1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لکھنؤ کی برقعہ رائیڈر عائشہ امین، ’میں ماڈرن ہوں لیکن برقعہ میری طاقت ہے‘

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 جنوری 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لکھنؤ کی برقعہ رائیڈر عائشہ امین، ’میں ماڈرن ہوں لیکن برقعہ میری طاقت ہے‘
    عائشہ کو بچپن سے ہی ڈرائیونگ کا شوق رہا، جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں اس عمر میں ان کے کھلونے بھی بائیک اور کار والے ہی ہوا کرتے تھے
    [​IMG]
    نوابوں کے شہر لکھنؤ میں یوں تو کئی ایسی لڑکیاں ہیں جو بائیک چلانے کی شوقین ہیں اور جنہیں ان کے اس شوق کی بنا پر ’بلیٹ کوین‘ کہا جانے لگا ہے لیکن عائشہ امین ایک خاص بائیک رائڈر ہیں جو حجاب پہن کر بائیک چلاتی ہیں۔ اپنے مختلف انداز کی وجہ سے عائشہ کو ’برقعہ رائیڈر‘ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ 22 سالہ عائشہ کو بچپن سے ہی ڈرائیونگ کا شوق رہا، جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں اس عمر میں ان کے کھلونے بھی بائیک اور کار والے ہی ہوا کرتے تھے۔

    لکھنؤ کے راجہ جی پورم کی رہائشی عائشہ ’بلڈنگ میٹریل‘ کا کاروبار کرنے والے محمد امین اور آسیہ کی پانچ اولادوں میں سے ایک ہیں۔ آسیہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی عائشہ جدہ میں پیدا ہوئی تھی جہاں اس کے ابو تعمیر کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ وہاں ہمارے پڑوسی کے پاس ہرلے ڈیوڈسن جیسی بائیک تھی اس لئےعائشہ کو بائیک والے کھلونوں سے کھیلنے کا شوق پیدا ہو گیا۔

    عائشہ نے پہلی مرتبہ 2010 میں اپنے بھائی کی ’اسپلینڈر‘ موٹرسائیکل چلائی تھی۔ 18 سال کی عمر کو عبور کرتے ہوئے عائشہ نے بلٹ رائڈنگ پر مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔ عائشہ اب تک 30 موٹر سائیکلیں چلا چکی ہیں اور ان کے پاس رائل ان فیلڈ اور کے ٹیم بائیک موجود ہے۔ وہ اس وقت لکھنؤ کی واحد ایسی رائڈر ہیں جو برقعہ پہن کر بائیک دوڑاتی ہیں اور یہی انداز انہیں سب سے جدا کرتا ہے۔

    [​IMG]

    لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے کشش علی کا کہنا ہے کہ ’’میں اس کا نام نہیں جانتا لیکن اکثر وہ گومتی کے آس پاس موٹرسائیکل چلاتے نظر آ جاتی ہے۔ اسے برقعہ میں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ ان کو دیکھ کر کافی ہمت ملتی ہے۔ بات صرف موٹر سائیکل کی ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیوں کو ان تمام شعبوں میں آگے آنا چاہیے۔‘‘

    عائشہ کا کہنا ہے کہ ’’میں برقعہ پہن کر بائیک اس لئے چلاتی ہوں کیوں کہ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ برقعہ اس طرح کے کاموں میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ اگر میں چاہوں تو برقعہ کے بغیر بھی موٹرسائیکل چلا سکتی ہوں۔ یہ میری خود کی مرضی ہے کہ میں یہ کام برقعہ میں ہی کروں۔‘‘

    [​IMG]
    عائشہ کے مطابق، یہ لڑائی ان مردوں کو جواب دینے کی لڑائی ہے جو خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے بہت سی غلط باتوں کو غلط ثابت کرنا ہیں۔ مثلاً، لڑکی بھاری موٹرسائیکل چلا نہیں سکتی اور برقعہ خواتین کو مرکزی دھارے میں آنے سے روکتا ہے، میں نے ان دونوں ہی باتوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ میں برقعہ بھی پہنتی ہوں اور میں مردوں کی چیز سمجھی جانے والی بلیٹ بھی دوڑاتی ہوں۔‘‘

    انہوں نے مزید کہا، ’’کچھ لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اور مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ملتی ہے جب لڑکیاں مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔ وہ ہاتھ ہلا کر میرا استقبال کرتی ہیں۔ مجھ پر محبتیں لٹاتی ہیں اور با بلند آواز میری تعریف کرتی ہیں۔ میں ماڈرن ہوں لیکن برقعہ میری طاقت ہے۔‘‘

    [​IMG]
    عائشہ کا کہنا ہے کہ لڑکیاں ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو لڑکے کرسکتے ہیں، لہذا انہیں احساس کمتری سے باہر آکر اپنی پسند کے مطابق اپنے کام کا انتخاب کرنا چاہیے۔ عائشہ کا کہنا ہے، ’’لوگ مجھے برقعہ ’رائیڈر‘ کہتے ہیں تو انہیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو خود پر اعتماد رکھنا چاہیے اور جو بھی کام ملے اسے پوری صلاحیت کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔‘‘
     

اس صفحے کو مشتہر کریں