1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امام احمد رضا اور بیانِ جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم غلام مصطفی قادری رضوی

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از شہباز حسین رضوی, ‏2 جون 2013۔

  1. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    امام احمد رضا اور بیانِ جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
    غلام مصطفی قادری رضوی
    امام احمد رضا ہندوستان کے بے مثال عالم، فقیہ، مدبر، مصنف اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان کے وصفِ عشقِ مصطفی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ وہ زندگی بھر محبت ِ رسول میں سرشار ہوکر اپنے آقا کے گُن گاتے رہے، وہ زندگی بھر سیرتِ نبوی پر لکھتے رہے، سیرت کے متعدد گوشوں اور پہلوؤں پر لکھا اور لکھنے کا حق ادا کردیا۔ ایک ایک عنوان پر مستقل رسالے تصنیف کیے اور تحقیق کے دریا بہادیے۔
    مبدءِ فیاض نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن بے شمار اوصاف و کمالات سے نوازا، ان میں ”وصف ِ جمال و حسن“ بھی ہے جس کے تذکرے قرآن کریم، احادیث ِ نبویہ اور اقوالِ صحابہٴ کرام میں جگہ جگہ بیان ہوئے۔ ہر دور میں عاشقانِ مصطفی نے حسن و جمال نبوی پر لکھا۔ نظم میں بھی اور نثر میں بھی اور عقیدت و محبت کا ثبوت بطریقِ احسن پیش کیا۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی قدس سرہ اسی کاروانِ عشق کے ساتھی تھے اور انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کمالاتِ حبیب کبریا علیہ التحیة والثناء نظم و نثر میں بیان کرتے رہے، ان کی تصانیفِ جلیلہ اور نعتیہ دیوان کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے خامہٴ گلبہار نے گلہائے رنگارنگ بکھیرے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ وہ عشقِ رسول کے سمندر میں غرق تھے۔ پروفیسر محمد مسعود احمد مظہری کیا خوب تحریر فرماتے ہیں
    ”امام احمد رضا اپنے محبوب دل آرا کی محبت میں ڈوبتے ہیں اور اس کے حسن دل افروز کو شعروں میں ڈھالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے دل مچل رہے ہوں، جیسے آنکھیں برس رہی ہوں، جیسے سینے پھک رہے ہوں، جیسے چشمے اُبل رہے ہوں، جیسے پھوارے چل رہے ہوں، جیسے گھٹائیں چھارہی ہوں، جیسے پھوار پڑ رہی ہو، جیسے مینہ برس رہا ہو، جیسے جھرنے چل رہے ہوں، جیسے دریا بہہ رہے ہوں، جیسے صبا چل رہی ہو، جیسے پھول کھل رہے ہوں، جیسے خوشبو مہک رہی ہو، جیسے تارے چمک رہے ہوں، جیسے کہکشاں دمک رہی ہو، جیسے آفاق پھیل رہے ہوں، جیسے دنیا سمٹ رہی ہو، جیسے زمیں سے اٹھ رہے ہوں، جیسے فضاؤں میں بلند ہورہے ہوں، جیسے آسمانوں میں پھیل رہے ہوں، جیسے دروازے کھل رہے ہوں، جیسے ایک نئے جہاں میں جھانک رہے ہوں، جیسے قدسیوں سے باتیں کررہے ہوں، جیسے حوروں سے سرگوشیاں کررہے ہوں، جیسے باغِ بہشت کی سیر کررہے ہوں، جیسے کوثر و تسنیم سے سیراب ہورہے ہوں، جیسے سینوں میں وسعتِ کونین سمارہی ہو، جیسے جلوہٴ یار کو آمنے سامنے دیکھ رہے ہوں، جیسے وہ آرہے ہوں، جیسے وہ جارہے ہوں، جیسے وہ مسکراکر دل کی کلیاں کھلارہے ہوں، جیسے ہم ان کو دیکھ دیکھ کر مررہے ہوں، جی رہے ہوں، جیسے ان کے نور کی خیرات لوٹ رہے ہوں، جیسے ان کے کرم کی بہاریں دیکھ رہے ہوں، رضا بریلوی کے نعتیہ نغموں کی کیا بات! ایک ایک حرف چمک رہا ہے، ایک ایک لفظ دمک رہا ہے، ایک ایک مصرعہ چہک رہا ہے، ایک ایک شعر میں جہانِ معنی آباد ہے۔“
    (جہانِ رضا، لاہور۔ جنوری 2002، ص: 36 تا 38)
    امام احمد رضا نے جس محبت بھرے انداز میں جمالِ مصطفوی کا تذکرہ کیا اور حسنِ مصطفی بیان کیا، پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر دیدہ و دل جھوم جھوم جاتے ہیں، بھلا جس کی روح کا چین چہرہٴ والضحیٰ ہو جس کے لب پر لمحہ لمحہ ذکرِ حبیبِ خدا ہو، جب وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی خوبیاں بیان کرے گا تو پھر کیفیت کیا ہوگی۔ سنئے وہ کیا فرمارہے ہیں

    حُسنِ بے داغ کے صدقے جاؤں
    یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
    حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سنا
    کہتے ہیں، اگلے زمانے والے

    صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چہرہٴ مصطفی کو دیکھ کر دل و نگاہ کا سرور پاتے تھے۔ جب بارگاہِ نبوت میں رخِ زیباکی زیارت کرتے ہوں گے تو ان کی قسمت کا ستارہ کتنا بلند ہوتا ہوگا اور پھر اس نغمہٴ حسنِ محمدی کو گاتے وقت ان کا اندازِ محبت کیا ہوگا۔ بلاشبہ ان کے دیدہ و دل جھوم جھوم جاتے تھے۔ اپنے انہی سرکاروں سے امام احمد رضا نے فیض پایا تھا۔ حسانِ رسول نے کہا تھا
    واحسن منک لم ترقط عینی
    واجمل منک لم تلد النساء
    خلقت مبرء من کل عیب
    کانک قد خلقت کما تشاء

    اب شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امام احمد رضا نے جو عرض کیا وہ ملاحظہ کریں

    لم یات نظیرک فی نظر
    مثلِ تو نہ شد پیدا جانا
    جگ راج کو تاج تورے سرسو
    ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
    اپنے آقا کے حسن و جمال، خد و خال، زلف و رخسار کی مدحت و تعریف کتنے والہانہ انداز میں بیان کرتے ہیں، ملاحظہ کریں
    سرتابقدم ہے تنِ سلطان زمن پھول
    لب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول
    محب اپنے محبوب کی خوبیاں ہی بیان کرتا ہے، اسے اپنے محبوب کی ذات میں نقص و سقم نظر نہیں آتا۔ پھر جو محبوبِ خدا کا عاشق و محبوب ہو تو اسے کیسے گوارا ہوگا کہ کوئی ان میں نقص نکالے، ان کی صورت و سیرت پر نکتہ چینی کرے، امام احمد رضا کے عشق کی بولی تو دیکھئے۔۔۔
    وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقصِ جہاں نہیں
    یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
    جس عاشقِ رسول نے بھی نثر و نظم میں سیرتِ مصطفی بیان کی، وصفِ حسن و جمال کا ذکر ضرور کیا کہ یہ اہم وصف نعتِ مصطفی کا خاص حصہ ہے
    بادِ رحمت سنک سنک جائے
    وادیٴ جاں مہک مہک جائے
    جب چھڑے بات حُسنِ احمد کی
    غنچہٴ دل چٹک چٹک جائے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    اسی ایرررر کی وجہ سے میں نے دو پارٹ لیکھا ہےـــ

    943175_587314771302978_224829562_n.jpg
     

اس صفحے کو مشتہر کریں