1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 1

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏9 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    مصنف : سرفراز احمد راہی




    موسم‘ طوفان ِ باد و باراں کےاشاروں پر رقص کررہا تھا۔
    سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔اس نےہا رن دبایا۔تیسری آواز پرگیٹ کھل گیا۔
    بادل ایک بار پھر بڑےزور سےگرجی۔ بارش میں اور شدت آگئی۔کار آگےکو سرکی مگر اس سےپہلےکہ کار گیٹ سےاندر داخل ہو تی‘بجلی زور سےچمکی۔فانوس سےروشن ہوگئی۔
    وہ چونک اٹھا۔
    اس کی تیز نظریں گیٹ کےباہر بائیں ہاتھ بنےچھوٹےسےسائبان تلےچھائےاندھیرےمیں جم گئیں۔
    ”کیا بات اےصاب! “ پٹھان چوکیدار نےبارش میں بھیگتےہوئےپوچھا۔
    ”خان۔۔۔“لیکن اس سےپہلےکہ وہ فقرہ پورا کرتا‘برق پھر کوندی۔وہ تیزی سےکار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔اس دوران خان بھی گیٹ سےباہر نکل آیا۔
    بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئےبغیردو تین لمبےلمبےڈگ بھر کر وہ اس اندھیرےکونےمیں پہنچ گیا‘جہاں دو بار برق نےاجالا کیا تھا۔
    ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
    ”کون ہو تم؟“ اس نےجلدی سےپوچھا اورایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
    ”میں۔۔۔“ ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری ۔ پھراس سےپہلےکہ وہ اجنبی وجود زمین پر آرہتا‘ اس کےمضبوط اور گرم بازوؤں نےاسےسنبھال لیا۔
    ”خان۔“ اس نےپلٹ کر پکارا۔
    ”جی صاب۔ “قریب ہی سے آواز ابھری۔
    ”میں کمرےمیں جارہا ہوں ۔گاڑی گیراج میں بند کرکےوہیں چلے آؤ۔ جلدی۔“
    ”جی صاب۔ “وہ تعمیل حکم کےلئےجلدی سےگاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
    اس نےاس نازک ، برف سےزیادہ سرد اور لہروں سےزیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا‘جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جارہا تھا۔تیز تیز چلتا ہواوہ پورچ پار کرکےبر آمدےمیں پہنچا۔ پاؤں کی ٹھوکر سےدروازہ کھولااور مختصر سی راہداری کو طےکرکےہال میں چلا آیا۔ایک لمحےکو کچھ سوچا‘ پھرسیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
    ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچ کر اس نےپھر دائیں پاؤں سےکام لیا ۔اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
    دھیرےسےاس نےاپنےبازوؤںمیں بھرےاس ریشمیں خزانےکو احتیاط سےسمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا‘پھراسےگرم لحاف میں چھپا دیا۔ شاید اس لئےکہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ایک لمحےکو اس کی نظریں اس سمٹےپڑےخزانےکےتر بتر چہرےپرجم گئیں‘جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپےچاندیا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کررہی تھیں۔اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
    ”اوہ خان۔“ اس نےجلدی سےکہا۔کچھ سوچا پھر تیزی سےٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔
    ڈاکٹر کو فون کرکےوہ حکم کےمنتظر اور چور نظروں سےاس خوابیدہ حسن کو تکتےخان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولےسےمسکرایا۔
    ”خان۔“
    ”جی صاب۔“ وہ گھبرا سا گیا۔
    ”تمام نوکر تو سوچکےہوں گی۔“
    ”جی صاب۔“ اس نےاپنا مخصوص جواب دہرایا۔
    ”ہوں ۔“وہ کچھ سوچنےلگا۔پھر کہا۔”تم نیچےچلےجاؤ ۔ اپنےڈاکٹر صاحب آرہےہیں۔ان کو لےکر اوپر چلے آنا۔“
    ”جی صاب!“ اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    اس نے آگےبڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سےجاگ گیا۔پھر اس کی نادیدہ تپش نےدھیرےدھیرےکمرےکو گرم کرنا شروع کیا۔اس نےمطمئن انداز میں سرہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بسترکےقریب لے آیا۔ بیٹھتےہوئےوہ قدرےجھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونےلگی تھیں۔ نیلاہٹ ابھری چلی آرہی تھی۔
    وہ آہستہ سےلرزی تو بےچینی سےوہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔
    اس کی بےتاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں‘جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔ آہستہ سےاٹھا۔ جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اب وہ بےچینی سےٹہلنےلگا۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسےکوئی تیزی سےسیڑھیاں چڑھتا چلا آرہا ہو۔
    ” آئیے آیئےانکل۔ “وہ کمرےمیں داخل ہوتےادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرین کوٹ اتار کر اس سےمصافحہ کیا۔
    ”کیا بات تھی بیٹی۔ میں تو تمہارا فون سنتےہی۔۔۔“اور ان کی آواز حلق ہی میںاٹک گئی۔حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کےوجود پر ٹھہر گئیں۔وہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔چند لمحوںبعدان کا تجربہ کارہاتھ لڑکی کےماتھےسےہٹا تو وہ کچھ مضطرب سےنظر آرہےتھی۔
    ”خان۔ ۔۔میرا بیگ ۔“ وہ بولےاور خان کےساتھ ہی وہ بھی ان کےقریب چلا آیا۔
    بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنےفرض میں ڈوبتا چلا گیا۔وہ خاموشی سےڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔کتنی ہی دیر گذر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لےکر بستر کی پٹی سےاٹھ کھڑےہوئی۔
    ”انکل!“ وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
    ”الحمدللہ ۔خطرہ ٹل چکا ہی۔ “ وہ آگےبڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔”خان۔ کچن سےدودھ لے آؤ۔“انہوں نےکہا اور خان کمرےسےنکل گیا۔”ہاں۔اب کہو۔ یہ سب کیا چکر ہی؟“ ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
    ”چکر۔۔۔؟“ وہ جھینپ گیا۔”چکر تو کوئی نہیں ہےانکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کےپاس کھڑی نظر آئی۔ میں کار سےنکل کر اس کےقریب پہنچامگرکچھ پوچھنےاور بتانےکی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بےہوش ہوگئی۔ میں اسےاٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کردیا۔ بس ‘یہ ہےساری بات۔“
    ”ہوں ۔ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹ شرارت سےپھڑکی۔” بیٹے۔ لڑکی تھی ناں۔ اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔“
    ” آپ مجھےاچھی طرح جانتےہیں انکل۔“وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دیی۔
    ”میں تو مذاق کررہا تھا۔ ہاں۔۔۔بیگم صاحبہ زمینوں سےنہیں لوٹیں ابھی؟“
    ”جی نہیں ۔ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔“
    اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئےاندر داخل ہوا۔”صاب۔ دودھ بہوت تا۔ہم گرم کر لائی۔ “وہ جگ میز پر رکھتےہوئےبولا۔
    ”یہ تو بہت اچھا کیاخان۔ “وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
    دودھ پی کر فارغ ہوگئےتو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑےہوئی۔”اچھا بیٹی۔ میں چلتا ہوں۔بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔کہیں پھر زور نہ پکڑلی۔“
    ”بہتر انکل۔ “وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔خان نےڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
    ”صبح دس بجےسےپہلےہوش نہیں آئےگا۔ پریشان نہ ہونا۔ “وہ پھر مسکرا دیےاور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنےلگا۔” نیند کےانجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹےرہےگا۔ کیپسول تپائی پر پڑےہیں۔ ہوش آنےپر ہر چار گھنٹےبعد گرم دودھ سےدو کیپسول دیتےرہنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہوگئی۔
    کمرہ خاصا گرم ہوچکا تھا۔نیلےہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آرہےتھی۔اس نےمطمئن انداز میں سر ہلایااور بستر کےقریب چلا آیا۔ سانس اب مناسب رفتار سےچل رہا تھا۔چہرہ پُرسکون تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بےپرواہ کو تکتا رہا۔
    ”صاب۔“ خان کی آواز اسےبچھو کےڈنک ہی کی طرح لگی۔
    وہ تیزی سےپلٹا۔ ”تم ابھی تک یہیں ہو۔“اس کےلہجےمیں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔ اسےنیند نےتنگ کررکھا تھا۔ وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنےکا قصور وار نہ ہوا تھا۔
    ”کوئی حکم صاب؟“ وہ ڈر سا گیا۔
    ”کچھ نہیں۔بس جاؤ۔اور دیکھو۔ اس کمرےمیں کوئی مت آئی۔ میںساتھ والےکمرےمیں آرام کروں گا۔ “
    ”جی صاب۔“وہ سلام کرکےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    چند لمحےوہ بستر پر پڑےمصور کےاس حسین خیال کوگل پاش نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر دھیرےدھیرےچلتا ہوا کمرےسےباہر نکل گیا۔
    بےپناہ دولت۔ لمبی چوڑی جائیداد۔بےاندازہ زمینیں۔ دو کوٹھیاں۔ ایک حویلی۔ کئی کاریں اور بےتحاشا عزت ان دو ماں بیٹےمیں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
    دونوں ہی کی تمنا تھی کہ کوئی تیسرا بھی ان کی ملکیت کا حصہ دار بنی۔ جو ان تین میں چند اور نفوس کا اضافہ کرسکی!مگر۔۔۔امارت کی نظروں میں کوئی وجود جچ نہ رہا تھا۔بوڑھی تجربہ کار نگاہیں صورت کےساتھ سیرت اور خاندان کےساتھ دولت و ثروت بھی چاہتی تھیں۔
    ایک تصویر میں ضروری نہیں کہ مصور ہر ایک کےجذبات کی عکاسی کرسکےاور ہر کسی کےپسندیدہ رنگ بھردی۔ اسےاپنی تصویر کو بہرصورت خوبصورتی اور حسن سےمرصع کرنا ہوتا ہی۔ اب اس کےلئےچاہےاسےکسی بھی قسم کےرنگ منتخب کرنا پڑیں۔
    اور جوانی تھی کہ کسی اور ہی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ اسےدولت نہیں چاہیےتھی کہ اس کےپاس بہت تھی۔
    اسےخاندان نہیں چاہیےتھا۔ کہ ذات پات اس کی نظر میں بےاہمیت شےتھی۔
    اسےصرف اپنےجذبات اور احساسات کی ترجمان تصویر کی تلاش تھی۔وہ خواہ اسے آرٹ گیلری کےوسیع و عریض سجےسجائےقیمتی اور حسین ہال میں نظر آ جاتی ‘یا کسی فاقہ زدہ مصور کےادھورےرنگوں سےبوسیدہ کاغذ پر ابھرتی نظر آجاتی۔
    اسےاور کچھ نہیں چاہیےتھا۔ چاہئےتھا تو صرف یہ کہ جو بھی آئےوہ صرف اسےچاہی۔ اس کےعلاوہ ہر ایک سےبیگانہ ہو۔اس سےپہلےاور اس کےبعد وہ کسی کا خیال اپنےخانہ دل میں نہ سجاپایا ہو۔
    بڑھاپا تجربہ کار تھا۔اپنےاصولوں کا محافظ تھا۔
    جوانی امنگوں بھری تھی۔ حسن اور محبت کی طلبگار تھی ۔
    اور آج۔۔۔ شاید اسےمنزل مل گئی تھی۔دل تو یہی کہہ رہا تھا۔ اور دل جھوٹ بھی تو بولا کرتاہی۔
    ”صاب! آپ کا پون۔۔۔“
    وہ چونک پڑا۔خیالات بکھر گئی۔ بستر سےنکلا اور گاؤن پہنتا ہوا دروازےکی طرف چل دیا۔کمرےکا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔
    ”خان۔ “وہ رک گیا۔
    ”جی صاب۔“
    ”دیکھو۔ باباسیف آچکا ہوگا۔ اسےاوپر بھیجو۔“
    ”جی صاب۔“ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔وہ کچھ سوچتا ہوا ٹیلی فون کےپاس چلا آیا۔
    ”یس ۔طاہر اسپیکنگ ۔“ وہ ریسیور کان سےلگا کر بولا۔
    ”ہیلوطاہر۔“دوسری طرف سےڈاکٹر ہاشمی نےہنس کر کہا۔
    ”اوہ آپ۔۔۔ آپ کا مریض ابھی تک ”ہوش ندارد“ہےانکل۔“ وہ مسکرایا۔
    ”مسیحا پاس رہےتو بیمار کا اچھا ہونےکو جی کب چاہتا ہےطاہر میاں!“وہ ڈاکٹر ہاشمی کی چوٹ پر خجل سا ہوگیا۔رات بھی ان کی باتوں سےیہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کی نظروں کا بھید جان چکےہیں۔”بہرحال‘ اس وقت نو بجےہیں ۔ دس بجےتک ہوش نہ آیاتو مجھےفون کردینا۔ ویسےمیںگیارہ بجےکےقریب خود ہی چلا آؤں گا۔“
    ”بس تو ٹھیک ہے۔ آپ آہی جائیےگا۔“
    ”خدا حافظ۔ “ڈاکٹر ہاشمی نےہلکےسےقہقہےکےساتھ ریسیور رکھ دیا۔ فون بند کرکےوہ پلٹااوربستر کےقریب پڑی کرسی پر جم گیا۔
    ”سلام صاحب۔“ سیف کمرےمیں داخل ہوااور اس کی نظروں میں بھی حیرت سی امنڈ آئی۔
    ”سیف بابا۔یہ ہماری مہمان ہیں اور بیمار بھی۔ “اس نےسیف کی حیرت کو نظر انداز کرتےہوئےرسٹ واچ میں وقت دیکھا۔”ٹھیک ایک گھنٹےبعدہلکےناشتےکےتمام ضروری لوازمات یہاں ہونےچاہئیں!“
    ”بہتر صاحب!“ وہ سوالیہ نظروں کےساتھ بستر پر سوئی لڑکی کو دیکھتا ہوا پلٹا اور برتن اٹھائےباہر نکل گیا۔
    وہ ایک طویل انگڑائی لےکر کرسی سےاٹھااور کھڑکیوں پر سےصرف پردےہٹا دیی‘ پٹ نہ کھولی۔ہوا سرد تھی۔رات کی بارش کےبعد موسم کھل گیا تھا۔
    سورج کافی بلند ہو چکا تھا۔ اس کی زرد کرنیں دھند اور ٹھنڈک کا سینہ چیر چیر کر ہر مقابل شےکو روشن اور گرم کرنےکی کوشش کررہی تھیں۔وہ کتنی ہی دیرکھڑکی کےشیشوں سےباہر دیکھتےہوئےدور نیلے آسمان کی لامحدود وسعتوں میں نجانےکیاتلاش کرتا رہا۔
    ”امی ۔۔۔امی ۔۔۔ آپ کہاں ہیں امی۔۔۔امی۔۔۔“دھیمی سی بڑبڑاہٹ نےاسےچونکا دیا۔وہ تیزی سےپلٹ کر بستر کےقریب چلا آیا۔نرم و نازک وجود متحرک تھا۔لانبی سیاہ پلکیں دھیرےدھیرےکانپ رہی تھیں۔ چہرےپرسرخی دوڑنےلگی تھی۔ہونٹوں کےگوشےلرز رہےتھی۔ پھر دیکھتےہی دیکھتےاس نےہولےسےاپنی پلکوں کی چلمن اٹھا دی۔
    وہ بےچینی سےاس کی ایک ایک حرکت کا مشاہدہ کررہا تھا۔چند لمحوں تک وہ بےحس و حرکت‘ چت پڑی چھت کو گھورتی رہی۔پھرجیسےچونک اٹھی۔گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔اوراسےسامنےدیکھ کر بری طرح گھبرا گئی۔
    ” آپ ۔۔۔ آپ کون ہیں؟ میں کہاں ہوں؟“ روایتی سےالفاظ اس کےلبوں سےابل پڑی۔
    ”گھبرائیےنہیں۔لیٹی رہئی۔ “وہ مسکرا کر اس پر جھک آیا۔شانوں سےتھام کر اس نےپھر اسےلٹا دیامگردوسرےہی لمحےوہ پھر اٹھ بیٹھی۔
    ”میں۔۔۔“
    ”دیکھئی۔ آپ کو میں بدمعاش نظر آتا ہوں یا آپ کو خود پر اعتماد نہیں ہی؟“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولاتو وہ گڑ بڑا گئی۔بیباک مگر شریفانہ تاثر کی حامل نگاہوں نےاسےالجھن میں ڈال دیا۔
    ”میں جانا چاہتی ۔۔۔“
    ” آں ہاں۔ یہ کیا کررہی ہیں آپ؟ “وہ اسےبستر سےاترتا دیکھ کر تیزی سےبولا۔
    ”جی میرا۔۔۔“
    ”ارےبابا‘ کیوں اپنا دماغ تھکا رہی ہیں آپ۔اطمینان سےلیٹ جائیی۔کچھ مجھ سےپوچھئی۔ کچھ مجھےبتائیی۔“ وہ ریشمی لحاف اس پر اوڑھاتا ہوا بولا۔اورنہ جانےکیا سوچ کر اور کیوں وہ چپ چاپ لیٹ گئی۔پھراس کی سوالیہ نظریں کمرےکےدرو دیوار کا تفصیلی جائزہ لینےکےبعداس کےمسکراتےچہرےپر آ کر جم گئیں۔
    ”ویسےایک بات تو بتائیی؟“وہ بےتکلفی سےکرسی گھسیٹ کر اس کےقریب ہوبیٹھا۔
    ”جی۔“ وہ ہولےسےبولی اور نظریں چرالیں۔
    ”کیا آپ کو بارش میں بھیگنےکا بہت شوق ہے؟“
    ”جی۔۔۔ کیا مطلب؟“ وہ بےساختہ حیرانی سےبولی۔
    ”مطلب یہ کہ کل رات آپ بڑی بےتکلفی سےطوفانِ بادوباراں کا لطف اٹھا رہی تھیں۔ سردی بھی بلا کی تھی اور۔۔۔“
    ایک دم نہ جانےکیوں وہ بےچین سی ہوکر پھر اٹھ بیٹھی۔
    ”ارےاری۔ ۔۔یہ کیا۔ ۔۔دیکھئی‘ میں تو مذاق کررہا تھا۔۔۔ اور آپ۔۔۔“وہ اس کی پلکوں کو نم ہوتا دیکھ کر بری طرح سےگڑ بڑا گیا۔
    ”مجھےجانےدیجئی۔ خدا کےلئی۔ “وہ بستر سےنکل پڑی۔
    ”ارے۔یہ آپ کو بار بار جانےکا دورہ کیوں پڑ جاتاہی؟“ وہ اٹھ کر اس کو بازو سےتھامتا ہوا بولا۔
    ”چھوڑیئی۔ میں اب یہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ “وہ بازو چھڑانےکی کوشش کرنےلگی۔
    ”مگر آپ کہاں جانا چاہتی ہیں؟ یہ تو طےہےکہ آپ کا گھر کوئی نہیں ہی۔ویسےاگر آپ دارالامان جانا چاہتی ہیں تو بندہ حاضر ہےلیکن پہلےناشتہ تو کرلیجئی۔“
    ” آپ کو کیسےمعلوم کہ۔۔۔“
    ” جن کا کوئی گھر ہو‘ وہ ایسی طوفانی راتوں میں اس حالت میں تو باہر آنےسےرہی‘ جس حالت میں آپ پائی گئیں۔“
    وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنےلگی۔
    طاہر سنجیدہ ہوگیا۔مذاق اور ایک اجنبی لڑکی سی‘ جواس کےنام تک سےناواقف تھی‘ کافی ہو چکا تھا!وہ کتنی ہی دیر تک روتی رہی۔سیف ناشتہ میز پر رکھ کر جا چکا تھا۔وہ خاموش کھڑا اسےدیکھتا رہا۔
    ”دیکھئی۔ خدا را اب یہ رونا دھونا بند کیجئےاور ناشتہ کرلیجئی۔“وہ معذرت خواہانہ لہجےمیں بولا۔
    اس نےدوپٹےکےپلو سے آنکھیں خشک کیںاور اس کی جانب دیکھا۔” آئیی۔ باتھ روم اس طرف ہی۔ “اس نےکمرےکےغربی گوشےکی طرف اشارہ کیا۔ وہ خاموشی سےباتھ روم کی جانب چل دی۔کچھ دیر بعدجب وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو وہ اسےدیکھتا ہی رہ گیا۔کچھ اتنی ہی نکھر آئی تھی وہ سوگوار ی میں نتھر کر۔
    ”چلئی۔ ناشتہ کیجئی۔“اس نےطاہر کی جانب دیکھا اور سر جھکا کر بستر کےپاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔
    ”ویسےڈاکٹر صاحب نےبستر سےنکلنےسےمنع کیا ہی۔ آپ نمونئےکےاٹیک سےبال بال بچی ہیں۔“وہ ہولےسےبولا۔
    وہ اس کی جانب دیکھ کر کوئی بحث کئےبغیر خاموشی سےاٹھ کھڑی ہوئی۔کچھ دیر بعد وہ بستر میں بیٹھی ناشتہ کررہی تھی اور وہ کرسی پر بیٹھا چائےکی پیالی سےدل بہلا رہا تھا۔اس نےبہت کم ناشتہ کیا ۔طاہر نےزیادہ پراصرار نہیں کیا۔سیف بابا برتن لےگیا۔وہ پھر کسی سوچ میں گھو گئی ۔ کتنی ہی دیر تک وہ اسےعجیب سی نظروں سےدیکھتا رہا۔پھر ہولےسےکھنکاراتو وہ چونکی۔نگاہیں ملیں۔وہ مسکرادیا۔
    ”ہاں تو صاحب! مگر یہ صاحب کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ آپ کا نام کیا ہی؟“ وہ بےتکلفی سےپوچھ بیٹھا۔
    ”زاہدہ۔ “وہ بےساختہ دھیرےسےکہہ گئی۔
    ”مس زاہدہ؟“ اس نےالٹا سا سوال کردیامگر تیزی سی!
    ”جی۔۔۔ جی ہاں۔“ وہ کہتےکہتےرکی اور شرما گئی۔
    ”تیرا لاکھ لاکھ شکر ہےمالک۔ “ وہ سمجھ میں نہ آنےوالےلہجےمیں آہستہ سےبڑبڑایا۔ ”اچھا۔اب یہ بتائیےکہ آپ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ رات آپ اس حال میں کیوں تھیںوغیرہ وغیرہ۔پھر میں آپ کواپنےبارےمیں سب کچھ بتاؤں گا۔جی۔ ویسےمیرا نام طاہر ہی۔“
    اوروہ اس باتونی ‘لاابالی اور بےتکلف سےانسان کو بڑی گہری اور عجیب سی نظروں سےدیکھنےلگی۔
    ”کیا دیکھ رہی ہیں؟“ اس نےکچھ دیر بعد یکا یک کہا۔
    ”جی ۔کچھ نہیں۔ ۔۔کچھ بھی تو نہیں۔ “وہ گھبرا گئی۔
    ”تو پھر کہئےناں۔“
    ”کیا کہوں؟“ وہ اداس سی ہوگئی۔
    ”پہلےتویہ بتایئی۔ ۔۔“وہ معاملےکی نزاکت کےپیش نظر بات بدل گیا۔” آپ کا کوئی۔۔۔“ وہ کہتےکہتےرک گیا۔
    ”نہیں ہی۔ کوئی نہیں ہےمیرا۔“ اس نےگھٹےگھٹےلہجےمیں کہہ کر آنکھیں بھینچ لیں۔
    ”اوہ۔۔۔ مگر۔ صبح آپ نیم بیہوشی میں اپنی امی کو۔۔۔“
    ”مرنےوالےپکارنےسےلوٹ تو نہیں آیا کرتی۔“وہ سسک پڑی۔
    ” معاف کیجئےگا۔ میں نے آپ کو دکھ دیا۔ “وہ افسردہ سا ہوگیا۔
    وہ کتنی ہی دیر دل کی بھڑاس نکالتی رہی۔ طاہر خاموشی سےاسےدیکھتا رہا۔ وہ چاہتا تھا اس کےدل کا غبار پوری طرح نکل جائی۔
    ”تو اب آپ کا کیا ارادہ ہی؟“ وہ کچھ دیر بعد سنبھلی تواس نےدھڑ کتےدل کےساتھ سوال کیا۔
    ”ارادہ؟“ وہ طنز سےمسکرائی۔
    ”میرا مطلب ہی‘ آپ جہاں رہتی تھیں۔ وہیں واپس جانا چاہیں تو۔۔۔“
    ”جی نہیں۔وہاں تو اب میرےلئےصرف اور صرف نفرت باقی ہی۔انہی کےاحسان نےتو مجھےاس طوفانی رات کےحوالےکیا تھا۔“
    ”کیا مطلب؟“ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
    ” آپ ضرور سننا چاہتےہیں۔“اس نےدرد بھری نظروں سےاسےدیکھا۔
    ” آپ مناسب سمجھیں تو۔۔۔“
    ”ٹھیک ہی۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات بھی نہیں ہےدنیا میں کہ میں اسےدل پر بوجھ بنائےلئےلئےپھروں۔۔۔مگر مجھےکریدیےگا نہیں۔“
    پھر ایک لرزتی کانپتی‘ درد بھری آواز کےزیر وبم نےاسےجکڑ سا لیا۔وہ کہتی رہی۔ طاہر سنتا رہا۔ بت بنا۔ ہمہ تن گوش۔
    ”ابو بچپن میں ہی ساتھ چھوڑ گئی۔غربت کا دائرہ کچھ اور تنگ ہوگیا۔میں اور امی چچا کےدر پر فقیروں کی طرح پڑےرہی۔ان کےگھر کےکام کاج‘ خدمت ‘ دن رات کی گالیوں‘ مارپیٹ اور جھڑکیوں کےعوض بچا کھچا کھانا پیٹ کی آگ بجھانےکو مل جاتا۔اسی پر سجدہ شکر ادا کرتی۔امی نےہر مصیبت اور تنگدستی کا مقابلہ کرکےکسی نہ کسی طرح مجھےایف اےپاس کرادیا۔ چچا کا لڑکا اخترہمیشہ پڑھائی میں میری مدد کرتا۔ماں باپ کی سخت مخالفت کےباوجود میری اور امی کی ہر طرح مدد کرتا۔اسی کی ضد کے آگےہتھیار ڈالتےہوئےچچا اور چچی نےمجھےکمپیوٹر کورس کی اجازت دےدی۔امی کےدُکھوںکو سُکھ میں بدلنےکا یہی ایک طریقہ تھا کہ میں کہیں نوکری کرلیتی۔ یہی سوچ کر میں نےیہ کورس کرنےکا عزم کرلیا۔چچا کی اولاد میں اختر سےاوپر ایک لڑکی نرگس تھی۔وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سےلندن چلی گئی اور ابھی تک وہیں ہی۔وقت گزرتا رہا۔جوانی بڑھاپےمیں ڈھل گئی۔امی کی جگہ بھی اب مجھی کو تمام گھر کا بوجھ سنبھالنا پڑا۔میں نےکوئی گلہ شکوہ کئےبغیر یہ کڑوےگھونٹ بھی حلق سےاتار لئی۔اس لئےکہ اختر‘ میرا اختر‘ میرا ساتھ نبھانے‘مجھےاپنانےکا وعدہ کرچکا تھا۔صرف اس کےامتحان سےفارغ ہو کر کاروبارسنبھالنےکی دیرتھی۔اختر کی بےپناہ محبت نےمجھےہر ڈر اور خوف سےلاپرواہ سا کردیا۔ مجھےنئی زندگی بخش دی ۔وہ مجھ سےشادی کرنےکو بالکل تیار بلکہ بےصبرا ہورہا تھامگرجب تک وہ تعلیم مکمل نہ کرلیتا‘یہ ممکن نہ تھا۔ پھرایک روز اس نےمجھےیہ خوش خبری سنائی کہ وہ بی اےکا آخری پیپر دے آیا ہی۔اب رزلٹ نکلنےکی دیر ہےاور پھر۔۔اور اس ”پھر“ سے آگےمیں سن نہ سکی۔سہانےسپنوں میں کھو گئی۔ آنےوالےکل کےسورج کی دمکتی کرنیں میرےتاریک ماضی کو تابناک مستقبل میں بدل جانےکا پیغام دےرہی تھیں۔امی نےمجھےبہت سمجھایا۔ اونچ نیچ‘ قسمت اور تقدیر سےخوفزدہ کرنا چاہامگر میں اختر پر اندھا اعتماد کئےبیٹھی تھی ۔ کچھ نہ سمجھ سکی۔ کچھ نہ سوچ سکی۔تب۔۔۔ایک روز۔ جب اختر نےمجھےبتایا کہ چچا اور چچی نےاس کےلئےایک امیرزادی کا رشتہ منظور کرلیا ہےتومیرےسپنوں کا تاج محل زمین بوس ہوگیا۔ زندگی نےبڑےپیار سےفریب دیا تھا۔۔۔
    میں تمام رات روتی رہی۔ پلک نہ جھپکی۔سسکیاںگونجتی رہیں۔ہچکیاں آنسوؤں کا ساتھ دیتی رہیں۔صبح کےقریب جب میں چند لمحوں کی نیند کی تلاش میں تھک کر اونگھتےاونگھتےہڑ بڑا کر جاگی تو امی ہمیشہ کی نیند سو چکی تھیں۔وہ مجھ سےزیادہ دُکھی‘ تھکی ہوئی اور ستم رسیدہ تھیں۔نجات پاگئیں ۔
    چند روز تک گھر میں خاموشی رہی۔ مجھےکسی نےگالی نہ دی۔جھڑکیوں سےنہ نوازا۔ تھپڑوں کےانعام سےمحروم رہی۔تب۔۔۔اختر نےایک بار پھر مجھےسہارا دیا۔اس نےمجھ سےجلد ہی خفیہ طور پر شادی کرلینےکی خبر سنا کر ایک بار پھر مجھےامید کی رہگذر پر لاکھڑا کیا۔چند لمحےپھر بہار کی تصوراتی آغوش میں گزر گئی۔مگر بہار کےبعدخزاں بھی تو آیا کرتی ہی۔ دن کےبعد رات بھی تو آتی ہے۔
    کل کی رات بڑی طوفانی تھی۔بڑی خوفناک تھی۔ شدت سےبارش ہورہی تھی۔ بادل پوری قوت سےدھاڑ رہےتھی۔برق پوری تابناکی سےکوند رہی تھی۔اختر ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔اس کےوالدین اور گھر کےملازم گہری نیندسورہےتھی۔وہ اکثر دیر سےلوٹتا تھا۔ میرا دل نہ جانےکیوں بیٹھا جارہا تھا۔گیار ہ بج گئی۔ دل جیسےتڑپ کر سینےسےباہر آنےکی سعی کرنےلگا۔میں اپنےچھوٹےسےکمرےمیں بےچینی سےکروٹیں بدل رہی تھی۔ تبھی باہر دروازےپر اسی مخصوص مگر شاید بارش کی وجہ سےتیز انداز میں کی گئی دستک نےمجھےزندگی کی وادیوں میں گھسیٹ لیا۔میں تقریباً بھاگتی ہوئی دروازےپرپہنچی۔ دروازہ کھولا۔سامنےاختر بارش میں شرابور کھڑا تھا۔
    ”ارےتم۔۔۔“وہ مجھےحیرت سےدیکھتا ہوا بولا۔
    ”اتنی دیر تم نےکہا ں لگا دی اختر۔ “میں نےپریشانی سےکہا۔
    ”ارےپگلی۔“ اس نےکھینچ کر مجھےسینےسےلگالیا۔ ”میں جب ناصر کےگھر سےنکلا تو موسم ٹھیک تھا۔ ایک دم ہی بارش نے آ لیا۔ موٹر سائیکل پر آتے آتےیہ حال ہو گیا۔“
    میں اس کےسینےمیں سما گئی۔دروازہ بند کرکےہم اسی طرح ایک دوسرےسےلپٹےکمرےمیں چلے آئی۔وہ میرےبستر میں لحاف اوڑھ کر لیٹ گیا ۔ میں اس کےقریب بیٹھ گئی۔
    ”جناب‘ جائیےاب جا کر گیلےکپڑےاتار دیجئی۔ کافی دیر ہوچکی ہی۔“کتنی ہی دیر بعد میں نےاس کی بےباک نظروں سےگھبرا کر کہا۔
    ”زاہدہ۔۔۔“اس نےمجھےلحاف کےاندر گھسیٹ لیا۔میں بےخود سی ہوگئی مگرجب وہ حد سےبڑھنےلگاتومیں سنبھل گئی۔ہوش میں آگئی۔
    ”ہوش میں آؤ اختر۔کیا کررہےہو؟“میں نےاس کےگستاخ ہاتھوں کو روکتےہوئےگھبرا کر کہا۔
    ” آج مجھےمت روکو زاہدہ۔ دیکھو۔ یہ رات‘یہ موسم‘ یہ تنہائی کیا کہہ رہی ہی۔“اس نےاس زور سےمجھےلپٹایا کہ میرا انگ انگ کراہ اٹھا۔
    ”کیا کررہےہو اختر۔ کیا ہوگیا ہےتمہیں؟“ میں سہم سی گئی اور اٹھنےکی کوشش کرنےلگی مگربہکتےجذبات اور موسم نےاختر سےہوش و حواس چھین لئےتھی۔وہ وحشی ہوا جارہا تھا۔میں نےاسےدھمکی دی‘شور مچانےکی۔مچلی ‘ تڑپی‘روئی مگر وہ بہک چکا تھا۔
    پھر میں چیخ اٹھی۔ ایک بار ۔دو بار‘ کہ شاید کوئی مدد کو آپہنچےاوروہی ہوا۔کوئی راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتا چلا آرہا تھا۔اختر گھبرا گیا۔بہکےہوئےجذبات کا بھوت اس کےسر سےاتر گیا۔خدا نےمیری عزت بچالی۔میں لٹتےلٹتےرہ گئی!
    ”کون ہےاندر؟ دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔۔۔“چچا جان دروازہ دھڑ دھڑا رہےتھی۔اختر نےاِدھراُدھر دیکھا اور کھڑکی کی طرف لپکا۔
    جب میںنےدروازہ کھولا تو کھڑکی کھلی تھی اور اختر اپنےکمرےمیں جاچکا تھا۔ پھرمیری ایک نہ سنی گئی۔مجھےپیٹا گیا۔گالیاں دی گئیں۔تہمتیں تراشی گئیں۔الزام لگائےگئی۔ بدکار‘ طوائف‘بدچلن اور ایسےکتنےہی خطابات سےنوازا گیا۔اپنےگھر کو ایک گندی مچھلی سےپاک کرنےکےلئےمجھی‘ ایک جوان لڑکی کو‘ سگی بھتیجی کو‘اس طوفانی رات کےحوالےکردیا گیامگراختر نہ آیا۔شایداپنےاصلی روپ میں ظاہر ہونےکےبعد اس کےپاس کوئی نیا لبادہ نہ رہ گیا تھا۔اس سےبعدمیں صرف اتنا ہی جانتی ہوں کہ آسمان کی عنایات سےبےدم ہو کر ایک کوٹھی کےسائبان تلےرک گئی تھی۔ پھر کیا ہوا‘ مجھےکچھ معلوم نہیں!“
    وہ خاموش ہو گئی۔
    ”بڑی دردناک کہانی ہے آپ کی؟“ کچھ دیر بعدوہ ایک طویل سانس لےکر آہستہ سےبولا۔زاہدہ آنکھیں خشک کرنےلگی۔
    ”مگر نئی نہیں ہے۔ “ وہ دونوں ایک آواز سن کر چونک پڑی۔ دروازےکےپاس پڑےصوفےپر ڈاکٹر ہاشمی بیٹھےتھی۔ ”دنیا میں ایسےہزارو ں واقعات روزانہ پیش آتےہیں۔ “وہ اٹھ کر ان کےقریب چلے آئی۔”تم خوش قسمت ہوبیٹی کہ ایک وحشی کےہاتھوں بے آبرو ہونے سےبچ گئیں ورنہ یہ بات تقریباً ناممکن ہو جایا کرتی ہی۔ “وہ بستر کےپاس پڑی کرسی پر بیٹھتےہوئےبولی۔
    زاہدہ کاسر جھک گیا۔
    ” آپ کب آئےانکل؟“ طاہر نےان کی جانب دیکھا۔
    ”جب کہانی کلائمکس پر تھی۔“ وہ بولےاورطاہر سر ہلا کر رہ گیا۔زاہدہ سر جھکائےانگلیاں مروڑ رہی تھی۔
    ”چائےلیں گے آپ؟“ اس نےپوچھا۔
    ”نہیں بھئی۔ اس وقت طلب نہیں۔ہاں بیٹی۔ ذرا ہاتھ ادھر دو۔ “وہ اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر گھڑی کی طرف دیکھنےلگی۔” اب تو بالکل ٹھیک ہو تم۔“ وہ انجکشن دےکر فارغ ہوگئی۔یہی کیپسول ہر تین گھنٹےبعد لیتی رہو۔انشاءاللہ شام تک ان سےبھی جان چھوٹ جائےگی۔“پھر وہ اٹھ گئی۔”اچھا بھئی طاہر ۔ میں اب چلوں گا۔شام کوپھر آؤں گا۔ “
    ”بہتر انکل۔“ وہ بھی کھڑاہوگیا اورسیف کو پکارا۔چند لمحےبعد وہ کمرےمیں تھا۔ ”ڈاکٹر صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آؤ۔“سیف نے آگےبڑھ کر ان کا بیگ اٹھالیا۔ ڈاکٹر ہاشمی چل دیئی۔ ”اور سنو۔ سیف بابا سےدو کپ چائےکا کہہ دو۔“
    ”جی بہتر۔ “وہ سرجھکائےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔زاہدہ تکئےسےٹیک لگائےجانےکس سوچ میں گم نیم دراز تھی۔
    ”ہوں۔تو آپ صبح اسی لئےان لوگوں کےپاس بھاگ بھاگ کر واپس جارہی تھیں۔“ وہ اسےچونکاتا ہوا گویا ہوا۔
    ”جی۔۔ ۔ جی نہیں۔“ وہ افسردگی سےبولی۔ ”وہ میرےلئےمر چکےہیں۔“
    ”کیا ۔۔۔ اختر بھی؟“ اس نےزاہدہ کی آنکھوں میں جھانکا۔
    ”وہ بھی تو انہی میں سےتھا۔ “اس نےنظریں جھکالیں۔”اگر وہ پیٹھ نہ دکھاتا اور میری ڈھال بن جاتا تو میں اس وقت یہاں نہ ہوتی۔“
    اوراس کےسینےسےایک بوجھ سا ہٹ گیا۔لبوں پر پھر زندگی سےبھرپور مسکراہٹ تیر گئی۔”تو پھر۔۔۔ کہاں جانےکےلئےاتنا بےقرار تھیں آپ؟دیکھئی۔ وہی گھسا پٹا جواب نہ دیجئےگا کہ جہاں قسمت لےجاتی۔ “وہ لہجےکو نسوانی بناتےہوئےبڑی افسردگی سےبولا۔زاہدہ بےساختہ مسکرا دی۔”اری۔۔۔ آپ تو ہنستی بھی ہیں۔ “وہ بڑی حیرانی سےبولااور اپنےجواب ندارد سوال کو بھول کر اس کےرنگیں لبوں کی مسکراہٹ میں کھو گیا جواَب کچھ اورگہری ہوگئی تھی۔”بس یونہی مسکراتی رہئی۔ ہنستی رہئی۔ بخدازندگی جنت بن جائےگی۔ ویسےایک بات کہوں۔ صبح آپ پتہ ہےکیوں بھاگ رہی تھیں؟“ اس نےپھر زاہدہ کی آنکھوں میں دیکھا۔
    وہ سوالیہ انداز میں اسےدیکھنےلگی۔
    ” آپ کا خوفزدہ ذہن مجھ سےبھی ڈر رہا تھا۔ اختر کی طرح۔ “
    اور اس نےسنجیدہ ہو کر نظریں جھکالیں۔شاید یہ سچ تھا۔
    سیف باباچائےلے آیا۔کچھ دیر بعد وہ چائےسےفارغ ہوگئی۔
    ”اچھا مس زاہدہ۔ آپ آرام کیجئی۔ میں کچھ کام نبٹا آؤں۔کسی بھی چیز کی ضرورت ہو توبیل موجود ہی۔ “اس نےکال بیل پر انگلی رکھ دی۔چند لمحوں بعد سیف کمرےمیں تھا۔
    ”دیکھو سیف بابا۔ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا۔ کھانا پورےایک بجے۔۔۔ اور رات کےکھانےپر تو میں گھر پر ہی ہوں گا۔“
    ”بہتر صاحب۔“ وہ ادب سےبولا۔
    ”بس جاؤ۔“ اوروہ واپس پلٹ گیا۔

    * * *
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان بھائی ۔ مصنف کا انداز بہت اچھا ہے۔
    منظر کشی بھی کمال ہے۔
    بہت شکریہ
     
  3. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی یہ عرفان بھائی میرے سگے بھائی ہیں اور مجھ سے بڑے ہیں
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ اکبر۔ ماشاءاللہ ۔ آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ بھی عدنان پتوکی ہیں۔ :a191:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں