وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھانے والی ہیں ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
عشق میں نام کر گئے ہوں گے جو ترے غم میں مر کئے ہوں گے اب وہ نظریں ادھر نہیں اٹھتی ہم نظر سے اتر گئے ہوں گئے کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے ان کے گیسو بکھر گئے ہوں گے نور بکھرا ہے راہ گزاروں میں وہ ادھر سے گزر گئے ہوں گے میکدے میں کہ بزم جاناں تک اور جالب کدھر گئے ہوں گے