1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہنود، یہود و نصاری اور ہمارے مسلکی اختلافات

Discussion in 'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' started by لاجواب, Jun 30, 2013.

  1. لاجواب
    Offline

    لاجواب ممبر

    وسیم الطاف؛
    پچھلے دنوں تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل نے شعیہ سنی تفریق پہ ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پوری دنیا سے شعیہ سنی اکابرین شریک ہوئے۔ گمان یہی ہے کہ شرکائے کانفرنس نے یہودیوں کی باتیں غورسے سنی ہوں گی کیونکہ اپنے ممالک میں یہ حضرات ایک دوسرے کی کم ہی سنتے ہیں جسکی بظاہر وجہ روزگارکا متاثر ہونا ہے۔یقیناً یہودیوں نے شعیہ سنی اختلافات ختم کروانے کی کوشش کی ہو گی لیکن چونکہ اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ ایران سے ہے لہذا گمان یہی ہے کہ اسرائیل نے شعیہ حضرات کویہ بھی باَور کروانے کی کوشش کی ہوکہ واقعہ کربلا سے ہمار ا کوئی تعلق نہیں ۲۴۹جنگ جمل اور جنگ صفین سے بھی ہمار ا کوئی لینا دینا نہیں تھااور وہ نیزے جن پہ اہل بیت کے سرلٹکائے گئے وہ بھی میڈ ان اسرائیل نہیں تھے ۔ مزید یہ کہ موساد بھی اسوقت تک قائم نہیں ہوئی تھی۔

    دوسری جانب ہمارے ہاں دو بڑے مکاتب فکر ہیں جنہیں عرف عام میں دیوبندی اور بریلوی کہا جاتا ہے۔دونوں مسالک میں خاصے فقہی اختلافات موجود ہیں جو اکثر تشدد کی صورت میں سامنے آ تے ہیں۔

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت جو ان دونوں مکاتب فکر کی جنم بھومی ہے سے بھی درخواست کی جائے کہ وہ بھی اسی نوع کی ایک کانفرنس منعقد کرڈالے جسمیں دونوں طرف کے سرکردہ افرادکو بتایا جائے کہ مزاروں کو دھماکوں سے اڑانے کی بھارت میں کوئی روایت نہیں رہی اور بھارتی مشائخ کویہ دھڑکا کبھی نہیں ہواکہ کب فرزندان توحید اپنا “فریضہ” سرانجام دے ڈالیں۔مزید یہ کہ جب آپکے بڑے ان مسالک کی بنیاد رکھ رہے تھے اسوقت نہ تو بھارت آزاد ہوا تھا اور نہ ہی رآ موجود تھی کہ وہ کوئی سازش کرسکتے۔

    لہذا ہمیں چائیے کہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے اسرائیل اور بھارت کی متوقع کاوشوں کی تعریف کریں کیونکہ یہ کارخیر سرانجام دینے میں ہم خود بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور یہ مسلکی تفریق بجائے کم ہونے کے دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔گمان غالب ہے کہ ان کانفرنسوں کے نتیجے میں امہ کے تعلقات یہودو ہنود سے توبہتر ہوجائیں لیکن امکان ا س بات کابھی ہے کہ نصاری کامستقبل خطرے میں پڑ جائے چنانچہ بہتر ہے کہ حفظ ماتقدم کے طورپہ نصاری بھی ایک کانفرنس منعقد کرڈالیں جس میں حنفی ٗ مالکی ٗ شافعیٗ حنبلی ٗحیاتی اور مماتی حضرات کو بھی ایک چھت کے نیچے اکٹھا کریں اور انکو بھی باہمی اختلافات حل کرنے کی ترغیب دیں۔

    جو کام مسلم امہ سرانجام نہیں دے سکی ہوسکتا ہے کہ وہ نیک کام ہنود ،یہودونصاری کی کوششوں سے سرانجام پاجائے اورمسلم دنیا میں امن قائم ہو جائے۔
     
  2. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    اسرائیل فنڈ مہیا کرتا ہے تفرقہ پھیلانے والوں کو تاکہ مسلمان ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں اور کمزور ہوتے رہیں ۔اسرائیل مرزیوں کو بھی فنڈ دیتا ہے ۔
     
  3. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    اس خبر کا ماخذ کیا ہے ؟ اسرائیل کو سوائے قطر اور اردن کے کوئی اسلامی ملک تسلیم نہیں کرتا ، اس لیے اسلامی ممالک کے پاسپورٹ اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں اور کسی اسلامی ملک کے علماء کا اسرائیل جانا ممکن نہیں ، البتہ یہ ممکن ہے کہ یورپی ممالک میں رہنے والے اور وہاں کی شہریت حاصل کر لینے والے کچھ علماء یا اسکالرز شریک ہوئے ہوں ، اس صورت میں بھی یہ مزید تفرقہ پھیلانے کی ہی سازش ہے ۔
    میری لاجواب بھائی سے گزارش ہے کہ اس طرح کی خبر کے ساتھ اُس کا حوالہ یا ماخذ بھی بیان کر دیا کریں ۔ شکریہ ۔
     

Share This Page