1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دس منٹ میں بیس بہانے یاجھوٹ۔۔ تحریر : افتخار شوکت ایڈوکیٹ

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دس منٹ میں بیس بہانے یاجھوٹ۔۔ تحریر : افتخار شوکت ایڈوکیٹ
    ہم دن میں کتنی باراپنوں سے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور بہانے بھی بناتے ہیں ؟۔دن میں کئی مرتبہ ۔جھوٹ کو ام الخبائث کہا گیا ہے، یہ تمام گناہوں کی جڑ ہے، ان کی ماںہے۔ یہ ’’ماں‘‘ ہمیں بہت ہی پسند ہے۔کبھی خود جھوٹ بولتے ہیں ، اور کبھی اپنے بچوں کو آگے کر دیتے ہیں۔ یوں انہیں دوسروں کی نظروں میںبرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔جب ہم اپنے ہی بچوں کو دوسروں کے ساتھ غلط بیانی کرنے کا سبق دیں گے تو کل کو وہ ہمیں معاف کریں گے؟ہرگز نہیں ۔ کل کو وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔اس وقت ہمیںاپنے ماتھے پر شکن نہیں لانا چاہیے ،کیونکہ یہ سارے سبق ہمارے ہی تو پڑھاے ہوئے ہوتے ہیں۔ہم روز ہی کہتے ہیں۔۔۔کہہ دو ،میں گھر پر نہیں ہوں ،میرا فون ہو تو منع کر دینا،یہ آدمی توروز ہی آ جاتا ہے، کہہ دو میں آج لاہور میں نہیں ہوں،شوہر نے بیوی سے کہا،تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو،میں ساری زندگی تم پر قربان کر دوں گا،ڈیئر ٹیچر، آپ بہت ہی اچھے ہیں آپ کا سکھایا ہوا ہمیں زندگی بھر یاد رہا۔۔یقیناََ جانے انجانے میںبھی ہم بہت سی باتیں ایسی بھی کہہ جاتے ہیں جنہیں جھوٹ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتاہے۔ یہ اور ایسے بہت سے جملے ہم روزانہ تواتر کے ساتھ بولتے رہتے ہیں، کبھی اپنے دوستوںسے تو کبھی رشتے داروں سے ، کبھی کبھی تو اپنی اچھی ہاف (Better Half) یعنی بیوی کو بھی چونا لگانے میںکوئی کمی نہیں چھوڑتے ۔بوقت ضرورت امی جان کی پڑھائی کے لئے دبائو سے بذریعہ جھوٹ جان چھوٹ جاتی ہے۔ایک آدھ بار توان سے بھی کہہ ہی دیتے ہیں کہ ’’میں کھیل کے بعد خوب پڑھوں گا‘‘ آخری بار سیر پر جانے دیں، پھر دیکھیں میں کیسے پڑھتا ہوں‘‘۔کچھ مائیں بچوں کو ڈرانے کے لئے کہتی ہیں کہ’’ تم نے غلط بات کی تو تمہاری ناک لمبی ہو جائے گی۔وغیرہ وغیر،کچھ بچوں میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور کچھبچے بڑے ہو کر اس سے نجات پا لیتے ہیں۔لوگ اپنے آجروں سے جھوٹ بولنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔۔۔تم دیر سے کیوں آئے؟ بس سر، میں کیا کرتا، سڑک بن رہی تھی، ٹریفک جام تھی، کسی نہ کسی کی بیماری تک کا ہر بہانہ بنا دینا بھی ہمیں ازبر ہے ۔اگران سے بھی کام نہ چلے تو تو کسی مرے ہوئے رشتے دار کو بھی مارا جا سکتا ہے۔یا جو پیدا ہی نہیںہوئے ان کو بھی مارا جا سکتا ہے جیسا کہ میرا تایا فوت ہو گیا تھا حالانکہ تایا ہو ہی نہ ۔ قبر میں ان کی روحیں بھی تڑپتی ہو ںگی ،میں میں کہاں آ کے پھنس گئی ،اس بندے کو تو چین ہی نہیں ہے۔یہ مذاق نما جھوٹ بہانہ،ہماری زندگی کا جزو لائنفک یعنی لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ آپ اسے جھوٹ کہہ لیں یا چھوٹ معمولی مذاق، یا زندگی گزارنے کا ڈھنگ، لیکن ہم لوگ ایسا کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم دن میں کتنی مرتبہ بہانے بناتے ہیں،ہلکا پھلکا یا بڑا جھوٹ بولتے ہیں؟ماہرین نفسیات نے عام زندگی میں بولے جانے والے جھوٹ کو پکڑنے کے لئے بھی کئی تجربات کئے۔ اس بارے میںایک مرتبہ عالمی گیر سروے میںیونیورسٹی آف سادرن کیلی فورنیا کی جیری جیلیسن (Jerry Jellison)نے بھی تصدیق کی کہ عام آدمی دن بھر میں 200مرتبہ اپنے رشتے داروں،آفس کے ساتھیوں،آجروں، بزنس پارٹنرز ،بیوی، بچوں یادوستوں کو ’’چونا‘‘ لگاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آفس تو آفس ،ہم میں سے کئی ایک تو اپنی ماں کے ساتھ بھی سچ نہیں بولتے ۔ اب عادت کی پختگی کی علامت کے سوا کچھ نہیں۔یہ جاننا چاہا کہ دنیا میں مجموعی طور پر کتنے کوگ سچ بولتے ہیں اور کتنے لوگ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ،اس تحقیق میں یہ جاننا بہت ضروری تھا کہ کون کون سے لوگ غلط بیانی کرنے کی کشش کر رہے ہیں ؟ اب یہ کیس پتہ چلے کہ کون غلط بیانی کر رہا ہے؟ یہی جاننے کے لئے تو ایک ڈاکٹر نے چوری چھپے جھوٹ پکڑنے والی مشین تیار کر لی۔یعنی دنیا میںجھوٹ کی یلغار کو روکنے کے لئے بھی سائنس دانوں نے جھوٹ کا ہی سہارا لیا۔تب جا کر انہیں پتہ چلا کہ جھوٹ کی عادت بچپن میں ماں باپ سے بھی ہی آتی ہے اوراگر یہ جاری رہے تو جوانی میں پختہ ہو جاتی ہے۔کچھ لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ،وہ دوسروں سے اپنا عہدہ بچانے کے لئے بھی اپنی کار گزریوں کے قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔انہیں اس کی بھی پروا ہ نہیں ہوتی کہ چند ہی منٹ میں سچ سامنے آ جائے گا تو کیا کریں گے۔کچھ لوگ دوسروں کا دل رکھنے کے لئے غلط بات کہہ دیتے ہیں جیسا کہ آپ کی بات درست ہے ، ہاں ،ایسا ہی ہے۔ لیکن نہ تو بات درست ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا ہی ہوتا ہے۔اس میں معاشرے کی بہتری کا راز بھی مضمرہے ، ایہ اچھی بات ہے۔اس بارے میں یونیورسٹی آف ہرٹ فورڈشائرمیں بھی ایک تحقیق ہوئی۔ماہر نفسیات اس نتیجے پر پہنچے کہ دوسو معمولی نوعیت کے جھوٹ بولنے والے بھی دن بھرمیں ایک آدھ کڑاکے دار جھوٹ بھی بول ہی دیتے ہیں، انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان میںہر طبقے کے افراد شامل ہیں، یہ لوگ کبھی اپنی نوکری تو کبھی ا پنے کاروبار کوبچانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ اکثر جھوٹ بے ضررہوتے ہیں،جیسا کہ ۔۔۔آج تو سر آپ نے کمال کر دیا ،اتنا اچھا ڈریس !میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا،کہاں سے خریدا؟یا یہ کہ ’’میں تو ہمیشہ سے ہی آپ کی صلاحیتوں کا معترف ہوں‘‘ ۔لیکن سامنے تعریف کرنمے ولاے کمرے سے نکلتے ہی اسی مین برائیوں کا طومار نکال لیتے ہیں، اور اس کے سامنے کی گئی بات کے بالکل الٹ بات کرتے ہیں۔آپ بھی سن لیجئے،چند منٹ پہلے جس کی تعریف ہو رہی ہوتی ہے، اس کے کمرے سے نکلتے ہی بات الٹ جاتی ہے ۔تعریف کرنے والا ہی کہنے لگتا ہے کہ ۔۔یار بہت ہی عجیب آدمی ہے، کچھ نہیں پتہ اس کو،ایک نمبر کا جاہل ہے،بات کرنے کابھی ڈھنگ نہیں،یہ کوئی ڈریس تھا۔ایسی ہی باتیں کرنے والے ایک صاحب کو ان کے دوست نے کہا کہ ’’بھائی آپ مہمان کو سیڑھیاں تو اترنے دیا کریں ،ابھی وہ آپ کے کمرے سے ہی نکلتا ہے کہ آپ برائی شروع کردیتے ہیں۔یہ ہے کوئی بات!‘‘ کہا جاتا ہے کہ بزنس میں اپنی مصنوعات کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کے لئے تواکثر ہی جھوٹ اور غلط بیانیوں کا سہارا لیتے ہیں۔شاہ عالمی کے ایک بڑے تاجر سے پوچھا کی کہہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے وہ کتنی مرتبہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ تو انہوں نے تو دل ہی توڑ دیا۔کہنے لگے ،’’ایک بار بھی نہیں۔اب ہراوریجنل اور دو نمبرچیز کی مکمل معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہے حتیٰ کہ ریپرز تک کی سٹائل بھی نیٹ پر مل جائیں گے۔ لہٰذا جھوٹ بول کر اپنی مصنوعات بیچنے دور ختم ہو گیا ہے، ‘‘۔یہ بات ہمارے دل کوتو نہیں لگی مگر ہم نے پھر بھی مان لی۔ابھی حال ہی میں یونیورسٹی آ ف میسا چوسٹس کے ماہر نفسیات رابرٹ ایس فیلڈ مین نے کہا ہے کہ ’’عام آدمی چند منٹ کی گفتگومیں دو تین مرتبہ گپ مار ہی دیتا ہے۔121جوڑوں پر تحقیق کے بعد وہ کہتے ہیں کہ عام آدمی جھوٹ بولے،یاگپ ماریبغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ماہر نفسیات نے زیر تحقیق طلبا کو ایک ہی کمرے میں بند کر دیا اور ان سے باتیں کرنے کو کہا۔ کافی دیر تک وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں بولتے رہے جس کے بعد انہیں ایک ہال میں لایا گیا جہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام گفتگو ر یکارڈ کی گئی ہے۔ماہرین نے ان کی ہی باتیں انہیں سناتے ہوئے کہا کہ ’’اب آپ سب اپنی اپنی غلط بات کو الگ کریں۔ ورنہ ہم اس پر بھی تحقیق کر لیں گے‘‘۔ان سب نے بتایا کہ انہوں نے کئی باتیں غلط کی ہیں۔انہوں نے اپنی غلطی بلا چوں و چرامان لی۔جرنل آ ف بیسک اینڈ اپلائیڈ سائیکولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق سے بھی یہی نتیجہ نکلا جا سکتا ہے کہ جھوٹ ،گپ شپ ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ تو نور محفل بننے کے لئے اپنی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ کچھ اپنے آپ کو قابل ترین انسا ن ظاہر کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔انہوں نے یہ دلچسپ بات بھی کی کہ اگرچہ غلط بیانی کرنے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں ہی برابر کا جوڑ ہیں لیکن جھوٹ کے سٹائل میں فرق ہے۔کوالٹی اور شدت میں فرق ہے۔خواتین محفل کا ماحول بہتربنانے کے لئے غلط بیانی کا سہارا لیتی ہیں جبکہ مرد خود کی شان میں ہی بولتے رہتے ہیں۔ ​
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    ماہرین نفسیات نے کہا کہ جھوٹ بالکل مت بولنا ، اللہ میاں کے پاس تو حساب ہو گا ہی ،دنیا میں بھی جھوٹا پکڑا جائے گا۔جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، یعنی یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ہماری باڈی لینگوئج ہی بتا دیتی ہے ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔مگر یہ باڈی لینگوئج کیا ہوتی ہے؟ علمیت جتانے والے سے اگر کوئی ایک سوال کر لیا جائے تو اس کے پسینے چھوٹ جائیں گے، ماتھے پر شکنیں پڑ جائیںگی، ہاتھ کپکپانے لگیں گے ، زبان تتلی ہو جائے گی، وہ آنکھوں مٹکانا شروع ہو جائے گا۔ چہرے کے مسلزز دل کی بات کہنا شروع ہو جاتے ہیں ۔سائنس کی زبان میں اسے ’’ باڈی لینگوئج‘‘ کہا جاتا ہے ۔ آپ کی ایک ایک لینگوئج بولنا شروع ہو جاتی ہے، اور وہ الگ ہی کہانی سناتی ہے ۔

    جھوٹ بہتری کے لئے بولا جائے یا ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے لئے ،دونوں صورتوں میں میں سب سے پہلے جس چیز کا خون ہوتا ہے وہ اعتماد ہے، سب سے پہلے اعتماد کا ہی خون ہوتا ہے۔غلط بیانیاں کرنے والے معاشرے میںاعتماد ہی ختم ہو جاتا ہے،اور اعتماد کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ اعتماد معاشرے میں خون کی طرح ہے، اسی اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہی ہمارے معاشرے میں کاروبار کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ زبانی بزنس کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، تحریری بزنس بھی ممکن نہیں رہا۔ہم سب کا ایک دوسرے پر اسے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ہم نے معروف چینی مفکر کنفیوشس کی ایک بات سچ ثابت کر دی ہے۔کنفیوشس اپنے ایک لاڈلے شادگرد کے ساتھ محو گفتگو تھا ۔شاگرد نے ا ستاد سے سوال کیا،

    کسی بھی ملک یا قوم کو سب سے طاقت ور بنانے کے لئے کن عناصر کی ضرورت پڑتی ہے؟

    کنفیوشس نے کہا ـ:تین عناصر درکار ہوتے ہیں۔۔ طاقتور فوج ،اعتماد اور وافر خوراک۔

    ’’اگر کوئی ملک ان تین میں سے دو ہی عناصر پورے کر سکتا ہو، تو ان میں وہ کون کون سے ہو سکتے ہیں‘‘؟ شاگرد نے دوبار پوچھا

    ’’خوراک کو ڈراپ کر دیا جائے‘‘کنفیوشس بولا۔

    شاگرد کو کسی صورت چین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا کہ’’اگر کسی ملک کو فوج اور اعتماد میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو اسے کس کو چننا چاہئے؟

    ’’ اعتماد کو چن لیا جائے‘‘۔۔کنفیوشس نے جواب دیا۔یعنی کسی بھی ملک کوطاقت ور بنانے کے لئے اعتماد ہی انتہائی بنیادی چیز ہے۔ اعتماد کاہر سطح پر ہوناضروری ہے، لیکناولین تقاضا حکومت اور عوام کے مابین اعتماد قائم ہونے کی ہے۔حکومت اور عوام کے مابین اعتماد ہو گا تو ہی کام چلے گا۔حکومت اور عوام ہر مشکل سے گزر سکتے ہیں، یہ اعتما دعوام اور اداروں کے مابین بھی ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں یہی اعتماد مفقود ہے۔ آئے روز کے جھوٹے وعدوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اورت کرتے کچھ ہیں۔ جس سے قومی اعتمادکو بھی ٹھیس پہنچتی ہے ،ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جھوٹ میں سب سے پہلا نشانہ اعتماد ہی بنتا ہے۔یہی اعتماد گھر یلو رشتوں کو بھی طاقت ور بناتا ہے۔اعتماد کی ذرا سی کمی مقدس ترین رشتوں میں دراڑ ڈال سکتی ہے۔ اس لئے گھر کے ماحول کو اچھے سے اچھا رکھنے کے لئے کبھی بھی غلط بیانی یا جھوٹ سے کام نہ لیجئے۔گھر سے نکلیں تو کاروبار میں ناکامی کی وجہ بھی یہی جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔کہیں بھی مکمل صاف گوئی سے کام نہیں لیا جارہا۔ معاہدے بھی کبھی کبھی محض کاغذ کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوتے۔ اسی لئے ہمارے کاروبار میں برکت باقی نہیں رہی۔ سخت ترین محنت کرنے والے بھی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ یہی المیہ ہمیں قوی سطح پر بھی پریشان کر رہاہے۔اسی لئے کوئی ملک اس قت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک عوام اور حکومت میں بہترین اعتماد کی فضا قائم نہ ہو۔ہمارے ہاں معاشی زوال کی سب سے بڑی وجہ بھی اعتماد کی کمی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں