1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میرے پسندیدہ اقتباسات

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏6 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل میں اترتی ہے پھر اس سے زیادہ مکمل،خوبصورت ،بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے
    اور اس گفتگو کے بعد دوبارہ ایک دوسرے سے کچھ کہنا نہیں پڑتا بلکہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    عمیرہ احمد ،لاحاصل
     
    غوری, نعیم, حنا شیخ 2 اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی زندگی میں ہم جتنی دل راضی کریں اتنی ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔
    ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرٖقد کو خوشبو دار بناتی ہیں۔زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں بھی جلائے جاتے ہیں۔
    کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
    واصف علی واصف
     
    غوری، حماد اور ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے
    اصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔
    عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اس کی شاخ ہے ۔۔۔۔
    جب انسان کا عشق لا حاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے۔چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے اس کی طلب بدل جاتی ہے ۔
    اشفاق احمد
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نیک عمل کرنے والے کے اندر ہولے ہولے تکبّر کی غلاظت جمع ہوتی ہے قدسیہ ! ،،، نماز روزے کا پابند ،، طہارت کا شیدائی ،،،، اپنے آپ کو بچا کر چلنے والا ،،،، دوسروں کے ساتھ اپنا مقابلہ کر کے احساس برتری میں جانے والے کا نفس ہولے ہولے غلاظت جمع کرنے لگتا ہے ،،، اس کی انا میں خود پرستی کے کیڑے چلنے لگتے ہیں ،،، اگر نیک بندے پر اللہ کی رحمت نا ہو تو پھر یہ نفس ہی شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے اور تکبّر جو شرک کے بعد سب سے برا گناہ ہے اور غالباً شرک بھی تکبّر سے ہی جنم لیتا ہے وہ اس کے خمیر میں داخل ہو جاتا ہے ،، جیسے سارا کھایا پیا لہو میں داخل ہو جاہتا ہے ،،، ایسے ہی یہ تکبّر ،، خود ستائ ،، من مانی قلب کو سیاہ کرنے لگتا ہے ،،، احساس جرم اس کے قریب سے نہیں گزرتا ،،،، پھر یہ روحانی قبص کیسے کھلے قدسیہ ! ؟ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

    اشفاق احمد کی گفتگو سے اقتباس
    کتاب ، راہ رواں ، رائیٹر: بانو قدسیہ صاحبہ
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس۔۔۔۔۔۔اس ایک،آخری اور مکمل دین کی جسے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ختم کر دیا گیا۔اب ہر وہ شخص خسارے میں رہے گا، جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے گا۔اگرہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گھٹے کے پیچھے کہیں بھی جا سکتا ہے اس بات کی پروا کئے بغیر کہ اسکا ریوڑ کہاں ہے

    " عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل ﷺ سے اقتباس
     
    حماد نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہاں زندگی بسر کرنے کے دو ہی طریقے تھے جنہيں ابو طالب کلیم نے دو مصرعوں میں بتلا دیا ہے:
    طبعے بہم رساں کہ بسازی بعالمے
    یا ہمتے کہ از سر عالم تواں گزشت
    پہلا طریقہ اختیار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ہی نہیں لایا تھا۔ ناچار دوسرا اختیار کرنا پڑا:
    کار مشکل بود، ما بر خویش آساں کردہ ایم
    جو نامراد یہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو راہ کی مشکلوں اور رکاوٹوں سے ناآشنا ہوتے ہیں نہ اپنی ناتوانیوں اور درماندگیو ں سے بے خبر ہوتے ہیں تاہم وہ قدم اٹھا دیتے ہیں۔ کیونکہ قدم اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ زمانہ اپنی ساری ناموافقتوں اور بے امتیازیوں کے ساتھ بار بار ان کے سامنے آتا ہے اور طبیعت کی خلقی درماندگیاں قدم قدم پر دامن عزم و ہمت سے الجھنا چاہتی ہیں تاہم ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ وہ زمانہ کے پیچھے نہیں چل سکتے تھے لیکن زمانہ کے اوپر سے گزر جا سکتے تھے اور بالآخر بے نیازانہ گزر جاتے ہیں-
     
  7. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمروعیار ہے۔ہمیشہ دوراہوں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ محبت ہی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہں ہوتی، ہمیشہ عمر قید ہو تی ہے۔

    محبت کا مزاج ھوا کی طرح ہے۔کہیں ٹکتا نہیں، محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے۔جب تک اس کی تصویر میں رنگ نہ بھرو تصویر فیڈ ہو جاتی ہے۔

    روز سو رج نہ چڑ ھے تو دن نہیں ہوتا، اسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو ،رات رہتی ہے

    اقتباس از بانو قدسیہ راجہ گدھہ
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دنیا کے اندر سکون دو گے تو سکون ملے گا ورنہ سکون نہیں ملے گا۔ یہ جنت کا طریقہ ہے۔ کیا طریقہ ہے؟ کہ اس کو سکون دو جس سے ٓاپ کو سکون نہیں ملا اور معاف اُسے کرو جس نے ٓاپ کو معاف نہیں کیا، پھر دیکھو کہانی کیسی بنتی ہے، اگر اپ نے کہانی بنانی ہو تو، ورنہ تو پھر مشکل ہے۔

    (حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
     
  9. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ اگر خوش رہنا ہے تو دوسروں کو خوش کرنا سیکھو۔ ایک بار ہم نے اپنے باباجی سے کہا کہ سائیں جی، ہم تو بہت کوشش کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کو خوش رکھیں۔ اپنے ماتحتوں سے بھی حسن سلوک کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی فقیر کو بھی دو چار آنے دے دیتے ہیں لیکن ھم خوش نہیں رہتے۔ ہمیں خوشی میسر نہی آتی۔ اس پر باباجی کہنے لگے۔ "خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔ خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنی خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دکھی ہوتے ہیں اور کل کو آپ کو ان دنیاوی لوگوں سے کوئی مطلب بھی نہیں ہوتا۔ آپ اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر جب پریشان حالوں کی مدد کرتے ہیں تو خوشی خودبخودآپ کی طرف سفر شروع کردیتی ہے۔ کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کو کسی روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے۔
    زاویہ سوئم، صفحہ 25 سے اقتباس
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جفا کم کن کہ فراد روز محشر
    بہ پيش عاشقاں شر ماندہ باشی
    کبھی دونوں ہتھيلياں زور زور سے زمين پر مارتے اور سر اوپر اٹھا کر انگشت شہادت فضا ميں يوں ہلاتے جيسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو، اور اس سے کہہ رہے ہوں ديکھ لو، سوچ لو۔۔۔۔ ميں تمھيں۔۔۔۔ ميں تمھيں بتا رہا ہوں۔۔۔۔سنا رہا ہوں۔۔۔۔ ايک دھمکی ديتے جاتے تھے اور پھر تڑپ کر ٹھيکريوں پر يوں گرتے اور جفا کم کن کہتے ہوئے رونے سے لگتے، تھوڑی دير ميں ساکت اور جامد کھڑا رہا، داؤ جی ضرور اسم اعظم جانتے تھے، اور جن کو قابو ميں کر رہے تھے، ميں نے اپنی آنکھوں سے ايک جن انکے سامنے کھڑا ديکھا تھا، بالکل الف ليلہ باتصوير والا جن، جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا، تو اس نے انھيں نيچے گراليا تھا، وہ چيخ رہتے تھے، جفا کم کم جفا کم کم مگر وہ چھوڑتا نہيں تھا، ميں اسی ڈھيلے پر بيٹھ کر رونے لگا۔۔۔۔تھوڑی در بعد داؤ جی آئے، انھوں نے پہلے جيسا چہرہ بنا کر کہا، چل طنبورے اور ميں ڈرتا ڈرتا ان کے پيچھے ہوليا، راستے ميں انھوں نے گلے ميں لٹکی ہوئی کھلی پگڑی کے دونوں کونے ہاتھ ميں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر گانے لگے۔
    تيرے لمے لمے وال فريدا ٹريا جا

    اشفاق احمد کی کتاب اُجلے پھول ( افسانےگڈریا) سے اقتباس
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو، جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہر گھاؤ کو سی دے۔
    (عمیرہ احمد کے ناول ’’آؤ پہلا قدم دھرتے ہیں‘‘ سے اقتباس)
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ‎"بابا ! یہ میری بٹر فلائی مر گئی۔" فاطمہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے بھاگتے ہوئے آئی ۔ وہ اپنا ہاتھ کھول کر مری ہوئی تتلی باپ کو دکھا رہی تھی۔ اس کے پیچے سنی بھی بھاگتا ہوا آیا تھا۔ اس کا سانس بے ربط تھا۔
    " انکل میں نے اسے منع کیا تھا کہ اسے زور سے مت پکڑو، لیکن یہ کہتی تھی کہ میں اسے پیار کر رہی ہوں۔ اس نے زور سے پکڑا اور بٹر فلائی مر گئی۔" سنی نے جلدی جلدی وضاحت کی۔
    "بابا پیار کرنے سے بھی کوئی مرتا ہے کیا؟" فاطمہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ارفع نے بےساختہ ہی اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔ ارفع کے ساتھ لگانے پر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔

    (صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’ابن آدم‘‘سے اقتباس)
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نہیں ، اُنھیں کچھ نہ کہو ، وہ بہت پیارے لوگ اور سچے لوگ تھے !
    کُھل کر نفرت کا اظہار کرتے تھے اور پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چاہتے بھی تھے ،۔
    اب تو کچھ بھی نہیں رہا ،۔!،۔

    "نہ نفرت نہ محبت"

    لوگ مصلحتا" ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور زندگی بھر اداکاری کرتے رہتے ہیں !!!،۔

    بھیڑئیے کی آواز ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن ِ صفی ،۔ !!،۔
     
    حماد نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سانپ کا زہر کینچلی میں اور بچھو کا دم میں ہوتا ہے۔بھڑ کا زہر ڈنک میں ہوتا ہے اور پاگل کتے کا زبان میں،انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی “آب گم “ سے)
     
  15. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    خواتین و حضرات ! گاڑی کا وہ مکینک کام کرتے کرتے اٹھا، اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کئے اور ویسے ہی جاکر کھانا کھانا شروع کردیا۔
    میں نے اس سے کہا کہ ’’اللہ کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑجاؤ گے۔ ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائیں گے۔ کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں۔‘‘
    تو اس نے جواب دیا کہ ’’صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بخود مرجاتے ہیں اور جب بسم اللہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہوجاتی ہے۔‘‘
    مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا۔ میں اس سے اب بھی ملتا ہوں۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے۔
    (از اشفاق احمد ۔ زاویہ ۳ ’’ خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف‘‘ سے اقتباس)
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالی انسان سے فرماتا ہے
    میری طرف آکر تو دیکھ ............. متوجہ نہ ہوں تو کہنا
    میری راہ پر چل کر تو دیکھ...............راہیں نہ کھول دوں تو کہنا
    میرے لیے بے قرار ہو کر کے تو دیکھ ...................قدر کی حد نہ کردوں تو کہنا
    میرے کوچے میں بک کر تو دیکھ ..............انمول نہ کردوں تو کہنا
    میرے لئےدھونی مار کر تو دیکھ..............علم کی حکمت کے موتی نہ بکھیردوں تو کہنا
    مجھے اپنا رب مان کر تو دیکھ............سب سے بے نیاز نہ کر دوں تو کہنا
    میرے خوف سے آنسو بہا کر کے تو دیکھ.............مغفرت کے دریا بہا نہ دوں تو کہنا
    وفا کی لاج نبھا کرتو دیکھ................عطا کی حد نہ کر دوں تو کہنا
    میرے نام کی تعظیم کرکے تو دیکھ ........................تکر یم کی حد نہ کر دوں تو کہنا
    مجھے حیئ القیوم مان کر تو دیکھ ...........ابدی حیات کا امین نہ کردوں تو کہنا
    اپنی ہستی فناہکر کے تودیکھ...........جام بقا سے سر فراز نہ کر دوں تو کہنا
    بالآ خرمیرا ہو کر تو دیکھ.................ہرکسی کو تیرا نہ کر دوں تو کہنا
    (مقالاتِ حکمت از صوفی برکت علی لودھیانوی)
     
  17. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    زندگی میں ایک چیز ہوتی ہے جسے کمپرومائز کہتے ہیں۔ پُر سکون زندگی گزارنے کے لئےاسکی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ جس چیز کو تم بدل نہ سکو اس کے ساتھ کمپرومائز کر لیا کرومگر اپنی کسی بھی خواہش کوکبھی بھی جنون مت بنانا۔ کیونکہ زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں کبھی نہیں مل سکتیں۔ چاہیں ہم روئیں چلّائیں یا بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑیں، وہ کسئ دوسرے کے لئے ہوتی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں ہمارے لئے کچھ ہوتا ہی نہیں، کچھ نہ کچھ ہمارے لئے بھی ہوتا ہے۔

    امربیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمیرہ احمد
     
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جو دانشور قوم کو مکمل مایوسی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتےہیں اور انہیں قوم میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی۔وہ بلا ارادہ قوم کو موت کی دہلیز پر پہنچانے کی کوشش کرتےہیں۔ہم میں بہت سی خرابیاں ہیں ، ان خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستانی قوم کو خوبیوں کو بھی اجاگر کرتے رہنا چاہیے ہے۔مایوسی اگر انسان کو موت کی طرف تو امید زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے تو اس کلیے سے قومیں مستثنی نہیں ہیں۔تقدیر سے تو ہم لڑ نہیں سکتے مگر مایوسی کو مقابلہ ، امید سے کیا جا سکتا ہے۔

    جب کوئی ایسا شخص لوگوں کو منفی کے بجائے مثبت سوچیں اپنانے کا مشورہ دے جس کی زندگی مثبت نتائج کی حامل نظر آتی ہو تو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

    (اقتباس “روزن دیوار سے“عطا ءالحق قاسمی)
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    میرے اردگرد کپلنگ کا مقولہ گھومتا رہتا ہے۔ مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظر ہوتا ہے۔ سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے۔ پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں۔ ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے۔ (حاصل گھاٹ سے اقتباس)
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سانپ کا زہر کینچلی میں اور بچھو کا دم میں ہوتا ہے۔بھڑ کا زہر ڈنک میں ہوتا ہے اور پاگل کتے کا زبان میں،انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی “آب گم “ سے)
     
  21. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ انسان کو حیوان کیوں کہتے ہیں
     
  22. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اصل میں تو مشتاق احمد یوسفی صاحب سے پوچھنا تھا لیکن اپ نے ہم سے پوچھ لیا تو کچھ نہ کچھ تو کہنا پڑےگا
    در اصل پہلے تو یونانی فلسفیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس نے رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے ارتقاء کی ہے۔
    ارسطو نے بھی انسان کو سیاسی حیوان قرار دیا جس کی جبلت میں جوڑ توڑ آپس میں کھینچا تانی اور دوسروں پہ غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ تو آپ اس کیفیت کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ کہا گیا ہو
    مارکس نے انسان کو معاشی حیوان قرار دیا جس کی سوچ اور فکر کا دارومدار محض اس کا پیٹ ہے
    جب کہ تھامس کارلائل نے کہا کہ انسان معاشرتی حیوان ہیں جو مل جل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں بستیاں بساتے ہیں قانون وضع کرتے ہیں۔
    حزلٹ نے انسان کو شاعرانہ جانور کہا
    جب کہ بنجمن فرینکلن نے اسے ہتھیار بنانے والا حیوان قرار دیا کسی نے حیوان ناطق کہا تو کسی نے تقلید کرنے والا حیوان کسی نے اسے قوی الفکر حیوان قرار دیا۔

    حقیت حال یہ ہے محترم کہ صدیوں سے ایک مخصوص طبقہ خصوصاً ارتقاء پرست انسان کو حیوان ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ ارسطو، ڈارون، مارکس یا سقراط، بقراط، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی اور کونسی تعریف صحیح ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ تمام تعریفیں انسان کی تعریفیں ہیں ہی نہیں اور جب ان میں سے کوئی انسانی تعریف ہے ہی نہیں تو پھر صحیح اور غلط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں حیوانوں کے بالمقابل انسان کی کچھ انفرادی خصوصیات کا تذکرہ ہے اور انسان کی کچھ خصوصیات انسان نہیں انسان تو ہزاروں خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ ہاں ان تعریفوں کو انسان کو حیوان ثابت کرنے کی کوششیں ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ کوششیں بھی ناکام کوششیں قرار پائیں اس لئے کہ جدید تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ انسان کا کبھی کسی حیوانی نسل سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ انسان ابتداء سے انسان ہی ہے
     
  23. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اگلی بار محتاط رہیں ،،،،،،،، انسان ابتداء سے انسان ہی ہے
     
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ثابت کرو
     
  25. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کائنات کے پہلے انسان (آدم)کی تخلیق کے مراحل
    69۔ پہلا انسان
    پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا؟
    اگرچہ اس سوال پر صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب صدیوں کی تحقیق و تجربات کے باوجود آج تک کسی بھی قسم کے ماہرین نہیں دے پائے ہیں۔
    درحقیقت انسانی تخلیق کے حوالے سے سائنسدانوں، محققوں ، فلاسفروں کو کوئی ایسا سرا نہیں ملتا جہاں سے وہ آغاز کریں۔ صرف اور صرف مذاہب ہیں جو ابتدائی انسان کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں اس کے علاوہ ابتداء کے انسان کے بارے میں ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ معلومات نہیں ہے۔ اور جدید سائنسی نظریات کی بنیاد بھی مذہبی معلومات ہی ہیں۔ لہذا انسان کی ابتداء سے متعلق جو چند مفروضہ نظریات ہمیں ملتے ہیں اگرچہ انہیں سائنسی نظریات کہہ دیا جاتا ہے جب کہ یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ یہ نظریات نہ صرف یہ کہ غلط مفروضے ہیں بلکہ مذاہب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ ( جیسے کہ ارتقائی نظریات)اگرچہ ان نظریات کا ماخذ مذہبی اطلاعات ہیں لیکن یہ مذہبی اطلاعات غلط نہیں ہیں بلکہ اس کتاب میں ہم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ۔
    (1) انسان پر ہو رہے تمام تر مختلف اور متضاد کاموں کا بنیادی فلسفہ مذاہب سے مستعار لیا گیا۔
    (2) یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ اکثر مذہبی آسمانی کتابوں میں زمینی انسانی ترمیم و اضافے کر دیئے گئے لہذا اکثر مذہبی اطلاعات اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔
    (3) تیسرے صحیح مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں بھی غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے غلط نتائج اخذ کئے گئے۔
    اور یہی غلط نتائج آج انسان کے مختلف اور متضاد علوم کی صورت میں موجود ہیں۔ انہی بنیادی غلطیوں کے سبب فی زمانہ انسان پہ جتنے بھی ارتقاء، روح، نفس، جسم کے حوالے سے سائنسی و غیر سائنسی کام ہو رہے ہیں وہ سب کے سب بے نتیجہ کام ہیں۔ ہر موضوع پر انفرادی حیثیت میں صدیوں سے کام ہونے کے باوجود نہ تو انسان کے انفرادی اجزاء روح، نفس کی شناخت ہی ہو سکی نہ ہی آج تک مجموعی انسان کی حیثیت کا تعین ہو سکا۔
    ۱۔ لہذا جب تک انسان کے انفرادی اجسام کی شناخت نہیں ہوتی تب تک انسان کی مجموعی حیثیت کا تعین کر نا ممکن نہیں۔ اور
    ۲۔ جب تک مجموعی انسان کی دریافت مکمل نہیں ہوتی تب تک انسان کی تخلیق کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے۔
    جب کہ ہم یہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے تمام تر قدیم و جدید کاموں کے برعکس ہم نے اس کتاب میں نہ صرف انسان کے انفرادی اجسام و اجزاء کا انکشاف کیا ہے بلکہ ہر انفرادی جز کی شناخت قائم کی ہے ان تمام کی خصوصیات اور اعمال بھی بیان کئے ہیں اور مادی جسم سے ان تمام تر باطنی اجسام کے تعلق کی وضاحت بھی کی ہے لہذا پہلے ہر انفرادی جز کی شناخت کے بعد مجموعی انسان کی تعریف کی ہے۔ در حقیقت
    انسان کے ہر انفرادی جسم کی شناخت اور انسانی مجموعے (روح، نفس، جسم)کے تعین کے بعد اب ہم انسانی تخلیق کا سراغ لگانے کے قابل ہوئے ہیں لہذا اب ہم انسانی تخلیق کا سراغ لگانے کی سمت راست قدم اٹھا سکتے ہیں۔
     
  26. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    70۔ انسان کی تخلیق
    نظریہ نمبر:۔ ﴿54﴾۔ ﴿ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ﴾
    انسان کا کبھی بھی کسی بھی قسم کا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔
    اگرچہ ہر قسم کے سائنسی شواہد ارتقاء کی مسلسل نفی اور تخلیق کی گواہی دے رہے ہیں اس کے باوجود ارتقاء پرست تخلیق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ ارتقائی نظریات سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ جب کہ انسان پہ ہو رہے دیگر روح و نفس کے کام بھی بے تحاشا الجھ گئے ہیں اور آج تک بے نتیجہ ہیں آج تک روح نفس کی ہی شناخت نہیں ہوئی لہذا ماضی کے تمام تر محقق اس نہج تک پہنچے ہی نہیں کہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے یا نہیں۔
    DNA کی دریافت اور دیگر سائنسی ذرائع سے اگرچہ تخلیق کی سائنسی شہادتیں مل رہی ہیں لیکن پھر بھی یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ اگر بفرض محال انسان کی تخلیق ہوئی تھی تو آخر کیسے ہوئی تھی؟
    لہذا ہمیشہ یہ سوال حل طلب ہی رہا کہ پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا؟
    یہاں ہم نے ارتقائی نظریات ( کہ انسان کی ابتداء پانی میں یک خلوی جرثومے کے طور پر ہوئی ہے نیز انسان بوزنے سے پروان چڑھا ہے ) کی نفی کرتے ہوئے انسان کی تخلیق کا دعویٰ کیا ہے تو انسانی تخلیقی عمل کی وضاحت بھی کرنے جا رہے ہیں۔
     
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    انسان کو انسان تو ثابت نہیں کیا آپ نے
    انسان کو انسان تب کہا جا سکتا ہے جب انسان میں انسانیت ہو
    اپنے کردار اور اعمال سے انسان کی پہچان ہوتی ہے
    ورنہ حیوان ہی ہے انسان بھی
    انسان بھی ایک مخلوق ہے اور اشرف المخلوقات بھی چند اوصاف کی وجہ ہے
    انسان کی فطرت میں اگر حیوانگی ہو تو وہ کیسے انسان ہو سکتا ہے
    قتل تشدد زناکاری چھین کر مال دولت کھانا یہ تمام عوامل انسان کہلوانے کے لیے نا مناسب ہیں
    نماز روزہ سے دوری صبح جانور کی طرح اٹھنا پیٹ کے لیے بھاگ دوڑ کرنا اور شام کو سو جانا یہ معلوم نہیں کہ حرام کھایا حلال کھایا
    اگر اسے آپ انسان کہتے ہو تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے
     
  28. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    در اصل پہلے تو یونانی فلسفیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس نے رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے ارتقاء کی ہے۔ آپ کا تبصرہ


    ﴿ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ﴾ انسان کا کبھی بھی کسی بھی قسم کا ارتقاء نہیں ہوا
     
  29. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اگر متفق نہ ہو تو یہ آپکی غلطی ہے
     
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تحریر پوری پڑھ لیا کیجیے
    کیوں کہ متن آپ کو پوری تحریر پڑھنے کے بعد سمجھ میں آئےگا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں