1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

منور رانا ۔۔۔ مہاجر نامہ

Discussion in 'اردو شاعری' started by مخلص انسان, Oct 31, 2015.

  1. مخلص انسان
    Offline

    مخلص انسان ممبر

    مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
    تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

    کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
    کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

    نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
    پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

    عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
    وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

    کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
    کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

    پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
    نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

    جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے
    وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

    یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
    ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

    ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
    ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

    ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے
    اجنتا چھوڑ آئے ہیں الورا چھوڑ آئے ہیں

    سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے
    دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

    ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں
    اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

    گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
    الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

    ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
    کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

    کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
    کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

    شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
    کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

    وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی
    اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

    ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
    کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

    بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
    وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

    یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
    کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

    ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
    کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

    مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں
    سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

    وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
    ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

    یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
    مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

    ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
    میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

    وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
    کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

    اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
    جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

    جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے
    مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

    اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
    ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

    ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا
    جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں
     
    زنیرہ عقیل likes this.
  2. چھٹا انسان
    Offline

    چھٹا انسان ممبر

    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    بہت خوبصورتی سے ہجرت کا درد بیان کیا ہے
     

Share This Page