1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لاجواب غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مخلص انسان, ‏4 جنوری 2016۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    • شادؔ عارفی
    مایوس انقلاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    مقبولِ آنجناب غزل کہہ رہا ہوں میں
    بِن عشق و بے شباب غزل کہہ رہا ہوں میں
    کم اصل و فن مآب غزل کہہ رہا ہوں میں
    اُٹّھی ہے وہ نقاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    مانندِ آفتاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    ساغر میں جیسے شعلۂ عریانِ دختِ زر
    پروردۂ شباب غزل کہہ رہا ہوں میں
    کھُل کھیلنے کا نام تغزّل ہے اس لیے
    بے باک و بے حجاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    گلشن سے مدّعا ہے کوئی رسمسا بدن
    گلشن ہے محوِ خواب غزل کہہ رہا ہوں میں
    صہبا سے کم نشاط نہیں نشّۂ سخن
    ساقی ہٹا شراب غزل کہہ رہا ہوں میں
    محسوس ہو رہا ہے تمھیں ’’لُچپنا‘‘ تو ہو
    ہم جنس و جنس تاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    ہیں فن برائے فن کے ’’ محاسن‘‘ مغالطے
    ’’بِن لذّتِ۱؎ عذاب‘‘ غزل کہہ رہا ہوں میں
    وسمہ لگا لگا کے طباشیر۲؎ عمر پر
    ’’سمبل۳؎ ‘‘ میں لا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں
    چالو ہیں جب کہ نظمِ معرّیٰ علی الحساب
    پندرہ کی انتخاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    مختارِ عامِ شعر و ادب مرحبا کہیں
    دلچسپ و کامیاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    کیا لِکھ رہے ہَیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر
    مَیں نے دِیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں
    کوئل کی تان اور پپیہے کی مُرکیاں
    پگھلا کے نغمہ تاب غزل کہہ رہا ہوں میں
    اے شادؔ انکسار و تعلّی کے طور پر
    کہہ دے بڑی خراب غزل کہہ رہا ہوں میں
    ۱؎ گناہ بے لذّت ۲؎ سفید بالوں والی ۳؎ Symbol
    ٭٭٭
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اے رب اب تو ہماری دعا سُن لے
    یہ ہے درد میں ڈوبی صدا سُن لے
    تجھ کو چاہنے کی ہے سزا یہ کیوں
    شکوہ کچھ تو اب اہلِ وفا سُن لے
    تیرے ہی لئے تو چھوڑا جہاں کو
    زندگی ہے کیوں اک سزا سُن لے
    تیرے بندوں پہ تو یہ جہاں تنگ ہے
    ہے بُجھنے کو یہ اب دیا سُن لے
    ذکر تیرا ہی تو کرتے ہیں ہر دم
    تیرے تو نہیں ہم بے وفا سُن لے
    جان کی تو کوئی بھی نہیں قیمت
    ظُلم کی ہو چکی انتہا سُن لے
    ہم کو دے اے خدا طاقتِ ایمان
    اے خدا تُو ہماری دعا سُن لے
    یہ بجا ہے خطا کار ہے ناصر
    وہ مگر ہے بہت ہی فدا سُن لے
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
    رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
    پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
    اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
    وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
    کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
    چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
    سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں
    ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
    اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں
    گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
    ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں
    ندا فاضلی
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے دریا سے سمٹنے کی ادا سیکھی ہے
    اپنی آنکھوں میں چھپا لو یا بہا دو مجھ کو
    میں نے مہتاب سے مانگی ہیں درخشاں کرنیں
    اپنے ہونٹوں کے جزیروں پہ سجا دو مجھ کو
    میں سرکتے ہوئے ٹیلے پہ کھڑا ہوں اَب بھی
    تیز جھونکے کی طرح آ کے اُڑا دو مجھ کو
    کچی پنسل سے مجھے وقت نے لکھا ہے ہوا پر
    تم میرا غم نہ کرو، آؤ، مٹا دو مجھ کو
    میرے کشکول سے پھوٹے گا تعفن صدیوں
    تم بہادر ہو تو مٹی میں دبا دو مجھ کو
    ناصر ملک
    ٭٭٭
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    روپوش آنکھ سے کوئی خوشبو لباس ہے
    گو دور دور سا ہے مگر آس پاس ہے
    یہ سن کے ریگزار کے ہونٹوں پہ پیاس ہے
    دریا کی بے رخی پہ سمندر اداس ہے
    شام اودھ نے زلف میں گوندھے نہیں ہیں پھول
    تیرے بغیر صبح بنارس اداس ہے
    کھاتی وگرنہ ٹھوکریں چاہت کہاں کہاں
    داتا میرا بڑا ہی تمنا شناس ہے
    رہبر بنا ہوا ہے جو سایہ قدم قدم
    پرتو تیرا ہی میرے کہیں آس پاس ہے
    یا رب ہمارے جذبہ دیدہ وری کی خیر
    جو پھول ہے چمن میں وہ شبنم لباس ہے
    رام اوتار گپتا مضظر
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہتھیلی
    (ہتھیلی مار دیتی ہے)

    اے لڑکی ! تم ہتھیلی پر کوئی تتلی بٹھا دو ناں

    کوئی جگنو اُٹھا کر پھر لکیروں میں سجا دو ناں

    ہتھیلی کی بھنور وادی میں لا کے پتیاں پھینکو

    کسی کی یاد میں بے تاب سا آنسو گرا دو ناں

    ہتھیلی پر چمکتا ہے نشانِ دل ، اُسی پر تم

    کوئی چہرہ محبت کا تخیل سے بنا دو ناں

    کوئی سا گیت دل کے ساز سے گوندھو اَکیلے میں

    محبت کی لکیروں کو وہی نغمہ سنا دو ناں

    ہتھیلی میں کوئی دُزدِ حنا زنجیر سے باندھو

    اُسی روشن مہِ تازہ پہ اِک کانٹا گرا دو ناں

    یہیں پر ایک ننھی سی جو سطرِ وصل ملتی ہے

    وہ شرمندہ سی ریشم ڈور ہے، اُس کو جلا دو ناں

    لکیروں کو مٹا بھی دو، لکیریں مار دیتی ہیں

    ہتھیلی کاٹ پھینکو ناں ، ہتھیلی مار دیتی ہے

    اے لڑکی! اِس ہتھیلی سے بغاوت ہو نہیں سکتی

    اگر یہ رُوٹھ جائے تو محبت ہو نہیں سکتی

    یہی تو لمس دیتی ہے شروعاتِ تعلق کو

    سمندر ہے ، سمندر سے عداوت ہو نہیں سکتی

    اسی دھرتی پہ دریا ہیں ، اِسی پر پھول اُگتے ہیں

    درخشندہ رفاقت ہے، شکایت ہو نہیں سکتی

    یہ بحرِ بے کراں کی تلخیوں سے پرورش پا کر

    رُخِ ماہِ منور سے عبارت ہو نہیں سکتی

    ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے ہیں اوس کے موتی

    مگر بے فیض ہاتھوں سے کرامت ہو نہیں سکتی

    کوئی خورشید مانگے بھی اگر دو چار قطرے تو

    ہتھیلی بول اُٹھتی ہے، سخاوت ہو نہیں سکتی

    سنو لڑکی! یہ لرزیدہ سہارے رُوٹھ جاتے ہیں

    شبِ ہجراں میں پلکوں سے ستارے رُوٹھ جاتے ہیں

    بساطِ جاں کی اکلوتی سہیلی مار دیتی ہے

    لکیروں کو مٹا بھی دو ہتھیلی مار دیتی ہے

    اے لڑکی! تم بڑی مضبوط ہو لیکن سفر میں ہو

    تم اپنی آنکھ میں کھلتے ہوئے خونیں بھنور میں ہو

    نئی دنیا بساؤ تم ، بھلے آنگن میں اِتراؤ

    انوکھے تیر کھاؤ گی، تمہی سب کی نظر میں ہو

    فرازِ دار سے پوچھو صدائے وقت کا نوحہ

    وہی پتہ گرے گا جو فضا کے خیر و شر میں ہو

    سبھی چارہ گرانِ غم ہتھیلی پر پگھلتے ہیں

    اے لڑکی! تم ابھی قسمت رَسا دستِ ہنر میں ہو

    مسلسل گھٹ رہی ہے دل کی آشفتہ سری جانم!

    سنبھل جاؤ تمہی خورشید کی اَب رہ گزر میں ہو

    شفق اندام! تم اُجلی مسافت کے تجسس میں

    چلی تو ہو مگر تم کو بہ کو میری نظر میں ہو

    یہاں پر تو شناسا راستا بھی چھوڑ دیتا ہے

    مسافت مار دیتی ہے، مقدر توڑ دیتا ہے

    سنو! اپنی شرارت یا پہیلی مار دیتی ہے

    ہتھیلی سے نہ اُلجھو یہ ہتھیلی مار دیتی ہے
     
  7. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کرے تو اور ہی وہ احتساب کرتا ہے
    ذلیل کرتا ہے، بے حد خراب کرتا ہے
    سنان و تیر و کماں توڑ دے اُسی پر وہ
    ستم کشی کو جسے انتخاب کرتا ہے
    دمکتا اور جھلکتا ہے برگِ سبز سے کیوں؟
    وہ برگِ زرد سے کیوں اجتناب کرتا ہے
    بھلے جھلک نہ دکھائے وہ اپنے پیاروں کو
    بُلا کے طُور پہ کیوں لاجواب کرتا ہے
    گلوں میں عکس وہ
    ناصر دکھائے خود اپنے
    کلی کلی کو وہی بے نقاب کرتا ہے
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بقائے نسل

    چار کمروں کی جنت کہانی ہوئی
    میرے پُرکھوں کی محنت کہانی ہوئی
    فصل اُجڑی، شجر، پھول، پودے گئے
    ایک پل میں مویشی بھی اوجھل ہوئے
    میری املاک کے سب نشاں مٹ گئے
    سارے منظر اچانک بیگانے ہوئے
    گھر کا رستہ بھی مجھ کو دکھائی نہ دے
    کیا کروں آج کچھ بھی سجھائی نہ دے
    میری بیٹھک نہ ڈیرہ ، نہ مسجد یہاں
    دادی اماں نہ دادا کا مرقد یہاں
    اب نہ بہنیں ، نہ بھابھی ، نہ بھائی یہاں
    کیوں یہ قسمت مجھے لے کے آئی یہاں
    میرا گھر ، میری دُنیا ٹھکانے لگی
    زندگی کس طرف لے کے جانے لگی
    نام درکار ہے اِس کڑے درد کو
    زندگی چاہیے آخری فرد کو

    ٭٭٭
     
  9. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    چاند میری طرح پگھلتا رہا
    نیند میں ساری رات چلتا رہا
    جانے کس دُکھ سے دل گرفتہ تھا
    مُنہ پہ بادل کی راکھ ملتا رہا
    میں تو پاؤں کے کانٹے چُنتی رہی
    اور وہ راستہ بدلتا رہا
    رات گلیوں میں جب بھٹکتی تھی
    کوئی تو تھا جو ساتھ چلتا رہا
    موسمی بیل تھی مَیں ، سُوکھ گئی
    وہ تناور درخت، پَھلتا رہا
    سَرد رُت میں ، مُسافروں کے لیے
    پیڑ ، بن کر الاؤ ، جلتا رہا

    ق

    دل ، مرے تن کا پھُول سا بچّہ
    پتّھروں کے نگر میں پلتا رہا
    نیند ہی نیند میں کھلونے لیے
    خواب ہی خواب میں بہلتا رہا
     
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اُس نگر گئے تم بھی
    یار مر گئے تم بھی



    ہجر کے تماشے میں

    بھول کر گئے تم بھی



    چارسُو اداسی ہے

    اور گھر گئے تم بھی



    بے ثمر زمانے سے

    بے ثمر گئے تم بھی



    فاصلے ڈراتے ہیں

    اور ڈر گئے تم بھی



    اِک طلسمِ شب جاگا

    اِک گزر گئے تم بھی



    بخت کی سواری سے

    لو اُتر گئے تم بھی

    ٭٭٭
     
  11. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    وہ جس سے رہا آج تک آواز کا رشتہ
    بھیجے مری سوچوں کو اب الفاظ کا رشتہ
    تِتلی سے مرا پیار کُچھ ایسے بھی بڑھا ہے
    دونوں میں رہا لذّتِ پرواز کا رشتہ
    سب لڑکیاں اِک دوسرے کو جان رہی ہیں
    یوں عام ہُوا مسلکِ شہناز کا رشتہ
    راتوں کی ہَوا اور مرے تن کی مہک میں
    مشترکہ ہُوا اک درِ کم باز کا رشتہ
    تتلی کے لبوں اور گُلابوں کے بدن میں
    رہتا ہے سدا چھوٹے سے اِک راز کا رشتہ
    ملنے سے گریزاں ہیں ، نہ ملنے پہ خفا بھی
    دم توڑتی چاہت ہے کِس انداز کا رشتہ
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وڈیرہ شاہی کا ہرجائی پن

    سیلاب ایک حشر تھا تو نقشِ قدم اور
    میرے خدا ! نہ لے سکے یہ کوئی جنم اور
    کل زلزلہ تھا جاں گسل ، اب سیلِ بے کراں
    کل بھی لٹا تھا میں ، گرا اب بھی مرا مکاں
    آنکھوں میں عکس جم گیا بابا کی قبر کا
    اے وقت ! امتحان ہے یہ میرے صبر کا
    بیٹے کے ہاتھ سے نیا بستہ پھسل گیا
    بیٹی کا تھا جہیز جو دریا نگل گیا
    ماں ڈھونڈتی ہے زیورات بند آنکھ سے
    لقمہ کوئی جھڑا نہیں چولھے کی راکھ سے
    کوسیں گے حشر تک مرے اُجڑے شجر اسے
    بھولیں گے کس طرح سے مرے بام و در اسے
    اک سمت ہم مصیبتوں میں ہیں گھرے ہوئے
    اک سمت دشمنانِ وطن لوٹنے لگے
    حسرت کہ بھوک سے مرے بچے نڈھال ہیں
    صد حیف ! چور ڈاکوؤں کے ہاتھ لال ہیں
    صدیوں سے کھا رہے تھے جو میری کمائیاں
    وہ ڈیرے دار چھپ گئے ہیں بھاگ کر کہاں
    جو شخص آج میرے دُکھ سے بے نیاز ہے
    کل بھی مرا نہیں بنے گا ، دھوکے باز ہے

    ٭٭٭
     
  13. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کس طرح پاک ہوئے اشک بہانے والے
    یہی معصوم ہیں زندوں کو جلانے والے

    لوگ دیکھیں گے کسی روز مکافاتِ عمل
    لاش بن جائیں گے لاشوں کو گرانے والے

    ننگِ دیں، ننگِ وطن اور جو غدار بھی ہیں
    اب کے باتوں میں نہیں ان کی ہم آنے والے

    آستینوں کے ہیں جو سانپ، کچل دو ان کو
    ورنہ روئیں گے انہیں دودھ پلانے والے

    ان کی سفاکی نے اک چپ سی لگا دی ہے ہمیں
    کتنے ہی نوحے وگرنہ ہیں سنانے والے

    کس نے تاراج کیا شہر کو، سب جانتے ہیں
    اور اوجھل بھی نہیں حکم چلانے والے

    رنگ لائے گی وکیلوں کی ہر اک قربانی
    سعدؔ مٹ جائیں گے سب ان کو مٹانے والے
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہم ایک عمر جلے شمع رہ گزر کی طرح
    اجالا غیروں سے کیا مانگتے قمر کی طرح
    کہاں کے جیب و گریباں جگر بھی چاک ہوئے
    بہار آئی قیامت کے نامہ بر کی طرح
    کرم کہو کہ ستم دل دہی کا ہر انداز
    اتر اتر سا گیا دل میں نیشتر کی طرح
    نہ حادثوں کی کمی ہے نہ شورشوں کی کمی
    چمن میں برق بھی پلتی ہے بال و پر کی طرح
    نہ جانے کیوں یہاں ویرانیاں برستی ہیں
    سبھی کے گھر ہیں بظاہر ہمارے گھر کی طرح
    خدا کرے کہ سدا کاروبار شوق چلے
    جو بے نیاز ہو منزل سے اس سفر کی طرح
    بس اور کیا کہیں روداد زندگی تاباںؔ
    چمن میں ہم بھی ہیں اک شاخ بے ثمر کی طرح
     
  15. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
    ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

    پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
    زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

    مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
    کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

    ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
    سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے

    لٹاتے دولت دنیا کو میکدے میں ہم
    طلائی ساغر مے نقرئی سبو کرتے

    ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
    تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے

    جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
    اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے


    بیاض گردن جاناں کو صبح کہتے جو ہم
    ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے

    یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبت رخ یار
    یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے

    سکھاتے نالۂ شبگیر کو در اندازی
    غم فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

    وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
    دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

    نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ
    برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبتوں میں ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں
    غلط نہ جان کہ اتنے حقیر ہم بھی نہیں

    نہیں ہو تم بھی قیامت کی تند و تیز ہوا
    کسی کے نقش ِ قدم کی لکیر ہم بھی نہیں

    ہماری ڈوبتی نبضوں سے زندگی تو نہ مانگ
    سخی تو ہیں مگر اتنے امیر ہم بھی نہیں

    کرم کی بھیک نہ دے اپنا تخت بخت سنبھال
    ضرورتوں کا خدا تو، فقیر ہم بھی نہیں

    شب سیاہ کے مہمان دار ٹھرے ہیں
    وگرنہ تیرگیوں کے سفیر ہم بھی نہیں

    ہمیں بجھا دے ہماری انا کو قتل نہ کر
    کہ بے ضرر ہی سہی بے ضمیر ہم بھی نہیں
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
    دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
    باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
    ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
    ریت کی اینٹ کی پتھر کی ہو یا مٹی کی
    کسی دیوار کے سائے کا بھروسا کیا ہے
    گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ
    میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصہ کیا ہے
    سنگریزوں کے سوا کچھ ترے دامن میں نہیں
    کیا سمجھ کر تو لپکتا ہے اٹھاتا کیا ہے
    اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہد
    ورنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے
    شاہد کبیر
     
  18. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
    تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے

    خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
    پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے

    پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم
    پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے

    شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
    پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے

    ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
    بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

    آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
    جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے

    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
    ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے

    سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
    چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے

    لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
    اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے

    رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
    مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے

    ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں
    یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے

    ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
    ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے (غزل)
    از جوش ملیح آبادی

    یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے
    یہاں جس شے کو جو سمجھو وہی معلُوم ہوتی ہے
    نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر
    کبھی خود دُھوپ نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے
    کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی
    کبھی پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے
    وہ آہِ صُبح گاہی جس سے تارے کانپ اٹھتے ہیں
    ذرا سا رُخ بدل کر راگنی معلُوم ہوتی ہے
    نہ سوچیں تو نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں
    جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے
    جو سچ پُوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
    وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے
    کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
    اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلُوم ہوتی ہے
    بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
    اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلُوم ہوتی ہے
    کبھی پُر ہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا
    سُریلے تار کی جھنکار سی معلُوم ہوتی ہے
    اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں
    خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے
    پئے بیٹھا ہُوں جوش! علم و نظر کے سینکڑوں قُلزم
    ارے پھر بھی بَلا کی تشنگی معلُوم ہوتی ہے
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    غم دل کسی سے چھپانا پڑے گا
    گھڑی دو گھڑی مسکرانا پڑے گا
    یہ آلام ہستی یہ دور زمانہ
    تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا
    بہت بچ کے نکلے مگر کیا خبر تھی
    ادھر بھی تیرا آستانہ پڑے گا
    ابھی منکر عشق ہے یہ زمانہ
    جو دیکھا ہے ان کو دکھانا پڑے گا
    چلو میکدے میں بسیرا ہی کر لو
    نہ آنا پڑے گا نہ جانا پڑے گا
    نہ ہوگا کبھی فیصلہ کفر و دیں کا
    تمہیں رخ سے پردہ ہٹانا پڑے گا
    نہیں بھولتا سیف عہد تمنا
    مگر رفتہ رفتہ بھلانا پڑے گا
    سیف الدین سیف
     
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
    مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
    کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
    یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
    چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
    چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
    نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
    پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
    ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے
    اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
    خدا جب دوست ہے اے داغ کیا دشمن سے اندیشہ
    ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا

    داغ دہلوی
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
    اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
    اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے
    عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے
    رات کے بعد سحر ہوگی مگر کس کے لئے
    ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے
    روشنی کم تھی مگر اتنا اندھیرا تو نہ تھا
    شمع امید بھی گل ہو گئی جلتے جلتے
    آپ وعدے سے مکر جائیں گے رفتہ رفتہ
    ذہن سے بات اتر جاتی ہے ٹلتے ٹلتے
    ٹوٹی دیوار کا سایہ بھی بہت ہوتا ہے
    پاؤں جل جائیں اگر دھوپ میں چلتے چلتے
    دن ابھی باقی ہے اقبال ذرا تیز چلو
    کچھ نہ سوجھے گا تمہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
    اقبال عظیم
     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    پروفیسر عظیم اقبال کی بینائی چلی گئی تھی ۔ ۔ ۔ مگر آپ نے انتہائی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی شاعری کی ہے خصوصا آپ کا نعتیہ کلام بہت ہی شاندار ہے ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
    مجھ سا ناچیز درِ شاہِ امم تک پہنچا

    ماہ و انجم بھی ہیں جس نقشِ قدم سے روشن
    اے خوشا آج میں اس نقشِ قدم تک پہنچا

    کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ ماہِ تمام
    اس اندھیرے میں ہمیں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا
    (قربان یارسول اللہ ﷺ آپ کی اس کمالِ کرم نوازی پر)

    اس کو کیا کہتے ہیں اربابِ خرد سے پوچھو
    کیسے اک امی لقب لوح و قلم تک پہنچا

    راز اس اشکِ ندامت کا کوئی کیا جانے
    آنکھ سے چل کے جو دامانِ کرمتک پہنچا

    نعت کہنے کو قلم جب بھی اٹھایا اقبال
    قطرہء خونِ جگر نوکِ قلم تک پہنچا
    (اقبال عظیم)​
     
  25. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا

    صبح کے پرتو سے رنگ یاسمن میلا ہوا

    ہوگیا نام کدورت بھی لطافت کے خلاف

    عطر مٹی کا لگایا پیرہن میلا ہوا

    ہوگیا بٹنا غبار راہ جسم صاف پر

    رنگ نکھرا اور بھی جتنا بدن میلا ہوا

    مل گئی پوشاک لے جاتی ہیں جو زمیں مانگ کر

    حلۂ جنت ہوا جو پیرہن میلا ہوا

    صاف اے عریانئ وحشت کہے دیتا ہوں میں

    پوست کھینچوں گا اگر میرا بدن میلا ہوا

    خاکساری سے ہوئے جز و زمیں ہم بعد مرگ

    خاک کا پردا بنا ایسا کفن میلا ہوا

    مل گجے کپڑے پسینے میں معطر ہوگئے

    عطر میں دھویا گیا جو پیرہن میلا ہوا

    بعد مردن بھی تکلف سے کدورت دل میں ہے

    صحبت کافور سے اپنا بدن میلا ہوا

    ہوگیا مسی کا دھوکا صاف اہل دید کو

    دود قلیاں سے لب غنچہ دہن میلا ہوا

    طبع رنگیں کو مکدر سرد آہوں نے کیا

    دو نسیم صبح سے رنگ چمن میلا ہوا

    شیشۂ ساعت کی کیفیت دکھائی یار نے

    دل میں جب اس کے غبار ٓیا بدن میلا ہوا

    کیا تری تلوار بھی مجھ سے غبار آلود تھی

    خون دل کا رنگ کیوں اے تیغ زن میلا ہوا

    ہوگئی بے حس غبار آمد صیاد سے

    خاک تودا لوگ سمجھے جوہرن میلا ہوا

    کیا کدورت لائیں جس پے نمک کی گرمیاں

    شمع کافوری سے رنگ انجمن میلا ہوا

    شاعروں میں گفتگو آئی کدورت کی بہم

    صاف کہتا ہوں کہ اب رنگ سخن میلا ہوا

    کیا لطافت ہے کہ غلطی میں مکدر ہوگیا

    منہ لگاتے ہی ترا رنگ دہن میلا ہوا

    سالک راہ بتاں آخر کو پتھر ہوگئے

    ہوگیا بہاری جو رخت برہمن میلا ہوا

    وصل کی شب باتوں باتوں میں مکدر ہو گئی

    گفتگوئے بوسہ سے رنگ دہن میلا ہوا

    خاک میں مل کر نہ چھوڑا بوسۂ دیوار یار

    بن گیا روزن اگر رنگ دہن میلا ہوا

    کوچۂ گیسو میں کس کی خاک اوڑالائی صبا

    اے پری موباف جعد پرشکن میلا ہوا

    صاف گوئی سے غبار آئینہ میں آیا منیرؔ

    میری باتوں سے دل اہل سخن میلا ہوا


    منیرؔ شکوہ آبادی
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وہ مسیحا قبر پر آتا رہا

    میں موے پر روز جی جاتا رہا

    زندگی کی ہم نے مر مر کے بصر

    وہ بت ترسا جو ترساتا رہا

    واہ بخت نارسا دیکھا تجھے

    نامہ بر سے خط کہیں جاتا رہا

    راہ تکتے تکتے آخر جاں گئی

    وہ تغافل کیش بس آتا رہا

    دل تو دینے کو دیا پر ہم نشیں

    ہاتھ میں مل مل کے پچھتاتا رہا

    دیکھ اس کو ہو گیا میں بے خبر

    دل یکایک ہاتھ سے جاتا رہا

    کیا کہوں کس طرح فرقت میں جیا

    خون دل پیتا تو غم کھاتا رہا

    رات بھر اوس برق وش کی یاد میں

    سیل اشک آنکھوں سے برساتا رہا

    ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اس کو جا بہ جا

    دل خدا جانے کدھر جاتا رہا

    اس مسیحا کی امید وصل میں

    شام جیتا صبح مر جاتا رہا

    عشق کا رعناؔ مرض ہے لا دوا

    کب سنا تو نے کہ وہ جاتا رہا


    مردان علی خاں رانا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
    زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
    صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
    دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو
    پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
    اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو
    وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
    کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
    فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
    وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
    ندا فاضلی
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میرے لبوں پہ آتے آتے کوئی بات تھک گئی
    یہ کیا ہوا کہ چلتے چلتے کائنات تھک گئی
    میں روشنی پہ زندگی کا نام لکھ کے آ گیا
    اسے مٹا مٹا کے یہ سیاہ رات تھک گئی
    میں زندگی کے فاصلوں کو ناپنے نکل پڑا
    قریب منزل سفر میری حیات تھک گئی
    بڑا کٹھن ہے دوستو خود اپنی ذات کا سفر
    کبھی کبھی تو یوں ہوا کہ اپنی ذات تھک گئی
    رہے جنوں کے حوصلے بلند سے بلند تر
    خود آگہی ہزار بار دے کے مات تھک گئی
     
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صحراؤں میں جا پہنچی ہے شہروں سے نکل کر
    الفاظ کی خوشبو میرے ہونٹوں سے نکل کر
    سینے کو میرے کر گیا ایک آن میں روشن
    ایک نور کا کوندا تیری آنکھوں سے نکل کر
    میں قطرہ شبنم تھا مگر آج ہوں سورج
    آ بیٹھا ہوں میں صدیوں میں لمحوں سے نکل کر
    ہو جائیں گے بستی کے در و بام منور
    سورج ابھی چمکے گا دریچوں سے نکل کر
    کیا جانیے اب کون سی جانب کو گیا ہے
    ایک زرد سا چہرہ تیری گلیوں سے نکل کر
    ہر سمت تھا ایک تلخ حقائق کا سمندر
    دیکھا جو تصور کے جزیروں سے نکل کر
    وہ پیاس ہے مٹی پہ زباں پھیر رہے ہیں
    ہم آئے ہیں احساس کے شعلوں سے نکل کر
    ہر آن صدا دیتے ہیں معصوم اجالے
    بیتاب چلے آؤ دھندلکوں سے نکل کر
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ
    کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
    مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
    چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
    نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
    مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
    مگر وہ زہر ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
    جسے بھی چھیدو ہر اک بوند قہر افعی ہے
    ہر اک کشید ہے صدیوں کے درد و حسرت کی
    ہر اک میں مہر بلب غیظ و غم کی گرمی ہے
    حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
    حذر کرو کہ مرا تن وہ چوب صحرا ہے
    جسے جلاؤ تو صحن چمن میں دہکیں گے
    بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
    اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
    بجائے مشک صبا میری جان زار کی دھول
    حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں