1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نور, ‏8 مارچ 2009۔

  1. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    الصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم

    جشنِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت

    ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

    ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)

    بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

    آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

    خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

    سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

    رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

    اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

    صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

    عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
    کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں​

    شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ (ماثبت بالستہ)

    جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
    اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​

    صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

    اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟
    سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)

    حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

    ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

    سیدہ آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہء رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)

    جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

    محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
    امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

    امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

    امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

    شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)

    ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ العظیم۔
    :saw: :saw: :saw:
    جزاک اللہ نور العین بہنا۔


    نور والا آیا ہے ، نور لے کر آیا ہے
    سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے


    الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
    الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ
     
  3. سعد
    آف لائن

    سعد مبتدی

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عید میلاد النبی کا یہ دن ہم بچپن سے 12 وفات کے نام سے سنتے آئے ہیں یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن جبکہ ولادت با سعادت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاول کو ہوئی تھی لیکن گزشتہ عشروں سے یوم وفات ہی کو عید کا درجہ دے دیا گیا ہے جو در اصل رافضی تہوار ہے جو وہ اس خوشی کے تحت مناتے ہیں کہ

    مقطع نبوت مطلع امامت ہے

    اب ہم لوگوں نے ان کی تقلید میں اسے عشق رسول کے جذبے کے تحت منانا شروع کر دیا ہے جو اگرچہ بجائے خود غلط نہیں تو قابل تعریف بھی نہیں
     
  4. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم۔ محترم !
    اگر آپ 9 ربیع الاول کو ہی ولادت جانتے ہیں تو چلیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اللہ تعالی کی عظیم نعمت جانتے ہوئے آپ 9 ربیع الاول کو ہی خوشی منا لیجئے۔ ہماری اردو کے سابقہ صارف "سیف " صاحب کی طرح رافضیت کا الزام کیوں اور خواہ مخواہ کا اختلاف کیوں ؟؟؟

    لیکن پہلے ذرا نیچے دیے گئے عظیم محدثین کرام، آئمہ کرام کے عقائد و اعمال بھی ملاحظہ فرما لیجئے جو 12 ربیع الاول کو ہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام سے مناتے چلے آئے ہیں۔

    جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

    محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)

    امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

    امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

    امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

    شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم نور العین بہن۔ آپکی پہچان خوب ہے۔ :hpy:

    تنقید کرنے والے دوست اگر حوالہ جات کی روشنی میں گفتگو کریں تو سمجھ آتی ہے کہ صاحبِ علم ہیں اور علمی انداز میں تبادلہء خیالات کرنا چاہتے ہیں۔

    لیکن یوں "بچپن سے سنا تھا " کہہ کر بات کرنے سے سوائے " فتنہ اور ذہنی وسوسہ" پیدا کرنے کے اور کوئی نتیجہ مقصود نظر نہیں آتا۔ وہ بھی اس صورت میں جب نور العین بہن نے اوپر کم و بیش 7 سو، 8 سو، 9 سو سال پرانے آئمہ دین کے اقوال و اعمال لکھے جارہے ہیں ۔

    اللہ کریم ہمیں اختلافات سے بچ کر اپنے پیارے نبی کریم :saw: کی (صرف زبانی اقرار کی بجائے) سچی محبت عطا فرمائے کہ اعظم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق

    محبوباں تے نکتہ چینی ، جیہڑا کرن توں باز نئیں آؤندا
    اصل منافق جانی اُس نوں، ایویں چہوٹھا پیار جتاؤندا
    سانوں دسیا عشق دے مفتی ، جیہڑا مُڑ مُڑ ایہہ فرماؤندا
    اعظم جتھے دل لگ جاوے، اوتھے عیب نظر نئیں آؤندا
     
  6. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نہ ثبوت نہ حوالہ ۔ صرف فتنہ اور اختلافِ رائے۔
    پوری امت میں 12 ربیع الاول شریف ہی ولادتِ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    محترم سعد صاحب ! ایک سوال ہے ۔۔۔

    بچپن میں اگر آپ خدانخواستہ کافروں کے گھر میں پیدا ہوگئے ہوتے تو کیا اس بنا پر ایمان کو بھی جھٹلا دیں‌گے کہ ہم تو جی
    "بچپن سے رام کرشنا کو ہی سنتے چلے آئے تھے " ؟؟؟
     
  7. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نور جی ۔ اتنا پیارا مضمون ہم تک پہنچا کر ایمان کی تازگی مہیا کرنے کے لیے شکریہ
    اللہ پاک آپکو جزا دے۔ آمین
     
  8. خلیل بھٹو
    آف لائن

    خلیل بھٹو مبتدی

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محترمہ
    آپ نے غیر معتبر کتابوں کے حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میلاد النبی منانا شرعًا جائز ہے۔ کیا اس عمل کا جواز آپ صحابہ یا تابعین سے ثابت کرسکتی ہیں۔ اسے نہ خلفاء راشدین نے اور نہ ان کے علاوہ کسی اور صحابی نے اور نہ ہی کسی تابعی نے منایا۔ حالانکہ صحابہ اور تابعین کے زمانے کو خیر القرون کہا جاتا ہے۔ اور خیر القرون کے لوگ بعد کے لوگوں کے مقابلے میں سنت کو بہتر جاننے والے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبت و عقیدت رکھنے والے اور آپ صلی اللہ کی شریعت پر زیادہ عمل کرنے والے تھے۔

    اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (الحشر: ۷)
    "اور تمہیں جو کچھ رسول دیں، لے لو اور جس سے روکیں، رک جائو۔"

    اب آپ بتائیں کہ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید میلاد النبی منانے کی اجازت دی ہے؟ جبکہ اس کی ممانعت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (بخاری: 3/167، مسلم 5/132)
    یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کرے جو دین میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔

    برائے مہربانی اس عمل کو (از روئے صحیح حدیث) بیان فرمائیں۔
     
  9. خلیل بھٹو
    آف لائن

    خلیل بھٹو مبتدی

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہ ثبوت نہ حوالہ ۔ صرف فتنہ اور اختلافِ رائے۔
    پوری امت میں 12 ربیع الاول شریف ہی ولادتِ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر منایا جاتا ہے۔
    ؟؟؟[/quote]


    بہت خوب لکھا جناب آپ نے
    " نہ ثبوت نہ حوالہ ۔ صرف فتنہ اور اختلافِ رائے"

    اب آپ ثبوت دو، ورنہ فتنہ مت پھیلاؤ۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
    السلام علیکم !
    گو کہ نور العین بہنا نے "میلاد نبوی :saw: " پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔ اور بنیادی طور پر اہلِ ایمان (صدق دل سے ماننے والوں ) کے لیے پیارے نبی الرحمۃ اللعلمین :saw: جیسی نعمت مل جانے پر بارگاہِ الہیہ میں ہدیہ تشکر اور "فلیفرحو" کے قرآنی حکم کے تحت خوشیاں منانا چاہیئں ۔ کیونکہ آپ :saw: کی ولادت پر سوائے ابلیس کے باقی ساری مخلوقِ خدا نے ہی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اور صحیح بخاری کی اس شرط کے ساتھ کہ مومن وہ ہے جس کو اپنی جان، مال، اولاد ، ساری کائنات سے بڑھ کر حضور اکرم :saw: سے محبت ہو وگرنہ خالی خولی کھوکھلے ایمانی دعوے نہ ہوں۔ ایسے اہلِ ایمان کے لیے فرحت و انبساط کے ساتھ شکرِ الہی بجا لانا اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنا ، خوشی کا اظہار کرنا ، محبت و تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دعوتِ دین اور پختگیء ایمان کا سامان کرنے ایک مستحسن ایمانی تقاضا بن جاتا ہے۔

    میلاد کا معنیٰ ہے: ''ولادت کا وقت یا عظیم الشان ولادت۔'' اور مولد کا معنی بھی ولادت کا وقت ہی ہے۔ جبکہ اہل ا سلام کے عرف میں میلاد یا مولد سے مراد سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہے۔ اور محفل میلاد یا جلسہ میلاد یا میلاد کانفرنس سے مراد ایسا روح پرور اجتماع ہے جس میںسرکارِ مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت طیبہ کے زمانے میں ظاہر ہونے والے عجیب و غریب واقعات کا تذکرہ کر کے برکات حاصل کی جائیں۔

    انبیاء کی ولادت کا ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سورہ قصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور ولادت کے وقت ان انبیاء عظام کی ظاہر ہونے والی عظمتوں اور شانوں کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح سنت رسول، سنت صحابہ و اہل بیت اور سنت سلف صالحین سے بھی ذکر میلاد ثابت ہے۔ اور محدثین نے تو کتب احادیث میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ابواب باندھے ہیں۔

    میلاد شریف کے بے شمار فائدے اور برکات ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

    ٭ ذکر انبیاء سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور قلب میں ثبات پیداہوتا ہے۔ قرآن مجید پارہ: 12، سورہ ہود، آیت: 120 میں ہے:
    ترجمہ: ''اور یہ سب کچھ انبیا ء کی خبریں ہم آپ پر بیان کرتے ہیں جن کے سبب ہم آپ کے د ل کو مضبوط کرتے ہیں۔''
    توحید اور تمام عقائد اسلامیہ دعوے ہیں۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر دلیل ہیں۔ دلیل ثابت ہونے سے دعویٰ ثابت ہوتا ہے، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل وکمالات کی بڑی اہمیت ہے، اور میلاد میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات و معجزات کا تذکرہ کر کے ایمان کو مضبوط کیا جاتا ہے۔

    ٭ اللہ تعالیٰ قرآن مجید پارہ: 11، سورہ یونس، آیت: 58 میں ارشاد فرماتے ہیں:

    ترجمہ: ''آپ فرمادیں اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ وہ ایمان والے خوش ہوں۔ یہ خوشی اس (دولت) سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
    اس آیت میں اللہ کے فضل ورحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت و فضل عظیم ہیں آپ کی آمد کی خوشی میں جشن منانا اس آیت مبارکہ کی تعمیل ہے اور شاندار نیکی ہے. نیز صحیح بخاری کی کتاب النکاح، حدیث: 4711 میں ہے:
    ''(حضرت ثویبیہ کو ابولہب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں آزاد کردیا تھا) جب ابو لہب فوت ہوا تو اُسے گھر کے ایک فرد (حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: تم کس طرح ہو۔ ابولہب نے جواب دیا: میں نے تمہاری جدائی کے بعد کوئی بھلائی نہیں دیکھی، سوائے اس کے کہ مجھے ثویبیہ کو آزادکرنے کی وجہ سے مشروب پلایا جاتا ہے۔''
    اس حدیث کے تحت شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں: ''اس واقعہ میں میلاد منانے والوں کیلئے اور جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی شب مسرور ہوتے ہیں اور اپنی دولت خرچ کرتے ہیں، ان کیلئے سند ہے۔ ابو لہب کافر تھا، اسکی مذمت میں قرآن ناز ل ہوا، جب اس نے نبیۖ کی ولادت پر(نبی سمجھ کر نہیں بلکہ صرف محمد بن عبداللہ سمجھ کر ہی ) خوشی کا اظہار کیا(باندی آزاد کی) تو اسے بھی جزاء دی گئی، تو ایک مسلمان جس کا دل محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھرا ہوا ہے اگر خوشی منائے اور دولت خرچ کرے تو اُس کا کیا حال ہو گا۔''

    ٭ قرآن مجید، پارہ: 26، سورہ فتح، آیت: 8، 9 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    ترجمہ: ''بے شک ہم نے آپ کو حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا او رڈر سنانے والا بنا کر بھیجاہے، تاکہ (انکی یہ شانیں دیکھ کر) تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائو اور اُس رسول کی عزت کے ساتھ مدد کرو۔ اور انکی تعظیم بجا لائو۔ اور (پھر) اس اللہ کی صبح وشام تسبیح بیان کرو۔''

    اس آیت مبارکہ میں بعثت نبوی کا ایک مقصد یہ بھی بیا ن کیا ہے کہ اہل ایمان پیارے مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بجا لائیں۔ اور محدث کبیر علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ ''میلاد منانا بھی آپکی تعظیم کا حصہ ہے۔'' اور قرآن مجید، پارہ نمبر 17، سورہ حج، آیت نمبر 32 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ترجمہ: ''اور وہ جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تویہ اُسکے دل کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''

    اور یقینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانی ہیں، اس لئے آپ کی تعظیم و توقیر ضروری ہے۔

    ٭ عمل میلاد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوقات کو اپنی نعمت عظمیٰ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کر نے پر اس کے شکر کا اظہار ہے۔ گویا عمل میلاد اللہ کے ارشاد ''و اشکرولی'' ترجمہ: ''میرا شکر ادا کرو''۔ کی تعمیل ہے
    ۔
    ٭ میلاد شریف اشاعت علم کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اس میں فضائل نبوی اور سیر ت مصطفی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ جو کہ علوم میں بڑی فضیلت والا علم ہے۔

    ٭ میلاد شریف سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
    اور ''من احب شیاً اکثر ذکرہ '' یعنی جو کسی چیز سے محبت رکھتا ہو تو اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔ لہذا ذکر فضائل ومیلاد شریف محبت نبوی کی علامت ہے۔
    ٭ صدقہ وخیرات اور مہمانوں کی ضیافت، امورِ خیر ہیں۔ جن پر اجر و ثواب ملتا ہے اور برکات حاصل ہوتی ہیں۔

    ٭ صلوۃ وسلام سے دینی دنیاوی اور اخروی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ اور خصوصی طور پر بارگاہِ نبوی میں قرب ملتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
    ترجمہ: ''تم میں سے قیامت کے روز میرے زیادہ قریب وہ ہو گا جس نے زیا دہ درود شریف پڑھا ہو گا۔'' اور میلاد شریف میں کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھا جاتا ہے۔

    ٭ قرآن مجید کی تلاوت، سعادات دارین کے حصول کا ذریعہ ہے۔ محفل میلاد میں قرآن مجید کی تلاوت بھی ہوتی ہے۔

    ٭ نعت خوانی کو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، نعت خوانوں کو اپنی دعاوں سے نوازا ہے، بلکہ ایک نعت گو صحابی حضرت کعب بن زھیر سلمی رضی اللہ عنہ کو اپنی چادرمبارک بھی عطا فرمائی۔ جس سے مسلمان سات صدیوں سے زائد عرصہ تک برکت حاصل کرتے رہے اور بغداد شریف پر ہلاکو خاں کے حملے کے وقت یہ عظیم نشانی ضائع ہو گئی۔ میلا د شریف میں کثر ت کے ساتھ نعت خوانی ہوتی ہے، اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بار گاہ سے انعامات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ٭ محفل میلاد میں فضائل وکمالات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے سے آپ کی اتباع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو کہ ثمر ایمان ہے۔

    ٭ سند المحدثین حضرت ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ فیوض الحرمین صفحہ نمبر 27پر فرماتے ہیں: ''میں مکہ مکرمہ میں ولادت نبی کے روز مولد مبارک (جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی)، میں حاضر ہوا تو لوگ درود شریف پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر کر رہے تھے اور وہ معجزات بیان کر رہے تھے جو آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئے۔ تو میں نے اس مجلس میں انوار و برکات کا مشاہد ہ کیا، میں نے غور کیا تو معلو م ہواکہ یہ انوار ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس میں مقرر کئے جاتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوار رحمت آپس میں ملے ہوئے ہیں۔''
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    12 ربیع الاول شریف کو میلاد النبی :saw: منانے پر اعتراضات کا علمی محاکمہ

    (تحریر: علامہ محمد افضل قادری )​

    پہلا اعتراض: 12ربیع الاول یوم وفات ہے، لہذا خوشی منانا جائز نہیں؟
    ٭جواب٭ 12 ربیع الاول خوشیوں کا دن ہے سوگ کانہیں۔ اولاً یہ کہ 12ربیع الاول کو نبی ۖ کے یوم وفات ہونے کے بارے میں جملہ روایات ضعیف ہیں اور علم تقویم کی رو سے بھی 12ربیع الاول کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم وفات ممکن نہیں۔ کیونکہ احادیث صحیحہ سے دو باتیں ثابت ہیں:
    ١. 10ہجری میں حجتہ الوداع میں یوم عرفہ 9ذوالحج جمعتہ المبارک تھا۔
    ٢. رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال سوموار کے روز ماہ ربیع الاو ل میں ہوا۔
    اب 9ذوالحج 10 ہجری اور ماہ ربیع الاول کے درمیان ماہ محرم اور ماہ صفر دو ماہ آتے ہیں۔ لہذا ذوالحج محر م اور صفر تینوں ماہ جس طرح بھی شمار کر لیں (تینوں ماہ تیس دن کے، دو ماہ تیس دن کے، ایک ماہ انتیس دن کاایک ماہ تیس دن کا، دو ماہ انتیس دن کے، اور تینوں ماہ انتیس دن کے) کسی بھی صورت میں 12ربیع الاول سوموار کو نہیں بن سکتا۔

    12ربیع الاول ١١ ہجری میں بالترتیب اتوار، ہفتہ، جمعہ، جمعرات میں سے کوئی ایک بن سکتا ہے۔ لہذاشارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی نے 12ربیع الاول یوم وفات والی روایت کو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور 2ربیع الاول یوم وفات والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ حوالہ کیلئے: ''فتح الباری شرح بخاری''جلد:8،صفحہ: 130 (واضح رہے کہ امام ابن حجر عسقلانی کی کتب آج بھی سعودی عرب سمیت ہر مکتبہء فکر کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں)
    لہذا جب 12ربیع الاول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ثابت نہیں ہوتی تو اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔
    اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ 12ربیع الاول یوم وفات ہے تو بھی میلا د منانے اور خوشیاں منانے سے کوئی امر مانع نہیں۔ اس لئے کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت متعدد کتب حدیث میں 10کے قریب صحابہ و صحابیات سے مروی ہے کہ
    ترجمہ: ''ہمیں منع کیا گیا ہے کہ ہم شوہر کے سوا کسی وفات پانے والے پر تین روز کے بعد سوگ (غم) منائیں''
    اس حدیث سے ثابت ہے کہ سوگ منانا وفات کے بعد صرف تین دن جائز ہے۔ لہذا ہر سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے روز سوگ منا نا شرعاً جائز نہیں البتہ تشریف آوری کی خوشی منانے کی شرعاً کو ئی حد نہیں ہر سال جائز ہے۔
    نیز جمعہ کا دن حضرت آد علیہ السلام کی خلقت کا دن ہے، اور جمعہ کے روز ہی آپ کا یوم وفات بھی ہے لیکن شرع شریف میں جمعہ کو سوگ منانے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ جمعتہ المبارک کو عیدکا دن قرار دیا گیاہے۔جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
    ترجمہ: ''بے شک یہ جمعہ عید کا دن ہے اسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے عید کا دن بنایا ہے۔'' حوالہ کیلئے: ''سنن ابن ماجہ'' کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فیھا، باب ماجاء فی الزینة یوم الجمعة،حدیث: 1088۔
    تو جس طرح جمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اور وفات کا دن ہے، لیکن اب جمعہ کے روز صرف عید منانا مشروع ہے اور سوگ ممنوع ہے اسی طرح 12ربیع الاول کو یوم ولادت کے ساتھ اگر بالفرض یوم وصال مان بھی لیا جائے تو صرف ولادت کی خوشی جائز ہو گی اور سوگ ممنوع ہو گا۔ کیونکہ سوگ کی مدت صرف تین دن ہے۔

    نیز ثابت ہوا کہ جمعۃالمبار ک اگر خلقت آدم علیہ السلام کی وجہ سے یوم عید ہے تو 12 ربیع الاول ولادت امام الانبیاء حضرت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے بدرجہ اولیٰ عید ہے۔اَ

    پھر ایک اور حدیث پاک (حیاتی خیر لکم ومماتی خیر لکم ) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ ظاہری اور اپنے وصال مبارک دونوں کو ہی امت کے لیے " خیر " قرار دیا ہے۔ تو جب امتی کے لیے خیر ہی خیر ہے تو خیر اور اچھائی ملنے پر سوائے شکرِ الہی اور خوشی کا اظہار کرنے کے اور کفِ افسوس ملنا کہاں مناسب ہوگا ؟

    دوسرا اعتراض: یوم ولادت 9ربیع الاول ہے

    ٭جواب٭ امام بخاری و مسلم کے استاذ حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مضبوط سند کے ساتھ روایت کیا:
    ترجمہ: ''حضرت جابر اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے بے شک دونوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں سوموار کے روز ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔'' حوالہ کیلئے:''بدایہ ونھایہ ابن کثیر'' جلد:2، صفحہ: 260
    اس مضمون کی ایک صحیح الاسناد روایت امام شمس الدین محمدالذہبی نے امام حاکم سے تلخیص المستدرک علی االصحیحین الذہبی 603/2 میں، حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

    لہذا محمود علی پاشا کے 9 ربیع الاول کا قول ان اکابر آئمہ کی صحیح الاسناد روایات کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی سن ہجری کا اجراء دور فاروقی میں 20 جمادی الاولیٰ 17ھ 12 جولائی 638ء کو ہوا تھا اس سے پہلے کا تقویمی ریکارڈ درست نہیں ہے
    علاوہ ازیں ہمیشہ سے حرمین شریفین سمیت دنیا بھر میں 12 ربیع الاول ہی بطور یوم ولادت نبوی معمول ہے اور محدث ابن جوزی کے مطابق اہل تحقیق کا اس پر اجماع ہے۔
    دیو بندیوں کے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع نے سیرت خاتم الانبیاء صفحہ 18 اور اہلحدیثوں کے شیخ نواب سید صدیق حسن نے الشمامۃ العنمبریہ صفحہ: 7 میں 12 ربیع الاول کو یوم ولادت کی تصریح کی ہے۔

    تیسرا اعتراض: ولادت ایک بار ہوئی میلاد ہر سال کیوں ؟

    ٭جواب٭ زمانوں کا آپس میں ربط اور زمانے کے ایک حصے کی کڑیاں دوسرے حصے کے ساتھ ملنا شریعت اسلامیہ میں ثابت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوموار کے دن کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''ذالک یوم لدت فیہ۔''
    ترجمہ: ''یہ وہ (عظیم) دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔''
    ثابت ہوا ولادت کی بار بار خوشی نہ صرف جائز بلکہ سنت نبوی ہے۔ اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت جمعہ کے روز ایک بار ہوئی لیکن ہر جمعہ کے روز بار بار عید منائی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں نزول قرآن ایک بار ہوا مگر جشن نزول قرآن ہر سال منایا جاتا ہے۔
    قرآن مجید میں ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
    ترجمہ: ''اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے(کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے۔'' حوالہ کیلئے: ''قرآن مجید'' پارہ: 7، سورہ مائدہ، آیت: 114۔

    معلوم ہوا کہ نزول نعمت کا دن بار بار منانا بلکہ عید اور جشن کے طور پر منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے۔ اسی قرآنی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضورسید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید اور جشن منانا شرعا جائز ومستحب ہے۔

    چوتھا اعتراض: میلاد منانا شاہ اربل ملک مظفر کی ایجاد ہے؟

    ٭جواب٭ شاہ اربل ملک مظفر ابو سعید کی وفات 630 ہجری میں ہوئی۔ محدث ابن جوزی (المتوفیٰ 597ھ) فرماتے ہیں:
    '' زمانہ قدیم سے اہل حرمین شریف ( مکہ مکرمہ و مدینہ طیبہ) مصر یمن شام اور تمام عرب ممالک اور مشرق و مغرب کے مسلمانوں کا معمول رہا ہے کہ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے، خوشیاں مناتے، غسل کرتے، عمدہ لباس زیب تن کرتے، قسم قسم کی زیبائش وآرائش کرتے، خوشبو لگاتے، ان ایام میں خوب خوشی
    ومسرت کا اظہار کرتے، حسب توفیق نقد وجنس لوگوں پر خرچ کرتے، میلاد، شریف پڑھنے اور سننے کا اہتمام بلیغ کرتے، اور اس کی بدولت بڑا ثواب اور عظیم کامیابیاں حاصل کرتے۔ میلاد کی خوشی منانے کے مجربات سے یہ کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے سال بھر کثرت سے خیر و برکت، سلامتی و عافیت، رزق ومال میں زیادتی، اور شہروں میں امن و امان اور گھر بار میں سکون و قرار رہتا۔'' حوالہ کیلئے : ''بیان المیلاد النبوی'' صفحہ: 57، 58۔

    محدث ابن جوزی نے جو کہ شاہ اربل کے ہم عصر ہوئے بلکہ شاہ اربل سے 33سال پہلے وفات پائی، لکھ رہے ہیں کہ قدیم زمانہ سے مکہ مکرمہ مدینہ منورہ اور روئے زمین کے مسلمان ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتے ہیں اور اس سے قسم قسم کی برکات حاصل کرتے ہیں۔ اس سے روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ شاہ اربل میلاد کا موجد نہیں تھا، انہوں نے صرف اربل میں میلاد کا آغاز کیا، جبکہ پوری دنیا میں اس سے پہلے قدیم زمانہ سے میلاد منانا مروج تھا۔

    پانچواں اعتراض: میلاد منانا بدعت ہے کیونکہ سنت نبوی و صحابہ سے ثابت نہیں؟

    ٭جواب٭ میلاد کی اصل (شکرخدا تعالیٰ، تعظیم رسول، محبت نبوی کا اظہار، صلوۃ و سلام، قرآن کی تلاوت، نعت خوانی، ذکر رسول، اشاعت فضائل نبوی، و تبلیغ دین و غیر ھم) شرع شریف میں موجود ہے۔ صرف ہیئت کذائیہ ( مخصوص صورت و انداز) اور تاریخ کا تعین لوگ اپنی مرضی کے مطابق خود کرتے ہیں۔ اس پر بدعت (سیئہ) کا اطلاق ہرگز درست نہیں وگرنہ سینکڑوں کام مخالفین کے ہاں بھی دین میں مروج ہیں جو سنت نبوی و سنت صحابہ سے ثابت نہیں اور کوئی بھی انہیں بدعت قرار نہیں دیتا۔ مثلا قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں ترجمے، قرآن کے حاشیے اور تفاسیر، مخصوص ترتیب کے ساتھ کتب احادیث، مسجدوں کے مینار، دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب، جدید طریقہ ہائے تعلیم، صرف و نحو و دیگر علوم وفنون اور تبلیغ دین کے جدید طریقے۔

    نیز 12 ربیع الاول کے روز سیرت کانفرنسیں اور دیگر سینکڑوں خالص دینی کام اپنی مخصوص صورت کے ساتھ سنت نبوی و سنت صحابہ سے ثابت نہیں، اسی طرح بے شمار کاموں کی تاریخ اور وقت سب فرقوں کے لوگ خود مقرر کرتے ہیں جیسا کہ تبلیغی اجتماعات کی تاریخ تعلیم کیلئے نظام الاوقات، نماز کی جماعت کیلئے گھڑی کے مطابق روزانہ ایک ہی ٹائم، نکاح کا وقت اور تاریخ وغیرہ۔ اور کوئی بھی اسے بدعت قرار نہیں دیتا حالانکہ یہ نظام الاوقات سنت نبوی و سنت صحابہ سے ثابت نہیں لوگ خود بناتے ہیں۔
    تو انصاف یہی ہے کہ تعلیم وتبلیغ کے دیگر پروگراموں کی طرح میلاد شریف میں بھی نئی ہیئت کذائیہ (مخصوص انداز) اور 12 ربیع الاول یا کسی اور تاریخ کے تعین سے بدعت کا ارتکاب لازم نہیں آتا۔

    بدعت کا لغوی معنیٰ: ''ایجاد اور نئی چیز ہے'' اور شرع میں بدعت: ''وہ نئی چیز ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری حیات میں نہ ہو'' بدعت کا ماخذ یہ حدیث نبوی ہے:
    ترجمہ: ''جو ہمارے دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرے جو ہمارے اس دین میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔'' حوالہ کیلئے: ''صحیح مسلم'' کتاب الاقضے، باب نقض الاحکام الباطلہ، ورد محدثات الامور، حدیث: 3242۔

    اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر نئی چیز کو مردود قرار نہیں دیا بلکہ اس چیز کو مردود قرار دیا جس کی اصل شرع میں موجود نہ ہو۔ اس حدیث پاک میں واضح اشارہ ہے کہ جس نئے کام کی اصل ہمارے دین میں موجود ہو وہ نیا کام بدعت نہیں ہے، لہذا تعلیم کے جدید طریقے قرآن مجید کے ترجمے، مسجدوں کے مینار، میلاد شریف کے نئے انداز، بدعت سیئہ و مردود نہیں۔ کیونکہ ان سب کی اصل شرع شریف میں موجود ہے۔

    اس حدیث مبارکہ کے تحت محدثین نے بدعت کو ''بدعت حسنہ'' و ''بدعت سیئہ'' میں تقسیم کیا ہے اور بہت سے کام جو سنت نبوی اور سنت صحابہ سے ثابت نہیں لیکن ان کی اصل شرع میں موجود ہے کو بدعت حسنہ قرار دیا ہے اور بدعت حسنہ کی بعض صورتوں کو واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علم نحو اور فرقہ باطلہ کا رد وغیرہا۔

    باقی رہا یہ اعتراض کہ حدیث مبارکہ میں ''کل بدعہ ضلالۃ'' یعنی ہر بدعت گمراہی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام محدثین وشارحین کے نزدیک اس حدیث میں بدعت سے مراد صرف بدعت سیئہ ہے۔ مزید تفصیل کیلئے شرح مسلم امام نووی، مرقاہ شرح مشکوۃ، اشعہ ا للمعات شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور دیگر کتب۔ بدعت سیئہ کی تعریف یہ ہے کہ

    ''دین میں وہ نئی چیز ہے جس کی شرع میں اصل موجود نہ ہو بلکہ وہ شرع سے متصادم ہو۔''

    چھٹا اعتراض: عیدین صرف دو ہیں عید میلاد بدعت ہے

    ٭جواب٭ یہ غلط ہے کہ سال میں عیدیں صرف دو ہیں اسی مضمون میں ایک حدیث گزری ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا اور جمعہ سال میں پچاس کے قریب تعداد میں آتا ہے۔ اسی طرح حج کے دن کو بھی حدیث پاک میں عید قرار دیا گیا ہے۔ اور سعودی عرب میں سالانہ عید الوطنی منائی جاتی ہے جس میں سعودی حکمرانوں کے علاوہ وہاں کے علماء بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح دیو بندی علماء نے کچھ عرصہ پہلے دیو بند میں صد سالہ جشن دیو بند منایا جس میں اندرا گاندھی مہمان خصوصی تھیں۔ لیکن کبھی کسی نے سعودیوں کی عید الوطنی کو بدعت قرار نہیں دیا، پاکستان میں یوم پاکستان منایا جاتا ہے اور عید سے بڑھ کر جشن کی کیفیت ہوتی ہے، کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا ہے؟

    12 ربیع الاول یوم ولادت کو عید منانے کی اصل سورہ مائدہ کی آیت: 114ہے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
    ترجمہ: ''اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے(کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے۔''
    اس آیت کی رو سے نعمت پانے کے دن کو عید قرار دینا ثابت ہے۔

    ساتواں اعتراض: میلاد میں ڈھول ڈھمکا وغیرہ خرافات ہوتے ہیں

    ٭جواب٭ میلاد شریف کے پروگرام میں ڈھول ڈھمکا اور دیگر خرافات قطعا جائز نہیں، اگر بعض مقامات پر جہلا کے خرافات کی وجہ سے میلاد ناجائز ہے تو پھر نکاح بھی ناجائز ہونا چاہیے کیونکہ ہر جگہ نکاح کے موقع پر بھی خرافات
    ڈھول ڈھمکا اور خرافات مروج ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی اصل نکاح کو ناجائز نہیں کہتا، اسی طرح اصل میلاد بھی جائز ہے صرف خرافات جہاں کہیں بھی مروج ہیں ناجائز ہیں اور علماء دین و مشائخ عظام کا منصب شرعی ہے کہ وہ امر باالمعروف و نہی المنکر کے تحت میلاد شریف اور اعراس بزرگان دین کو خلاف شرع رسوم سے پاک کریں۔

    و آخر دعوانا عن الحمد اللہ رب العالمین!

    تحریر: استاذ العلماء علامہ محمد افضل قادری ۔
     
  12. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم۔ محترمہ نور العین بہنا۔ اور جناب نعیم بھائی صاحب۔
    قرآن و سنت کے مستند حوالہ جات کے ساتھ ، ایمان افروز تحریریں اور محبتِ رسول :saw: سے خالی دل و دماغ کے پیداکردہ بےبنیاد اعتراضات کا سیر حاصل جواب دے کر جو نیک کام سر انجام دیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکی محنت و کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر آپ کو اور ہم سب کو محبت و تعظیمِ رسول :saw: کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین
     
  13. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    محترم بھائی نعیم صاحب ، کیا آپ اور اتنظامیہ اس بات کی اجازت دیں گے کہ جس طرح آپ نے کچھ اعتراضات کا علمی محاکمہ پیش کیا ہے ، میلاد کے دلائل کا کچھ علمی محاکمہ میں بھی پیش کروں ، جو ان شاء اللہ صرف اور صرف علمی گفتگو ہو گی ، میرا خیال ہے آپ کو اب تک میرے بارے میں یہ اندازہ تو ہو چکا ہوگا کہ میں شخصیات کے بارے میں گفتگو سے حتی الامکان گریز کرتاہوں اور اپنے ہر کلمہ بھائی اور بہن کو بھائی اور بہن ہی کی طرح رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں ،
    ممکن ہے آپ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں ، لیکن یہ امید رکھتا ہوں کہ ایک اوپن فورمز میں جس طرح آپ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں دوسروں کو بھی اسلامی اخلاقیات کی حدود میں رہتے ہوئے علمی دلائل کے ساتھ ان کی بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہو گی ؟؟؟ اور ہونا بھی چاہیے کہ اگر اپنی بات کی حقانیت کا یقین ہو تو مخالف کی بات کو زور و جبر سے دبایا نہیں جاتا ، و السلام علیکم۔
     
  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

    میرا نہیں خیال کسی کو آپ کے لکھنے میں کوئی اعتراض ہو گا اگر‌آپ مکمل حوالہ جات کے ساتھ لکھیں گے ، مذھب ایک نازک معاملہ ہوتا ھے اور اس کے بارے لکھتے ہوئے بے حد احتیاط کی ضرورت ہوتی ھے ، خیال اتنا رکھنا چاھیئے کہ اسلامی شعار کو توڑ مڑور کے پیش نہ کیا جائے اور نہ اپنی بہتری ثابت کرنے واسطے کسی کی دل آزاری کی جائے
     
  15. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیرا ، خوشی بہن ، اللہ کرے کہ آپ کا حسن ظن سچ ہو ،
    الحمد للہ میں کبھی کوئی بات صحیح ثابت شدہ دلیل کے بغیر نہیں لکھتا ، اور مکمل حوالہ جات ساتھ درج کرتا ہوں اور دلائل کو سمجھنے کے لیے بھی صرف وہ کسوٹیاں استعمال کرتا ہوں جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں،
    اس موضوع پر ایک مضمون الگ سے لکھ چکا ہوں ، ان شاء اللہ کبھی یہاں بھی پوسٹ کروں گا ،
    آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اسلامی شعار کو توڑ مڑوڑ کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے ، اسی لیے میں اس منہج پر پابندی سے چلتا ہوں جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے ،
    اور اس منہج میں کسی ذآتی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں ، پس خؤد کو بہتر و برتر کرنے کی کوشش کا بھی امکان نہیں رہتا ،
    خوشی بہن ، ان شاء اللہ آپ جس قدر زیادہ میری گذارشات کا مطالعہ کریں گی ، اس قدر آپ میرے اسلوب کا اندازہ ہوتا جائے گا ،
    ابھی جس منہج کی بات میں‌ نے کی اور اس کے بارے میں جس مضمون کی بات کی وہ میں نے ارسال کر دیا ہے ،
    کچھ وقت ملے تو اس کا مطالعہ بھی کیجیے گا ،
    ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::
    اپنی دعاوں میں یاد رکھیے گا ۔ و السلام علیکم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں