1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

والدین پر اولاد کی ایمانی تربیت کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    والدین پر اولاد کی ایمانی تربیت کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار

    اولاد کو احکامات پر عمل کرنے اور ممنوع چیزوں سے روکنے کاحکم دو، یہ تمہارے لیے آگ سے بچنے کاذریعہ ہے:حدیث نبویﷺ، آپ اگربچے کو اچھاماحول، نیک ساتھی مہیاکریں گے تو وہ نیک صالح بنے گا، لیکن اگراسے گمراہ ماحول میں پلنے بڑھنے کاموقع ملااور بروں کے ساتھ اٹھابیٹھاتوفساد اس کی گھٹی میں پڑے گا، بچہ والدین کے پاس ایک امانت ہے اسے مہذب و شائستہ بنایئے ،اخلاق حسنہ کی تعلیم دیجیے
    ایمانی تربیت سے مراد یہ ہے کہ بچہ جب عقل وشعورکامالک ہوجائے تواسے ایمان کی بنیادی باتیں اور اصول سمجھائے جائیں، سمجھدارہونے پرارکان ا سلام کاعادی بنایاجائے، اورعمر کے مطابق شریعت مطہرہ کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جائے، اصول ایمان سے مراد اللہ تعالیٰ فرشتوں، آسمانی کتابوں، تمام رسولوں، فرشتوں کے سوال وجواب، عذاب قبر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، حساب کتاب، جنت ودوزخ، اور دیگر تمام غیبی امورپر ایمان لاناہے۔

    ارکان اسلام سے تمام بدنی اورمالی عبادات، نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج مراد ہیں، بچوں کو ایمانی تربیت کے ان مفہوموں اورتعلیمات سے روشنا س کرایاجائے، تاکہ وہ عقیدہ، عبادات اورمنہاج و نظام کے لحاظ سے اسلام سے مربوط رہیں اور اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب اورقرآن کے علاوہ کسی اور کتاب کوحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی کوقائدو مقتدا نہ مانیں، اس سلسلے میں ارشادات عالیہ پیش کیے جاتے ہیں:

    ۔1۔بچہ کوسب سے پہلے کلمہ سکھانا

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ، بچوں کوسب سے پہلے کلمہ سکھایا کرو۔یہ اسلام میں داخل ہونے کاذریعہ اور مسلمانوں کا شعار ہے، اس لیے اس کے کان میں سب سے پہلے یہ پڑھنا چاہیے اور زبان سے بھی جاری ہونا چاہیے۔

    ۔2۔ بچے کے بڑاہونے پرسب سے پہلے اسے حلال وحرام کے احکامات سکھائے جائیں

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس کی نافرمانی سے بچو، اولاد کو احکامات پر عمل کرنے اور ممنوع چیزوںسے روکنے کاحکم دو، یہ تمہارے لیے آگ سے بچنے کاذریعہ ہے۔ تاکہ وہ بچپن ہی سے احکامات ربانیہ اور شریعت اسلام سے مربوط رہے۔

    ۔3۔ سات سال کاہو نے پرعبادات کاحکم دینا

    حدیث شریف میں ہے ،اولاد کوسات سال کاہو نے پرنماز کاحکم دواور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو۔ یہی حکم روزہ کاہے جب اس قابل ہو جائیں توروزہ رکھایا جائے تاکہ بچہ عبادات سیکھے اور نوعمری ہی سے ان کاعادی بنے۔(ترمذی)

    ۔4۔ بچے کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، اہل بیتؓ اور صحابہ کرام ؓ کی محبت اور تلاوت قرآن کاعادی بنایاجائے

    بچوں کوآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غزوا ت اور صحابہؓ اور مجاہدین کی سوانح اور تاریخ سے باخبررکھاجائے، تاکہ وہ ان کی پیروی کریں اور تاریخ اسلام سے واقف اور مربوط رہیں۔ بچے کو شروع سے تعلیم قرآن سے آراستہ کیجیے، اسے حفظ کرا یئے احادیث نبویہ اور سیرت وتاریخ یاد کرایئے، مسلمانوں کی زبان اور تاریخ سے واقف کرایئے، عربی کی تعلیم دیجیے تاکہ ملحدین کے الحادی دجل اور مکروفریب اور اہل ضلال اور کافروں کے پروپیگنڈے سے متاثرنہ ہو ۔

    علمائے اخلاق وتربیت کے ہاں یہ مسلم ہے کہ بچہ فطرتًا توحید اور ایمان باللہ پر پیداہوتا ہے اور اس میں اصل کے اعتبار سے طہارت پاکیزگی اور برائیوں سے بعد ہوتاہے، پھراگراسے اچھی تربیت، صاف ستھراماحول اور نیک ساتھی مل جائیں تو وہ راسخ الایمان بن جاتاہے، اعلیٰ اخلاق کامالک ہوتاہے، قرآن کریم نے اسی فطرت ایمانی کوبیان کیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ

    ترجمہ: ہربچہ فطرت سلیمہ پر پیداہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی بناتے ہیں یانصرانی یا مجوسی‘‘(ترمذی )

    بچہ والدین کے پاس ایک امانت ہے وہ پاکیزہ دل نفیس جوہراور موتی کی طرح ہوتا ہے، اسے جیسا عادی بنایاجائے گاویسابن جائے گا، اس لیے اسے مہذب وشائستہ بنایئے اخلاق حسنہ کی تعلیم دیجیے ، آپ اگراسے اچھاماحول، نیک ساتھی مہیاکریں گے تو وہ نیک صالح بنے گا، لیکن اگراسے گمراہ ماحول میں پلنے بڑھنے کاموقع ملااور بروں کے ساتھ اٹھابیٹھاتوفساد اس کی گھٹی میں پڑے گا، برے اخلاق جڑپکڑیں گے، وہ گمراہی، بدبختی اور الحادکا شکارہو کراسلام سے دور ہو جائے گا، والدین کی ذراسی کوتاہی بچوں کوتباہی کے غارمیں دھکیل دیتی ہے، لہٰذابچوں کوغیر مسلموں اور مشنری تعلیم گاہوں میں بھیجنا ان کو اسلام سے دوراور کفرکے قریب کردیتاہے، ملحدو دہریہ قسم کے اساتذہ سے تعلیم دلانابچہ کوگمراہ کردیتا ہے، خطرناک لادینی نظریات اس کی گھٹی میں پڑجاتے ہیں، ملحدوں اور مادہ پرستوں کی کتابوں کے مطالعہ کا موقع دینا اور غیرمسلموں کی زہریلی کتابیں مہیاکرنا اسے اسلام کا دشمن اور تاریخ اور بزرگوں کا مذاق اڑانے والابنادیتاہے، جوباپ بچے کوکھلی چھٹی دے گاوہ کج رو اور گمراہوں سے میل جول کی وجہ سے غیراسلامی افکا راپنا ئے گااور دینی اقدار کا مذاق اڑائے گا، جوباپ بچوں کولادینی نظریات رکھنے والی جماعتوں اور ملحدانہ کافرانہ ذہن رکھنے والی تنظیموں سے منسلک ہونے کی اجازت دے گاوہ بچے گمراہ کن عقائد اور کافرانہ و ملحدانہ باتوں میں بڑھنے پلنے کی وجہ سے دین ومذہب اور اخلاقی اقدار ومقدسات کے دشمن بنیں گے، لہٰذابچوں کی نشوونمادینی ماحول میں کیجیے اور انہیں بنیادی اسلامی باتیں سکھایئے، اس سلسلہ میں آپ کی مسئولیت کی حدود کچھ اس طرح سے ہیں:

    بچوں کوایمان باللہ اور اللہ تعالیٰ کی معجزکن قدرت کے مشاہدے اور آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غوروفکرکی تعلیم دیں تاکہ وہ دلیل وبرہان کے ساتھ ایمان رکھیں اور کوئی مفسدگمراہ انہیں گمراہ نہ کرسکے، قرآن کریم نے جابجاادنی سے اعلیٰ اور محسوس سے غیر محسوس عقلی اشیاء کی طرف رہنمائی کا یہ تدریجی طریقہ بیان کیا ہے، جس سے انسان کسی چیز کی حقیقت تک آسانی سے پہنچ سکتاہے۔

    بچوں کے نفوس میں خشوع وخضوع، تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت وغلامی کی روح پیداکرنا، ان کے سامنے اللہ جل شانہ کی معجزقدرت کھول کربیان کی جائے، اس کی حکومت کی وسعت وعظمت ظاہر کی جائے اس کی قدرت کے مظاہر مشاہدہ کرائے جائیں، نماز کاعادی بنایا جائے، قرآن کریم سن کرمتاثر ہونے اور رونے کی عادت ڈلوائی جائے، یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ قرآن کریم نے خشوع وخضوع اختیارکرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے۔ نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قرآن کریم سے اثرلینے کے لیے اسے دوسروں سے سنتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ سلف صالحین کی بھی یہی حالت تھی ، آہ زاری کی کیفیت آہستہ آہستہ پیداہوجاتی ہے، حدیث میں ہے کہ قرآن کریم پڑھواور رویاکرو،رونانہ آئے تو رو نے کی صورت بنا لو۔

    بچوں کویہ ذہن نشین کرائیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں، وہ ظاہروباطن، آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھیدوں کوجانتے ہیں، تاکہ وہ ہرکام اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے کریں اسی کاحکم دیاگیاہے۔ یہ بھی باور کرائیں کہ اللہ تعالیٰ صرف وہ اعمال قبول کرتے ہیں جواخلاص سے کیے گئے ہوں۔ اور یہ کہ تمام اعمال کادارو مدار نیت ہی پر ہے۔ بچوں کوغوروفکر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے اور مراقبے کاعادی بنائیں، بچے میں محاسبہ کی عادت پیداکریں تاکہ وہ برے خیالات اور بے سروپاافکارپر اپنا محاسبہ کرسکے، حسد، بغض، چغل خوری، غیبت اور حرام وناجائز سے بچے اور شیطانی وساوس آتے ہی یہ یادکرلے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے، اس کی باتیں بھی سن رہاہے اور دیکھ بھی رہاہے، یہ یاد کرتے ہی وہ سمجھ جائے اور بصیرت وفراست سے کام لینے لگے، حدیث شریف میں اس مراقبہ کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا

    ترجمہ: تم اس طرح عبادت کروگویاتم اللہ تعالیٰ کودیکھ رہے ہواور اگریہ تصورقائم نہیں کرسکتے تویہ سمجھ لوکہ وہ توتم کودیکھ ہی رہاہے‘‘۔(ترمذی)

    مغرب کے علمائے تربیت واخلاق اس ایمانی تربیت کے لیے شدت سے کوشاں ہیں تاکہ اپنے معاشرے کوجرائم، گندے اخلاق اور بے حیائی سے نجات دلاسکیں، چنانچہ مغرب کے سب سے بڑے قصہ نویس دستوفسکی، فرانس کے ادیب والٹیئر، امریکہ کے نفسیاتی طبیب ڈاکٹر ہنری لنک، اسٹالن کی بیٹی سوتیلانا، فلسفی کینٹ، سب یہ کہتے ہیں کہ بچہ کی اصلاح اور اس کی اخلاقی ونفسیاتی تربیت کی بنیاداللہ تعالیٰ پر ایمان لاناہے، اور اللہ تعالیٰ پر یقین وایمان کے بغیر کج روی اور فساد کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ایمانی تربیت اچھائیوں اور فضائل کامنبع اور کمالات تک پہنچنے کاذریعہ ہے، اس کے بغیربچہ نہ کسی ذمہ داری کوپوراکرسکتاہے نہ امانت ودیانت سے متصف ہوسکتاہے ، نہ منزل ومقصدکوپہچان سکتاہے، بلکہ وہ حیوانوں کی سی زندگی گزارے گا، جس کامقصدپیٹ بھرنااور حیوانی خواہشات پوری کرنااور دنیاوی لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے سرگرداں رہنا ہوگا، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم نے پہلے ہی فیصلہ سنادیاہے۔

    مربی اور باپ کوبچوں کوایسے دلائل وبراہین سے آشناکراناچاہیے جواللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہوں، جواس کے ایمان وعقیدہ کو مضبوط کریں۔ والدین اور مربیوں کواولاد کے لیے بہترین دینی اسلامی کتابیں مہیاکرنی چاہئیں تاکہ وہ صحیح غذاحاصل کر سکیں۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں