1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خون سے ہے زندگی

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خون سے ہے زندگی
    upload_2019-11-27_2-33-29.jpeg
    ڈاکٹر حنا قریشی
    خون کیا ہے؟ لغت کے مطابق خون وہ سرخ رطوبت ہے جو جسم میں گردش کر کے اسے زندہ رکھتی ہے۔ ہماری زندگی میں خون کی کیا اہمیت ہے؟ اس کی کمی، زیادتی یا خرابی ہماری صحت پر کس طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو خون کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں؟ اور کیا ان کے متعلق ابتدائی معلومات ہم سب کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں؟ ان سب سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں خون سے متعلق تحقیق کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی۔ کسی بھی مرض کی تشخیص کے لیے لیبارٹریوں میں خون کو جانچنے کے عمل سے خون کے متعلق سائنسی معلومات اس حد تک وسیع ہو گئی ہیں کہ اس شعبے کو دنیائے طب میں ایک اہم درجہ دیا جانے لگا ہے۔ ماہر امراض خون، خون کے امراض کی صحیح اور بروقت تشخیص کر کے مریض کا باقاعدہ علاج تجویز کرتے ہیں، لیکن دیگر شعبوں کی طرح جنوبی ایشیا میں ان بیماریوں کے ماہرین کی تعداد میں بھی نمایاں کمی پائی جاتی ہے۔ ہماری خوراک میں فولاد کی کمی بھی خون کی کمی کا سبب بنتی ہے۔ خون کی لاتعداد بیماریوں کو ہم صرف سستی اور تھکاوٹ کا نام دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ مریض چڑچڑے پن اور اپنے روزمرہ کے کاموں سے اکتاہٹ کا شکار نظر آنے لگتا ہے۔ بعض مرتبہ یہ بیماریاں معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن اگر ان کی بروقت تشخیص نہ کی جائے تو ان کا اثر جسمانی نظام کے مختلف حصوں کو متاثر کر کے ان معمولی بیماریوں کو بھی غیر معمولی بنا سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ خون رگوں میں دوڑنے والی ایک سرخ رنگ کی رطوبت ہی نہیں بلکہ مختلف اجزا کا امتزاج ہے مثلاً پلازما خون کو مائع حالت میں رکھتا ہے اور اس میں خون کو طبعی مقدار میں پتلا یا گاڑھا رکھنے والے پروٹینز شامل ہوتے ہیں۔ سرخ خلیے یا ریڈ بلڈ سیلز ہمارے جسم کے ہر حصے تک پہنچ کر آکسیجن کی فراہمی کرتے ہیں۔ سفید خلیے یا وائٹ بلڈ سیلز ہمارے جسم کے دفاعی نظام میں خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ بون میرو یعنی ہڈی کا گودا یا نلی دراصل ان خلیوں کو بنانے کی ایک وسیع ترین فیکٹری ہے جو روزانہ کروڑوں کی تعداد میں یہ خلیے یا ذرات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان تمام خلیوں کی قدرت کی طرف سے ایک طبعی عمر مقرر ہے جس دوران یہ اپنا اپنا فعل سرانجام دیتے ہیں اور پھر حیات کے دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں۔ بون میرو کے فعال رہنے سے مر جانے والے خلیوں کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں اور زندگی کا نظام قائم ودائم رہتا ہے۔ بون میرو کے اس فعل میں خرابی، کمی یا زیادتی کی صورت میں مختلف اقسام کی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں جن میں موذی ترین بیماری خون کا کینسر بھی شامل ہے۔ خون کی کمی یا انیمیا: اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس مرض کی عمومی وجہ لوگوں میں فولاد کی کمی کا پایا جانا ہے۔ مخصوص ایام کی وجہ سے بھی خون میں فولاد کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حمل کے دوران بچے کی نشوونما کے لیے ماں کے جسم میں فولاد کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ زچگی بھی فولاد کی کمی کا سبب بنتی ہے۔ بچے کو دودھ پلانے والی مائیں اگر فولاد کی کمی کا شکار ہوں تو ماں اور بچہ دونوں ہی پر اس کا اثر پڑسکتا ہے۔ وہ لوگ اور بالخصوص بچے جو مٹی میں کھیل کود کرتے ہیں اور بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھاتے ہیں، ان کے پیٹ میں اکثر کیڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی جسم میں فولاد کی کمی ہو سکتی ہے۔ تھیلی سیمیا خون کی بیماری ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے متعلق لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔ تھیلی سیمیا مائنر سے متاثر افراد میں خون کی معمولی کمی رہتی ہے۔ یہ کمی بالخصوص حاملہ خواتین میں نمایاں ہو سکتی ہے جبکہ تھیلی سیمیا میجر کے مریض میں خون کی شدید کمی اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں نہ صرف مریض کے لیے وبال جاں بلکہ مریض کے اقربا کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اس مرض کی بروقت تشخیص، اس کے متعلق معلومات اور اس کے علاج سے ان پیچیدگیوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ خون کی کمی کی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً تھیلی سیمیا کی طرح خون کی دوسری موروثی بیماریاں، خون کے خلیوں کا تیزی سے ٹوٹنا (Hemolytic Anemia )، جسم سے خون کا مسلسل بہنا، ہڈی کے گودے کے فعل میں کمزوری یا خرابی، وٹامن کی کمی، گردوں کی بیماری یا کینسر وغیرہ۔ خون کی کمی کا مسئلہ چند احتیاطی تدابیر اپنا کر حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اکثر اوقات مریض کی لاپروائی برتنے سے مرض بڑھ کر خطرناک صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔ مرض کی ابتدائی علامات میں سانس کا پھولنا، سستی و تھکاوٹ کا احساس، روزمرہ کے کاموں میں عدم دلچسپی، پاؤں پر ورم آنا وغیرہ شامل ہیں۔ خون کی انتہائی کمی ہونے پر اعضا کے نظام تنفس میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے اور بالآخر دل کا فعل اس حد تک متاثر ہوتا ہے کہ ہارٹ فیلیئر کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ خون جمانے والے خلیوں کی کمی: پلیٹ لٹس یعنی خون جمانے والے خلیوں کی کمی (Thrombocytopenia) کی بھی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ان خلیوں کا دوران گردش مسلسل ٹوٹنا، ڈینگی وائرس کی انفیکشن، ہڈی کے گودے کا فیل ہو جانا، دوسری جسمانی بیماریوں کی وجہ سے ان خلیوں کے زیادہ استعمال ہو جانے سے بھی ان میں کمی ہو سکتی ہے۔ اس کمی کی علامات میں معمولی چوٹ سے خون کا تیز اور نہ رکنے والا بہاؤ، جسم پر چھوٹے چھوٹے سرخ یا نیلاہٹ مائل نشانات کا نمودار ہونا یا نیل کے بڑے بڑے داغوں کا ظاہر ہونا شامل ہیں۔ پلیٹ لٹس کی شدید کمی اکثر اوقات آنکھوں کے آگے دھندلاہٹ اور بینائی کے ضائع ہونے یا دماغ میں خون آنے کی وجہ سے فالج کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔ تھرومبو سائیٹو پینیا کی بہت سی وجوہات قابل علاج ہیں۔ خون کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مریض کو خون جمانے والے خلیے یعنی پلیٹ لٹس لگانے کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ خون کے سفیدخلیوں کی کمی (لیوکو پینیا): سفیدخلیے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ علاج کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کمی کس قسم کے خلیوںمیں واقع ہو رہی ہے، ان کی کمی سے مریض کو بار بار انفیکشن ہو سکتا ہے جو علاج نہ ہونے پر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ نہ صرف خون میں خلیوں کی کمی بلکہ زیادتی بھی مختلف بیماریوں کو ظاہر کر سکتی ہے۔ ان بیماریوں کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ہو جائے تو مریض کے علاج کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان بیماریوں کی تشخیص کے لیے ایک چھوٹا سا ٹیسٹ بلڈ سی بی سی کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں طبی ماہر بہت رہنمائی کر سکتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں