1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیصل سادات کی ذاتی شاعری: نئی لڑی

Discussion in 'آپ کی شاعری' started by فیصل سادات, May 31, 2016.

  1. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    پرانے دوستوں کو علم ہے کہ میری ذاتی شاعری کی لڑی تھی جو کہ بدقسمتی سے ڈیلیٹ ہو گئی تھی۔ اس کے بعد میں نے شاعری پوسٹ کرنی چھوڑ دی تھی۔ اب کافی عرصے بعد سوچا کہ اپنی پرانی ڈائریوں کو کھنگال کر اپنی پرانی شاعری آپ دوستوں سے شیئر کروں۔
    لیکن عرض کروں کہ
    اول: یہ شاعری میری 14 سال کی عمر سے لے کر 28 سال کی عمر تک کی ہے لہذا ساری شاعری کے معیار میں فرق ہوگا۔
    دوم: میں کوئی پروفیشنل شاعر نہیں ہوں۔ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو کہ شائد آپکے ادبی معیار کے مطابق نہ ہو۔ لہذا میری شاعری کو صرف انجوائے کرنے کے لیے پڑھیں۔ ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھیں گے تو شائد آپ کو مایوسی ہو۔
    بہت شکریہ۔
     
  2. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    یہ غزل سب سے پہلے پوسٹ کر رہا ہوں، گو کہ یہ میری اب تک کی سب سے آخری غزل ہے۔

    اے دلِ خوشنما، اے رخِ خوبرو،
    تو مجسم مہک، بزم میں چار سو۔
    تو میرا رازداں، تو میرا ہمنشیں،
    فقط تجھ سے کروں دل کی میں گفتگو۔
    تجھ کو کوئل کہوں یا کہوں چاند میں،
    یا پکاروں تجھے گل کی میں رنگ و بو۔
    قلب تیرا وسیع اور ہے روشن جبیں،
    قول میں پختگی، بات میں آبرو۔
    تیری دلکش ہنسی اور نگاہ میں حیا،
    تیرے نازک سے لب، رنگ جیسے لہو۔
    یہ ہے دل سے دعا، تو سدا خوش رہے،
    تیرے چہرے کی رونق رہے ہو بہو۔

    فیصل سادات
    19 جون 2014
     
  3. الکرم
    Offline

    الکرم ناظم Staff Member

    Joined:
    Jun 25, 2011
    Messages:
    3,090
    Likes Received:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت
     
    فیصل سادات likes this.
  4. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ الکرم صاحب۔ ایک اور غزل پیشِ خدمت ہے۔
    تیری یاد اب تو ستاتی ہے ہر دم،
    کہ قسمت میں میری یہی تشنگی ہے۔
    اجالا تھا جیون میں تیرے ہی دم سے،
    تیرے بعد قسمت میں بس تیرگی ہے۔
    بس اک پل کو بیٹھے تھے، پھر چل دیے تم،
    تمہارے لیے یہ فقط دل لگی ہے۔
    کسی زخم کی ٹھیس باقی نہیں ہے،
    یہ چھائی ہوئی مجھ پہ کیا بے حسی ہے۔
    خدایا بھلا دے مجھے ان کی یادیں،
    کہ برباد ان سے میری زندگی ہے۔
    فیصل سادات
     
  5. عبدالمطلب
    Offline

    عبدالمطلب ممبر

    Joined:
    Apr 11, 2016
    Messages:
    2,134
    Likes Received:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ جناب
     
    فیصل سادات likes this.
  6. الکرم
    Offline

    الکرم ناظم Staff Member

    Joined:
    Jun 25, 2011
    Messages:
    3,090
    Likes Received:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:

    فیصل سادات جی السلام علیکم
    بہت خوبصورت کلام جی مگر
    نہ تو مطلع ہے اورنہ ہی مقطع
     
    فیصل سادات likes this.
  7. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    الکرم صاحب، جیسا کہ خاکسار نے عرض کیا ہے کہ میں پارٹ ٹائم شاعر ہوں۔ مطلع اس لیے نہیں ہے کہ میرا شاعری کا علم ناقص ہے۔ مطلع کا لفظ بارہویں جماعت میں سنا تھا، مطلب یاد نہیں تھا۔ آپ نے نشاندہی کی توچیک کیا، مطلع واقعی ہونا چاہیے تھا، مگر یہ غزل 2،3 سال پہلے لکھی تھی۔ رہی بات مقطع کی تو، وہ بھی اصولا" ہونا چاہیے۔ لیکن میری ذاتی پریکٹس رہی ہے کہ نظموں کے آخری شعر میں تو اپنا تخلص "اظہار" استعمال کیا ہے لیکن اپنی زیادہ تر غزلوں میں (جو کہ چند ایک ہی ہیں ) میں تخلص استعمال نہیں کیا۔
    باقی یہ کہ آپ کی نظرِ کرم کا شکر گزار ہوں، آگے بھی وقت نکالتے رہیے گا۔
     
  8. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    Joined:
    Oct 5, 2006
    Messages:
    131,687
    Likes Received:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
  9. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اک غزل کو شاعرانہ اصول کے تحت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
    پہلے حصے کو یعنی غزل کے آغاز کے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس میں دو مصرے ہوتے ہیں پہلے مصرع کو مصرع اولیٰ اور دوسرے مصرع کو مصرع ثانی کہتے ہیں
    مطلع کے معنی "طلوع ہونے والا" کے ہیں یعنی اس شعر سے غزل کا طلوع ہے۔
    مطلع کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہے لیکن کسی غزل میں ردیف لازمی جز نہیں ہے قافیہ کے بعد اگر ردیف نہ بھی لکھا جائے تو کوئی قید نہیں۔ مطلع ہوجاتا ہے۔
    غزل کا دوسرا حصہ اشعار کہا جاتا ہے یعنی مطلع کے بعد کے اشعار جو آخری شعر سے پہلے تک ہوتے ہیں۔ ان میں شاعر خیالات کے تسلسل یا عدم تسلسل سے اشعار لکھتا ہے لیکن ہر شعر مطلع کے وزن کے مطابق ہوتا ہے ۔ مصرعہ ثانی میں قافیہ ردیف ہونا لازمی ہے۔ البتہ مصرعہ اولی پر پابندی نہیں ۔
    غزل کے تیسرے اور آخری حصے کو مقطع یعنی آخری شعر کہا جاتا ہے جس میں اکثر شاعر اپنا تخلص استمال کرتا ہے اور دوسرے مصرعے یعنی مصرع ثانی میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہے۔
    مقطع کا معنی قطع کرنے والا یعنی کاٹنے والا یا ختم کرنے والا ہے۔ یعنی یہاں کلام ختم ہورہا ہے۔
     
    ھارون رشید likes this.
  10. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    Joined:
    Oct 5, 2006
    Messages:
    131,687
    Likes Received:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ جی
     
    نعیم likes this.
  11. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    ہر بات سے آگاہ ہے خدا دوست در حقیقت,
    وہ اپنے خزانوں کا منہ کھولے بیٹھا ہے۔
    فیصل وہ منتظر ہے اس لمحے کا کہ کب,
    بندہ خلوص دل سے جب اس کو پکارے۔
     
  12. فیصل سادات
    Offline

    فیصل سادات ممبر

    Joined:
    Nov 20, 2006
    Messages:
    1,721
    Likes Received:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    "اندر کا درد"
    زباں سے کہہ تو دیا "آپ کی خوشی میں ہوں خوش"
    مگر اک درد سا اندر سے کاٹتا ہے مجھے
    سہانے خواب جو آنکھوں نے میری دیکھے تھے،
    انہی کی کرچیاں آنکھوں میں آج چبھتی ہیں۔
    کہا تھا آپ سے جو اس پہ اب بھی قائم ہوں،
    تمہاری خوشیوں کی میں آج بھی کرتا ہوں دعا۔
    کیا تھا فیصلہ میں نے، وہ وجہِ رنج نہیں،
    قہر اگر ہےمجھےتو وہ اپنے ضعف پر ہے۔
    خدا کی قسم تمہیں جھونکنا نہیں مقصود،
    کچھ ایسے جرم میں جس میں تمہارا ہاتھ نہیں۔
    بجا تھا ایک ایک قدم جو لیا تم نے،
    تمہارا فرض جو بنتا تھا وہ کیا تم نے۔
    گلہ میں آپ سے کرتا ہوں فقط اتنا سا،
    کہ میرے عشق سے تم اتنے کیوں انجان رہے۔
    تیرے ضمیر کی عدالت میں دعویً کرتا ہوں،
    میں اپنی آنچ محبت کو ہوا دینے کا۔
    ہماری آگ محبت کو بھڑکتے دیکھا،
    اسے پہچان کر بھی ویسے ہی انجان رہے۔
    تیری محتاط فطرت آگئی آڑے اس میں،
    ذکر آیا جو کبھی آگ کو بجھانے کا۔
    پرایا معاملہ سمجھ کر نظر انداز کیا،
    تمہارے مزاج پہ طاری تھی ایسی لا پرواہی۔
    تمیں دکھ دینا اے ساجن نہیں میرا مقصود،
    مگر یہ زخم محبت ہے، رہ نہیں سکتا۔
    عیاں کر دوں میں حالِ دل اگر یہ بات نہ ہو،
    تیری رسوائی کے ڈر سے کسی سے کہہ نہیں سکتا۔
     

Share This Page