1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد رضی الرحمن طاہر, ‏7 اکتوبر 2011۔

  1. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
  2. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    [​IMG]
    پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالت اور قانونِ ردِّ قادیانیت کیسے بنے؟ اسکے لئے یہ ویڈیو دیکھئے:
    [fv]299683740046304[/fv]​
     
  3. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    محمد اکرم بھائی یوٹیوب وغیرہ کا لنک دیں جو لنک آپ نے دیا ہے وہ ناکارہ ہے
     
  4. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    [​IMG]
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    یہ ٹھیک ہے کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے لیکن یہ سزا دینا حکومت وقت کا فرض ہے ناں کہ کسی ممتاز قادری کا
     
  6. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    آبی بھائی یو ٹیوب کا لنک یہ ہے:
     
  7. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    راشد بھائی آپ کی بات بالکل درست ہے۔ ملکی قانون میں اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا موت مقرر ہے، اور آجکل تو عدلیہ بھی حکومتی اثر سے آزاد ہے۔ جو نام نہاد مذہبی جماعتیں آج اس ایشو پر تحریک چلا رہی ہیں، وہ اُس وقت عدالت میں کیوں نہ لے کر گئیں سلمان تاثیر کے معاملے کو؟ اس وقت تو یہ لوگ خاموش تماشائی بنے رہے، مگر اب سادہ لوح عوام کے جذبات بھڑکا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

    اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو غازی علم دین شہید اور ممتاز قادری کے کیس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ غازی علم دین کے وقت حکومتِ وقت غیر مسلم تھی اور توہینِ رسالت پر سزا کا کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔ اس وقت عدالت سے اس سلسلے میں کسی قسم کی مثبت اُمید نہیں رکھی جاسکتی تھی، لہذا، انفرادی اقدام کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، مگر ممتاز قادری کے کیس میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اب قانون بھی موجود ہے اور آزاد عدلیہ بھی، پھر اس کے باوجود قانونی راستہ اختیار نہ کرنا اور ممتاز قادری جیسے عوام الناس کے انفرادی اقدامِ قتل کی حمایت کرنا کسی طرح سے بھی جائز معلوم نہیں ہوتا۔

    کیا ممتاز قادری کے اس اقدام کی حمایت کرنے والی مذہبی جماعتیں آئیندہ کیلئے یہ قانون پاس کرا سکتی ہیں کہ کوئی بھی عام آدمی کسی کو بھی توہینِ رسالت کا الزام لگا کر قتل کردے تو اسکا یہ اقدام جائز تصور کیا جائے؟ اگر ایسا ہو تو پھر الزام کے سچ یا جھوٹ ہونے کی تمیز کس طرح ہوگی؟

    ویسے حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ موجودہ قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی بات کرنے کو بھی ناجائز اور توہینِ رسالت سمجھتے ہیں، مگر خود اس قانون پر عمل نہیں کرتے، کیونکہ موجودہ قانون میں کہیں بھی ممتاز قادری جیسے عام آدمی کو توہینِ رسالت کے ملزم کو خود سزا دینے کا حق نہیں دیا گیا !!!
     
  8. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    آپکے دلائل میں بلاشبہ وزن ہے اور اس موضوع پر ڈیبیٹ ہوسکتی ہے مگر مجھے فقط اتنا اختلاف ہے کہ ممتاز قادری کے حق میں احتجاج کرنے والی اسلامی جماعتوں کو نام نہاد کہنا ہرگز درست نہیں ۔ہاں دلائل کے ساتھ ان کے مؤقف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ایسے عامیانہ الفاظ استعمال کرنا ہرگز علمی طریقہ کار نہیں امید ہے کہ آپ میرا پوائنٹ سمجھ گئے ہونگے ۔۔والسلام
     
  9. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    السلامُ علیکم۔ آبی بھائی غلطی کی نشاندہی کا شکریہ۔ میرے خیال میں نام نہاد کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب مسمیٰ کا حال اسکے نام کا کماحقہ آئینہ دار نہ ہو، اور میرے خیال میں فی الواقع ایسا ہی ہے۔ خصوصاً 1977ء کے بعد سے ہماری مذہبی جماعتوں نے معاشرے میں جس طرح سے فرقہ واریت، تعصب، تنگ نظری اور عدم برداشت کے رویوں کو فروغ دیا ہے ، اور جس فراوانی کے ساتھ ایک دوسرے کو کافر، مشرک، بدعتی اور گستاخِ رسول قرار دیا ہے، ان سب عوامل کی وجہ سے ایک عام مسلمان کی تو یہی رائے بنتی ہے، بہرحال آپکی رائے کے احترام میں ، میں نے اوپر کی پوسٹ میں "نام نہاد" کے الفاظ ڈیلیٹ کردیے ہیں، آپ چیک کرلیں۔ آئیندہ بھی آپکی مثبت رائے میرے سر آنکھوں پر! بہت بہت شکریہ، اللہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔
     
  10. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ تمام احباب خیریت سے ہونگے۔

    تحریک منہاج القرآن نے تو اس بارے اپنا واضح موقف دے دیا ہے لیکن کچھ دوسری جماعتیں اور مشہور شخصیات باوجود یہی موقف رکھنے کے خاموش ہیں اور ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے صرف منہاج القرآن کا یہ موقف ہو۔

    میرے خیال سے ان مشہور شخصیات اور جماعتوں کو بھی اس مسئلہ کے بارے اپنا موقف دینا چاہیے ۔

    خوش رہیں
     
  11. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    یہ معاملہ ہوش کاہے جوش کا نہیں ۔۔۔!!
    محمدرضی الرحمن طاہر فتح جنگ ۔اٹک
    ہمیں صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے کیلئے ایماندار اور جرات مند ہونا پڑے گا ۔ ہم نے اگر ہمیشہ مصلحت سے کام لیا تو قوم کا مستقبل تاریک ہی ہے ۔ مذہبی ایشو ز پر سیاست کی دوکانیں چمکانا کہاں کی عقلمندی ہے اور خصوصاً جہاں معاملہ ہو ”سرکار دوعالم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس کا “ وہاں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ تو وہ بارگاہ بے کس پناہ ہے کہ جہاں ”جبرئیل پر بچھائے تو پر کو خبر نہ ہو“ ۔ یہاں تو بات ایمان کی آتی ہے ۔ ذرا برابر اونچ نیچ سے ایمان جاتا رہتا ہے اور خبر تک نہیں ہوتی ۔ توبہ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بالا صفات پر گستاخی خود رب ذوالجلال کو گوارہ نہیں ۔ بولہب ملعون گستاخی میں انگلی اٹھائے تو رب خود کہے ”تبت یدا ابی لھب و تب “میرے محبوب کی طرف انگلی اٹھانے والے تو برباد ہوئے تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں ۔۔۔آگے چلیں جب اس کی بیوی رسول خدا کی راہ میں کانٹے بچھاتی تو اس ملعونہ کیلئے رب ذوالجلال کا جلال یوں برسا ” کہ تیری بیوی جو گھٹڑیاں باندھ کے لاتی ہے وہ بھی فنا ہو برباد ہو “۔اور کیونکہ پیغمبر اسلام سرور دوعالم ﷺ سے مسلمان کا ایمانی ، جذباتی ، حبی ، عشقی تعلق ہے تو یہاں اس بارگاہ بے کس پناہ کے حضور اگر کوئی پلیت اور ملعون کچھ غلط منسوب کرے تو مسلمان سے برداشت نہیں ہوتا ۔ گستاخی چاہے چھوٹی ہو یا بہت بڑی ۔۔ گستاخی ، گستاخی ہی ہوتی ہے جو اس بارگاہ کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔ اسلئے پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ” گستاخ رسول کی سزا بصورت حد موت ہے“۔ یہ قرآن کا قانون ہے ۔ پاکستان میں یہ قانون 295سی کے نام سے رائج ہے ۔ یہ قانون 1986میں بنا جب شرعی عدالت میں معروف مذہبی و روحانی سکالر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری (جوکہ ایل ایل بی بھی ہیں اور اسلامک لاءمیں پی ایچ ڈی ہیں ) نے تین دن لگاتار دلائل دیئے جس پر عدالت نے مروجہ سزا قید و بند کو ختم کیا اور اس کی جگہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ295cکا اضافہ کیا جس کے تحت گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔حال ہی میں اسی سکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ایک انٹرویو پر ملک کے باشعور حلقوں کو تحقیق کی راہ ملی ۔ جب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دو باتیں کہیں ۔ جن میں ایک ” سلمان تاثیر کے الفاظ گستاخی رسول پر منتج نہیں ہوتے “ اور دوسری ” اگر وہ بالفرض گستاخ ہو بھی تو بھی کسی فر واحد کا حق نہیں کہ قانون ہاتھوں میں لے یہ عدلیہ اور حکومت کا فرض ہے “ ۔ پہلی بات یہ کہ سلمان تاثیر کے الفاظ گستاخی رسول کی مد میں نہیں آتے “ یہ بات تحقیق طلب کہ آیا جب علماءکی ایک بڑی تعداد اسے گستاخ رسول کہتی ہے تو خود اس قانون کو دلائل کے ذریعے پاکستان کے قانون کا حصہ بنانے والے سکالر نے یہ اختلاف کیوں کیا ؟؟ اس پر تحقیق کی ابتدا پر ان علماءکا فتوی دیکھنا ہوگا ۔ جس میں انہوں نے اس کے بیان پر دلائل دیئے ہوں کہ وہ اس کے الفاظ گستاخی رسول کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں “ قرآن ، حدیث اور فقہ سے یہ بات ثابت ہو کہ سلمان کے الفاظ گستاخی رسول کی مد میں آتے ہیں ؟؟ اس کے الفاظ میں رسول اللہ صلے اللہ علیہ والہ وسلم کا نام کتنی مرتبہ آیا ؟ کیا اس نے معاذ اللہ حضور نبی کریم کو گالی دی ؟ کوئی غلط بات ان کی طرف منسوب کی ؟ کسی شان کی نفی کی ؟ حضور کو معاذ اللہ برا بھلا کہا ؟؟ اس مقام پر مجھے وہ تمام علماءاپنے کپڑوں پر خون لگا کر شہید بننے کی کوشش میں آگے آگے نظر آئے مگر کسی کے پاس سے اس کی باتوں کو قرآنی اسلوب سے گستاخ رسول ثابت کرنے کا فی الحال تک جواب نہ ملا ۔ تحقیق کیلئے دوسری بات یہ کہ آسیہ کیس کو دیکھنا ہوگا ۔ ان محرکات کو دیکھنا ہوگا جن سے فضا آسیہ کے مظلوم ہونے کے بارے بن گئی ۔ ان تمام باتوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ جس کی وجہ سے سیاست دانوں بشمول سلمان تاثیر نے زبان درازی کی ۔ان تما م باتوں کو نظر میں لانا ہوگا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ اس قانون کو غلط استعما ل کیا جارہا ہے ۔ جب میں نے علماءکو دیکھا تو وہ اس بات پر بھی تحقیق سے خالی علمی طور پر معذور نظر آئے ۔ اگر علماءتحقیق نہیں کرسکتے تو فتوی دینے سے پہلے حکومت کے موقف اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کرتے ۔ یوں گلی محلوں میں جذباتی تقریروں سے صرف عوامی جذبا ت کیساتھ نہ کھیلتے ۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری چونکہ ماہر قانون بھی ہیں اسلئے ان کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ، انہوں نے کہا کہ اس قانون کے غلط استعمال کا تدارک ہوسکتا ہے قانون شہادت کو بہتر بنایا جائے تاکہ کوئی جھوٹی تہمت میں نہ مارا جائے (ماہنامہ تحریک ، مارچ 1995) یہاں پھر سوال کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آسیہ کا ساتھ دیا تو گستاخ رسول کی حمایت کرنے والا بھی گستاخ رسول ہی ہے اس پر علماءکے پاس دلائل بھی ہوں گے مگر کیا سوال پھر اسی جگہ ہے کہ سلمان کی حیثیت کیا تھی ؟؟ کیا اس کے کہنے پر زرداری نے معاف کردیا ؟؟ ان اسباب کو بھی تو دیکھیں اس نے کہا کہ میں نے کیس سٹڈی کیا ہے اس میں مجھے کوئی بات نظر نہیں آئی ۔تو انتظا ر کرتے حرف آخر کا ۔ علماءازخود اس کیس کو سٹڈی کرتے ۔ عدالت کی کاروائیاں دیکھتے مگر اس ضمن میں بھی علماءمعذور نظر آئے ۔ حتی کہ گیلانی صاحب نے بھی کہہ دیا تھا کہ ہم اس قانون کو تبدیل نہیں کریں گے ۔ حکومت کے سربراہ نے یہ بات کہہ کر سلمان تاثیر کو شٹ اپ کردیا تھا ۔ وہ فتوی کہاں ہے جو علماءنے دیا ؟؟؟ سلمان تاثیر نے تو قرآنی قانون کی گستاخی کی ۔ علماءاس بات پہ تحقیق کیوں نہیں کرتے کہ قرآنی احکام کی گستاخی پر 295bکے تحت دیکھا جائے گا ۔ قصاص کا قانون ، اور تعزیرات پاکستان پینل کوڈ338 یہ بھی شرعی قوانین ہیں کیا ان کو بھی ” کالا “ کہہ دینے سے کوئی واجب القتل ہوگا ۔ وہی بات جو شروع میں کی کہ” ہمیں صحیح وقت پر صحیح فیصلے “ کرنے ہوں گے ۔ بہت سے سوال ہیں جو ہمیں علماءکے کردار کو مشکوک کردیتے ہیں ۔ جن میں ۔۔۔
    علماءنے عوام کو سر عام کہہ دیا کہ فلاں شخص کو قتل کردو عدالت کیوں نہیں رجوع کیا ؟
    فتوی دینا علماءکا کام ہے یا مفتیان کا ؟
    سلمان تاثیر کے الفاظ منظر عام پر کوئی نہیںلائے جاتے ؟
    سلمان تاثیر کے الفاظ اگر گستاخی رسول پہ منتج ہوتے ہیں تو اس کے قرآنی اور احادیث کے دلائل کہاں ہیں ؟
    مفتیان پاکستان فتوی کہاں ہے ؟
    ہر معاملہ تحقیق مانگتا ہے اس پر علماءنے کہاں تحقیق کی ؟
    کیا کسی فرد واحد کا حق ہے کہ وہ کسی کو قتل کردے ؟
    علما ءجو ایک دوسرے مسالک پر کفر و گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں ان کا کیا انجام ہے ؟
    ریلیوں میں صرف مدرسو ں کے طلباءہی کیوں ؟
    علمی اختلاف پر منفی پروپیگنڈا کیوں ؟
    کیا صرف تقریر کردینا فتوی ہے ؟
    کیا انصاف میں تاخیر کی بنیاد پر فریقین ایک دوسرے کو قتل کردیں ؟
    اسلام ماورائے عدالت قتل پر کیا کہتا ہے ؟
    کیا کسی کو گستاخ کہہ دینے کیلئے عدل کے تقاضے پورے کرنا لازم نہیں ؟
    الغرض عدل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس قانون کو بدنامی سے بچانے کیلئے اس کا اطلاق بھی تو درست ہونا چاہیے ۔ اگر اس درست قانون کا غلط اطلاق ہو تو کیا اس کا دین کو فائدہ ہوگا یا نقصان ؟؟ یہ معاملہ جوش سے زیادہ ہوش کا ہے ۔ ایسے نازک معاملات سے فائدہ اٹھا کر وقتی واہ واہ کرنا آسان ہے مگر دین کا صحیح تصور پیش کرنا مشکل ہے چاہے وہ اپنی ذات کے منافی کیوں نہ ہو ۔ معروضی حالات سے فائدہ اٹھا نے والے ابن الوقت ہوتے ہیں ۔اور ایسے حالات میں پوری قوم کو صحیح راہ دکھانا اور راہ نمائی کرنا اگرچہ مشکل ہوتا ہے مگر ایسا کر گزرنے والا قائد ہی ہوتاہے جو لوگوں کے جذبات کے تحت نہیں چلتا بلکہ لوگوں کو راہ دکھاتا ہے۔
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    اس بحث سے قطعہ نظر کہ ممتاز قادری کا عمل درست تھا یا نہیں اس کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی میں‌مظاہرے ہوئے۔
    عمومی نظر سے دیکھا جائے تو یہ عاشقان رسول ہیں جو ممتاز قادری کے حق میں‌اس لیے مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اس نے گستاخِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
    جمعہ کا مبارک دن اور میں گھر کی چھت پر کھڑا ان عاشقان رسول کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ ہاتھوں میں‌ڈنڈے اٹھائے سڑکوں پر دنداتے پھر رہے تھے۔ کوئی شیشہ، کوئی گاڑی کوئی عمارت ایسی نہ تھی کہ جس پر انہوں نے ضربیں نہ لگائی ہوں۔ یہاں تک کہ سڑک پر لگائے گئے بورڈ جن میں‌وہ بورڈ بھی شامل تھے جن پر اسماء الہٰی درج تھے اکھاڑ پھینکے گئے تھے۔

    جب مغرب کے بعد یہ ہنگامہ ختم ہوا تو میں مری روڈ پر نکل گیا۔ سڑک یوں دکھائی دے رہی تھی کہ جیسے جنگلی جانوروں کا منہ زور ریوڑ گزرا ہو۔ میرا دل کسی بھی حال میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں سے رحمت العالمین کے چاہنے والے گزرے ہیں، اس ہستی کے عاشق گزرے ہیں جو لشکر سمیت مکہ میں‌داخل ہوئے تو کسی چیونٹی تک کو نقصان نہ پہنچا۔

    عشق کی اصل تو یہ ہے کہ اپنے محبوب جیسا بن جاؤ۔ ظاہری حلیے میں‌بھی اور عادات و اطوار اور اعمال میں بھی۔ اور اگر عشق رسول کا دم بھرنے والے اس ایک نقظے کو سمجھ نہیں‌پائے تو وہ عشق نبی میں نہیں‌بلکہ اپنی سیاست کے عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے ہیں۔

    نوٹ۔ یہ میرے ذاتی مشاہدات اور تصورات ہیں آپ کا ان سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں‌البتہ میرا مقصد کسی پر طنز یا کسی کی تحقیر نہیں ہے۔
     
  13. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    میں آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔۔
     
  14. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    رضی بھائی آپکا تجزیہ بالکل درست ہے۔ ماشاءاللہ بہت سے ذہنوں کی الجھن اس تحریر سے دور ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے، مگر اخلاصِ نیت شرط ہے۔ ورنہ "میں نہ مانوں" کا تو کوئی علاج نہیں ہوتا۔ آپکی یہ بات تو سیدھی دل کو لگی کہ "ایسے نازک معاملات سے فائدہ اٹھا کر وقتی واہ واہ کرنا آسان ہے مگر دین کا صحیح تصور پیش کرنا مشکل ہے چاہے وہ اپنی ذات کے منافی کیوں نہ ہو ۔ معروضی حالات سے فائدہ اٹھا نے والے ابن الوقت ہوتے ہیں ۔اور ایسے حالات میں پوری قوم کو صحیح راہ دکھانا اور راہ نمائی کرنا اگرچہ مشکل ہوتا ہے مگر ایسا کر گزرنے والا ہی قائد ہوتاہے جو لوگوں کے جذبات کے تحت نہیں چلتا بلکہ لوگوں کو راہ دکھاتا ہے۔" بلاشبہ قائد اور رہنما وہ نہیں ہوتا جو عوام کے پیچھے چلتا ہے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جو آگے چل کر انکی سمت درست کرے اور اصل منزل کی طرف راہنمائی کرے۔

    واصف بھائی، آپ نے اپنے جن مشاہدات کا ذکر کیا، واقعی انکو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا جو تصورِ امن و سلامتی اقوامِ عالم کے سامنے پیش کیا تھا، آج یہ امت ، کچھ اغیار کی سازشوں اور کچھ اپنی ہی بے عقلیوں اور نادانیوں کی بنا پر ، اس اصل تصورِ دین کو فراموش کر بیٹھی ہے اور بالواسطہ دین اسلام کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کو بھی شعور دے اور عوام کو بھی شعور دے۔ آمین!
     
  15. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    موضوع سے متعلق کچھ مزید:
    تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی کتاب کا تعارف

    [​IMG]
    تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کا خطاب ۔
    مقام: جامع مسجد غوثیہ ، بند روڈ لاہور مورخہ: 12۔08۔1988 ، CD# 312

    http://www.youtube.com/watch?v=fOyg1JsnFrQ&feature=player_detailpage
     
  16. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    اسلام علیکم محترم محمد اکرم بھائی !
    یہ سچ ہے کے محترم جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیت سپریم کورٹ کی رٹ پیٹیشن پر عدالت میں معاونت کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جو اپنے منطقی زور استدلال سے کسی بھی مسئلہ کو مبرھن کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں پیش ہوئے مگر ان کے ساتھ دیگر تمام مکاتب فکر نے بھی اس مسئلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں جن میں جماعت اہل حدیث کہ جناب حافظ صلاح الدین صاحب کا نام قابل زکر ہے اور انکے علاوہ محمد اسماعیل قریشی صاحب نے اپنی کتاب میں جن نمایاں ناموں کا ذکر کیا ہے وہ درج زیل ہیں ۔
    مفتی غلام سرور قادری
    مولانا محمد عبد الفلاح
    مولانا فضل ہادی
    مولانا سبحان محمود
    مولانا سعید الدین شیر کوٹی
    مولانا سید محمد متین ہاشمی
    اور جناب سید ریاض الحسن نوری

    اب آخر میں ہم آپکی آسانی کے لیے محترم جناب محمد اسماعیل قریشی کی کتاب "ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " سے محترم جناب طاہر القادری صاحب کے دلائل کے متعلق چند اقتباسات نقل کریں گے ۔

    محترم محمد اسماعیل قریشی رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
    ۔
    پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان اور بیرون پاکستان کی ایک معروف علمی اور دینی شخصیت ہیں فیڈرل شریعت کورٹ میں صاحب موصوف نے صدر اور حکومت پاکستان کہ خلاف توہین رسالت کی سزا کے بارے میں ہماری شریعت پیٹیشن اور اس میں اٹھائے گئے نکات کی اور ہماری آئینی اور قانونی بحث کی نہ صرف مکمل تائید اور حمایت کی بلکہ اپنے منطقی زور استدلال سے عدالت کی بھی بھرپور قوت کے ساتھ معاونت کی مگر راقم الحروف اور معاونین علمائے عدالت کا پروفیسر صاحب موصوف سے جرم توہین رسالت کے سلسلہ میں صرف "نیت" اور "ارادے" (intention and motive) کے مسئلہ پر دیانت درانہ اور تحقیقی اختلاف رہا ہے ۔
    (یاد رہے اسماعیل قریشی صاحب نے اس اختلاف کی تفصیلات ذکر نہیں کیں مگر عرض کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس مسئلہ میں مجرم کی نیت کو جانچنے کے قائل نہیں جبکہ اسماعیل قریشی کا مؤقف اس کے خلاف ہے۔ آبی ٹوکول)

    اب زیل میں ڈاکٹر صاحب کے دلائل مختصرا پیش کیے جاتے ہیں ۔ ۔


    کیا شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قبول ہے ۔
    گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسئلہ توبہ
    :
    رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کا وجود اس لائق نہیں کہ وہ زمین پر موجود رہے بلکہ اس فی الفور واصل جہنم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
    سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عمل اس پر شاہد و عادل ہے کہ انھوں نے جب دیکھا کہ اس شخص کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور نہیں تو انھوں نے اسے توبہ کرنے کے لیے نہیں کہا بلکہ فی الفور اندر سے تلوار لاکر اس کا سر تن سے جدا کردیا ۔اور اس پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں کہا کہ اسے توبہ کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے تھا بلکہ ان کے فیصلے کی تحسین فرماتے ہوئے تاقیامت امت مسلمہ کو سنت فاروقی پر عمل کرنے کا حکم دیا بلکہ اسے علامت ایمان قرار دیا۔
    ( اس بارے میں یہی دلائل امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مضمون میں تفصیل کہ ساتھ آچکے ہیں۔اس لیے انکا یہان اعادہ نہیں کیا گیا از مصنف )
    عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے کہ بعد جب تائب ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو علم ہونے کہ باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات نہ فرمائی بلکہ تاخیر فرمائی تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل کردے ۔

    شیخ ابن تیمیہ اس روایت کو نقل کرنے کہ بعد لکھتے ہیں کہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس بارے میں نص ہے کہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوئی ۔

    اگر اسے فی الفور قتل نہ کیا جاسکے اور وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ پر توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ اس پر حد جاری ہوگی کہ جس طرح دیگر جرائم میں ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں فقہاء اسلام کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔

    فقہاء اسلام کی تصریحات :

    (فقہاء اسلام کی تصریحات میں امام شامی ،امام ابن ھمام کی ان آراء کا یہاں تزکرہ نہیں کیا جائے گا کہ جن کا حوالہ علامہ احمد سعید کاظمی کے مضمون میں ہوچکا ان کے علاوہ فتاوی جات درج زیل ہیں۔ از مصنف کتاب )

    امام صدر شہید حنفی کا فتوٰی بھی ہے ۔

    ہم اس کی توبہ اور اسلام لانے کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے قتل کردیں گے ۔
    " اسکی توبہ نہ اللہ کے ہاں مقبول ہے اور نہ لوگوں کہ ہاں اور اسکا حکم سوائے قتل کے کچھ نہیں۔ اس پر تمام متاخرین علماء کا اجماع ہے ۔اور یہی رائے اکثر متقدمین کی ہے ۔(خلاصۃ الفتاوٰی 386:4)

    گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیگر مرتدین سے الگ ہے :

    گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گستاخی کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے مگر چونکہ اس کا جرم دیگر جرائم سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس نے اس ہستی کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالا جو اس کائنات میں سب سے بڑھ کر ہے ۔لہذا یہ جرم دیگر مرتدین کے جرم سے زیادہ سنگین تر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگر مرتدین پر اسلام پیش کیا جائے گا اور اگر وہ اسے قبول کرلیں تو انھے چھوڑ دیا جائے گا مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام نہیں پیش کیا جائے گا ۔
    یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تعطیم و توقیر سے متعلق ہے اور غیرت الٰہیہ کا تقاضا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا ہی ہے۔
    امام بن نجیم حنفی : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے شخص کو مرتد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دیگر مرتدین سے اس کا حکم جدا ہے کیونکہ دیگر مرتدین کی توبہ قبول کی جائے گی مگر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ قابل قبول نہیں۔

    " ہر ارتداد برابر ہوتا ہے اگر مرتد اسلام کی طرف راغب ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا مگر اس سے کچھ مسائل مستثنٰی ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ جو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو اسے نہیں چھورا جائے گا اور اسکی توبہ نہیں قبول کی جائے گی " ۔ (بحرالرائق 135:5)

    امام شامی اسیے شخص کے جرم کو دیگر مرتدین کہ جرم سے زیادہ سنگین تر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

    " شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتداد دوسرے ارتداد کی طرح نہیں ہے کیونکہ دیگر ارتداد انفرادی عمل ہوتے ہیں اور اس میں کسی دوسرے کا حق متعلق نہیں ہوتا اس لیے اسکی توبہ قابل قبول ہوتی ہے مگر شاتم اگر توبہ کرلے تو بھی صحیح مذہب کے مطابق اسے حدا قتل ہی کیا جائے گا۔ " ۔(تنقیح حامدیہ 157)

    امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب وشتم کرنا اسلام سے اعراض (ارتداد) کی بنسبت بدرجہ ہا بدتر ہے (الصارم المسلول 892)

    گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندیق ہے اس کا عمل قابل معافی نہیں ۔
    امام خیر الدین رملی حنفی فتاوٰی بزازیہ میں رقمطراز ہیں ۔


    شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہر طور حدا قتل کرنا ضروری ہے ۔اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی خواہ یہ توبہ گرفت کے بعد ہو یا پھر وہ اپنے طور پر تائب ہوجائے کیونکہ ایسا شخص زندیق کی طرح ہوتا ہے جسکی توبہ قابل توجہ ہی نہیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس میں کسی مسلمان کے اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے یہ صرف توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا جس طرح دیگر حقوق چوری اور زنا وغیرہ توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جس طرح حد تہمت توبہ سے ساقط نہیں ہوتی یہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،امام اعطم ،اہل کوفہ اور امام مالک کا مذہب ہے ۔
    (تنبیہ الولاۃ والحکام 32)

    علماء اور عدالتوں پر لازم ہے کی وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے پیش نظر ایسے شخص کے قتل کا حکم جاری کریں۔

    امام محمد بن عبداللہ صاحب تنویر الابصار عدم قبول توبہ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔

    میری رائے کہ مطابق یہی قول قوی ہے کہ جو شخص صاحب شرع کو برا کہتا ہے اسکی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔فتاوٰی اور قضاء کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کے پیش نظر علماء اور عدالت پر لازم ہے کہ وہ اس کے قتل کا حکم دیں ۔

    پھر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں کہ آیا :

    کوئی عدالت یا حکومت اس سزا کو معاف نہیں کرسکتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    آخری بات یہ ہے کہ کیا کوئی عدالت یا حکومت اس کو معاف کرسکتی ہے ؟
    گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے اور حد کوئی ساقط نہیں کرستا حد کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں انسان کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ پاک کی طرف سے مقرر ہوتی ہے اور عدالت اور حکومت پر اسکا اجراء لازم ہوتا ہے جبکہ اس کو ساقط کرنا کسی کہ اختیار میں نہیں ۔
    یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اسے کوئی معاف نہین کرسکتا جس طرح دیگر افراد کے حقوق وہی معاف کرسکتے ہیں ۔

    امام خیر الدین اسی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رقمطراز ہیں :
    شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل بطور حد لازم ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا اور اس بارے میں کسی مسلمان کہ اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کہ ساتھ عبد خاص ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا حق متعلق ہے اس لیے فقط توبہ سے ساقط نہیں ہوگا جیسے دوسرے لوگوں کہ ہر قسم کے حقوق کے لیے خود حق دار کا معاف کرنا ضروری ضروری ہے۔
    (تنبیہ الولاۃولحکام )

    جب چوری ،زنا اور شراب جیسے جرائم پر لاگو حد کوئی عدالت اور حکومت منسوخ نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس کا ارتکاب کرنے والون کو معاف کرسکتی ہے تو پھر اتنے عظیم جرم کی سزا کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے ۔

    قارئین کرام یہ تھا محمد اسماعیل قریشی کی کتاب "ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم " میں سے ڈاکٹر طاہر القادری کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں بیان کیے گئے دلائل کا مختصر بیان جس کسی کو تفصیل درکار ہو تو وہ محترم جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب" تحفظ ناموس رسالت " کا مطالعہ فرمائے نیز آپ سب کی معلومات کہ لیے عرض کردوں کہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فقط اس ایک مسئلہ میں امت اور دین اسلام کے لیے عدالتی خدمات نہیں ہیں بلکہ شادی شدہ زانی کی اسلامی سزا رجم کے سلسہ میں 14 گھنٹوں سے زائد دورانیہ کے عدالتی دلائل اور مسئلہ ختم نبوت کے سلسلہ میں قادیانیوں کہ دائر کردہ مقدمہ میں انکے خلاف اس مؤقف کہ قادیانی اسلامی شعار کا استعمال نہیں کرسکتے پر بھرپور دلائل بھی موجود ہیں کہ اس مقدمہ میں عدالت کی کاروائی فقط ڈاکٹر صاحب کی کینڈا یا غالبا ناروے سے تشریف آوری میں تاخیر کی وجہ سے معطل رہی تھی اور جب جناب پاکستان پہنچے تو اپنی منطقی قوت استدلال سے مسلمانوں کو ایک ہارا ہوا مقدمہ جتوایا موصوف چونکہ خود بھی ماہر قانون دان تھے کہ موصوف کی پی ایچ ڈی ہی اسلامی سزاؤں اور انکی تشریحات کہ موضوع پر ہے نیز موصوف ایک ماہر وکیل اور ایک ماہر استاد بھی رہے ہیں کہ ان سے لاء کالج میں پڑھ کر آج یقینا کئی وکلاء ججز کی کرسیون پر براجمان ہونگے ۔ والسلام



    جزاکم اللہ خیرا۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
     
  17. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c

    آپ سب احباب کا تہہ دل سے شکریہ
     
  18. محمد علی ثقافی
    آف لائن

    محمد علی ثقافی ممبر

    شمولیت:
    ‏7 ستمبر 2017
    پیغامات:
    6
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    گستاخ رسول کی سزا بصورت حد موت ہے“۔ یہ قرآن کا قانون ہے ۔ پاکستان میں یہ قانون 295سی کے نام سے رائج ہے ۔ یہ قانون 1986میں بنا جب شرعی عدالت میں معروف مذہبی و روحانی سکالر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری (جوکہ ایل ایل بی بھی ہیں اور اسلامک لاءمیں پی ایچ ڈی ہیں ) نے تین دن لگاتار دلائل دیئے جس پر عدالت نے مروجہ سزا قید و بند کو ختم کیا اور اس کی جگہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ295cکا اضافہ کیا جس کے تحت گستاخ رسول کی سزا موت ہے
    میں نے یہ مذکورہ عبارت ایک صاحب کی نقل کی ہے ۔ ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کے تحفظ ناموس رسالت قانون بنوانے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ برائے مہربانی کوئی صاحب اس تضاد بیانی کے الزام کا علمی جواب عطا فر مائیں میں نے کئی جگہ ڈھونڈا پر اس کا جواب نہیں میلا اور ہندوستان کے ایک عالم اسی کو لوگوں کے سامنے بیان کرکے ڈاکٹر صاحب سے لوگوں کو بد ظن کر رہے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں