قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہاں مُلّا نے ان کی برین واشنگ کی ہوئی ہے اور اپنے بیٹے امریکہ میں 'اعلیٰ تعلیم' کے لئے بھیج رکھے ہیں۔ ان خبیثوں کے گھر میں نہ کوئی دھماکہ ہوا اور نہ ہی ان کا کبھی کوئی عزیز اس طرح کی اندوہناک موت سے دوچار ہوا، یہ شراب کے جام چڑھا کر قوم کو فوٹو شاپ سے وڈیوز اور تصاویر بنا کر دے دیں گے کہ دیکھو مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے! بھئی فرانس میں دہشت گردی کی واردات کا مسلمان اور کافر سے کیا لینا دینا؟ کیا یہ مسلم اور غیر مسلم کی جنگ ہے؟ اگر کسی نے ایک ظلم کے خلاف احتجاج کے لئے فرانس کا جھنڈا لگا لیا تو کونسی قیامت آگئی۔ اس واردات میں کئی مسلمان مارے گئے ہوں گے بلکہ ایک مسلمان کی خبر آئی تھی وہ اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی مدد کرتا رہا ۔ چند ماہ قبل جب وہاں اس گستاخ میگزین کے دفتر پر حملہ ہوا تھا تو خبروں سے معلوم ہوا کہ فرانس کی پولیس میں مسلمان سپاہی بھی ہیں! نجانے میری قوم کو کس پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے؟ یہ عقل و شعور سے پیدل ہو چکے ہیں۔ بھئی ظلم جہاں بھی ہو قابلِ مذمت ہے۔
    اس درندگی کے واقعہ کے بعد پشاور سکول کے شہید بچوں کے والدین کے زخم ایک بار پھر سے تازہ ہوگئے اور وہ روئے، لیکن جس کو معلوم ہی نہیں کہ دکھ درد کیا ہوتا ہے وہ تو ایک ڈی-پی لگانے پر بھی ٹوکہ پکڑ لے گا۔ جب ہمارے ہاں کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو ساری دنیا کے لوگ درد سے بلک اٹھتے ہیں لیکن میری حرام کھانے والی قوم کو کیا معلوم کہ کسی کا درد کیا ہوتا ہے۔
    مجھے صد ہزار مرتبہ یقین ہے کہ قوم کو ملالہ کے خلاف اکسانے اور سانحہ پیرس کے خلاف بھڑکانے میں طالبان کی سوچ کارفرما ہے، طالبان کوئی خلائی مخلوق نہیں یہی دیوبندی مدارس کے جنونی درندے ہیں، وہ لال مسجد سے ہوں یا رائیونڈ سے یہ سب داعش کے ہمنوا ہیں۔
    بھائی لوگو! ذرا ہوش سے کام لو۔ جس نے فرانس کے مقتولین کا دکھ منایا، ُاس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن ہے۔ جس دن سانحہ پشاور ہوا تھا، وہ 16 دسمبر 2014ء تھا۔ آپ گوگل میں یہ تاریخ لکھ کر کسی بھی اخبار کا نام لکھیں آپ کو بے شمار کافر ،اس سانحہ پر افسوس کرتے دکھائی دیں گے۔ کیا بھارت کے سکولوں میں بچوں نے افسوس میں خاموشی اختیار نہیں کی تھی۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے تو شاید اُسی رات گارڈین میں افریقہ سے لکھا ہوا کسی کا تعزیت نامہ پڑھا تھا۔ پوری دنیا کے لوگ خون کے آنسو روئے تھے۔ اللہ اس طرح کے حادثوں سے محفوظ رکھے۔ میں نے سانحہ منہاج القرآن کے بعد ایک مضمون لکھا تھا وہ نیچے درج کرکے اجازت چاہتا ہوں۔
    توں کی جانے بھولیے مَجّھے انار کلی دیاں شاناں
    کیاکبھی کسی بدمعاش نے آپ کے کسی پلاٹ یا مکان پر قبضہ کیا ہے؟یا آپ کو راستے میں ڈاکوؤں نے لوٹا ہے؟ کیا کبھی چوروں نے رات کو آپ کے گھر سے کوئی قیمتی اثاثہ چرایا ہے؟ کیا کبھی آپ کے نامعلوم دشمن آپ پر رات کے وقت بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹے ہیں؟ کیا آپ کا کوئی بھائی کراچی میں یا کسی بم دھماکے میں قتل ہوا ہے؟ کیا آپ کو کبھی کوئی اندھی گولی لگی ہے؟ کیا آپ کے کسی معصوم بچے کو کسی نے چیر پھاڑ کر پھینکا ہے؟ کیا کبھی آپ کے راہ چلتے دہی لینے جاتے بیٹے کو کسی نے گولی مار کر قتل کیا ہے؟ کیا آپ کی نوجوان بہن کا کبھی ریپ ہوا ہے؟ کبھی گاؤں کے کسی نمبردار یا محلے کے ناظم نے غنڈے بلوا کر آپ کے گھر والوں کے ساتھ ظلم و جبر کیا ہے؟ کیا کبھی آپ کی والدہ کو برہنہ کر کے قصبے کی گلیوں میں پھرایا گیا ہے؟ کیا آپ کے خاندان میں سے کسی نے خودکشی کی ہے؟َ اگر ان سب سوالوں کا نفی میں ہے۔۔۔۔
    تو اے پیرانِ عظام! اور اے مفتیانِ کرام! اور علماءِ ذی وقار! صحافی برادران اور سیاست کے عہدے داران! اور اے مولوی صاحبان! اور کاروباری حضرات یا وکلاء برادران! مذہب و ملت کے سزاواران! او انصاف کی کرسی پر براجمان! او قانون کے محافظان اور کالم نگاران!!! آپ سب سچے ہیں۔آپ کو مظلوم کی ڈیفینیشن (تعریف) کا علم ہی نہیں۔آپ تو ٹی وی پر جس رویے کے ساتھ کوئی فلم یا ڈرامہ ملاحظہ فرما لیتے ہیں بالکل اسی رویے سے جس طرح کوئی کہانی یا ناول پڑھا جاتا ہے، آپ کیلئےظلم و جبر کی داستان جو خبروں والے چینل پر آتی ہے آپ کےلئے وہ بھی ایک لطیفے جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اخبار پر آنے والی ظلم و تشدد کی خبریں تو کسی حساب و شمار میں نہیں۔آپ تو کتابوں سے رٹے رٹائے جملے یاد کرکے ان سب منصبوں (مناصب) تک جا پہنچے اور دن رات وعظ و تلقین کا ذمہ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ جو کہ صرف رسمی حد تک ہے۔ اگر آپ کی باتوں میں تاثیر ہوتی تو جس قدر مصلح اور خیر خواہ اِس قوم کے موجود ہیں ان کی تبلیغ و تحریر سے آج کا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن چکا ہوتا۔ اور دلوں میں کوئی حقیقی انقلاب رونما ہو چکا ہوتا۔

    پھر کسی انقلابی کو اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت باقی نہ رہتی اور نہ ہی حکومت کے ریاستی درندے رات کے وقت جا کرکسی کے گھر پر دھاوا بولتے اور نہ ہی گلیاں خون سے نہاتیں۔ اور ہسپتالوں کے وارڈز زخمیوں سے نہ بھرتے۔ ماؤں کے لال بے گناہ قتل نہ ہوتے۔ بہنوں کے مان نہ ٹوٹتے اور سہاگنوں کے سہاگ سلامت رہتے۔ کہیں کوئی ظلم نہیں ہوا جامعہ منہاج القرآن پر حملہ جائز تھا۔اور۔ فرانس میں ہونے والے حملے بھی جائز تھے۔
     
  2. عبدالرزاق قادری
    آف لائن

    عبدالرزاق قادری ممبر

    شمولیت:
    ‏14 جون 2012
    پیغامات:
    164
    موصول پسندیدگیاں:
    121
    ملک کا جھنڈا:
    معذرت کے ساتھ!
    پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع مردان کے صدر مقام شہرِ مردان میں 29 دسمبر 2015ء بروز منگل کو نادرا کے دفترپر خود کش حملہ ہوا جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے اور بیسیوں زخمی ہوئے، سینکڑوں لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے، کسی پاکستانی یا فیس بکی افلاطون کے کان پر جوں نہیں رینگی پھر مقابلے کرتے ہیں فرانس اور یورپ کے! وہاں 12 لوگ قتل ہوئے تھے 40 ملکوں کے حکمران سڑکوں پر آگئے پورے یورپ میں ماتم کا سماں تھا ابھی حال میں جب پیرس میں پھر حملے ہوئے تو فرانس نے شام میں بمباری شروع کردی، آپ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہیں ضرور کریں۔ مجھے بھی چارلی ایبڈو کے میگزین سے نفرت ہے لیکن ان کے قتل ہونے کے بعد ان کی قوم نے 'درد' محسوس کیا ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن میں سینکڑوں جنازے اٹھ جائیں لوگ دو دو روپے کے دھوکے فراڈ سے چلائی جانے والی اپنی دکانیں بند نہیں کر سکتے، یہ صرف اپنے سسرال کے گھر جاسکتے ہیں یا کیبل-ٹی-وی پر کوئی فلم دیکھ سکتے ہیں یا فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر وقت ضائع کرسکتے ہیں، کچھ زیادہ 'غم' منانے کا موڈ ہوا تو کسی سہیلی سے موبائل پر 'جانو، جانو' کھیل لیا اور گھر سے باہر آکر علامہ، مفتی، محدث، مفسر، محقق، فقیہہ اور مجتہد سب کے عہدے سنبھال لئے۔
    اگر کوئی اور دلچسپی باقی نہ رہی تو یہی عہدے فیس بک پر سنبھال لئے۔
    بھئی دیکھو! پیرس میں حملے ہوئے، فیس بک کے مالک نے اپنی پروفائل پکچر میں فرانس کا جھنڈا لگا لیا دوسرے لوگوں نے بھی لگا لیا، ہمارے افلاطونوں نے اسے غلط قرار دے کر مذکورہ بالا عہدوں کے فرائضِ منصبی سے اپنا دامن بری کر لیا۔ جب امریکہ میں صدارتی امیدوار 'ڈونلڈ ٹرمپ' کے اشتعال انگیز بیان حد سے بڑھتے ہوئے نظر آئے تو فیس بک کے مالک سمیت بہت سے مشہور و معروف غیر مسلموں نے مسلمانوں کی حمایت میں پورے زور سے آواز بلند کی، اس وقت فرانس کے جھنڈے پر فتوے دینے والے افلاطون کہاں سوئے تھے۔
    مزے کی بات یہ ہے کہ بات چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ آسمان کی ہو یا زمین کی، ہمارے افلاطون اسے اپنے ذمے ضرور لے کر 'سوموٹو' ایکشن لیں گے اور اگلے دن گوگل سے ڈاؤنلوڈ کرکے فوٹو شاپ کردہ کچھ تصاویر ضرور دِکھائیں کہ یہ دیکھو کشمیر، فلسطین، شام اور برما میں مسلمانوں پر کیا کیا ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ یہ لوگ اپنے گھر سے بیٹھ کر ان ملکوں کی درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کراچی ایک ملک ہے یا پاکستان کا ایک شہر! انہیں سینیٹ، اسمبلی، مقننہ، عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا کی ڈیفینیشن بھی نہیں آتی۔ انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے صوبے میں کتنے اضلاع ہیں۔ لاہور میں بسنے والے بیشتر افلاطون یہ بھی نہیں جانتے ہوں کہ صبح سورج ان کے گھر کی کس دیوار کی طرف سے طلوع ہوتا ہے۔
    میرا ایک دوست عزیر، مردان سے تعلق رکھتا ہے، حادثے والے دن صرف وہی ایک بندہ مجھے اس حوالے سے مختلف چیزیں پوسٹ اور شیئر کرتا دکھائی دِیا، باقی سب کی عزت تیل لینے گئی ہوئی تھی۔
    میں کہنا چاہتا ہوں، او ظالم درندو! او پاکستان کے مردہ ضمیر باسیو! سینکڑوں لوگوں پر قیامت گزر گئی اور تمہیں معلوم تک نہ پڑا، میں سو فیصد دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ خدانخواستہ پاکستان میں کوئی کتنا بڑا حادثہ کیوں نہ ہوجائے۔ نائن الیون زیادہ لوگ کیوں نہ مرجائیں۔ یہ مردہ دل بے غیرت افلاطون ایسے ہی منہ میں الائچیاں ڈال کر گونگے بن کے بیٹھے رہیں گے، اور کوئی اپنے بچوں کے تحفظ کے چیخ و پکار نہیں کرے گا۔ جب اس پر مصیبت آئے تو کوئی دوسرا نہیں بولے گا۔ جب دوسرے پر آفت آئے گی۔ تیسرا بھی چُپ رہے گا۔ ایسے ہی یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں