1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین (علیہ السلام)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏3 جون 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    سیدنا امام زین العابدین علی بن حس

    آپ کا نام علی، ابوالحسن کنیت اور زین العابدین لقب تھا، آپ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے فرزند اصغر اور ریاض نبوت کے گل تر تھے۔

    آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس مغرور اور فخر کرنے والے پر تعجب ہوتا ہے جو کل حقیقت میں ایک نطفہ تھا اور کل مردار ہوجائے گا، آپ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ خوف سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یہ غلاموں کی عبادت ہے کچھ (جنت میں جانے کی) طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ تاجروں کی عبادت ہے کچھ خالص رضاءِ الہٰی میں عبادت کرتے ہیں یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

    آپ کا دل خشیت الہٰی سے لبریز رہتا تھا اور اکثر آپ خوف الہٰی سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، ابن عینیہ کا بیان ہے کہ حضرت امام علی بن حسین (علیہ السلام) حج کے لئے احرام باندھنے کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو خوف سے ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور ایسا لرزہ طاری ہوا کہ زبان سے لبیک تک نہ نکل سکا، لوگوں نے کہا آپ لبیک کیوں نہیں کہتے، فرمایا ڈر لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ میں لبیک کہوں اور ادھر کہیں سے جواب ملے لالبیک، تیری حاضری قبول نہیں، لوگوں نے کہا مگر لبیک کہنا تو ضروری ہے، لوگوں کے اصرار پر کہا مگر جیسے ہی زبان سے لبیک نکلا بیہوش ہوکر سواری سے گر پڑے اور حج کے دن تک یہی کیفیت طاری رہی۔

    آپ ہر روز ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے اور وفات تک اس معمول میں فرق نہ آیا، اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین لقب سے ملقب ہوئے، قیام الیل میں سفر و حضر کی کسی بھی حالت میں ناغہ نہ ہوتا تھا۔ اخلاص فی العبادت اور خشیت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضوری کے وقت سارے بدن میں لرزہ طاری ہوجاتا تھا، حضرت عبداللہ بن سلیمان کا بیان ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سارے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا لوگوں نے پوچھا آپ کو یہ کیا ہوجاتا ہے، فرمایا لوگ کیا جانیں؟ میں کس کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور کس سے سرگوشی کرتا ہوں۔

    محویت کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں کچھ بھی ہوجائے آپ کو خبر نہ ہوتی تھی، ایک مرتبہ آپ سجدہ میں تھے کہ کہیں پاس ہی آگ لگ گئی لوگوں نے آپ کو بھی پکارا، اے ابن رسول! آگ لگ گئی اے ابن رسول! آگ لگ گئی لیکن آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا، تاآنکہ آگ بجھ گئی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو آگ کی جانب اس قدر بے پرواہ کس چیز نے کردیا تھا فرمایا دوسری آگ نے جو آتش دوزخ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ، فیاضی اور دریا دلی آپ کا خاص وصف تھا، آپ خدا کی راہ میں بے دریغ دولت لٹاتے تھے، فقراء اور اہل حاجت کی دستگیری کے لئے ہمیشہ آپ کا دست کرم دراز رہتا تھا، مدینہ کے معلوم نہیں کتنے غریب گھرانے آپ کی ذات سے پرورش پاتے تھے اور کسی کو خبر نہ ہونے پائی، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ خفیہ طور پر مستقل سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔

    لوگوں سے چھپانے کے لئے بہ نفس نفیس خود راتوں کو جا کر ان کے گھروں پر صدقات پہنچا آتے تھے، مدینہ میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی معاش کا کوئی ظاہری وسیلہ نہ ہوتا تھا، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ آپ رات کی تاریکی میں خود جاکر ان کے گھروں پر دے آتے تھے۔ غلہ کے بڑے بڑے بورے اپنی پیٹھ پر لاد کر غریبوں کے گھر پہنچاتے تھے۔ وفات کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو جسم مبارک پر نیل کے داغ نظر آئے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹے کی بوریوں کے بوجھ کے داغ ہیں، جنہیں آپ عمر بھر راتوں کو لاد کر غرباء کے گھر پہنچاتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد اہل مدینہ کہتے تھے کہ خفیہ خیرات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دم سے تھی، سائلین کا بڑا احترام کرتے تھے، جب کوئی سائل آتا تو فرماتے میرے توشہ کو آخرت کی طرف لے جانے والے مرحبا پھر اس کا استقبال کرتے، سائل کو خود اٹھ کر دیتے تھے اور فرماتے تھے، صدقات سائل کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتے ہیں۔

    عمر میں دو مرتبہ اپنا کل مال ومتاع آدھا آدھا خدا کی راہ میں دے دیا۔ پچاس پچاس دینار کی قیمت کا لباس صرف ایک موسم میں پہن کر فروخت کرتے اور اس کی قیمت خیرا ت کر دیتے تھے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص کہ جب راضی ہو تو اس کی رضا اسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔

    امام زین العابدین فرماتے تھے کہ ایک رات حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام جوکی روٹی سے سیر ہوکر سوگئے اور معمولی شب قضاء ہوگئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے یحییٰ! اگر تو جنت الفردوس کی طرف ایک مرتبہ بھی جھانک لے تو تمہارا جسم اس کے شوق میں گھل جائے اور تو اتنا روئے کہ آنسو ختم ہوجانے کے بعد تیری آنکھوں سے پیپ بہنے لگے اور تو ا سکی طلب میں اتنی ریاضت و مشقت کرے کہ ٹاٹ کا لباس بھی چھوڑ کر لوہا پہن لے۔
     
  2. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ماشاءاللہ، بہت اچھی تحریر ہے۔ آپ کے پاس اگر دیگر مشاہیرِ اسلام کی سوانح ہوں تو وہ بھی یہاں شائع کریں۔ شاید انہیں پڑھنے سے ہم میں سے کسی کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھے۔

    سیدنا امام زین العابدین (ع) کا کردار قابلِ تقلید ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان کے روحانی مقام کی سمجھ عطا فرمائے اور ان کی پیروی میں دنیا سے ناطہ توڑ کر حق سے تعلقِ خاطر بنانے اور نبھانے کی توفیق سے نوازے۔ آمین
     
  3. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    بہت اچھا مضون ہے اللہ پاک جزا خیر عطا فرمائے
     
  4. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین (علیہ السلام) پر تفصیلی مضمون لکھنے پر اللہ آپ کو جزا دے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت پیارا مضمون ہے۔ ماشاء‌اللہ۔
    اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ آمین
     
  6. سوہنڑا صدیقی
    آف لائن

    سوہنڑا صدیقی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 فروری 2007
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ماشاءاللہ
    بہت زبردست لکھا ہے
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
    لیکن اس کے ساتھ اگر چونکہ ایام محرم الحرام اور صفر المظفر کے ہیں کیا اچھا ہوتا
    کہ واقعات کربلا میں امام عالی مقام کا کردار روایات کی روشنی میں بیان کیا جاتا
    جزاک اللہ
     
  7. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ماشاء اللہ بہت زبردست بات کی ہے آپ نے، مل کر سارے کوشش کرتے ہیں۔
     
  8. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    سیدنا امام زین العابدین کا تصرّف

    یہ واقعہ میں نے ایک عظیم عالم دین کے خطاب میں سنا تھا وہ آپ کی نذر کر رہی ہوں۔ میرا ایمان اسکو کاملاً تسلیم کرتا ہے ۔ آپ میں سے جسکا جی چاہے تسلیم کرلے نہ چاہے تو اسکی مرضی ۔

    سانحہ کربلا کے بعد جب ملعون یزیدی فوجیں گلشنِ اہلبیت کے پھولوں کو قیدی بنا کربلا سے روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔

    اسی دوران کوفہ کا ایک شخص ایک ہرنی کو شکار کرنے کے لیے اسکا تعاقب کررہا تھا۔ وہ ہرنی دوڑتی دوڑتی سیدنا زین العابدین (رض) کے خیمے کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور عرض کی اے آلِ رسول ! میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مجھے اس شکاری سے بچایئے۔ سیدنا امام زین العابدین خیمے سے باہر تشریف لائے اور سارا ماجرا دیکھا۔ آپ نے شکاری سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ہرنی کو جانے دو۔ شکاری نے کہا کہ آپ کو ہرنی کے بچوں کا اتنا خیال ہے تو میرے گھر میں بھی تو بچے ہیں انکو کھانا کہاں سے ملے گا ؟ امام عالی مقام (رض) نے زمین سے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کر اسکی جھولی میں ڈالیں اور فرمایا “دیکھو ! یہ رکھ لو اور کسی سے اسکا ذکر نہ کرنا “ ۔شکاری نے جھولی کھول کر دیکھی تو وہ ہیرے جواہرات بن چکے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا گھر آیا اور ہیرے جواہرات بیوی کے حوالے کیے اور سارا واقعہ سنا ڈالا۔ اب ان دونوں‌پر اس عظیم قافلے کی عظمت آشکار ہوگئی اور انہیں احساس ہوگیا کہ یزیدی فوجوں‌نے کوئی باغیوں کو نہیں بلکہ کنبہء نبوی کے چراغوں کو شہید کر دیا ہے۔ وہ شکاری شخص جذباتی ہو کر کوفہ کی گلیوں میں‌نکل کھڑا ہوا اور بلند آواز سے شور مچا کو یزید کو برا بھلا کہنے لگا اور اہلبیت اطہار (ع) کی عظمت بیان کرنے لگا۔۔۔ اس پر یزیدی فوجیوں نے اسے پکڑ لیا اور قتل کردیا۔
    اسکی بیوی روتے پیٹتے اپنے شوہر کی لاش اور اپنے بچوں سمیت پھر اہلبیت پاک (ع) کے خیموں کے سامنے آگئی اور فریاد کرکے سیدنا امام زین العابدین کو پکارنے لگی ۔ امام علی (ع) خیمے سے باہر نکلے اور عورت سے ماجرا پوچھا۔ عورت کہنے لگی “حضور آپ نے ایک ہرنی کوبچانے کے لیے میرے شوہر کو ہیرے جواہرات عطا فرمائے ۔ اس نے جا کر آپ کی عظمت کا اعلان کوفے کی گلیوں‌میں‌کیا اور یزیدی فوجیوں‌نے میرے شوہر کو قتل کر کے مجھے بیوہ اور میرے بچوں‌کو یتیم کر دیا۔
    آپ نے پوچھا “ خاتون ! اب تو ہم سے کیا چاہتی ہے ؟“ وہ عورت کہنے لگی “آپ کو ہرنی کے بچوں کا اگر اتنا ہی خیال تھا تو میرے بچوں‌کو انکا باپ واپس لوٹا دیجئے “ ۔ حضرت امام زین العابدین نے کہا “اچھا ۔ لیکن پہلے وعدہ کرو کہ اسکے بعد تم لوگ کوفہ چھوڑ جاؤ گے اور کسی سے ہمارا ذکر بھی نہ کرو گے“ عورت نے وعدہ کرلیا۔

    چنانچہ حضرت امام زین العابدین (رض) نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ۔ ابھی ہاتھ نیچے نہ کیے تھے کہ دعا قبول ہوئی اور عورت کا شوہر دوبارہ زندہ ہو گیا ۔ عورت وعدے کے مطابق اجازت لے کر رخصت ہونے لگی تو آخر پوچھے بنا رہ نہ سکی

    “حضرت ! اللہ تعالی نے آپ کے اگر ایسا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے کہ آپ دعا سے کنکریوں کو جواہرات اور یتیم بچوں کو انکا مردہ باپ واپس لوٹا سکتے ہیں۔ تو میدانِ کربلا میں آپ نے یہ ہاتھ کیوں نہ اٹھائے ؟؟“

    سیدنا امام علی (رض) فرمانے لگے “خاتون ! یہ بات تیرے پوچھنے کی نہیں ہے۔ بس اتنا سن لے کہ وہ ہمارا اور ہمارے محبوب رب کا معاملہ تھا۔ ہم مقامِ صبر و رضا کی آزمائش سے گذر رہے تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ میرے بابا اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس امتحانِ صبر ورضا میں پورے اترے “

    اللہ تعالی ہمیں اہلبیت اطہار (ع) کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے اور انکی محبت و اتباع کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ کیاایمان افروز واقعہ ہے سبحان اللہ

    کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی
    زاہرا ہے کلی جسکی حسین و حسن نور


    (اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان :ra: )​
     
  10. سوہنڑا صدیقی
    آف لائن

    سوہنڑا صدیقی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 فروری 2007
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    السلام علیکم احباب
    یہ ایک سائٹ پر میں نے پڑھا تو احباب کےلیے پیش کررہا ہوں

    ۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی عمر ۲۲ سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ھوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔ نھیں کھا جاسکتاکہ راستہ ھی میں یاکربلا پھنچنے کے بعد کھاں بیمار ھوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شھادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ھے کہ ساتویں سے پانی بند ھونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ھوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باھر تھی . عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رھے اسی لئے کربلا کے جھاد میں اس طرح شریک نہ ھوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ھوئے. قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا . وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ھوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے .ادھر امام حسین علیہ السّلام شھید ھوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اھلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا . اس وقت کااھل حرم کااضطراب، خیام میں تھلکہ اور پھران ھی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ھوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظھار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ھیں مگر کیا کھنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا .آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂشکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ الله تعبدًاورقاً(یعنی کوئی معبود نھیں سوائے الله کے جو حق ھے یقیناً حق ھے , کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے .ایمان اور سچائی کی روسے کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے . خدا کے سوا کوئی معبود نھیں ھے،میں اسکی گواھی دیتا ھوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ ۔

    گیارہ محرم کو فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتھائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رھے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ھوجائے . انھیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارھےتھے .
    پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ھوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پھنچا . سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررھے تھے کہ یہ وھی کوفہ ھے جھاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاھزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ھے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ھے . سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتھائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود بھی ایک کوهِ وقار بنے ھوئے خاموش کھڑے تھے . ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمھارا نام کیا ھے ? امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین .,, وہ کھنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نھیں کیا؟(1),, امام نے جواب دیا .»وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنھیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاھل کھنے لگا .''نھیں! بلکہ الله نے قتل کیا"

    امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا" یعنی الله ھی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ھے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ھے جو سب کے لئے ھے.اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کھا. تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ھے اور فوراً قتل کا حکم دیا . یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کھا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے . سیّد سجاد علیہ السّلام نے کھا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے . ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں ال محمد کے بھتے ھوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ھوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سھم جائیں گے مگر بھادر حسین علیہ السّلام کے بھادر فرزند نے تیور بدل کر کھاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ کیا ابھی تک تجھے نھیں معلوم کہ قتل ھونا ھماری عادت ھے اور شھادت ھمای فضیلت ھے ۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنھوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ھوگیا او رثابت ھوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شھادت سے ان کی اولاد و اھل حرم پر کوئی خوف نھیںچھایا بلکہ قاتل اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ھوچکے ھیں . کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ھوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وھاں کے بازارخاص اھتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شھر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رھے تھے . اس وقت حسین علیہ السّلام کے اھل حرم جو تکلیف محسوس کررھے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ھے , ایسے وقت انسان کے ھوش وحواس بجانھیںرھتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ھر موقع پر ھدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رھا تھا اموی حکومت کے ایک ھوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا . اے فرزندِ حسین کس کی فتح ھوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا . تم کو اگر معلوم کرنا ھے کہ کس کی فتح ھوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کھی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ھوئی ۔ ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمش کے دروازے پر پھنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کھا کہ شکر ھے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمھارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا . اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا . ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ھم لوگوں سے واقف نھیں.» فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ھے"قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کھہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اھلبیت کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نھیں مانگتا . بوڑھے نے کھا ھاں یہ آیت میں نے پڑھی ھے , فرمایا وہ رسول کے اھل بیت ھم ھی ھیں جن کی محبت تم پر فرض ھے . یوں ھی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ھے اور آیہ تطھیر میں اھلبیت کالفظ ھے یہ سب آپ نے اس کو یاد دلایا . بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رھا پھر کھا کہ خد اکی قسم تم لوگ وھی ھو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا . ھاں قسم بخدا ھم وھی اھلبیت اور قرابتداررسول ھیں. یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا. عمامہ سر سے پھینک دیا . سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کھا .خداونداگواہ رھنا کہ میں آل محمدکے ھر دشمن سے بیزار ھوں . پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا.,, کیا میری توبہ قبول ھوسکتی ھے ؟ فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ھوگی اور ھمارے ساتھ ھوگے . اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ھوں جو میں نے واقف نہ ھونے کی وجہ سے آپ کی شان میں گستاخی کی .

    کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اھلِ حرم کی دلیرانہ گفتگو، خطبے اور احتجاج وہ تھے جنھوںنے دنیا کو شھادت حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رھے تھے
    (۱)۔ابن زیاد کامقصد اس جملے سے »کیاالله نے علی ابن الحسین علیہ السّلام کو قتل نھیں کیا؟ یہ تھا کہ علی ابن احسین علیہ السّلام (علی اکبر) معاذالله بحکمِ خدا قتل ھوئے ۔ امام علیہ السّلام نے اس کی تردید کرتے ھوئے فرمایا اس کا مطلب یہ ھے کہ ان کا قتل ھر گز حکم خدا سے نھیں بلکہ ان کو فوج یزید نے ظلم سے قتل کیا ھے , یہ دوسری بات ھے کہ مرنے والا اپنی موت سے مرے یا قتل کیا جائے ھر صورت میں قبض روح کرنے والا خدا ھے .
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ الخیر ۔ صدیقی بھائی !!

    بہت ایمان افروز تحریر ہے۔ پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔

    اللہ تعالی ہمیں اپنے حبیب :saw: اور انکے اہلبیت اطہار :as: اور صحابہ کبار :rda: کی محبت ، ادب اور تعظیم اور انکے مقام و مرتبہ کی معرفت عطا فرمائے۔ اور قیامت کے دن ہمارا حشر انکی معیت میں فرمائے۔ آمین
     
  12. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین :saw:
     
  13. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس واقعہ کو بہت تلاش کیا لیکن کہیں بھی حوالہ نہیں ملا مجھے اگر ممکن ہو تو شئیر کیجیے بہت بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں