1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قومی تعمیر ....... تحریر : ڈاکٹر مختار احمد عزمی

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 مارچ 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    قومی تعمیر ....... تحریر : ڈاکٹر مختار احمد عزمی

    tameer.jpg
    کل شام کسی وجہ سے ہمیں چائے خود بنانی پڑی، بیگم صاحبہ چائے بنائیں تو ہمیں بھی خوب بناتی ہیں۔ خود چائے بنانے میں ایک عافیت یہ بھی ہے کہ صرف چائے بنتی ہے ہم نہیں بنتے! بہر حال کل شام چائے بناتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے ’’قوم کی تعمیر میں ادب کا یا ادیب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟‘‘

    ہمارا خیال ہے کہ کسی بھی ادیب، شاعر اور دانشور کو پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ وہ چھوٹے موٹے کام خود اپنے ہاتھ سے کرے ورنہ اچھا بھلا شاعر صرف میرا جی بن کر رہ جاتا ہے۔ کام تو کئی ہیں تاہم چائے بنانے، انڈہ ابالنے، سلاد کاٹنے اور اپنے جوتے خود پالش کر لینے سے بھی ایک ادیب و شاعر اپنی قوم کی تعمیر میں حصہ لے سکتا ہے۔
    چائے خود بنانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ دانشور محض چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی بجائے قوم اور معاشرے کے کارآمد افراد بن سکیں گے۔ انڈہ ابالنے سے وہ اندر کے ابال سے بچ سکیں گے۔ سلاد کاٹنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ کٹ حجتی اور ضدی پن سے بچ سکیں گے اور اپنے جوتے خود پالش کرنے سے ان کے اندر ایک حقیقی چمک آئے گی۔ علامہ اقبال نے اپنی پہلی کتاب ''علم الاقتصاد‘‘ میں ہمارے اس مؤقف کی تائید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے۔ ''مجھے ایک مزدور کے کھردرے ہاتھ زیادہ پسند ہیں بہ نسبت ان ہاتھوں کے جنہوں نے قلم کے سوا کبھی کوئی بوجھ نہ اٹھایا ہو‘‘۔
    کل شام چائے بناتے ہوئے ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ چائے میں پانی، پتی، چینی، دودھ کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟ اب بھلا ایسے ادیب شاعر اپنے معاشرے اور قوم کی کیا خدمت کر سکتے ہیں جنہیں چائے بنانے کی ترکیب ہی معلوم نہ ہو۔ ہمارے ادباء و شعراء کی اکثریت ایسی ہی ہے جو اپنے معاشرے کے دکھوں اور خوشیوں سے لاتعلق ہے۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد ''اردو ادب پڑھنے والے صحرانورد بن جاتے ہیں اور انگریزی ادب پڑھنے والے خلانورد، دونوں کا معاشرے سے تعلق باقی نہیں رہتا‘‘۔ ہماری زندگی عمل سے خالی ہو چکی ہے۔
    ابھی چائے کا پانی اچھی طرح سے جو ش میں نہیں آیا تھا کہ موبائل فون کی بیل بجی۔ دوسری طرف ایک مولانا دل ربا کرم فرما تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی امداد کیلئے کچھ دینی جماعتوں اور شہر کے اصحابِ درد نے ایک چندہ مہم شروع کی ہے، اس میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہیے۔ اب بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ ایک ادیب اور دانشور کا زلزلہ زدگان کی چندہ مہم سے کیا تعلق؟ ہم تو ٹھہرے اعلیٰ آدرشوں کے مالک، افلاطونی اور رومانی قسم کے دانشور۔ ہمارا ایسے بکھیڑوں سے کیا تعلق؟ ہاں اگر غم کھانا ہی پڑے تو پھر کسی انٹرنیشنل کرائسس پر دو چار ٹسوے بہا لینے میں حرج نہیں مثلاً سونامی، قطرینہ وغیرہ۔ ایک لوکل قسم کے سانحے پر بڑے دانشور کا اظہار خیال کرنا مناسب نہیں سمجھتے!
    جب چائے کا پانی اچھی طرح سے جوش میںآچکا تو ہم نے اس میں پتی ڈال دی۔ بعد میں خیال آیا کہ اگر پتی ڈالنے کی بجائے ٹی بیگ ڈال کر سیپریٹ چائے بنائی جاتی تو کچھ اور ہی مزہ ہوتا۔ ٹی بیگ کے ساتھ دودھ اور چینی ہر پینے والا اپنی خواہش کے مطابق حل کر سکتا ہے۔ آنجہانی کمیونزم کی اصطلاحات کے مطابق ایسی چائے کو بُورژوا چائے کہا جاسکتا ہے مگر پرولتاری دانشور مکس چائے اور کڑک چائے پیتے ہیں تاکہ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی ہو سکے۔ ان کا خیال ہے اور سو فیصد درست خیال ہے کہ جو ادب اپنی قوم اور معاشرے سے لاتعلق ہوتا ہے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، جس ادب میں نہ اپنی خوشیاں سانجھی ہوں اور نہ دکھ ایک ہوں تو وہ مصر کی ممیوں کی طرح نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ وہی ادب سچا اور سدا بہار ہوتا ہے جس کی جڑیں عوام میں گہری ہوں۔ ڈھائی سو سال پہلے برصغیر کے ایک سکول ماسٹر نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں عوام کے دکھوں اور خوشیوں کو بیان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کا شمار اردو کے پانچ بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ جن شعراء نے محض حاکم وقت کی خوشامد اور قصیدہ گوئی میں اپنے وقت اور صلاحیتوں کو ضائع کیا، آج ان کا نام بھی بمشکل ذہن میں آتا ہے۔ ڈھائی سو برس پہلے میر تقی میر نے بھی تو یہی کہا تھا۔
    چور اُچکّے، سکھ مرہٹے، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
    چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے میاں
    ایسا لگتا ہے کہ چوروں اچکوں اور ڈاکوؤں کا جو دور دو ڈھائی صدیاں پہلے تھا، وہی آج بھی ہے۔ نہ صرف ہماری قوم اور معاشرہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کی زد میں ہے بلکہ ادب پر بھی انہی کی حکمرانی ہے۔ آج بھی کسی ساغر صدیقی کی عمر بھرکی کمائی کسی اور نام سے شائع ہو جاتی ہے۔ آج بھی کسی نوشی گوشی کے نشے میں کوئی شاعر اپنے دل و دماغ کی کمائی لٹوا بیٹھتا ہے۔ آج بھی لٹیرے بلیکئے اور دونمبری لوگ کسی قابل اجمیری کے کلام پر ہاتھ صاف کرجاتے ہیں۔ صاحبو! ہمارے معاشرہ میں ایک اور نیا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ اہل صحافت نے بھی ادب کی وادیوں میں گلگشت شروع کردی ہے۔ اب بگڑا شاعر صحافی بننے پر مجبور ہوگیا ہے۔
    شاعر نے تنگ آکے صحافت شعار کی
    ردی کے مول بکتی ہیں جادونگاریاں
    آعند لیب مل کے کریں آہ وزاریاں
    تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
    جوں ہی میں نے چائے کا پہلے گھونٹ حلق سے اتارا اور کپ کو میز پر رکھا، قبلہ علامہ اقبال تشریف لے آئے۔ میں احتراماً کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے دُعا دی۔ ''جیتے رہو، بیٹھو بیٹھو‘‘ میں نے علامہ کو چائے آفر کی مگر وہ کہنے لگے میں تو لسّی پسند کرتا ہوں۔ مجھے یاد آیا، واقعی علامہ تو لسی کے دلدادہ ہیں۔ انہوں نے ایک خط میں اپنے والد شیخ نور محمد کو بھی لسی استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا کہ یورپ کے کئی حکماء نے لسی کی افادیت ثابت کی ہے۔ اب اس کا کیا علاج کہ ہمارے شہروں کا تو کیا کہنا، دیہاتوں سے بھی لسی غائب ہوگئی ہے، البتہ چائے ہر گھر اور ہر گوٹھ گراں میں وافر مل جاتی ہے۔
    ہم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامہ سے پوچھا کہ قوم کی تعمیر میں ادباء کا کیا کردار ہوتا ہے؟ علامہ نے ہمیں غور سے دیکھا اور فرمایا ''برخوردار! لگتا ہے تم نے ''بانگ درا‘‘ میں میری نظم ''شاعر‘‘ نہیں پڑھی؟‘‘ ہماری مسکین صورت دیکھ کر علامہ نے بڑے وجد کے ساتھ اپنی نظم سنانی شروع کردی۔
    قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
    منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
    محفلِ نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم
    شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
    مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
    کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
    ہم نے عرض کیا علامہ صاحب! آپ نے شاعری کو ایک ندی سے بھی تو تشبیہ دی ہے۔ ایسی ندی جس سے زندگی کی کھیتیاں ہر ی ہوتی ہیں۔
    شاعرِ دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
    ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرعہ زندگی ہری
    علامہ فرمانے لگے کہ ہم نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے ۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں؟ انگلش میڈیم سکولوں کی وبا سے اب قوم میرے اردو اور فارسی کلام سے دور کی جا رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ شاید میری قوم کے بچوں کو اس شعر کے علاوہ میرا کوئی اور شعر یاد ہی نہ رہے گا ۔
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
    ''بھئی آپ چائے پیو، ٹھنڈی ہورہی ہے۔ باقی باتیں بعد میں کریں گے‘‘ جوں ہی ہم نے چائے کا آخری جرعہ اپنے اندر اتارا، اندر سے اپنا ایک شعر باہر آگیا۔ ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔ علامہ صاحب آپ نے شاعر اور دانشور کو کسی قوم کی آنکھیں قرار دیا ہے۔ گلہ تو یہ ہے کہ ہمارے اندر بصارت رہی ہے اور نہ بصیرت!
    رہن کیوں رکھدی ہیں تم نے مری آنکھیں اے دوست
    مجھ کو تو چاہیے تھی حدِ بصارت اب کے
    علامہ نے مسکرا کرداد دی تو میں بے خود ہوگیا ۔ اسی بیخودی میںآنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو علامہ تشریف لے جاچکے تھے اور سلیم احمد میرے سامنے اپنے مخصوص انداز میں براجمان تھے۔ فرمانے لگے میاں کن سوچوں میں گُم ہو۔
    ''جب کوئی قوم ادب اور ادیب کی قدروقیمت جانتی ہے تو پھر خانِ خاناں کی طرح اچھا فقرہ سن کر سائل کا منہ موتیوں سے بھر دیتی ہے۔ جب زوال کی کیفیت ہو تو ادب اور ادیب سے زیادہ بھانڈ مراثیوں اور ناچنے گانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے‘‘
    میں نے عرض کیا:
    ''سلیم بھائی! آپ نے بجا فرمایا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اگر کوئی اچھا فقرہ لکھے تو ایسے ادیب کا قلم توڑ دیا جاتا ہے اور بازو مروڑ دیا جاتا ہے۔ اب کوئی ادیب اپنا کردار کیسے ادا کرسکتا ہے؟‘‘
    جس قوم میں قدم قدم پر منافقت ہو، بے چہرگی ہو، لایعنیت ہو وہاں آئینوں سے خوف نہ آئے تو کیا ہو؟ جہاں دن میں بھی رات کی تاریکی کا سماں ہو وہاں کتنے چراغ جلانے پڑیں گے اور کون جلائے گا یہ چراغ؟ جہاں سپاہی کی بندوق کا رخ دشمنوں کی بجائے دوستوں کی طرف ہو اور جہاں گیڈر شیر کی کھال پہن لیں وہاں چہروں کے نقاب کون اتارے؟ ان حالات میں ادب کو کون پوچھتا ہے اور دانشور کی کون سنتا ہے؟ اب سرکاری درباری افسران ہر کام میں خود کفیل ہوچکے ہیں وہ ادیب بھی ہیں شاعر بھی اور دانشور بھی۔ اب مناسب ہوگا کہ اصل ادیب و شاعر چائے بنانا سیکھ لیں۔ خود بھی پئیں اور دوسروں کو بھی پلائیں بلکہ بہتر ہوگا کہ چائے کا کھوکھا بنالیں اور ادب کو کھوہ کھاتے میں ڈالیں ۔
    غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
    روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں​
     
    زنیرہ عقیل اور ماریہ نور .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ماریہ نور
    آف لائن

    ماریہ نور ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مارچ 2020
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    57
    ملک کا جھنڈا:
    intelligent086
    بہت عمدہ انتخاب
    شیئر کرنے کا شکریہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پسند اور رائے کا شکریہ
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ اشتراک کے بہت بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں