یہ ممکن ھو نہیں سکتا جو دل نے چاھا تھا وہ مل جائے۔۔ دل اُمید ٹوٹے تو کیا کریں خوشی کے در پہ دستک دے رہے ہیں غم مسلسل ہی کہیں بھی چین نا پائیں تو کیا کریں ۔۔۔
کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ اپنے اِمروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ تجھ سے بے رُخ ہوئے جب آئینہ خانے تیرے کام آئے ہیں یہی دل کے سنوارے ہوئے لوگ
سرد راتوں میں ان کی باتوں میں مجھ پر یہی ستم ہوگا کہ دل قلم قلم ہوگا اور قصیدوں میں میری سوچوں میں ہمیشہ یہی ماتم ہوگا اور دل قلم قلم ہوگا سوچ مثبت ہے تو اندھیرے سے کیا ڈر گل کو یاتو مجھ پر میرے مولا کا کرم ہوگا یا تو ہر سو شب تاریک کا عالم ہوگا زنیرہ گل
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دکھ نہیں پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے
جہانِ دیدہ و دل اب لُٹا معلوم ہوتا ہے نظر کی اوٹ میں کوئی چھُپا معلوم ہوتا ہے طبیبوں کو مرا دُکھ لَا دوا معلوم ہوتا ہے مگر اب تم بتاؤ تم کو کیا معلوم ہوتا ہے جگر میں درد پہلے سے سِوا معلوم ہوتا یے دہانِ زخم اب کھُلنے لگا "معلوم ہوتا ہے" چھُپا بیٹھا ہے آخر کون میرے سازِ ہستی کیں بہر پردہ کوئی صرفِ نوا معلوم ہوتا ہے
میں ڈوپٹہ بھی اوڑھتی ہوں میں بال بھی سنوارتی ہوں میں پردہ بھی کرتی ہوں میں سنگھار بھی کرتی ہوں میں اڑان بھی رکھتی ہوں میں اپنی حدود بھی جانتی ہوں کیونکہ میں بغاوت اور آزادی کے فرق کو پہچانتی ہوں
سردیوں کے موسم میں کھڑکیوں کے شیشوں پر بارشوں کی بوندوں نے دِل میں پچھلی یادوں کا میلہ یوں سجایا ہے مُجھ کو ایک بھیگا سا چہرہ یاد آیا ہے ہاں.....تیری جُدائی کا لمحہ یاد آیا ہے
اک تیرے آنے سے چاند بھی چمکتا تھا چاندنی رواں تھی اک تیرے جانے سے چاند بھی بجھا ہے چاندنی دھواں ہے ------- عامر شاہین
کبھی اکیلے میں مل کر جھنجوڑ دونگا اُسے جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے مجھے ہی چھوڑ گیا یہ کمال ہے اُس کا ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے پسینہ بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دونگا اُسے مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دونگا اُسے بچا کہ رکھتا ہے خود کو وہ مجھ سے شیشہ بدن اُسے یہ ڈر ہے کہ میں توڑ پھوڑ دُونگا اُسے ڈاکٹر راحت اندوری
بلا کے شوخ ہیں، بے طرح کام کرتے ہیں نظر مِلاتے ہی قصّہ تمام کرتے ہیں اُٹھو اُٹھو درِ دولت سے عاشقو! اُٹّھو چلو چلو کہ وہ دیدارعام کرتے ہیں
پھر جیب کو حوس ہے کہ ہو، یوں وہ تار تار ممنُونِ بخیہ گر نہ طبیعت ہُوا کرے پھر گرم آہِ شعلہ فشاں ہے دلِ حزیں پھر گریہ چاہتا ہے کہ طُوفاں بَپا کرے مست گیاوی
جب رات کے اندھیرے چھٹنے کو ہوں اور دن کا اجالا پھیلنے کو ہو تب اس ہونے اور نہ ہونے میں اک صدا گونجتی ہے حی الفلاح بس یہاں لطف بندگی والوں میں اللہ پاک ہم سب کا شمار فرمادیں آمین
اچھے لوگوں کو کبھی بھی آزمانا نہیں چاہیے اچھے لوگوں کی مثال ہیرے جیسی ہوتی ہے جب تم انھیں ٹھوکر مارو گے تو وہ ٹوٹیں گے نہیں لیکن پھسل کر تمہاری زندگی سے دور چلے جائیں گے
جب تم نماز نہیں پڑھتے ہو تو یہ مت سوچو کہ وقت نہیں ملا۔ بلکہ یہ سوچو کہ تم سے ایسی کونسی خطا ہوئی کہ اللہ نے تمہیں اپنے سامنے کھڑا کرنا بھی پسند نہیں کیا