1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتباسات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏30 اکتوبر 2011۔

  1. ندیم وجدان
    آف لائن

    ندیم وجدان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2014
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم "حال "کہتے ہیں وہ فی الحقیقت ہے کہاں؟یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسر ہے وہ یا تو" ماضی" کی نوعیت رکھتا ہےیا "مستقبل"کی،اور اِنہی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے،جسے ہم "حال" کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ "ماضی" اور "مستقبل "کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہےلیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی اور نکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکتے۔ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں ،لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا اور اُدھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی۔اب یا تو ہمارے سامنے "ماضی "ہے جو جا چکا یا " مستقبل"جو ابھی آیا ہی نہیں۔لیکن خود "حال" کا نام ونشان دکھائی نہیں دیتا۔جس وقت کا ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ"حال" تھا اور جو ہماری پکڑ میں آیا وہ "ماضی"ہے۔
    نکل چکا وہ کوسوں دیا رِ حرماں سے
    غبارِ خاطر از ابو الکلام آزاد صفحہ نمبر 246
     
    نایاب، سین اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    بہت گہری بات ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    " ہر چیز جو ظہور میں آتی ہے وہ کسی حقیقت کی علامت ہوتی ہے - یہ تباہ کن ہتھیار اس بات کے غماز ہیں کہ سفید فام انسان اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہے.......... اسے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی........ مگر مکمل تباہی میں........!!"

    (محمد ابن الحسن - "جامِ سفال" سے اقتباس)
     
    تانیہ، ندیم وجدان اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    " ہم سب ایسے ہیں....... جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی ........وہ بات بے بنیاد ہے ، جھوٹ ہے ..... کچھ علم دو اور دو چار نہیں ہوتے ....... ان کو تصوف کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے........!!"

    (اشفاق احمد - "حیرت کدہ " سے اقتباس)
     
    غوری اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    " ایک بے سمجھ اور بے انصاف آدمی ساری عمر یہی سمجھتا رہے گا کہ وہ ایک ٹارگٹ ہے ، ایک نشانہ گاہ ہے - اور اس پر مسلسل تیر اندازی ہو رہی ہے - لیکن جب وہ خود احتسابی کے عمل سے گزرے گا تو اسے پتہ چلے گا وہ ایک نشانہ ہی نہیں ، ایک تیر بھی ہے جو وقت بے وقت چلتا رہتا ہے ......... اور خوب خوب زخم دیتا ہے.....!!"

    (اشفاق احمد - " من چلے کا سودا" سے اقتباس)
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    " چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا - مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی...! تُو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیرہ رہنا چاہیے - اور تُو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلالِ جرات ملنا چاہیے - بلکہ خود لے لینا چاہیے ................ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں........... لیکن اُن کو "دینِ الٰہی" نہیں کہتے.......!!"

    (ابنِ انشاء - "اردو کی آخری کتاب" کے مضمون "دینِ الہٰی" سے اقتباس)
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    " معجزے تا دیر نہیں رہتے - طورکی جھاڑی تا دیر روشن نہیں رہتی - یوسف کو خریدنے والی بڑھیا بھی تھک ہار جاتی ہے............اورنہ ہی کوئی بیمار ابد تک دم عیسیٰ کا منتظر رہتا ہے.......... نہ پری رہی ، نہ جنوں رہا.......!!"

    (مستنصر حسین تارڑ - " الاسکا ہائی وے" سے اقتباس)
     
    عمر خیام اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
     
    عمر خیام اور ارشین بخاری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا ہے، زمین پر رہنے نہیں دیتا اور عشق لاحاصل ۔۔۔۔۔۔

    لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا ہے جب عشق لاحاصل رہتا ہے۔ جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔

    ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا۔

    گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے۔ مگر میری سمت الٹی ہوگئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا، مجازی کو نہ پاکر حقیقیی تک نہیں گئی تھی ، حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھررہی تھی۔

    (عمیرہ احمد کے ناول ’’دربارِ دل‘‘ سے اقتباس)
     
    سین اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
     
    نظام الدین نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
  12. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
  13. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ اور لاجواب انتخاب
     
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ممتاز کی عادت ہے کہ وہ بات کو بوٹی کی طرح توڑ لیتی اور شوربہ کی طرح بڑھا دیتی۔
    ان مجلسوں میں ہمارے ایک دوست قاضی صاحب بھی ہمارے ہمراہ ہوتے، ممتاز ان سے ہمیشہ چٹکی لیتی۔ موقع ملا نہیں اور اس نے وار کیا نہیں، پھبتیوں کا جھاڑ باندھنے میں بڑی ہی مشاق ہے۔تمام بازار میں اس پائے کی ایک بھی حاضر جواب نہیں۔
    عاشورہ کے دنوں میں ان کے ہاں مجلس عزا منعقد ہوئی۔ ایک نوجوان ذاکر عزاخوانی کے لیے بلائے گئے۔ ہمیں بھی یاد کیا گیا۔ ممتاز نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا ، قاضی صاحب نے دیکھا تو کہا۔
    "ممتاز آج تو حسین باندی نظر آتی ہو۔"
    ممتاز کو معلوم تھا کہ قاضی صاحب مجلس عزا کے خلاف ہیں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ناک بھوں چڑھا رہے تھے۔۔۔۔ چھٹتے ہی کہا۔
    "جی ہاں اور آپ بھی تو ابنِ زیاد نظر آ رہے ہیں۔"
    قاضی صاحب ضرورت سے زیادہ نک چڑھے تھے۔ دماغ تو خشک تھا ہی طبیعت بھی سڑی رکھتے۔ اول تو بولتے نہیں، بولیں تو جلی کٹی باتوں پر اتر آتے۔ کچھ دوست بیٹھے تھے ایک اور جان پہچان کے دوست آ گئے۔ ان کی بے ڈھب باتیں سنیں تو پوچھا۔
    "آپ کی تعریف؟"
    ممتاز نے مسکراتے ہوئے کہا۔
    "آپ ہیں قاضی عبوساً قمطریرا"
    جن دنوں راوی کا پانی منٹو پارک تک آ پہنچا تھا ان کے ہاں باتوں ہی باتوں میں نصف رات گذر گئی۔ قاضی صاحب نے کہا۔
    "چلو بھئی! پانی مار کر رہا ہے کہیں یہاں تک نہ آ پہنچے اور ہم بے گناہ ہی ڈوب جائیں۔"
    ممتاز نے برجستہ جواب دیا۔
    "قاضی جی ! اس کے لیے تو چٗلو بھر ہی کافی ہے۔"
    ممتاز گا رہی تھی تقریبا سبھی ایڈیٹر اکٹھے تھے۔
    زندگی چال چل گئی شاید
    سازندے بے سُرے ہونے لگے، ممتاز نے ٹوکا۔ مجلس ختم ہو چکی تو قاضی نے کہا۔
    "آپ کے ہاں اناڑی سازندوں کا ہونا آپ کی شان کے شایاں نہیں۔"
    شمشاد نے کہا۔
    "جی ہاں! لیکن ان بےچاروں نے تو اب تقسیم کے بعد یہ کام سیکھا ہے۔"
    تو پہلے یہ کیا کام کرتے تھے؟" قاضی جی نے پوچھا۔
    ممتاز کہاں رکتی، سگریٹ کا دھواں پھینکتے ہوئے کہا۔
    "اجی! پہلے یہ اخبار میں ایڈیٹر تھے۔"
    ایک صحافی نے سوال کیا، "آپ لوگ اپنے بیاہوں پر اتنا روپیہ صرف کرتے ہیں، آخر یہ آتا کہاں سے ہے؟"
    ممتاز مسکرائی، "آپ جیسے شریفوں ہی کی رگیں نچوڑی جاتی ہیں۔"
    کچھ بڑی بوڑھیاں جمع تھیں، ایک جھریائی ہوئی عورت نے کہا۔
    "ممتاز! یہ میرے بازو پر کیا لکھا ہے؟"
    لکھا تھا ، بشن داس چاولہ
    ممتاز نے جلدی میں قمیص کا کف کھینچ کر ڈھک دیا اور کہا۔
    "خالہ! خدا کے لیے کسی اور کو نہ دکھانا، کہیں کوئی مسلمان متروکہ جائیداد سمجھ کر الاٹ ہی نہ کرا لے۔"
    اس بازار میں
    شورش کاشمیری

    سید شہزاد ناصر
     
    intelligent086، آصف احمد بھٹی اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ہائے ہائے
    کیا انداز تحریر ہے کچھ لکھنے والے اسقدر صاحب اسلوب ہوتے ہیں کہ ایک سطر سے بھی پہچان لئے جاتے ہیں
    شورش کاشمیری بھی انہی میں سے ہیں
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    میر تقی میرؔ جب لکھنو چلے ، تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے۔ دلّی کو خدا حافظ کہا، تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی، یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے، کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی،

    میر صاحب، چیں بہ جبیں ہو کر بولے: صاحب قبلہ! آپ نے کرایہ دیا ہے، بے شک گاڑی میں بیٹھے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟

    اس نے کہا ! حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔

    میرؔ صاحب بگڑ کر بولے: خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔

    لکھنو پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے، ایک سرائے میں اترے، معلوم ہوا آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے، اسی وقت غزل لکھی، اور مشاعرہ میں جاکر شامل ہوئے، ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، کمر میں ایک طرف تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب۔غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنو ، نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے فی البدیہہ کہا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اس کو فلک نے لوٹ کے ویرانہ کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو معلوم ہوا۔ بہت معذرت طلب کی عفو تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میرؔ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کر دیا۔

    (مولانا محمد حسین آزاد ؔکی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ سے ماخوذ)
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بصرہ میں ایک عابد و زاہد شخص اسماعیل رہا کرتے تھے ، انکی مالی حالت نہایت شکستہ تھی مگر کبھی کسی سے مدد نہ لی۔ آپ کی تین بیٹیاں تھیں جس دن چوتھی بیٹی پیدا ہوئ ، آپ کے گھر چراغ جلانے کو تیل تک نہ تھا ۔ بیوی کے پرزور اصرار پر آپ پڑوسی سے قرض مانگنے نکلے مگر پڑوسی نے دروازہ تک نہ کھولا ۔ بیوی کو علم ہوا تو حیرت کا اظہار کیا ۔ آپ نے کہا "حیرت کیسی جب ایک اللہ کا در چھوڑ کہ کسی کا در پر جاؤ تو یہی ہوتا ہے "۔ اسی پریشانی کی حالت میں آپ لیٹ گئے ۔ اور آنکھ لگ گئی۔
    خواب میں دیکھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں
    " اسماعیل اپنی بے سروسامانی کا غم نہ کر۔ تیری یہ بیٹی اپنے وقت کی بہت بڑی عارفہ ہوگی۔ جس کی دعاؤں سے امت کے بہت سے افراد بخشے جائینگے ۔ تجھ پر لازم ہے کے تو حاکم بصرہ عیسی زروان کے پاس جا اور اس سے کہ دے کہ وہ ہر رات سو بار اور شب جمعہ چار سو بار مجھ پر درود بھیجتا ہے ۔ مگر گزشتہ شب جمعہ اس نے مجھے یہ تحفہ نہ دیا ۔ اس کا کفارہ یہ ہے کے میرے قاصد کو چار سو دینار ادا کرے"
    جب شیخ اسماعیل کی آنکھ کھلی تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی لذت سے سرشار تھے ۔ آپ نے پورا خواب تحریر کر کے حاکم بصری کے دربان کو دے دیا ۔
    جب حاکم بصری نے تحریر پڑھی تو فورا کہا کہ اس محترم حستی کو بلاؤ۔ اس نے شیخ اسماعیل کے ہاتھ کا بوسہ دیا اور کہا کہ " آپ کے طفیل آج مجھے اپنی غلطی کا ادراک ہوا ہے " اس نے چار سو دینار شیخ کو اور دس ہزار فقراء میں تقسیم کرائے "

    شیخ کی وہ بیٹی جن کو آقائے دو جہاں خواب میں بشارت دے گئے بلاشبہ وقت کی بہترین زاہدہ و عارفہ رابعہ بصری تھیں ۔
    بشکریہ فیس بک
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    الہی یہ کس نگر کے لوگ ھوتے ہیں !
    درویشی ریت کا ذرا سا ذرا نہیں ھوتی اور نہ ھی مٹھی بھر ریگ کی مانند ھے یہ تو ادب، خدمت، اطاعت اور ریاضت کے ان گنت اربوں کھربوں زروں کا خشک صحرا ھوتا ھے۔۔ چکا چوند اُجالے میں سراب اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں قطبی تارا۔۔۔ حاصل گھاٹ تو کبھی نیل کا ماٹ، دلق اویسی تو کبھی کاسہ قیس یہ فغان یعقوب بھی ھے اور کبھی صبر ایوب بھی۔۔ یہ درفش کاویانی بھی ھے اور عصائے سلیمانی بھی ھے، یہ ہنر آزری بھی اور سحر سامری بھی ھے۔
    میں درویشی کی راہ کا کمزور سا مسافر ھوں۔۔ زاد راہ ھے نہ ہمت و سکت، در در بھٹک رہا ھوں، ٹھوکریں، رسوائیاں، رتجگے، جان ماریاں میرا نصیب ہیں۔۔ مجھے یہ حکم ھے کے چلتے رھو۔۔۔ اللہ کی زمین، آسمان، پہاڑ، دریا، صحرا، جنگل ویرانے، گل خانے تمھارے منتظر ہیں، جاؤ ان سے آشنائی پیدا کرو، پیادہ، جانوروں کی پیٹھ، گول پہیوں والی مشینوں پہ، آہنی پروں والے پرندوں پہ، سمندروں کے سینے پہ تیرتے ھوے راج ہنسوں پہ کہ درویشی، دریوزہ گری نہیں۔۔۔۔ دیدہ دری اور رفو گیری ھے۔
    گندہ کرنا ایسا مشکل نہیں جتنا مشکل پاک صاف کرنا ھوتا ھے۔۔۔ سرسراتی ہوا کی مانند مست خرامی بھی کبھی ایسی سوہان روح نہیں ھوتی جیسی حالت قید و قیام، روح فرسا ھوتی ھے، کہہ بول لینا دینا ھی اتنا دکھ درد کا باعث نہیں ھوتا جتنا ک چپ گمُ ، جان جلاتی ھے۔۔ چکی کا قطب خود تو دھرا، کھڑا ، گڑا اور پڑا رہتا ھے۔۔ مگر مدار کے اندر پتھر پاٹوں کو جمائے، چلائے، بھگائے رکھتا ھے۔۔۔۔۔ آسمان، ستاروں سے ذمین، زروں سے۔۔۔۔۔ سمندر، قطروں سے اور دشت دمن، اشجار و اثمار سے جل تھل ھوتے ہیں ۔۔۔۔۔
    (کاجل کوٹھا سے اقتباس) از بابا محمد یحی خان
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مرحوم کی پنجابی شعر و ادب میں تخلیقی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مرحوم نے اس وقت پنجابی لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا عَلم بلند کیا جب ادیب اور شاعر پنجابی میں لکھنا کسرِ شان سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نہ صرف خود پنجابی لکھتے تھے بلکہ بڑے بڑوں کو پنجابی لکھنے پر مجبور کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مرحوم، علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں پنجابی میں شاعری کرنے کی ترغیب دلائی۔ علامہ نے پنجابی میں شاعری کرنے سے معذوری ظاہر کی اور فرمایا، ایک تو میرا مزاج اردو، فارسی پڑھتے اور لکھتے ایسا بن چکا ہے، دوسرے پنجابی زبان میرے افکار و خیالات کے اظہار پر قادر نہیں۔ اس پر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر جوش میں آگئے اور کہنے لگے ’یہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ پنجابی میں قوتِ اظہار نہیں۔ لائیے، میں آپ کے جس شعر کا کہیں پنجابی ترجمہ کیے دیتا ہوں۔‘ علامہ نے کہا کہ میرے اس شعر کا ترجمہ کردیجئے:

    گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
    ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر

    ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے فوراً یہ مصرع موزوں کردیا:

    لشکن والیاں زلفاں نوں توں ہور ذرا لشکاندا جا

    علامہ اقبال نے یہ ترجمہ سنتے ہی ڈاکٹر فقیر مرحوم سے کہا کہ ہم ہارے اور آپ جیتے۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ علامہ کے نزدیک یہ ترجمہ درست نہیں تھا۔ میں نے جب اسیر عابد کے ترجمہء ’بالِ جبریل‘ میں اس شعر کا ترجمہ پڑھا تو مجھے یہ خیال آیا کہ اگر علامہ مرحوم اسیر عابد کا ترجمہ سن لیتے تو مزید ترجمے کی فرمائش کرتے۔ آپ بھی ترجمہ دیکھیں:

    کُنڈلائیاں ہوئیاں زلفاں نوں توں ہور ذرا کُنڈلا سجنا
    عقلاں نوں جال پھسا سجنا، عشقاں نوں پھاہیاں پا سجنا

    ڈاکٹر فقیر مرحوم نے ’تابدار‘ کا ترجمہ ’لشکن والیاں‘ کیا تھا جبکہ اسیر عابد نے اس کا ترجمہ ’کُنڈلائیاں ہوئیاں‘ کیا ہے۔ شعر کی صنعت گریوں اور ہنرمندیوں سے واقف فیصلہ کرسکیں گے کہ ہوش و خرد شکار کرنے کے لئے زلفوں کے جال کی ضرورت ہوتی ہے یا زلفوں کے چمکنے کی۔

    (اسیر عابد کی ’جبریل اُڈاری‘ پر ڈاکٹر وحید عشرت کے دیباچہ سے اقتباس)
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    عبد المجید سالک نے علامہ اقبال ے حالات کے بیان میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس سے تصوف کے بارے میں ان کے مخصوص نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں۔
    ''میں شام کے وقت حسبِ معمول حاضر خدمت تھا کہ ایک بزرگ فقیر حضرت کے پاس آئے۔ باتیں شروع ہوئیں حضرت نے فرمایا۔ ''سائیں جی میرے لئے دعا کیجیے۔'' وہ کہنے لگے۔ کیا آپ کو دولت مطلوب ہے'' فرمانے لگے نہیں مجھے دولت کی ہوس نہیں۔ درویش آدمی ہوں اللہ مجھے ضرورت کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔'' پھر فقیر نے پوچھا۔ کیا دنیا میں عزت و جاہ کے طلبگار ہو؟'' حضرت نے فرمایا۔ نہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے حاصل ہے۔ میں کسی اونچے رتبے کا طالب نہیں۔'' سائیں جی نے پوچھا تو پھر کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟''
    اس پر حضرت کی آنکھوں میں خاص چمک پیدا ہوئی۔ فرمانے لگے ''خدا سے ملنا! سائیں جی خدا خدا کرو۔ میں بندہ وہ خدا! میرا اس کا واسطہ صرف بندگی کا ہے۔ ملنا کیا معنی؟ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ خدا مجھے ملنے آرہا ہے تو میں بیس کوس بھاگ جاؤں۔ اس لئے کہ دریا قطرے سے ملے گا تو قطرہ غائب ہو جائے گا۔ میں قطرہ کی حیثیت سے قائم رہنا چاہتا ہوں اور اپنے آپ کو مٹانا نہیں چاہتا بلکہ قطرہ رہ کر اپنے آپ میں دریا کے خواص پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
    اس پر سائیں بے خود ہو کر جھومنے لگے اور کہنے لگے ''واہ اقبال۔ جیسا سنتے تھے ویسا ہی پایا تو خود آگاہ مشرب ہے تجھے کسی فقیر کی دعا کی کیا ضرورت ہے۔''
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے ایک دوست تھے ۔ بہت بڑے طبیب اور بہت بڑے طبیب خانوادے کر فرزند ۔ شاعر بھی تھے اور جوہر شناس بھی ۔ باتیں بہت خوبصورت کرتے تھے ۔ ان میں تجربہ بھی ہوتا اور مطالعہ بھی ۔ منطق بھی اور لوک دانش بھی ۔ ان کا نام جمال سویدا تھا اور میں اکثر ان کی محفل میں شریک ہوتا تھا ۔
    چونکہ وہ ایک بڑے جوہری تھے اور ہیروں کے اندر باہر ، ذات اور صفات کا علم رکھتے تھے ۔ اور ان کے مزاج اور اثرات سے واقف تھے ۔ اس لیے ان کی باتیں سن کر اور بھی حیرانی ہوتی ۔
    جمال سویدا صاحب نے بتایا کہ اگر بڑے ہیروں کے ساتھ چھوٹے اور کم قیمت ہیروں کو ایک مخصوص تھیلی میں ڈال کر رکھا جائے تو کم قیمت اور چھوٹے ہیروں میں بھی بڑے ہیروں جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ جن کے اندر کوئی رنگ نہیں ہوتا ان میں بڑے ہیروں کی رنگت کا بھی مستقل چلن پیدا ہو جاتا ہے ۔
    ہمارے گاؤں میں ایک اندھا فقیر صبح سویرے ایک صدا لگاتا ہوا گذرا کرتا تھا ۔ " اٹھ فریدا ستیا تے اٹھ کے باہر جا ، جے کوئی بخشیا مل گیا تے توں وی بخشیا جا " ۔
    مجھے اس وقت اس کی بات بڑی بے معنی لگتی تھی ، لیکن جمال سویدا کی گفتگو کی بعد اور ہیروں کی آپس میں صحبت کے بعد یہ راز کھلا کہ قربت انسان کو کس طرح بدل دیتی ہے ۔

    اشفاق احمد ذاویہ 3 اٹھ فریدا ستیا تے صفحہ
    اٹھ فریدا ستیا
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    آج کل یہ کتاب زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب کا موضوع اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کہ اس کے اقتباسات کھلے عام شیئر کیے جائیں۔ حالانکہ مجھے مسئلہ نہیں لیکن پڑھنے والوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ صفحہ پڑھ رہا تھا مزے کا لگا تو ساتھ ساتھ ادھر ٹائپ بھی کر دیا۔ مزید جو حصے فورم پر شیئرنگ کے لیے مناسب لگے ساتھ ساتھ یہاں ٹائپ کرنے کی کوشش بھی کروں گا۔
     
    آصف احمد بھٹی اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اس کتاب کے بارے مین بہت کچھ سنا ہے
    یہ ایک مخصوص طبقے کے بارے میں ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    واہ کیا وضع داری تھی۔ اور زبان و کلام کا کیسا لحاظ تھا۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    باباجی بھی اپنی قسم کے اکلوتے ہی لکھنے والے ہیں۔ ایسی روانی و برجستگی الفاظ کا ایسا چناؤ تحریر کی ایسی گرفت موجودہ دور میں کسی اور کی تحریر میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی۔ ان کی تازہ کتاب "لے بابا ابابیل" کی تلاش ہے لیکن نہیں مل رہی کہیں نظر سے گزری تو شیئر کیجیے گا۔ پیا رنگ کالا، کاجل کوٹھا ، شب دیدہ اور موم کی مورت پڑھ چکا ہوں۔ ان کی تحریر بظاہر بے ربط اور تشنگی لیے ہوتی ہے ایک واقعہ شروع کرتے ہیں اسے درمیان میں ہی چھوڑ کر نئی بات نکال لیتے ہیں۔ الف لیلیٰ کی طرف کہانی میں سے کہانی لیکن انداز ایسا ہے کہ تشنگی رہتے ہوئے بھی نہیں رہتی اور آگے بڑھتے رہنے کا من کرتا ہے۔ گوجرانوالہ میں واصف علی واصف رح کی یاد میں منعقد کیے گئے ایک سیمینار میں تشریف لائے تھے تو ملاقات بھی ہوئی تھی۔ گہری شخصیت ہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جی بازارِ جسم جیسے حساس موضوع پر سنجیدہ کتاب ہے۔ موضوع کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو بھی پڑھنے لائق اور داد دینے لائق اسلوب ہے۔ نیٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اس بندے کا طرز تحریر بہت انوکھا اور دلنشیں ہے دل میں اتر جانے والا بالکل وحی کی طرح
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔
    ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا؛ اے اللہ کی بندی، تم کون ہو؟
    بڑھیا نے جواب دیا؛ میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں، ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا؛ یہ شیخ کون ہے جو تمہارا گھر میں آتا ہے؟
    بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے، ہمارے لئیے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لئیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔
    حضرت عمر یہ سُن کر رو پڑے اور کہا؛ اے ابو بکر، تو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے۔
    (ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ۔ کتاب ۔ روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین)
     
    سید شہزاد ناصر اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ سبحان اللہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سائنس کے جدید مؤرخین کا یہ گمان اب یقین کے حدوں میں آچکا ہے کہ قدیم اقوام سائنس اور ٹیکنولوجی میں بہت ترقی کرچکی تھیں. ان قوموں کی ایک تحقیق ایک سفید سفوف کی کیمیاوی ترکیب اور استعمالات کے بارے میں ہے. یہ سفوف سونے اور پلاٹینم کے خاندان کی دھاتوں کو یکجوہری حالت میں لاکر بنایا جاتا تھا. مؤرخین کا بیان ہے کہ فراعنہ، نیز عہد قدیم کے دیگر بادشاہ اس تکنیک سے واقف تھے.
    قدیم اقوام کی سائنسی معلومات کے موضوع پر جدید عہد میں سوٹزرلینڈ کا قلم کار، ایرک وون ڈانیکن (Erich von Däniken) اپنی متنازعہ کتاب ’’خداؤں کی رتھیں‘‘ (Chariots of the Gods) اور اس سلسلہ کی کئی دیگر کتابوںمیں خاصی تفصیل سے بحث کرتا ہے. اگرچہ اس نظریہ کی سائنسی حقیقت پر شدید اعتراضات ہوئے ہیں، مگر ڈانیکن کی کتابوں کے بعد اس عہد کے ایک معروف امریکی فلکیاتی، کارل سیگن ،نے مرنے والے لوگوں یا انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ دنیاؤں (جنت؟)کے باشندوں سے ’’جسمانی ملاقات‘‘ کے موضوع پر ایک سائنسی ناول ’’رابطہ‘‘ (کونٹیکٹ Contact) لکھا. سیگن نے ڈانیکن کے تصور کو کلیتاً رد نہیں کیا تھا، اگرچہ اس کے دلائل اور شہادتوں کو کمزور کہا تھا.
    خیر اس نوع کی بہت سی باتیں ابھی محکم دلائل اور شواہد کا مطالبہ کرتی ہیں. میں نے ڈانیکن کی کئی کتابیں کچھ چالیس سال پہلے پڑھی تھیں. اس کی بیان کردہ دو ایک باتیں مجھے اس وقت یاد آگئیں. اس نے اہرام مصر، خاص طور پر خوفو کے ہرم ، میں اندر اور باہر کچھ سائنسی تحقیق کا دعویٰ کیا تھا. اس کے چند بیانات تھے:
    ایک: اہرام کی تعمیر کے وقت اندر اندھیرا تھا. قدیم عہد میں زیر زمین تعمیر کے دوران روشنی کے لئے وہاں مشعلیں جلائی گئی ہوں گی.مگر کسی بھی ہرم میں کاربن اور دیواروں پر دھوئیں کے اثرات نہیں ملے، اس کے برعکس ریڈیائی اثرات پائے گئے جو ہرم کے اندر زیادہ اور باہر ہرم سے دور ہوتے ہوئے کم ہوتے چلے جاتے ہیں. نتیجہ: عہد فراعنہ میں نیوکلئر بجلی پیدا کی جاتی تھی، نیز چونکہ ہرم کی دیواروں کے او پر یا اندر بجلی کے تار نہیں پائے گئے اس لئے غالباً اس زمانہ میں ایٹمی ٹارچ بنا لی گئی تھی.
    دو : جیزہ میں بنے ہوئے تین اہرام ہیں. ان میں سب سے بڑے خوفو کے ہرم میں جو پتھر لگے ہوئے ہیں ان میں سب سے چھوٹے پتھر کا وزن اڑھائی ٹن ہے اور سب سے بڑے پتھر کا وزن 30 ٹن ہے. یہ پتھر موجودہ شہر قاہرہ کے جبل مُقَطَّم سے کاٹے گئے تھے. جو لوگ قاہرہ جاچکے ہیں وہ شائد جانتے ہوں کے جبل مقطم، جس کے اوپر سلطان صلاح الدین کا قلعہ اورسلطنت عثمانیہ کے گورنر محمد علی پاشاالبانی کی مسجد ہے، آدھا اس طرح کٹا ہوا ہے جیسے مکھن کی ٹکیہ کو درمیان کے چھری سے کاٹا گیا ہو. اس پہاڑ کو کاٹنے اور پھر اس کے وزنی پتھروں کو نیل کے دہانہ کی زمین سے گزار کر جیزہ تک لے جانا حیرت انگیز ہے. یعنی عہد فراعنہ میں مقناطیسی حول پیدا کرکے معلق سفر (levitation) کی سائنس معروف اور مستعمل تھی.
    یہ سائنسی افکار ہیں جن کو زیادہ بہتر انداز میں سائنسداں ہی بیان کرسکتے ہیں. مجھے ان باتوں کے درست یا غلط ہونے پر اصرار نہیں. میں اسے ایک مختلف انداز میں دیکھتا ہوں.
    ہم یہ باور کئے ہوئے ہیں کہ سائنسی ترقی جیسی آج ہوئی ہے اب سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، اور یہ کہ اس ترقی کا کوئی انت اور اختتام نہیں ہے. یہ ترقی اب اسی طرح تا ابد جاری رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت ترقی کے اس سفر کو روکنے پر قادر نہیں ہے. یہ خیال فرعونیت ہے.
    جسے ہم تاریخ کہتے ہیں اس کا معلوم زمانہ بہت مختصر ہے. کہا جاتا ہے دنیا کی سب قدیم معلوم تہذیب ترکی کے شہر قونیہ کے نواح میں واقع میدان چتل ہویوک (Çatalhöyük) میں تقریبا ساڑھے نو ہزار سال پہلے موجودتھی. اس تہذیب کے فصیل بند شہروں اور بیرون شہر زراعت کے آثار باقی ہیں اور ترکی میں دیکھے جاسکتے ہیں. میں نے 1982 میں اس شہرکا ایک نمونہ انقرہ کے میوزیم میں دیکھا تھا. مگر اس تہذیب کی حقیقت سے لوگ بے خبر ہیں. اس کے علاوہ ماضی کے بارے مین ہم کیا جانت7ے ہیں؟ نہ جانے کن صدیوں میں حضرت نوح علیہ السلام نے وہ سفینہ بنایا تھا جس میں ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا، نیز تقریبا ً 80 اہل ایمان نے چالیس دن گزارے تھے. اس مدت میں کھانا کھایا بھی ہوگا، پکایا بھی ہوگا، ورنہ ان کے پاس کھانے کو مہر بند ڈبوں میں محفوظ کرنے کی سائنس ہوگی. اس کے علاوہ ہر قسم کے جاندار کی غذا کا انتظام بھی سفینہ میں کیا گیا ہوگا. کسی نامعلوم زمانہ میں شداد نے ارم نام کی جو جنت بنائی تھی وہ کچھ تو محیر العقول ہوگی کہ ایک مغرور بادشاہ نے اسے جنت سے مشابہ کہا.پاکستان میں موئنجو دڑو کے آثار اور شہری نظام اور نظافت کا معیار آج کے انسانوں کو انگشت بدنداں کر دیتا ہے . اس زمانہ کی زبان تو آج تک پڑھی ہی نہیں جاسکی جو کچھ حقائق اس دور کے بارے میں تفصیل معلوم ہو سکیں. اور بھی کتنی ہی تہذیبیں تو وہ ہوں گی کہ ہم تک ان کے آثار تک نہ پہنچے. وہ ختم ہوئیں توترقی کے کس مرحلہ پر تھیں کسی کو کیا معلوم.
    انسان جتنا ذہین آج ہے، ہزاروں سال پہلے بھی اتنا ہی ذہین تھا. بشریات کے جدید ماہرین کا یہ گمان ہے کہ ماضی میں انسان بندر سے زیادہ کچھ نہیں تھا. یہ خیال کچھ قصہ حاتم طائی سے کم نہیں. ماضی کے جو حالات قصے کہا نی کے طور پر صدیوں سے انسانی وراثت اور آدمی کا تہذیبی سرما یہ ہیں وہ کچھ اور ہی تصویر بناتے کہیں. اور اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑی عظیم تہذیبیں، خواہ آج کی تہذیب و ترقی سے کمتر ہوں یا برتر، خاک میں مل گئیں اور وقت کے ریگزار میں بکھرے ہوئے ذروں کی غذا بن گئیں. ہماری موجودہ تہذیب اور ترقی بھی اپنے انجام کو پہنچے گی. اگر فراعنہ کی ایٹمی بجلی پر یقین نہ بھی ہو تو سفینہ نوح کی روائت پر تو شبہ نہیں ہے. بلاشبہ وہ سفینہ سائنسی عجوبہ ہوگا.اس قوم کے بعد کب اور کتنی قومیں اس جیسا سفینہ بنا سکی تھیں؟
    سچ پوچھئے تو جب انسان کے عروج و زوال کی طویل تاریخ پر نظر جاتی ہے تو قرآن کا بیان مؤرخ کے نقطۂ نظر سے سمجھ میں آجاتا ہے، :
    کُلُّ مَن عَلَیھَا فَان m وَّ یَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُو الجَلٰلِ وَالاِکرَامِ m
    جو کچھ ہے اس (زمین) پر فنا ہونے والا ہے.اور باقی رہے گا بزرگی اور عظمت والا چہرہ تیرے رب کا.
    ( طارق غازی ۔ مطالعات )
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں