1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمہ اللہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت سیدنا امام حسن بصری
    (مولانا ارشد سجاد)

    نام ونسب :
    نام حسن، کنیت ابوسعید،والد کانام یسار اور کنیت ابوالحسن تھی۔ آپ کے والد مشہور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ کے عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔آپ کی والدہ کانام خیرہ تھا جو کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ باندی تھیں۔
    مکمل نام ونسب یہ ہے:ابوسعید حسن بن ابی الحسن یسار البصری۔
    )سیر اعلام النبلاء: ج4ص563 ،564(

    ولادت باسعادت:
    جب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے آپ کے والدیسار کو آزاد کیا تو انہو ں نے حضرت خیرہ سے نکاح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال باقی تھے جب حضرت یسار کے ہاں علم وعمل کے حسین امتزاج حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی۔
    )سیراعلام النبلاء: ج4ص564(

    فضائل ومناقب:
    1: آپ کی ولادت کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کی تحنیک یعنی گھٹی دی
    [ولادت کے بعد کوئی نرم چیز بچے کو چٹا دینے کانام تحنیک ہے]
    چنانچہ امام ابن جوزی آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
    ولد في خلافة عمر وحنكه عمر بيده۔
    [صفۃ الصفوۃ ج3ص233رقم الترجمہ500]
    ترجمہ: آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پیدا ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے آپ کو گھٹی دی۔
    2: آپ کی والدہ حضرت خیرہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کرتی رہتی تھیں۔بسا اوقات کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر جاتیں اور حضرت حسن رحمہ اللہ رونا شروع کردیتے تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کو سینے سے لگا لیتیں،بسا اوقات دودھ اتر آتا اور ام سلمہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو دودھ پلا دیتیں۔ اس اعتبار سے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رضاعی بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔اس کی برکت بیان کرتے ہوئے امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
    فیرون ان تلک الحکمۃ والفصاحۃ من برکۃ ذالک۔
    )تہذیب الکمال: ج6ص95، 96(

    آپ کو جو حکمت و فصاحتِ کلام حاصل ہوئی ہے وہ اس دودھ کی برکت تھی۔
    3: شرف تابعیت : علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب”تذکرۃ الحفاظ“ میں جب طبقہ وسطیٰ کے تابعین کا ذکر کیا توان میں پہلے نمبر پر حضرت حسن بصری کا تذکرہ کیا۔ آپ نے کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کی اور ان سے روایت حدیث کر کے تابعی ہونے کا شرف حاصل کیا۔اوربشارت نبوی۔
    لاتمس النار مسلما رآني أو رآى من رآني۔
    [اس شخص کو آگ نہیں چھو سکتی جو مجھے دیکھے یا اس کو دیکھے جس نے مجھے دیکھا]
    )سنن الترمذی: رقم الحدیث 3858(
    اور
    : طوبى لمن رآني ولمن رأى من رآني۔
    کے مستحق ٹھہرے۔ [اس شخص کے لیے خوش بختی ہے جو مجھے دیکھے یا اس کو دیکھے جس نے مجھے دیکھا]
    )اتحاف الخیرۃ المھرۃ رقم الحدیث 7010(

    شرف روایت:
    آپ نے بہت سار ے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا اور ان سے روایت بھی لی ہے۔مثلاً:حضرت انس بن مالک،حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت ابوموسیٰ، حضرت ابوبکرہ، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہم۔
    )تہذیب التہذیب: ج2ص231(
    مراسیل حسن بصری:

    علماء جرح وتعدیل نے امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں کہا کہ آپ مرسل روایت بہت کرتے ہیں۔یعنی صحابی کا واسطہ بیان نہیں کرتے۔
    مراسیل حسن کا حکم
    آپ کی مرسل روایت چند وجوہ سے قبول ہے۔
    1:آپ کا دور خیر القرون کا دور ہے، اس دور میں ارسال کوئی عیب نہیں تھا۔ آپ ایک عادل ثقہ تابعی ہیں اور تابعین کے خیر امت ہونے کی گواہی خود سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
    خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ۔
    کے الفاظ سے دی ہے۔
    )صحیح البخاری: رقم الحدیث 3650(
    2: آپ رحمہ اللہ نے حجاج کا زمانہ پایا ہے، وہ دور اہل بیت رسول اور حضرت علی کے خلاف نفرتوں کا دور تھا۔ اس زمانہ میں اگر کوئی اہل بیت کے کسی فرد کا نام لیتا تو کوئی احمق ان سے بدسلوکی کرتا اور فتنہ کھڑا کردیتا۔ آپ اس فتنہ سے امت کو بچانے کے لیے صحابی کا نام ذکر کئے بغیرمرسل روایت بیان کردیتے ، اس کا اظہار خود آپ نے اس وقت کیا جب یونس بن عبید نے آپ سے مرسل روایت کے متعلق سوال کیا۔امام مزی اس سوال وجواب کو یوں نقل کرتے ہیں:یونس بن عبید کہتے ہیں میں نے حسن بصری سے سوال کیا کہ آپ حدیث بیان کرتے وقت قال رسول اللہ فرمادیتے ہیں حالانکہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ نہیں پایا، تو آپ نے جواب میں فرمایا: بھتیجے! یہ سوال آج تک مجھ سے کسی نے نہیں کیا، تو پہلا شخص ہے جس نے یہ بات پوچھی ہے، اگر تو میرا قریبی نہ ہوتا تو اس سوال کا جواب میں تجھے بھی نہ دیتا[تیرے سوال کاجواب یہ ہے کہ] جس زمانہ اور حالت میں میں زندگی گزاررہاہوں وہ تو اچھی طرح جانتاہے، آپ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا جس حدیث میں میں صحابی کاواسطہ چھوڑ کر براہ راست قال رسول اللہ کہوں تو سمجھ لو وہ حضرت علی کے واسطہ سے مروی ہے لیکن ان حالات میں میں حضرت علی کا نام نہیں لے سکتا۔
    )تہذیب الکمال: ج6ص124(

    آپ کی مرسلات کے بارے میں امام علی بن مدینی فرماتے ہیں۔
    مرسلات الحسن إذا رواها عنه الثقات صحاح۔
    )تہذیب التہذیب: ج2ص231(

    آپ سے مروی مرسل روایات کو اگر ثقات نقل کریں تو وہ بالکل صحیح ہوتی ہیں۔
    ان تصریحات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ آپ کی مرسلات میں کسی قسم کا کوئی عیب نہیں، وہ مقبول عند المحدثین ہیں۔
    و اللہ اعلم

    روایت بالمعنیٰ:

    حدیث کو نقل کرنے کےعام طور پر محدثین کے ہاں دو طریقے رائج ہیں۔ نمبر1: یہ کہ من و عن بعینہ وہی الفاظ نقل کیے جائیں۔ اس کو محدثین کی زبان میں ”روایت باللفظ “کہتے ہیں۔
    نمبر 2: اس میں تھوڑی سی وسعت پیدا کر کے حدیث کا مفہوم اور معنی نقل کیا جائے اس کو محدثین کی اصطلاح میں” روایت بالمعنیٰ“ کہا جاتا ہے۔ امام موصوف رحمہ اللہ احتیاط کی وجہ سے” روایت بالمعنیٰ “ کے قائل تھے۔ یعنی اپنی روایتوں میں لفظ کے بجائے معنیٰ پر بھی اعتماد کرتے تھے۔
    حسن بصری رحمہ اللہ …..بزرگان امت کی نظر میں:
    1: حضرت خالد بن رباح الہذلی فرماتے ہیں۔
    سئل أنس بن مالك عن مسألة فقال سلوا مولانا الحسن
    .)تہذیب الکمال ج2ص534(

    ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ ہمارے مولیٰ وسردار ”حسن “ )بصری (سے پوچھو!لوگوں نے کہا اے ابوحمزہ ہم آپ سے پوچھتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ حسن سے پوچھو۔
    2: حضرت ابوبردہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
    والله لقد أدركت أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم فما رأيت أحدا أشبه بأصحاب محمد من هذا الشيخ يعني الحسن۔
    )تہذیب الکمال ج2ص534(
    ترجمہ: قسم بخدا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پایا ہے لیکن ان کے سب سے زیادہ مشابہ حضرت حسن کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔
    علو منزلت کے اسبابِ تکوینیہ :

    1: امام حسن بصری رحمہ اللہ کی بلند رفعت اور مقام میں جہاں دوسرے اسباب خیر شامل ہیں ان میں تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی نسبتیں بھی عطا فرمائی تھیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ مقام نصیب ہوا ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو خلیفہ دوم خلیفہ راشد امیر المومنین سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی دعا بھی تھی چنانچہ تہذیب الکمال میں حضرت عمر رضی اللہ کی یہ دعا جو انہوں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو دی تھی اس کا تذکرہ ان الفاظ میں منقول ہے
    اللهم فقهه في الدين وحببه إلى الناس۔
    )تہذیب الکمال ج۲ص(534

    ترجمہ :اے اللہ [حسن کو]دین کی سمجھ عطاء فرما اور لوگوں کا انہیں محبوب بنادے۔
    2: سفاح نے ابو بکر الہذلی سے پوچھا کہ آخر وہ کون سی خوبی تھی جس کی بناء پر تمہارے حسن بصری اس بلند مرتبہ ومقام تک پہنچ گئے؟ابوبکر نے جواب دیتے ہوئے کہا:” حسن نے بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا تھا پھر آپ ایک سورۃ سے دوسری سورۃ کی طرف اس وقت تک منتقل نہیں ہوئے جب تک مذکورہ سورۃ کی تاویل وتفسیر معلوم نہیں کرلی اور شان نزول سے واقف نہیں ہوگئے۔…….. نہ کوئی حکومتی عہدہ قبول کیا۔آپ سے جو کام کرنے کے لیے کہا گیا اسے کرلیا اور جس کام سے روک دیا گیا اسے چھوڑ دیا.“ یہ سن کر سفاح نے کہا:” بس یہی وہ اوصاف ہیں جن کی بناء پر اس شیخ[حسن بصری] کو یہ مرتبہ اور مقام حاصل ہوا۔“
    )شذرات الذہب(

    وفات حسرت آیات:
    آپ یکم رجب المرجب 110ھ میں شب جمعہ کو دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ چنانچہ اگلے روز نماز جمعہ کے بعد نضر بن عمرورحمہ اللہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور بصرہ کے تمام لوگ آپ کے جنازے میں شریک ہوئے۔
    حمید الطویل فرماتے ہیں میرے علم کے مطابق بصرہ میں اسلام آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ جامع مسجد میں عصر کی نماز نہیں پڑھی گئی کیونکہ تمام لوگ جنازے کے ساتھ چلے گئے تھے اور عصر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں کوئی شخص نہیں تھا۔​
     
    UrduLover اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    زنیرہ عقیل نےحضرت سیدنا امام حسن بصری رحمہ اللہ اشتراک کیا۔بہت بہت شکریہ
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں