1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زبانی تشدد کسے کہتے ہیں؟ ..... تحریر : محمد ریاض

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 اپریل 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    زبانی تشدد کسے کہتے ہیں؟ ..... تحریر : محمد ریاض

    انسانی تعلقات میں تشدد کی نشاندہی جابجا ہوتی ہے۔ اخلاقیات اور سیاست کے میدانوں میں تشدد کا تصور اکثر زیرِبحث رہتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، مثلاً تشدد ہے کیا؟ یہ کون سی شکلیں اختیار کرتا ہے؟ کیا انسانوں کی زندگی سے تشدد کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور کیا تشدد کو بالکل ختم ہو جانا چاہیے؟ تشدد کے بارے میں یہ چند مشکل سوالات ہیں۔ اس تحریر میں اس تشدد کے بارے میں بات کی جا رہی ہے جو زبانی ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت جسمانی اور نفسیاتی تشدد سے الگ ہے۔ زبانی تشدد کو بہت مرتبہ زبانی بدسلوکی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تشدد کی عام قسم ہے۔ اس میں بہت طرح کے رویے شامل ہیں جیسا کہ الزام دھرنا، نیچا دکھانا، زبانی دھمکی دینا، حکم چلانا، بے قدری کرنا، مسلسل نظرانداز کرنا، خاموش کرانا، ملامت کرنا، نام بگاڑنا اور حددرجہ تنقید کرنا۔ زبانی کے ساتھ اکثر جسمانی اور نفسیاتی تشدد بھی ہوتا ہے۔
    نفسیاتی تشدد کی طرح زبانی تشدد کے بارے میں دو سوالات کیے جاتے ہیں، اس کا جواز کیا ہے؟ کیا زبانی تشدد کے ردعمل میں جسمانی تشدد کو جائز کہا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے دو مختلف مؤقف ہیں۔ ایک کے مطابق زبانی تشدد جتنا ہو اس کے جواب میں جسمانی تشدد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے مؤقف کے مطابق زبانی تشدد اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا جسمانی تشدد۔ زبانی تشدد کا جائز ردعمل یا جواب کیا ہوگا، جرامیات (کرمنالوجی) میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئی آپ کو اسلحہ دکھا کر دھمکی دیتا ہے، تو کیا یہ صرف زبانی تشدد ہو گا اور کیا اس کے جواب میں جسمانی تشدد کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا ردعمل میں ہر طرح کا جسمانی تشدد کیا جا سکتا ہے؟
    انسان بچپن سے بڑھاپے تک تشدد کی تمام شکلوں کا سامنا یا اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ زبانی تشدد کا رشتہ لسان سے گہرا ہے لہٰذا اس کا خاتمہ دوسری اقسام کے تشدد کی نسبت آسان خیال کیا جاتا ہے۔ گفتگو کے اصول وضع کرنا اور اس پر عمل درآمد کرانا نسبتاً سہل ہے۔
    دوسری جانب بعض لوگ زبانی تشدد کو مظلوموں کی ''آہ‘‘ یا ''آزادی‘‘ کی پکار قرار دیتے ہیں۔ ظلم و زیادتی کے خلاف بعض اوقات طنز کا سہارا لیا جاتا ہے، مذاق اڑایا جاتا ہے اور نقل اتاری جاتی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں