1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سخاوت کی طاقت ۔۔۔۔۔ عظیم جمال

Discussion in 'اردو ادب' started by intelligent086, Nov 19, 2020.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سخاوت کی طاقت ۔۔۔۔۔ عظیم جمال

    ہم اس پُر تشدد دنیا میں جی رہے ہیں، انسان مصائب میں مبتلا ہیں اور ماحول تباہ وبرباد ہو رہا ہے۔ ہم انسان ہوتے ہوئے کیا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم دوسروں کے زخموں کو مندمل کرنے میں ان کی مدد کرکے ان کی تکلیف کم کر سکتے ہیں ؟
    ہاں ہم سخاوت کر کے ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ دوسروں کے لیے ہے ہم دوسروں کو اپنا وقت دے سکتے ہیں، فہم و ادراک سے کچھ دے سکتے ہیں، محبت دے سکتے ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ہم دوسروں کی مدد کرکے معجزے رونماکر سکتے ہیں۔ ہم اپنے آئیڈیاز، ہنر وفن اور دیگر ذرائع سے اس دنیاکو حیران کن حد تک بہتر بناسکتے ہیں۔ہم ہر طرح کے حالات میں دوسروں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
    آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہوگی:
    "We may only be one person in the World. But we may be the world to one Person."
    اگر ہم میں سے ہر کوئی انتخاب کرے کہ وہ اس دنیا کے انسانوں کو امید، محبت یا پھر شفا دے سکتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی ضرورت ہر شخص کو ہوتی ہے بلکہ خود ہماری ذات کو بھی ہوتی ہے۔ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ سخاوت انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس سے دونوں فریقین کو فائدہ ہوتا ہے، لینے والے کو بھی اور دینے والے کو بھی۔ زندگی ہمارے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے۔
    ہم جو سخاوت کرتے ہیں اس کے مثبت اثرات ہمارے مرنے کے بعد تادیر رہتے ہیں کیونکہ ہمارے دوست، خاندان کے افراد اور معاشرے کے افراد کے ذہنوں میں ہماری یادیں قائم رہتی ہیں دراصل سخاوت کا جذبہ ہوتا ہی ناقابل فراموش ہے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی سخاوت اور مدد سے کچھ فرق نہیں پڑتا تو آپ کارلی کی کہانی سنیئے۔ کارلی ایک تین سالہ بچی تھی اور کافی صحت مند تھی، ایک دن اچانک اسے تیز بخار ہوا، اس کے والدین اسے ہسپتال لے گئے۔ تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ اسے کینسر ہے۔
    اس بچی کا علاج شروع ہوا اور اس کے والدین نے بچی کی صحت یابی کے لیے دعا کرنا بھی شروع کر دی۔ کارلی کی دس ماہ تک کیموتھراپی ہوئی اس کے بعد کارلی کی دادی نے اسے ایک سرپرائز دیا کیونکہ اس کی دادی نے ایک فائونڈیشن سے کہا تھا کہ وہ کارلی کی ایک خواہش جو کہ اس کا خواب ہے، کو پورا کریں۔ یہ فاؤنڈیشن کینسر کے مریضوں کے لیے کینیڈا میں قائم ہے اور کینسر کے مریض بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی کوئی ایک ایسی خواہش ہے جو وہ پوری کرنا چاہتے ہیں؟
    کارلی کی دادی نے اس فاؤنڈیشن سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ اس کی پوتی سے بھی اس کی خواہش پوچھ کر اس کو پورا کیا جائے۔صرف تین ہفتے پہلے ہی کارلی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ دنیا کی سیر کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے بعد اچانک اسے شدید نمونیہ ہوگیا، چھ دن بعد کارلی '' قومہ‘‘ میں چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو بتایا کہ اب اس کے زندہ رہنے کے صرف بیس فیصد چانسز ہیں۔ کارلی کی حالت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ سترہ دنوں تک '' قومہ‘‘ میں رہی، اس کے پھیپھڑوں نے 98فیصد کام کرنا بند کر دیا تھا اس کے ننھے سے جسم میں ڈاکٹروں نے 13قسم کی نالیاں لگا رکھی تھیں۔ ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو صاف صاف بتادیا تھا کہ اب کارلی ہفتے کی شام تک زندہ نہیں رہ سکے گی۔
    کارلی کی ماں نے بعد میں بتایا کہ میں بیان نہیں کر سکتی تھی کہ میں کس قدر خوف زدہ ہوگئی تھی کیونکہ ہماری بچی موت کے منہ میں جا رہی تھی۔ویک اینڈ پر چھٹیوں پر جانی والی نرسوں نے جمعہ کی شام کو کارلی کو خدا حافظ کہہ دیا تھا لیکن جب نرسیں پیر کی صبح واپس ڈیوٹی پر آئیں تو وہ کارلی کو زندہ دیکھ کر بہت حیران ہوئیں۔ کیونکہ ایک معجزہ ہوچکا تھا۔ کارلی قومہ سے باہر آچکی تھی اور پورے ہوش میں تھی۔ اگرچہ اس کا وزن آدھے سے بھی کم رہ گیا تھا لیکن وہ زندہ تھی۔بارہ دنوں کے بعد کارلی ایک ہوائی جہاز میں سوار ہو کر دنیا کی سیر کو جا رہی تھی اب وہ ڈولفن مچھلیوں کے ساتھ تیر کر بہت خوش ہو رہی تھی۔
    دو ہفتوں کے بعد کارلی جب دنیا کی سیر سے واپس آئی تو وہ دوڑتی ہوئی اپنی دادی کے گھر گئی۔ کارلی کا تندرست ہونا بہت ہی حیران کن تھا۔ کارلی کی ماں ''رُس‘‘ یقین رکھتی ہے کہ وہ دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں کیونکہ ان کی بچی موت کے منہ سے نکل کر صحت مند زندگی گزار رہی ہے۔دراصل ان کی بچی کی شدید خواہش نے اس کو موت کے منہ سے نکال لیا تھا۔ آپ کے خواب اور شدید خواہشیں آپ کو بسترِ مرگ سے اٹھانے میں بہت زیادہ مدد کرتی ہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کا دان کیا ہوا دوسروں کو زندگیاں بخش سکتا ہے اور آپ کو مصائب سے نجات دلا سکتا ہے آپ کے دیئے ہوئے تحفے حیرت انگیز بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔
    ایسی کہانیاں بتاتی ہیں کہ سخاوت کی طاقت خوشیاں اورزندگی جیسی نعمت بھی بخش سکتی ہے اس سے دینے والے کے دل اور روح کو سکون اور طاقت بھی ملتی ہے۔اس طرح کی لاکھوں کہانیاں ہیں کہ سخاوت کی طاقت نے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ کچھ لوگ رقم دان کرسکتے ہیں، کچھ وقت اور محبت دوسروں میں تقسیم کر سکتے ہیں، یہ بھی سخاوت ہی ہے۔جب آپ کسی فائدے اور توقع کے بغیر کسی کی مدد کرتے ہیں تو اس کا آپ کی ذات کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ آپ نے سنا تو ہوگا ''جیسا بیجو گے ویسا ہی کاٹو گے۔‘‘
    یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ جس قدر زیادہ دیا جائے اسی قدر آپ میں جوش بڑھتا ہے آپ زیادہ قوی اور توانا ہوتے جاتے ہیں اور آپ کی زندگی میں زیادہ خوشیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں آپ کی صلاحیتیں بڑھ جاتی ہیں اور اس طرح آپ کی دنیا خوبصورت ہوتی جاتی ہے۔
    ہم نے اپنے تجربات سے سیکھا تھا کہ جب ہم اپنے غم اور خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں تو اس سے معاشرتی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم نے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے کہ معاشرے کے نوجوانوں کو کبھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ نوجوان معاشرے کی بہت بڑی طاقت ہیں۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ماضی میں ہم نے بہت سی غلطیاں بھی کی ہونگی۔ اس لیے ہم نے ان غلطیوں سے سبق بھی سیکھا لیکن ہم نے جو علم، جذبہ اورقوت حاصل کی اس کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے اور ان کی مدد کرنے کے لیے ان چیزوں کو استعمال کیا۔ ہم نے دوسروں کو خوشیاں دے کر خود بھی بہت طرح کی توانائیاں حاصل کیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے تجربات میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل کریں تاکہ ہم اس کوشش سے دنیا میں بہتری پیدا کر سکیں۔
    ٭:آپ بھی سخاوت کی اہمیت کو سمجھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔
    ٭:اگر آپ مسلسل کچھ نہ کچھ عطیہ کرتے رہیں تو اس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا اورخود آپ کو بھی خوشی حاصل ہوگی۔
    ٭:اس سے جلد ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی زندگی پر کیسے بہترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
    ٭:آپ محسوس کریں گے کہ تھوڑا سا دینے سے آپ کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
    ٭:ہم سخاوت سے اپنی دنیا کو پرامن اور صحت مند بنا سکتے ہیں اور اسے خوشیاں دے سکتے ہیں۔
    ہم تو چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس دولت نہیں ہے تو وہ دوسروں کی مدد کے لیے اپنا وقت دے سکتا ہے۔ اپنی صلاحیتیں اور علم دوسروں کی فلاح کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمدردی، حوصلہ وغیرہ بھی وہ چیزیں ہیں جن پر کوئی خرچ نہیں آتا۔
    ہم یقین رکھتے ہیں کہ سخاوت کی طاقت ہر کوئی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کو عمل میں لانا ضروری ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جن کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ ہر وقت پریشان رہتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی دولت میں سے دوسروں کی مدد کرنا شروع کی تو انکی کئی پریشانیاں ختم ہوگئیں کیونکہ سخاوت اپنا اجر ضرور دیتی ہے۔

     

Share This Page