1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حقیقت ایصال ثواب

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از اقبال ابن اقبال, ‏1 جنوری 2013۔

  1. اقبال ابن اقبال
    آف لائن

    اقبال ابن اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏31 دسمبر 2012
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    سوال : اہل اللہ کی نذر ونیاز کرنا قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کریں اور’’مااھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ کی تشریح کیجئے ؟
    جواب:۔۔۔ نذر ونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
    القرآن:۔۔۔ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہo(سورۂ بقرہ ، رکوع 5، پارہ 2،آیت173)
    ترجمہ: درحقیقت (ہم نے ) تم پر حرام کیا مردار اورخون سورکا گوشت اورجس پر اللہ کے سوا(کسی اورکانام) پکارا گیا ہو۔
    القرآن:۔۔۔ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ
    وَمَااُھِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ بِہٖ o(سورۂ مائدہ، رکوع5، پارہ6،آیت3)
    ترجمہ: حرام کردیا گیا تم پر مردار اورخون اور سور کاگوشت اوروہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اورکانام پکارا گیا ہو۔
    ان آیات میں ’’مااھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ سے کیا مراد ہے :
    1)۔۔۔تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیاگیا ہو۔
    2)۔۔۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنے ترجمان القرآن میں’’مااھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
    3)۔۔۔ تفسیرروح البیان میں علامہ اسمعٰیل حقّی علیہ الرحمہ نے ’’مااھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جوبتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
    4)۔۔۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2رکوع نمبر5میں ہے کہ ’’وما اھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بُت کا نام لیا جائے۔
    5)۔۔۔ تفسیر جلالین میں ’’ما اھل بہ لغیر اللّٰہ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
    اِن تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیتیں بتوں کے رَدّ میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا اسے مسلمانوں پر چَسپا کرنا کُھلی گمراہی ہے ۔
    مسلمانوں کا نذر ونیازکرنا:
    مسلمان اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق ومالک جانتے ہیں اورجانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح کوایصالِ ثواب کیا جاتاہے لہٰذا اس میں کوئی شرک والی بات نہیں بلکہ اچھا اورجائز عمل ہے ۔
    ایصالِ ثواب کے لئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا:
    الحدیث:۔۔۔ ترجمہ: سیدناحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے ۔کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اورصدقہ کروں۔آپ نے فرمایا ہاں کیجئے ،حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا۔ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟آپ ا نے فرمایا ’’پانی پلانا ‘‘۔توابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی سبیل ہے ۔(بحوالہ: سُنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698صفحہ577مطبوعہ فرید بک لاہور)
    الحدیث:۔۔۔ ترجمہ: محمد بن یحییٰ، عبدالرزاق ثوری، عبداللہ بن محمد بن عقیل ابوسلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابوہریرہصنے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کاارادہ کرتے تو دومینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں دار کالے اورسیاہ رنگ دار ہوتے۔ایک اپنی اُمَّت کی جانب سے ذبح کرتے جو بھی اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل ہو اور دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ذبح فرماتے۔(بحوالہ: سُنن ابن ماجہ جلد دوم، ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہ ا ، رقم الحدیث907صفحہ263مطبوعہ فرید بک لاہور)
    الحدیث:۔۔۔سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ،نبی کریم انے ایسا مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی ٹانگیں ،پشت اورآنکھیں سیاہ ہوں،اسے پیش کیا گیا تاکہ آپ ااس کی قربانی کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا،اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھری لاؤ ،پھر فرمایا:اسے پتھر پر تیز کرلو۔میں نے ایسا ہی کیا ۔
    آپ ا نے چھری پکڑی ،مینڈھے کو پکڑ کر اسے لٹایا اورپھر اسے ذبح کردیا اورپڑھا بسم اللہ ! (پھر دعا کی ) اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کی جانب سے اسے قبول کر!(سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں) پھر آپ انے اس کی قربانی کردی۔(بحوالہ: مسلم شریف جلد دوم، کتاب الاضاحی، رقم الحدیث 4976صفحہ814مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
    الحدیث:۔۔۔ ترجمہ: حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا توعرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔
    (بحوالہ: ابوداؤد جلد دوم ، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث1017صفحہ391مطبوعہ فرید بک لاہور)
    فائدہ:۔۔۔ایصال ثواب دو قسم کاہوتاہے ۔ایک وہ جو بزرگانِ دین کے لئے کیا جاتاہے دوسرا جو عام مسلمانوں کے لئے کیا جائے کہ دعاؤں اورایصال ثواب کے ذریعے ان کی نیکیوں میں اضافہ ہو اور ان کی اخروی زندگی سنور جائے۔ جب کہ بزرگانِ دین کے لئے ایصال ثواب کرنے کا یہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس بزرگ سے اپنی نسبت ثابت کرنا زیادہ مقصود ہوتاہے کیونکہ وہ دوسروں کی طرح اس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ کوئی دعا اورایصال ثواب کرکے ان کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قربانی کی وصیت کرنا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کیا کرنا ایصال ثواب کی اسی پہلی قسم سے ہے ۔ بعض حضرات جن کے دل مقربین بارگاہ الہٰیہ کی کدورت سے بھرے رہتے ہیں، وہ کہا کرتے ہیں کہ بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کرنے والے ان کو ’’اربابا من دون اللہ ‘‘ بنائے بیٹھے ہیں۔ورنہ بزرگوں کو تو ثواب کی ضرورت نہیں اوریہ آئے دن بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ ایسے لوگ ایصال ثواب کے پردے میں بزرگوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے خارجیت زدہ حضرات کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت کیوں فرمائی تھی ؟
    الحدیث:۔۔۔ ترجمہ:حضرت عروہ بن زبیر ص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اورجسمانی اعضاسیاہ ہوں۔پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایاکہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھری تولاؤ،پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تومجھ سے لے لی اورمینڈھے کو پکڑ کرلٹایا اور ذبح کرنے لگے توکہا۔اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں۔اے اللہ تعالیٰ !اسے قبول فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اوراُمَّت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی۔
    (بحوالہ: ابوداؤد جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث1019صفحہ392مطبوعہ فرید بک لاہور)
    فائدہ:۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور کو ذبح کرتے وقت بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب فرمادیا کرتے تھے اوراللہ تعالیٰ کانام لے کر ذبح کرتے۔معلو م ہوا جو جانور اللہ تعالیٰ کانام لے کر ذبح کیا جائے توثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کردینے سے یا’’ماہل بہ لغیر اللّٰہ ‘‘میں شمار نہیں ہوتا۔ جوجانوربزرگوں کی جانب منسوب کیاجائے کہ ان کے لئے ایصال ثواب کرنا ہے اوراسے اللہ تعالیٰ کانام لے کر ذبح کیاجائے تو اسے حرام اورمردار ٹھہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے اوربزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم
    الغرض کہ نام نذر ونیاز کاہے مگر درحقیقت ایصالِ ثواب ہی بنیاد ہے لہٰذا بد گمان لوگ اپنی بدگمانی دور کریں اورشریعت مطہرہ کو سمجھیں کیونکہ یہی اسلامی عقیدہ ہے ۔
    شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا فتویٰ :
    حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنے فتاویٰ کی جلد اوّل کے صفحہ نمبر71پر فرماتے ہیں کہ نیاز کا وہ کھانا جس کا ثواب حضرت امام حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ ، قل شریف اوردرود شریف پڑھا جائے تووہ کھانا برکت والا ہوجاتاہے اوراس کا تناول کرنا بہت اچھا ہے ۔
    سوال : ایصالِ ثواب کی کیا تعریف ہے؟
    جواب:۔۔۔ ایصالِ ثواب کا معنیٰ ہے ثواب پہنچانا۔ایک زندہ شخص دوسرے زندہ شخص کو کھانا کھلا سکتاہے ، پانی پلاسکتاہے ، کپڑا پہنا سکتاہے ، ثواب ایصال کرسکتاہے اورہر قسم کا فائدہ پہنچا سکتاہے اِسی طرح انسان کے مرنے کے بعد بھی ایک مسلمان نیکی کرکے اس کا ثواب اپنے مرحومین کو پہنچا سکتاہے اگر مرحوم گنہگار ہے تو یہ ثواب اس کے گناہوں کو مٹا نے والا ہوگا اور اگر مرحوم نیک تھا تویہ ثواب اس کے لئے درجات میں بلندی کا ذریعہ بنے گا۔
    سوال : ایصالِ ثواب کرنا کیا میّت کو پہنچتاہے؟
    جواب:۔۔۔ میت کوایصالِ ثواب ضرور پہنچتا ہے بلکہ احادیث میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایصالِ ثواب کی تلقین فرمائی۔
    الحدیث:۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان دار آدمی مرنے کے بعد اپنے اعمال اورحسنات کوپاتاہے خواہ کوئی علم ہو جو دوسروں کو پڑھایا ہو ،پھیلایا ہو یا فرزندِ صالح جو اس نے پیچھے چھوڑا ہو۔ یا قرآن مجید جو کسی دوسرے کے مِلک کردیا ہو۔ یا مسجد جس کو اس نے تعمیر کیا ہو۔ یا کوئی مہمان سراجو مسافروں کے لئے تعمیر کیاہو۔ یا نہر جو اس نے جاری کی ہو۔ یاصدقہ جو اس نے اپنے مال سے اپنی صحت کی حالت میں فی سبیل اللہ نکالا ہو۔(بحوالہ: ابنِ ماجہ)
    الحدیث:۔۔۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
    نے فرمایا کہ اپنے مُردوں (مرحومین) پر سورۂ یٰسین شریف پڑھا کرو۔(ابو داؤد شریف)
    الحدیث:۔۔۔ حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندے کے درجے جنت میں بلند کرتاہے ۔تووہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگارد! یہ درجے کیوں کر بلند ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تیرے بیٹے کے تیرے لئے استغفار کرنے کے سبب سے ۔(بحوالہ : احمد)
    معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کرنے نہ صرف میّت کو ثواب پہنچتا بلکہ اس کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں