کیوں نہ آج پھر سے تجھے پکارا جائے یہ دن تیری گلیوں میں گزرا جائے کچھ بیتے پل بلائے جائیں کچھ نئی یادوں کو سجایا جائے کچھ باتیں تم سنانا کچھ باتیں ہم سے سننا کچھ قصے اور بنائیں کچھ پلوں کو چرایا جائے جدا ہو گئے تھے کبھی جو دو نادان دل پاس آ کے ان کو پھر سے ملایا جائے وہ رنجشیں اور نفرتیں جو اب دلوں کا حصہ ہیں پیار سے ان کو ملایا جائے ہم تم ساتھ رہیں پر پل اور ان لمحوں کو مہکایا جائے روٹھ گئے تھے جو کبھی تم ہم سے پاس آؤ تم ہمارے تمہیں پھر منایا جائے یہ جو ضد پہ اڑا ہے پاگل دل اسے پھر سے سجایا جائے کیوں نہ آج پھر سے تجھے پکارا جائے ( محمد مسعود )