1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏9 فروری 2019۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ممتاز صوفی بزرگ ،علوم ظاہر و باطن جامع اور بلند پایہ کتب کے مؤلف ہیں۔
    ولادت
    آپ کی ولادت 4 رجب 720ھ بمطابق 1321ء کو ہوئی۔
    نام و نسب
    نام سید صدر الدین محمد ، خواجہ بندہ نوازگیسو دراز تخلص، کنیت ابو الفتح اور لقب شہباز تھا۔ آپ صحیح النسب حسینی سید تھے۔ سلسلہ نسب اٹھارہ واسطوں سے حضرت امام حسین سے جا ملتا ہے۔
    آپ کے والد سید یوسف حسینی راجو قتال قلعہ دہلی کے خاص ملازم تھے۔ آپ کی ولادت دہلی میں ہی ہوئی۔ اس کے بعد آپ کے والدین سلطان محمد تغلق کے حکم پر دولت آباد آ گئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔
    تعلیم و تربیت
    ‎محمد تغلق کے حکم پر علماء، عمائدین اور مشائخین نے دہلی سے دولت آباد کا رخ کیا تو حضرت خواجہ بندہ نوازؒ بھی اپنے والد گرامی حضرت سید یوسف حسینی راجو قتال علیہ الرحمہ کے ساتھ دولت آباد پہنچے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم خلد آباد میں ہوئی، عبدالمجید صدیقی کے بقول شیخ بابو نامی ایک بزرگ نے انہیں اپنے مکتب میں پڑھایا اور حدیث و فقہ کے ابتدائی درس دئے تھے۔ اس کے بعد اپنے والد گرامی شاہ راجو قتال سے بھی علوم ظاہری و باطنی کا فیض حاصل کیا۔
    کم عمری ہی سے آپ پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ ۷(سات) سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرمایا تھا۔ سولہ سال کی عمر تک حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے علوم و فنون کی بے شمار منزلیں طے کرلئے تھے۔ اپنے بھائی سید حسین چندن کے ساتھ دہلی میں ۱۶؍رجب ۷۳۶؁ھ کو آپ نے حضرت چراغ دہلی سے شرف بیعت حاصل کیا۔ اس کے بعد مجاہدۂ ریاضت، ذکر مراقبہ اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہے۔ پیر و مرشد کی توجہ اور عنایت خاص کی وجہ سے سلوک کی منزلیں طے کرلیں۔ گھر کی سکونت ترک کرکے خطیرہ شیرخاں میں قیام کیاحضرت پیر نصیر الدین چراغ دہلی کی بارگاہ سے گیسودراز کا لقب عطا ہوا تھا، مرشد و مربی کی صحبت و خدمت میں رہ کر علوم باطنی سے فیضان حاصل کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ قاضی عبد المقتدر، مولانا تاج الدین اور سید شرف الدین کیتھلی سے ظاہری علوم سیکھے۔
    سفر و حضر
    18 برس اپنے شیخ کی خدمت میں گزارے اور ان کے انتقال پر دہلی چھوڑ دیا۔ اجمیر، ناگور، احمد آباد، کاٹھیا وار، گرناتھ پہاڑ، ٹھٹھ، حیدر آباد، لاہور، پاکپتن، ملتان، سری نگر، ہردوانہ، لکھنؤ اور بھڑائچ کا سفر کرتے اور متذکرہ شہروں کے باسیوں کے دل اسلام کی روشنی سے منور کرتے دولت آباد پہنچے اور یہیں قیام کیا۔
    تصنیف و تالیف
    ‎چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں میں خواجہ بندہ نواز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ اسی وجہ سے انہیں ’’سلطان القلم‘‘کا لقب عطا کیا گیا تھا۔ غالباً چراغ دہلوی علیہ الرحمہ کو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اندازہ ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے خواجہ بندہ نواز کو تصنیف و تالیف کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’مرابہ تو کاراست‘‘ یعنی مجھے تم سے کام لینا ہے
    * آپ نے متعدد معروف کتابوں کی شرحیں لکھیں
    * تفسیرِ قرآن مجید۔تفسیر کشاف کی طرز پر قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی۔
    * ملتقت
    * حواشیِ کشف
    * شریعہِ مشارق
    * شرح فقہ الاکبر
    * شرح آداب المریدین
    * شرح التعرف
    * رسالہ سیرت النبی
    * ترجمہ مشرق
    * ترجمہ عوارف المعارف
    * شرح فصوص الحکم
    * ترجمہ رسالہ قشیریہ
    * حاشیہ قوت القلوب
    * جوان الکلیم
    وفات و تدفین
    حضرت گیسو دراز رح کی وفات 16 ذی القعدہ825ھ بمطابق 1422ء میں ہوئی اس وقت ان کی عمر 105 سال تھی،آپ کا مزار گلبرگہ دکن میں ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں کہ عشق کے پانچ درجات ہیں۔
    پہلا درجہ شریعت ہے یعنی جمال محبوب کی صفت سننا تاکہ شوق پیدا ہو۔
    دوسرا درجہ طریقت ہے یعنی محبوب کی طلب کرنا اور محبوب کی راہ میں چلنا ۔
    تیسرا درجہ حقیقت ہے یعنی ہمیشہ محبوب کے خیال مین رہنا۔
    چوتھا درجہ معرفت ہے یعنی اپنی مراد کو محبوب کی مراد مین محو کردینا ۔
    پانچواں درجہ وحدت ہے یعنی اپنے فانی وجود کو ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ختم کردینا اور صرف محبوب کو ہی مؤجود مطلق جاننا ۔
    جب یہ پانچ درجے مرتب ہوجاتے ہیں تو کام ختم ہوجاتا ہے اور صرف محبوب کا عشق باقی رہتا ہے عاشق اور معشوق کی موج بحر عشق میں غرق ہوجاتی ہے ۔چناچہ کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ وجود دو عشق کے درمیان ہے یعنی اول بھی عشق ہوتا ہے اور آخر بھی عشق ہوتا ہے کیونکہ ہر وجود جو مؤجود ہے عشق سے خالی نہیں ہوتا اور نہ عشق کے بغیر قائم و باقی رہ سکتا ہے ۔پش اول و آخر ،ظاہر و باطن جو کچھ ہے عشق ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ بہت اعلی
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ چاچا جی ۔ ۔ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں