1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عبداللہ بن سلام کے تین سوال

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏29 اپریل 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    عبداللہ بن سلام کے تین سوال

    عبداللہ بن سلامؓ کا نام اسلام قبول کرنے سے قبل حصین بن سلام بن حارث تھا اور ان کی کنیت ابو یوسف تھی۔ حصین بن سلام تورات کے عالم تھے۔ انہوں نے تورات میں یہ پڑھا تھا کہ مکہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ دل میں ہر وقت یہی خیال رہتا تھا کہ نئے نبی کی زیارت کا کب شرف حاصل ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں اور وادی¿ قباءمیں قیام پذیر ہیں۔ سیرا¿علام النبلائ، الاستیعاب اور السیرة الحلبیة میں یہ الفاظ مذکور ہیں:
    ”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو لوگ بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان بھاگ کر حاضر ہونے والوں میں، میں بھی تھا۔ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا“۔
    مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا کہ آپ قباءمیں عمروبن عوف کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو میں اس وقت درخت پر بیٹھا کھجوریں توڑ رہا تھا اور میری پھوپھی درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ خبر سنتے ہی زور سے اللہ اکبر کہا۔ میری پھوپھی نے جب مجھ سے نعرہ¿ تکبیر سنا تو انہوں نے کہا، حصین تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اتنی خوشی تجھے اس صورت میں نہ ہوتی کہ حضرت موسیٰ بن عمران تشریف لے آتے۔ میں نے کہا پھوپھی یہ بھی اللہ کے سچے نبی ہیں، جس طرح موسؑیٰ اللہ کے سچے نبی تھے۔ انہیں سچا دین دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پھوپھی نے میری بات سن کر کہا: واقعی یہ بات درست ہے۔ میں نے کہا ہاں میں بالکل صحیح کہتا ہوں۔ پھوپھی نے کہا: پھر تو ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کےلئے گیا۔ حصین بن سلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلی بات جو انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنی وہ یہ تھی، آپ نے ارشاد فرمایا:
    ”سلام پھیلاﺅ، کھانا کھلاﺅ، صلہ¿ رحمی کرو، رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو اور جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاﺅ،، (الاستیعاب)
    جب حصین بن سلام نے اسلام قبول کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ بن سلام رکھ دیا۔
    اسلام کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آئے، اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی، سب نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہ دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوئی کہ تمام اہل خانہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا قبولِ اسلام یہودیوں سے چھپائے رکھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ بڑی افتراءپرداز قوم ہے۔ آپ اس طرح کریں کہ مجھے اپنے گھر میں کہیں چھپالیں، پھر یہودیوں کو بلاکر میرے بارے میں پوچھیں کہ میں ان کے نزدیک کیسا ہوں، اگر انہیں میرے مسلمان ہونے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ عبداللہ بن سلامؓ کو چھپادیا، پھر یہودیوں کے سرکردہ افراد کو بلایا اور ان سے پوچھا حصین بن سلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کیسا آدمی ہے؟ انہوں نے بیک زبان کہا:
    وہ ہمارا سردار، ہمارے سردار کا بیٹا ہے، اور ہمارا عالم، فاضل ہے۔ کیا بتائیں بڑی خوبیاں ہیں اس میں۔
    عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے میرے بارے میں اظہار خیال کردیا تو میں ایک کونے سے چپکے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا اور ان سے کہا: اے یہودیو! اللہ سے سے ڈور اور جو کچھ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لائے ہیں اسے قبول کرلو۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تم نے تورات میں ان کا نام اور ان کے اوصاف دیکھے ہں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ ان کو سچا مانتا ہوں۔
    انہوں نے یہ سنتے ہی پینترا بدلا اور کہنے لگے تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے۔
    حضرت عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا، میں نے نہیں کہا تھا کہ یہودی بڑے افتراءپرداز ہیں، بڑے جھوٹے، مکار اور دغا باز ہیں، میں نے اس کے سامنے ببانگ دہل اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔
    میری پھوپھی خالدہ بنت حارث بھی مسلمان ہوگئیں اور انھوں نے اسلام کے تقاضوں کو خوب اچھی طرح پہچان لیا۔
    حضرت عبداللہ بن سلام نے اسلام قبول کرنے کے بعد دن رات قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غوروخوض پر توجہ دی اور بہت جلد قرآن مجید کے علم میں مہارت پیدا کرلی۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے اعلیٰ و ارفع مقام کا یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی:
    ترجمہ:” میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور اس شخص کی بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔“ (الرعد: 43 )
    حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے اپنے دو بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کہا:
    ”تم دونوں اس حقیقت کو جانتے ہو کہ تورات میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تم میں اولاد اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔ جو اس پر ایمان لے آیا وہ ہدایت پاجائے گا اور جو ایمان نہ لایا وہ ملعون ہوگا“۔
    یہ بات سن کر سلمہ تو ایمان لے آیا لیکن مہاجر نے ایمان قبول کرنے سے انکار کردیا تو قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی:
    ترجمہ” اب کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے نفرت کرے جس نے خود اپنے آپ کو حماقت وجہالت میں مبتلا کرلیا ہو اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے، ابراہیم تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کےلئے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا“۔ (البقرہ: 130)
    بعض اوقات حضرت عبداللہ بن سلامؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس استفادے کے لئے بیٹھتے اور آپ سے سوالات کرتے تاکہ ایمان میں مزید اضافہ ہو۔
    ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے ہوئے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے تین سوال کروں گا۔ ان کا جواب صرف نبی ہی دے سکتا ہے۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ قیامت کی پہلی نشانی کون سی ہوگی؟ دوسرا سوال یہ کہ اہل جنت سب سے پہلی چیز کون سی کھائیں گے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ بچہ ماں یا باپ کا ہم شکل کس صورت میں ہوتا ہے؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ کے تین سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبریلؑ نے مجھے بتائے ہیں۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قیامت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ ایک آگ پیدا ہوگی جو مشرق سے مغرب کی طرف جائے گی۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اہل جنت سب سے پہلے مچھلی کا جگر کھائیں گے۔ اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میاں بیوی میں جس کا مادہ منویہ غالب آجائے بچہ اسی کا ہم شکل ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ یہ سن کر پکار اٹھے:
    ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں“۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ
    ذوالقرنین کاش صاحب
    آپ نے آتے ہی ایک بھترین مضمون ارسال فرمایا ،آپ نے کمال کردیا
    دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جمیع مقاصدِ حسنہ میں کامیابی عطا فرمائے۔آمین۔
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    سبحان اللہ ۔ ذوالقرنین صاحب۔
    اتنا خوبصورت اور ایمان افروز مضمون ارسال کرنے پر شکریہ ۔
    اللہ تعالی جزائے خیر دے۔ آمین
     
  4. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں