1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجھے کچھ کہنا ہے

Discussion in 'متفرقات' started by آصف احمد بھٹی, Nov 2, 2011.

  1. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    Joined:
    Oct 5, 2006
    Messages:
    131,687
    Likes Received:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    کچھ اس کے پس منظر پر تحریر ہی لکھ دیں
     
  2. ارشین بخاری
    Offline

    ارشین بخاری ممبر

    Joined:
    Jan 13, 2011
    Messages:
    6,125
    Likes Received:
    901
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    کوشش کروں گی نہیں تو کس اور کو لکھنے کا بول دوں گی
     
  3. صدیقی
    Offline

    صدیقی مدیر جریدہ Staff Member

    Joined:
    Jul 29, 2011
    Messages:
    3,476
    Likes Received:
    190
    ملک کا جھنڈا:
  4. صدیقی
    Offline

    صدیقی مدیر جریدہ Staff Member

    Joined:
    Jul 29, 2011
    Messages:
    3,476
    Likes Received:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    قلعہ روہتاس تاریخ کے آئینے میں



    شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا ۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ یہ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج مین نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی ، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔

    http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/c/c8/Khwas_Khani_Gate.jpg

    روایت

    دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بہ جائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہے، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور روایات ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی

    اخراجات

    ایک روایت کے مطابق ٹوڈرمل نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے ۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کی کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔

    رقبہ

    یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ قلعے کی فصیل کو ان جٹانوں کی مدد سے ترتیب و تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جن پر یہ تعمیر کیا گیا۔ قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا جس کے لیے 1750 فٹ طویل ایک دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔ یہ ان قدیم روایتوں کا تسلسل تھا ، جن کے تحت فوجوں کی رہائش شہروں سے علیحدہ رکھی جاتی تھی۔ قلعے کی جنگی حصے کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد شیر شاہ میں توپ خانے کے علاوہ 40 ہزار پیدل اور 30 ہزار سوار فوج مع ساز و سامان یہاں قیام کرتی تھی۔ قلعے میں 86 بڑے بڑے برج یا ٹاور تعمیر کیے گئے ۔ اور پانی کی فراہمی میں خود کفالت کے لیے تین باولیاں (سیڑھیوں والے کنویں( بنائی گئیں تھیں۔ ان میں سے ایک فوجی حصے میں اور باقی پانی کی پانچ ذخیرہ گاہوں سمیت قلعے کے دورے حصے میں واقع تھیں۔

    دروازے

    قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں ۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھاجبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے دور شیر شاہی میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتے ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے اور ان کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بارہ دروازوں میں سے ایک یعنی لنگر خوانی دروازہ براہ راست جنگی علاقے میں کھلتا تھا اور یہ دشمن کی فوجوں کے لیے ایک طرف کا جال تھا۔ اس دروازے سے گزر کر اندر آنے والا شخص فیصل کی برجیوں پر مامور محافظوں کے براہ راست نشانے پر آ جاتا تھا۔ اس طرح خواص خوانی دروازہ دہرا بنایا گیا تھا۔ مغربی سمت ایک چھوٹی سی ’’ریاست‘‘ علیحدہ بنائی گئی تھی جو چاروں جانب سے دفاعی حصار میں تھی۔ اس کے اندر جانے کا صرف ایک دروازہ تھا ۔ اس چھوٹی سی ریاست کے بلند ترین مقام پر راجا مان سنگھ کی حویلی تھی جو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کا سسر اور اس کی فوج کا جرنیل تھا۔

    فصیل

    قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شاہ اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 06881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتیں بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی جوڑائی سب سے زیادہ ہے۔ فصیل کے چبوترے سیڑھیوں کے ذریعے سے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی۔ سب سے بلند ترین حصہ کنگروں کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ چبوتروں کی چوڑائی تین فٹ سے زیادہ ہے اور یہ تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان کی بلندی مختلف تھی ، جو 8 فٹ سے 11 فٹ کے درمیان تھی۔ یہ کنگرے صرف شاہی فوجوں کو دشمن سے تحفظ ہی فراہم نہیں کرتے ھے بلکہ ان سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی انڈیلا جاتا تھا۔ درمیانی چبوترے درحقیقت فوجیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور ان کی چوڑائی ساڑھے چار فٹ سے 7 فٹ کے درمیان تھی، جب کہ چبوتروں کی آخری قطار کی چوڑائی ساڑھے چھ فٹ سے سارٹھ آٹھ فٹ کے درمیان تھی۔

    عمارات

    یہ بات حیرت انگزیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی ، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا ۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خمیوں میں رہا کرتے تھے ۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔

    شاہی مسجد

    شاہی مسجد چھوٹی لیکن خوب صورت مسجد ہے۔ یہ مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال 63 فٹ طویل اور 24 فٹ چوڑا ہے۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی ہال کی اندرونی چھت مسطح ہے، البتہ اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باہر کوئی کوئی مینار یا گنبد نہیں۔ بیرونی دفاعی دیوار اس کی پشت پر واقع ہے۔ یہ مسجد سوری عہد کی چند انمول اور قابل دید تعمیرات میں سے ایک ہے۔

    حویلی مان سنگھ

    حویلی مان سنگھ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے وفادار جرنیل راجہ مان سنگھ کے نام سے موسوم ہے ، جس کا انتقال 1614ء میں ہوا۔ یہ محل قلعہ روہتاس کی سب سے بلند ترین چٹان پر تعمیر ہوا اور اس کی طرز تعمیر کافی حد تک عربی ، ایرانی اور افغانی کے بجائے ہندوانہ تھا ۔ 25 بیگھا زمین پر سطح سمندر زمین سے 2260 فٹ کی بلندی پر تعمیر ہونے والا یہ محل سفید رنگ کا تھا۔ اکبر اعظم نے اس گنبد نما محل کو مزید خوب صورتی بخشنے کے لیے اس کے اردگرد مزید عمارات بھی تعمیر کرائی تھیں۔ اس کی چھتوں ، دروازوں اور جھروکوں وغیرہ میں آج تک نفیس نقش و نگار اور پچی کاری موجود ہے۔

    رانی محل

    رانی محل حویلی مان سنگھ سے تین سو گز کے فاصلے پر شمال کی جانب موجود ہے۔ اس میں راجا مان سنگھ کی بیوہ بہن شریمتی روپ کماری رہتی تھی ۔ یہ محل چونکہ اپنا اصل رنگ و روپ کھو چکا ہے اس لیے لوگ اب اسے کالا محل کہتے ہیں۔ اسے بھربھرے پتھر سے ایک مینار کی صورت میں بنایا گیا تھا جس کی بلندی 80 فٹ ہے۔ اس محل کی مغربی جانب ایک کھلا پلیٹ فارم ہے جو درحقیقت زیر زمین کمرے کی چھت ہے۔ محل میں پہرے داروں کے کمرے اور دونوں محلوں کا ملانے کے لیے راستہ بنایا گیا تھا۔

    کنوئیں

    بڑی باولی اور ست باولی یعنی دو کنویں جن سے قلعہ کے مکین اپنی ضرورت کے لیے پانی حاصل کیا کرتے تھے۔ بڑی باولی میں آج بھی پانی موجود ہے ، تاہم اب اسے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ موری گیٹ کے قریب واقع یہ باولی 270 فٹ گہری ہے اور اس میں اترنے کے لیے 300 سیڑھیاں بنائی گئ تھیں۔ جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ اس کی چار محرابیں ہیں ، جو 40 فٹ چوڑی ہی۔ ہر دس پندرہ سیڑھیوں کے بعد ایک وسیع سیڑھی چوڑائی میں بنی ہوئی ہے، تاکہ پانی لانے والے آرام کر سکیں۔ ست باولی کابلی گیٹ کے پاس شاہی مسجد کے عقبی حصے میں بنا ہوا شاہی حمام ہے ۔ سطح زین سے 60 سیڑھیاں نیچے اترنے پر سات چھوٹے چھوٹے غسل خانے اور درمیان میں ایک کنواں بنایا گیا ہے۔ غالباً ان ہی سات غسل خانوں کی وجہ سے اسے ست باولی کہا جاتا ہے ۔ حمام کے ایک طرف کے حصے میں اونچی جگہ سے پانی رس رس کر حمام کے اندر داخل ہوتا رہتا ہے مگر اب یہ جگہ ویران ہے۔

    تالاب

    قلعے کے جنوبی حصے میں شہر کے لیے پانی جمع کرنے کی غرض سے ایک شاہی تالاب بھی بنایا گیا تھا، جس کےوسط میں مرکزی چٹان پر عید گاہ تعمیر کی گئی تھی۔ عہد سوری میں لوگ عید گاہ تک جانے کے لیے کشتیاں استعمال کرتے تھے۔ عید گاہ تک پہنچنے کے لیے ایک خفیہ راستہ بھی موجود تھا، جو سکھوں کے عہد میں کھول دیا گیا اور لوگ سوہل دروازے کے راستے عید گاہ تک جانے لگے۔

    لنگر خانہ

    لنگر خانہ تکیہ خیر النساء قلعہ کے حدود سے باہر شمال کی جانب بنی ہوئی ایک چھوٹی سی عمارت ہے۔ یہ درحقیقت خیر النساء کا مقبہر ہے جو شیر شاہ سوری کی وزیر خوراک کی بیٹی تھی۔ خیرالنساء اپنے وقت کی شہرت یافتہ اور بڑی بہادر فوجی عورت تھی۔ اس نے شیر شاہ سوری کے ہم راہ چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں حصہ لیا۔

    پھانسی گھر

    قلعے کاپھانسی خانہ سفید محل لسے دو فٹ کے فاصلے پر جنوب مغربی سمت میں نہایت بلندی پر ایک چار منزلہ عمارت میں واقعہ ہے اس عمارت کی چھت کے وسط میں اڑھای فٹ قطر کا ایک سوراخ ہے ۔ اس کے اردگرد بانسوں کو قائم رکھنے کے لیے انہیں باندھنے کی جگہیں تھیں۔ پھانسی خانے کا سوراخ گول ہے جس پر تختہ دار رکھا جاتا تھا اور بانسوں کے ذریعے مجرم کی گردن میں رسوں کے حلقے ڈالے جاتے تھے۔ جب تختہ کھینچا جاتا تو مجرم سوراخ سے نیچے لٹک جاتا ۔ جب اس کا سانس رک جاتا تو رسے ڈھیلے کر دئیے جاتے جس سے لاش زمین پر جا پہنچتی اورورثا دروازے کے راستے اسے اٹھا کر لے جاتے ۔

    فن تعمیر

    قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابہ جا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیںجو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے۔

    تباہی

    قلعہ روہتاس کی تباہی کا آغاز اس دن ہوا جب ہمایون جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران چلا گیا تھا۔ دوبارہ شہنشاہ ہندوستان بن کر اس قلعے میں داخل ہوا۔ وہ اس عظیم قلعے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ تو اس کے دشمن شیر شاہ نے بنوایا ہے تو اس نے غصے کی حالت میں اسے مسمار کا حکم دیا۔ بادشاہ کے معتمد خاص بیرم خاں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اب یہ اسلامی ورثہ ہے اوراس پر قوم کا کافی پیسہ خرچ ہوا ہے اس لیے اسے مسمار نہ کیا جائے ہاں اپنے حکم کی شان برقرار رکھنے کی خاطر اس کا کچھ حصہ گرادیں۔ چنانچہ سوہل دروازے کے پانچ کنگرے گرادیے جائیں۔ جو بعد میں دوبارہ تعمیر کرائے گئے۔ قلعے کی اصل تباہی سکھوں کے ہاتھوں ہوئی جو شاہی محلات کے اندر سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی طویل عرصے یہاں مقیم رہا لیکن قعلے کے بنیادی ڈھانچے اور عمارتوں کو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

    موجودہ حالت

    قلعہ روہتاس جی ٹی روڈ دینہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے قلعہ کے قریب واقع نالہ گھان پر پل تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس پل کی تعمیر سے پہلے نالہ گھان میں سے گزرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں آمدورفت منقطع ہوجاتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دروان استعمال کی جانے والی نیلام شدہ گاڑیاں قلعہ روہتاس کے لیے بہ طور پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جاتی ہیں۔ قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے ۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سکنھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے۔



    اُس کی چند جھلکیاں​

    http://upload.wikimedia.org/wikiped...300px-Rohtas_Fort_Magnificent_Kabuli_Gate.jpg
    http://4.bp.blogspot.com/-7xckxz-tw...04czdO2U4/s1600/Pak_islamabad_rohtas_fort.jpg
    http://t2.gstatic.com/images?q=tbn:ANd9GcTZeOPi37goeBFGcsuAAlpO-48HIaMDQcnIKwi2u1s_LVENo0Dz-l_8YEOM
    http://wondersofpakistan.files.wordpress.com/2008/07/img_7039-light-copy-copy.jpg
    http://whc.unesco.org/uploads/thumbs/site_0586_0001-469-0-20090922160830.jpg
    http://3.bp.blogspot.com/-dVYgvATFOs8/TZDmtYJb3zI/AAAAAAAAADQ/fEdrjY7Rrqc/s1600/4.jpg
    http://www.allaboutsikhs.com/old/gurudwaras/images/gop/chowasahib_rohtas.jpg
    http://media-cdn.tripadvisor.com/media/photo-s/01/1c/2d/23/f-trip-to-rohts-my-work.jpg
    http://heritage.pk/wp-content/uploa...uated-nearly-the-city-of-Jhelum-Pakistan1.jpg
    http://www.currentsocial.com/pakistan/wp-content/uploads/2011/02/89.jpg
    http://1.bp.blogspot.com/_c74YyBLxlFM/TNfryAicCuI/AAAAAAAAALY/iJkSkswDDKM/s1600/P2220142.JPG
     
  5. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    May 12, 2010
    Messages:
    22,418
    Likes Received:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    صدیقی جی بہت اچھی معلومات شیئر کیں آپ نے۔ اب تو میرا اور بھی زیادہ دل کر رہا ہے قلعہ روہتاس دیکھنے کا ۔ آپ ان معلومات کو ایک الگ لڑی کی شکل میں پوسٹ کریں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ دوست استفادہ حاصل کر سکیں۔
    شکریہ۔
     
  6. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    اب تو واقعی اس قلعہ کی سیر کرنی ہی پڑے گی ۔ شکریہ صدیقی بھائی ۔
     
  7. فاطمہ حسین
    Offline

    فاطمہ حسین مدیر جریدہ

    Joined:
    Oct 10, 2011
    Messages:
    734
    Likes Received:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    مجھے ایک بات پریشان کرتی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں برداشت کی کمی کیوں‌ہے۔۔ ہم ہر بات کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیتے ہیں
     
  8. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    واقعی ! یہ بات مجھے بھی پریشان کرتی ہے ، اور میرا خیال ہے ، اس پر سب دوستوں کو اظہار رائے کرنا چاہیے ۔
     
  9. فاطمہ حسین
    Offline

    فاطمہ حسین مدیر جریدہ

    Joined:
    Oct 10, 2011
    Messages:
    734
    Likes Received:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    کوئی بھی اس موضوع کو ڈسکس نہیں کر رہا۔۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے
    آصف بھائی آپ کچھ لکھیں ناں
    پھر میں بھی ان شاءاللہ لکھوں گی
     
  10. محمد رضی الرحمن طاہر
    Offline

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    Joined:
    Apr 19, 2011
    Messages:
    465
    Likes Received:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    میرا مسئلہ میری نوکری ہے مجھے رزق حلا ل کیلئے نوکری کی تلاش ہے پانچ برس سے میں تلاش میں ہوں لیکن ابھی تک چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔

    یاد رکھیں میرے پاس سفارش نہیں ہے اور نہ رشوت دینے کیلئے پیسے
     
  11. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    برادر محمد رضی الرحمن طاہر ! نوکری نہ ملنا حصول رزق اور کسب حلال کے آڑے کبھی نہیں آتا ، اصل چیز کسب حلال کی خواہش اور کوشش ہے ، بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ محنت میں‌ عظمت ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے زرخیز ملک میں چھوٹے موٹے کاروبار سے باعزت روزگار کمایا جا سکتا ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے ہیں اور اس سے اختلاف کا حق ہر صارف کو ہے ۔
     
  12. شانی
    Offline

    شانی ممبر

    Joined:
    Feb 18, 2012
    Messages:
    3,129
    Likes Received:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    رضی بھاہی آصف بھاہی نے بلکل ٹھیک کہا
     
  13. الکرم
    Offline

    الکرم ناظم Staff Member

    Joined:
    Jun 25, 2011
    Messages:
    3,090
    Likes Received:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    کسی اچھی سی سائٹ کا اڈریس چاہیے ہمیں
    جہاں سے اچھے اچھے پروگرام مل سکیں
     
  14. احمد کھوکھر
    Offline

    احمد کھوکھر ممبر

    Joined:
    Aug 5, 2008
    Messages:
    61,332
    Likes Received:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    اچھے پروگرام سے کیا مراد
    کچھ پڑھنے کوکہ کچھ دیکھنے کو
     
  15. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    Joined:
    Oct 5, 2006
    Messages:
    131,687
    Likes Received:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    یہ چیک کریں
     
  16. شاہنوازعامر
    Offline

    شاہنوازعامر ممبر

    Joined:
    Mar 5, 2012
    Messages:
    400
    Likes Received:
    287
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    جی یه بتادیں که قلعہ روہتاس ہے کہاں اس کا شیرشاه سوری سے کیا تعلق
     
  17. الکرم
    Offline

    الکرم ناظم Staff Member

    Joined:
    Jun 25, 2011
    Messages:
    3,090
    Likes Received:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    شاہنوازعامر جی یہ جہلم کے قریب ہے اور شیر شاہ سوری نے اسے بنوایا تھا
     
    پاکستانی55 likes this.
  18. احتشام محمود صدیقی
    Offline

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    Joined:
    Apr 1, 2011
    Messages:
    4,538
    Likes Received:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھے کچھ کہنا ہے

    ہمت نہ ہارنا ۔ ہمت مرداں مدد خدا۔۔۔
    مشکل ھے۔ مگر سنو اللہ کے یہاں دیر ھے اندہیر نہیں۔۔
    طولِ شبِ فراق سے نہ گھبرا اے زوق
    ایسی بھی کوئی شب ھے جسکی سحر نہیں۔​
     
    پاکستانی55 likes this.
  19. UrduLover
    Offline

    UrduLover ممبر

    Joined:
    May 1, 2015
    Messages:
    812
    Likes Received:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 likes this.
  20. UrduLover
    Offline

    UrduLover ممبر

    Joined:
    May 1, 2015
    Messages:
    812
    Likes Received:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 likes this.
  21. UrduLover
    Offline

    UrduLover ممبر

    Joined:
    May 1, 2015
    Messages:
    812
    Likes Received:
    713
    ملک کا جھنڈا:
  22. UrduLover
    Offline

    UrduLover ممبر

    Joined:
    May 1, 2015
    Messages:
    812
    Likes Received:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 نے اسے پسند کرنے کا شکریہ
     
    پاکستانی55 likes this.
  23. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 6, 2012
    Messages:
    98,397
    Likes Received:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ جناب
     
  24. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
  25. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    پچھلی پوسٹوں کے ربط اس لیے منسلک نہیں ہو رہے کہ وہ ربط زین فورو پر آنے سے پہلے کے ہیں۔ تمام صارفین کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام پرانی پوسٹوں کے نئے ربط لگائیں۔ اس لیے اگر ربط منسلک نہ ہو رہا ہو تو تلاش کی سہولت سے استفادہ کریں۔
    Baab-Ul-Islam
     
    ھارون رشید likes this.

Share This Page