1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کالج کی یادیں (پارٹ6)

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از رفاقت حیات, ‏8 ستمبر 2015۔

  1. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    سیکنڈ ائیر میں اسلامیات کی جگہ مطالعہ پاکستان تھی۔جس کا پیریڈ ایک ایسے استاد لگاتے تھے جنہوں نے ہسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔سب لوگ انہیں چودھری صاحب کہتے تھے۔ان کی تنخواہ قریباً سوا لاکھ تھی(اس لیے بعض لڑکے انہیں سوا لکھ بھی کہہ دیتے تھے)۔وہ اپنی مرضی کے مالک تھے۔ان کا گھر راولپنڈی میں تھا اس لیے وہ یہیں دندہ میں ہی رہائش پذیر تھے۔

    ا ن کی روٹین یہ تھی کہ ہفتے کے دن کو وہ چلے جاتے اور منگل کے دن کو پیریڈ لگاتے تھے۔ایک ہی پیریڈ میں پورا سبق پڑھا دیتے تھے۔اور لڑکوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں سے پڑھ رہے ہیں۔وہ بس پڑھتے جاتے پڑھتے جاتے،اور جب پیریڈ کی گھنٹی بجتی تو لڑکے کہتے کہ’’ سر جی پیریڈ ہو گیا ہے‘‘تو وہ آگے سے یوں جواب دیتے کہ ان گھنٹیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ،جس نے پیریڈ لگانا ہو گا وہ آجائے گا آپ پریشان نہ ہو‘‘چونکہ گھنٹی ہماری کلاس کے سامنے ہی لگی ہوتی تھی اس لیے وہ کہتے تھے کہ ’’یہ خواہ مخواہ آپ کے سر پر مارتے ہیں ،آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں،اگر میں پرنسپل ہوتا تو میں اس گھنٹی کو اوووو...وہاں لگواتا‘‘۔

    ان کے پیریڈ میں لڑکے طرح طرح کی آوازیں نکالتے جیسا کہ لڑکوں کی عادت ہوتی ہے،لیکن وہ ان آوازوں سے بے نیاز اپنا سبق پڑھ رہے ہوتے،اب اس بات کا یہ نہیں پتا کہ وہ پڑھا بھی رہے ہوتے ہیں یا نہیں۔ان کے ٹیسٹ کا انداز وہی تھا جونیازی صاحب کا تھا۔وہ ٹیسٹ لیتے اور پھر جو لکھا ہوتا اس کو سنتے۔اگر کسی کا لکھا ہوا اس کے سنانے سے نہ ملتا تو وہ کہتے کہ اس بچے نے نقل لگائی ہے اس لیے اس پر کاپی کیس بنتا ہے ،اور جرمانہ کرتے۔

    جرمانہ بھی کتنا تھا ،وہ چار روپے یا تین روپے جرمانہ لیتے۔یہ 2014-15کی بات ہے ۔سب لڑکے ہنستے کہ یہ بھلاکیا جرمانہ ہوا،وہ کہتے کہ میں آپ کے والدین پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔بس یہ ان کی اپنی سوچ تھی۔ ایک دفعہ وہ مطالعہ کی کتابیں چیک کر رہے تھے کہ کس لڑکے کے پاس ہے اور کس کے پاس نہیں۔ایک لڑکے کے پاس نہیں تھی۔اس سے انہوں نے پوچھا کہ’’ کتاب کیوں نہیں لائے‘‘۔تو لڑکے نے جواب دیا کہ ’’گھر رہ گئی ہے‘‘جس پر انہوں نے انتہائی دلچسپ نسخہ بتایا کہ’’ ایسا کرو کہ کسی ویلڈنگ کی دکان پر چلے جاؤ اور وہاں سے کتاب کے نیچے ٹائر لگا لو،اور ریموٹ اپنے پاس رکھ لو‘اس طرح اگر کتاب گھر رہ بھی گئی تو سکول آجائے گی‘‘اور وہ لڑکا کھی کھی کر کے ہنسنے لگا۔


    ایک دفعہ یونہی کلاس میں بات چل نکلی کہ یہ پینٹ شرٹ انگریزوں کا لباس ہے نہیں پہننا چاہیے تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ لو ان کو دیکھو ‘پینٹ شرٹ انگریزوں کا لباس ہے ،ارے بھئی یہ آپ نے اپنے پیسوں کا لیاہے کوئی انگیزوں کے پیسوں سے لیا جو کہہ رہے ہو کہ یہ انگریزوں کا ہے‘‘جس پر چند لڑکوں نے تائید میں سر ہلایا ۔اور باقی اپنا روز کا کام کرنے لگے یعنی ہنسنے لگے۔

    اسی طرح ایک دفعہ کسی لڑکے نے کہا کہ انگریزی زبان نہیں بولنی چاہیے‘‘انہوں نے پھر سے اپنی فلاسفی شروع کر دی کہ ‘‘یہ لڑکا پرانے خیالات کامالک ہے،کہ جس طرح سرسید نے جب انگریزی پڑھنے کو کہا تو مسلمانوں نے انہیں کافر کہنا شروع کر دیا‘با لکل اسی طرح یہ لڑکا بھی اسی خیال کا ہے ۔چونکہ وہ لڑکا حافظِ قرآن تھا ،اس لیے انہوں نے یہ ضرب المثل کہی کہ’’دینِ ملا ،فساد فی سبیل اللہ‘‘ جس پر اس لڑکے کے منہ پر ایک رنگ آتا اور دوسرا جاتا رہا۔اور باقی کلاس کھلکھلانے لگی۔



    آخری اور دلچسپ حصہ آئندہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں