1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

در پیش کب سے تھا جو سفر ہی نہیں رہا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    در پیش کب سے تھا جو سفر ہی نہیں رہا
    چلنا تھا جس پہ راہگزر ہی نہیں رہا
    یہ دل دھڑک رہا ہے، تری یاد کے بغیر
    اس کا جو اصل کام ہے کر ہی نہیں رہا
    کیا جانے راتوں رات کہاں کوچ کر گئے
    جس پر صدا لگائی وہ در ہی نہیں رہا
    جو کشتیوں کو اپنی طرف خود ہی کھینچ لے
    وہ اپنے پانیوں میں بھنور ہی نہیں رہا
    جس طرح ہمارے کام سے برکت ہی اُٹھ گئی
    اگلا سا بات میں وہ اثر ہی نہیں رہا
    تکمیل کی اُمید اُسی سے لگائی ہے
    جو کام اپنے پیشِ نظر ہی نہیں رہا
    یہ زندگی دکان تھی ایسی جہاں ہمیں
    کچھ امتیازِ نفع و ضرر ہی نہیں رہا
    یہ شاعری بھی جیسے کسی اور ہی کی ہے
    تھوڑا بہت جو تھا وہ ہنر ہی نہیں رہا
    میری زمین پہ پائوں وہ دھرتا تو کیا ظفرؔ
    جو اپنے آسماں سے اُتر ہی نہیں رہا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں