1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلادِ شام کی فضیلت و اہمیت اور موجودہ صورتحال

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏1 مارچ 2018۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بلادِ شام تاریخ انسانی میں قدیم سلسلہ ہائے نبوت و رسالت اور مصاحفِ آسمانی کے حوالے سے فضیلت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں کے لیے قرآن و حدیث کی رو سے بھی انتہائی قابلِ تعظیم اور اہم خطہ ہے۔
    تاریخ میں جس خطے کو "بلادِ شام" کہا گیا ہے۔ اس میں حالیہ ملک شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے بعض حصے شامل ہیں۔ انگریزمورخ اس خطے کو The Levantکے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ موجودہ ملک شام 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہونے کے بعد Syriaیا شام کے نام سے معروف ہوا۔
    اس سرزمین شام یعنی The Levantپرقدیم انبیائے کرام علیھم السلام کے علاوہ عہدِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدعظیم صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قدم پڑے ہیں۔
    سرزمین شام قرآن میں بطور ارضِ مقدس اور بابرکت زمین
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اپنی کتاب ''مناقب الشام واھلہ'' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
    کتاب وسنت اور آثار علماء سے شام اور اس کے باشندوں کے فضائل ومناقب ثابت ہیں،یہ وہ ملک ہے، جو تاتاریوں کے حملے میں مسلمانوں کی ترغیب کا باعث بنا،اور مسلمانوں نے مصر کی جانب راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے دمشق میں ہی پناہ لی۔اھ،
    فرمان باری تعالیٰ ہے:
    وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء:71)،
    ترجمہ: اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچاکر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔
    حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: آیت میں برکت والی سرزمین سے مراد ارض شام ہے،یہی روایت مجاہد، ابن زید اور ابن جریج سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے لیے ارض مبارکہ کو نجات گاہ بنایا تھا، اور بلاد شام سے سرزمین فلسطین کا انتخاب فرمایا، شیخ سعدیؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "آیت میں برکت والی زمین سے مراد شام ہے،کیونکہ اکثر انبیاء کا تعلق اسی سرزمین سے تھا،اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کے لیے مقام ہجرت بنایا،اور اسی سرزمین میں اس کے گھروں میں سے ایک گھر بیت المقدس ہے"۔
    مسجد اقصی اُسی سرزمین میں واقع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا:
    ارشاد باری تعالیٰ ہے: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ }.
    ترجمہ: پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے
    اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو اپنی قوم کے ساتھ سرزمین شام کی جانب جانے کا حکم دیا تھا،لیکن قوم نے داخل ہونے سے انکار کیا :ارشاد ہے:
    { يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ } ترجمہ: اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو
    بلاد شام اللہ کے نیک بندوں کی میراث ہے، ارشاد باری ہے : وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا
    ترجمہ: اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہواؤں کو ارض مبارک یعنی شام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیں، وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
    ترجمہ: ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔
    ابن جریر طبری کہتے ہیں:سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ارض مبارک کی ہوائیں چلتی تھیں، اورارض مبارک سے مرادملک شام ہے۔۔۔۔۔
    جاری ہے ۔۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بلاد شام کی فضیلت احادیث رسولﷺ میں
    شام میں سکونت اختیار کرنے کی وصیت:
    حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے: فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اخیر زمانے میں حضر موت سے تم پر ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکھٹا کرے گی، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ایسے وقت آپ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شام کا رخ کرنا۔(رواه الترمذي )
    حضرت عبداللہ بن حوالہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یارسول اﷲ ﷺ اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ اﷲتعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘[أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483]
    قابلِ غور امر یہ ہے کہ موجودہ سعودی حکومت انہی دو ممالک کے خلاف خاص طور پر نبردآزما ہے جس کی تعریف و توصیف اور فضیلت خود رسول کریم ﷺ خاص طور اپنے فرمودات کے ذریعے واضح فرما رہے ہیں۔
    نیز نبی کریم ﷺ نے اہل شام سے متعلق وصیت فرماتے ہوئے فرمایا: تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲتعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲتعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘[رواه أبو داود وأحمد، بسند صحيح]
    اور ایک روایت میں ہے:
    میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کرےگا۔ یہ بات مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین میں باب لد کے پاس مسیح دجال کا سامنا کریں گے۔
    علامہ ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے اہل شام کو قیامت تک اللہ کے حکم کے قائم کرنے اور قیامت تک ان میں طائفہ منصورہ کے وجود کی وجہ سے امتیازی طور پر ذکر فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ وصف بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ سرزمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہوجائے گا، یمن ، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی،لیکن شام میں علم وایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید ونصرت حاصل رہے گی۔
    (مجموع الفتاوی (4/449))
    ملک شام پر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں:
    صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ نے فرمایا: شام کیلئے بھلائی ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: اس لئے کہ رحمن کے فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ (رواہ الترمذی)
    فتنوں کے دور میں ایمان شام میں ہوگا:
    نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھر سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا(رواه الإمام أحمد )
    جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر مسلمانوں میں کوئی خیر نہیں :
    حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔ ( رواه الإمام أحمد )
    حضور نبی اکرم ﷺ نے ارض مقدس کے رہنے والوں کے فساد کا شکار ہونے پر امت کے خیر کی نفی فرمائی،
    اہل شام کے لیے رسول کریم ﷺ کی برکت کی دعا:
    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا : اور ہمارے نجد میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ہمارے (ملک) شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں ؟ صحابہ کا ارادہ تھا کہ آپ اہل نجد کے لیے بھی دعا کریں، لیکن آپ نے ان کے لیے دعا نہیں فرمائی، البتہ یہ فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔ (رواہ احمد ،بخاری،ترمذی)
    (یادرہے یہ وہی نجد ہے جہاں سے موجودہ وہابی عقائد کا بانی عبدالوہاب نجدی کا تعلق ہے)
    جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ دمشق میں ہوگا:
    حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈ ہیڈ کواٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ“ کے مقام پر ہوگا۔ (سنن ابی داود، مستدرک حاکم)
    شام سرزمین ہے حشر کی اور نشر کی:
    حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شام حشر اور نشر کی سرزمین ہے۔
    لہذا سرزمین شام ہی مقدس اور مبارک سرزمین ہے، اللہ کی زمین میں یہی خطہ زمین اللہ کی بہترین زمین ہے، یہ سرزمین جہاد ورباط ہے، یہ اللہ کے بندوں کی جماعت کا مرکز ہے، اللہ کے بندوں کی یہی جماعت طائفہ منصورہ ہے۔
    آخری زمانے میں بلاد شام خلافت اسلامیہ کا مرکز ہوگا:
    ابوحوالہ ازدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میرے سر پر یا میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر فرمایا: اے ابن حوالہ ! جب دیکھو کہ ارض مقدسہ میں خلافت قائم ہوچکی تو اس دن زلزلے، بلائیں، مصیبتیں، بڑے بڑے حادثات، اور قیامت لوگوں سے اس سے زیادہ قریب ہونگے جتنا میرا ہاتھ تمہارے سرسے قریب ہے۔
    عسقلان شام کی سرحدوں میں سے ایک سرحد ہے:
    حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے نبوت ورحمت ہوگی، پھر خلافت اور رحمت ہوگی ، پھر ملوکیت اور رحمت ہوگی، پھر لوگ اس پرگدھوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے، لہذا (اس وقت) تم پر جہاد لازمی ہوگا، اور تمہارا رباط میں جہاد کرنا افضل ہوگا، اور تمہارا افضل رباط عسقلان ہوگا۔( الطبرانی فی المعجم الکبیر)
    ’رِباط‘ کا مطلب ہے آدمی کا حالتِ جنگ کیلئے کسی جگہ پر تیار اور حاضر پایا جانا۔ اس کیفیت میں ہونا کہ جنگ اب چھڑ سکتی۔ یا یہ کہ آدمی کو کسی جھڑپ کیلئے ابھی طلب کر لیا جائے گا یا ذرا ٹھہر کر۔ جنگ کے لئے آدمی کا محاذ پر ہونااور مورچہ زن ہو رہنا۔ ایک حدیث میں ہے: رِبَاطُ یَوْمٍ فی سبیل اللہ خیرٌ مّنَ الدُّنُیَا وَمًا عَلَیْہَا (متفق علیہ)”اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط دنیا وما فیہا سے بہتر ہے“۔
    عسقلان ایک مشہور جگہ ہے، تاریخ میں اسے عروس الشام کہا گیا ہے، اور فلسطین کے شہروں سے متعلق انسائیکلوپیڈیا میں تحریر ہے: عسقلان اپنی طویل تاریخ میں معیشت کا حامل ایک ساحلی شہر شمار کیا جاتا رہا، اس کی سمندری بندرگاہ اور فلسطین ومصر کی سرحدوں سے قریب اس کے اسٹرٹیجک جائے وقوع کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے، سمندر سے گذرنے والے تمام تجارتی اور جنگی قافلوں کو اسی شہر سے گذرنا پڑتا ہے۔تاریخ میں کوئی بھی لشکر عسقلان پر کنٹرول حاصل کیئے بغیر فلسطین کو فتح نہیں کرسکا، اسی طرح اسلامی ادوار میں بھی عسقلان کی اہمیت میں کمی نہیں آئی۔
    اوپر بیان کردہ احادیث مبارکہ سے حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالی کے عطاکردہ علمِ غیب سے مسلمانوں کی بھرپور رہنمائی فرما دی ہے۔
    مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کی جانب یہ آپ کا اشارہ تھا کہ مسلمان اختلاف اور آپسی خلفشار کی وجہ سے اقتدار کے لیے لڑیں گے،
    بلاد شام کی قدیم تاریخ کے مطالعےسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سرزمین ہر زمانے میں اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل رہی، اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے سے مراد فلسطین کے شمالی وجنوبی اور مشرقی تمام علاقوں تک اپنا کنٹرول آسان کرنا ہے۔
    بلادِ شام دراصل غنائم اور رزق کی سرزمین:
    ابو امامۃ الباھلی سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد ﷺ! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔ (سنن ترمذی)
    قابلِ غور امر یہ ہے کہ موجودہ سعودی حکومت انہی دو ممالک کے خلاف خاص طور پر نبردآزما ہے جس کی تعریف و توصیف اور فضیلت خود رسول کریم ﷺ خاص طور اپنے فرمودات کے ذریعے واضح فرما رہے ہیں۔
    لہذا شاہ بشار الاسد کی حمایت و مخالفت سے قطع نظر ہمیں صرف اور صرف اللہ تعالی اور رسول اکرم ﷺ کے فرامین سے جان لینا چاہیے کہ اہلِ حق کہاں ہیں۔ اور موجودہ ظلم و ستم میں امریکہ، خوارجی داعش اور انکی پشت پناہی کرنے والے سعودی فنڈڈ لوگ کون ہیں اور انکے مقاصد کیا ہیں !
     
    آصف احمد بھٹی، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جذاک اللہ خیرا کثیرا۔۔۔۔
    کیا ہمارے علماء قائدین شام کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے جہاد کا اعلان فرمائینگے؟
    اگر علماء اور قائدین جو جلسے جلوسوں میں تو لاکھوں لوگ جمع کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں
    ایسے موقع پر جہاد کا اعلان نہیں کرتے تو عوام کیا کرنا چاہیے؟
     
    آصف احمد بھٹی اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اسلامی تعلیمات کے مطابق جب تک دنیا میں اسلامی حکومتیں قائم ہیں (بے شک نام نہاد ہی سہی۔آپ بھی بخوبی جانتی ہوں گی کہ مسلمان حکمران جب تک بنیادی ارکانِ اسلام کی منسوخی کا اعلان نہ کرے۔ تب تک انکو اسلامی یا مسلمان حکومت ہی تسلیم کیا جائے گا۔ )
    تو اسلامی حکومتوں، اسلامی مقننہ، شوریٰ وغیرہم کے ہوتے ہوئے کوئی بھی جماعت، کوئی سکالر، کوئی انفرادی گروپ ۔ جہاد ۔ کا اعلان نہیں کرسکتا۔۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ خوارج کہلائے گا اور یہ عمل خروج کہلائے گا۔ جو اسلام میں حرام ہے۔
    اس مسئلہ کا حل مسلمان حکومتوں کے اتحاد میں مضمر ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اپنے ممالک میں جائز ممکن جمہوری طور پر ایسے حکمران ایسی قیادتیں برسراقتدار لانے کی کوشش کرنی چاہیے جو استعمار اور اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے کی بجائے اسلامی ریاست اور اپنی عوام کے وفادار ہوں اور اپنی قوم کا مفاد بقیہ ہر مفاد سے زیادہ عزیز ہو۔ لیکن اگر ہم اپنے اپنے ممالک میں یہود و ہنود کے ایجنٹوں ، چوروں لٹیروں قاتلوں کی تائید کرتے رہیں یا انکے بنائے ہوئے نظام کو سپورٹ کرتے رہیں تو پھر ایسا ہی نتیجہ نکلے گا کہ دشمن رفتہ رفتہ ایک ایک کرکے، یکے بعد دیگرے ہمیں لقمہء اجل بناتا رہے گا۔
    قرآن مجید نے واضح خبردار کیا ۔
    فاعتبرو یا اولی الابصار
    علامہ اقبال نے اسی لیے تنبیہ کی تھی
    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ۔ پاکستان ۔ والو
    تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
     
    آصف احمد بھٹی، پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو شہید ہوتے ہوئے ٹی وی پر انجوائے کریں ایسی صورت میں ایک عام مسلمان کے لیے کیا حکم ہے اگر حکمران یہودو نصاری کے غلام اور قائدین اپنے مفادات کے غلام ہوں؟ حکومت امریکی احکامات کی محتاج ہو اور قائدین مظلوم شہید ہوتے ہوئے مسلمانوں کی مدد کے لیے آواز اٹھانے سے زیادہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کینچھنے کے لیے دھرنے جلسے جلوسوں میں مصروف ہوں
     
    آصف احمد بھٹی اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خیر ہاتھ پہ ہاتھ دھرنے کا نتیجہ تو آپ نے خود گھڑ لیا ہے۔ میری طرف سے آپ بے شک شام تشریف لے جائیں ۔۔ ست بسم اللہ
    میں نے تو اپنی سوچ سمجھ کے مطابق جواب دیا کوئی فتوی یا پابندی نہیں لگائی ۔
    اور ہاں میں نے اولیں طریقہ عرض کیا تھا ۔ کہ مسلمانوں کو اپنے اپنے ممالک میں بیداری شعور کی جدوجہد کے ذریعے صالح، باکردار، بہتر مسلمان قیادتوں کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کی جدوجہد کرنی چاہیے ۔۔ یہ ایک بہت عظیم کاز ہے اگر انسان سمجھ سکے تو۔ ایسی جدوجہد طویل ہوسکتی ہے لیکن قوموں کا مقدر ایسی کوششوں ہی سے بدلتا ہے۔ اس کام کے لیے سکول کالجز ، تعلیم تربیت سے لے کر دھرنے یا جلسے جلوس تک پرامن جمہوری انداز میں بیداری شعور کے سبھی طریقے جائز ہیں ۔۔۔ کسی کو ناپسند ہو تو اسے ٹانگیں کھینچنے کا عنوان دے لے۔ لیکن پرامن احتجاج جمہوری قوموں میں عام وطیرہ ہے۔
    دوسرا طریقہ۔ اپنے اپنے انداز میں جمہوری اور امن پسند احتجاج ہے ۔ جہاں تک ممکن ہو صدائے احتجاج بلند کریں۔
    تیسرا طریقہ ۔ مالی عطیات کے ذریعے متاثرین مظلوموں کی حتی الامکان مدد ہے وہ بھی کرنی چاہیے۔
    یہ میری اپنی رائے ہے اور الحمدللہ یہ صرف الفاظ نہیں میں ان تینوں طریقوں پر حتی المقدور عمل کر بھی رہا ہوں۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ آمین
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کے جذبات کی تمام تر قدر کرتے ہوئے عرض ہے کہ
    بدقسمتی سے ہماری قوم بحثیت مجموعی سوائے انجوائےمنٹ اور تماش بینی کو اور کرتی بھی کیا ہے؟
    ملک شام پر ظلم پر خون کے آنسو رونے والوں کو اپنے وطن اور اڑوس پڑوس میں آئے دن ہونے معاشی ظلم، دہشت گردی، لوٹ مار قتل و غارت گری نظر نہیں آتی۔ جب ہم ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو سات سمندر پار ممالک کی مدد کیا کریں گے۔
    آرمی پبلک سکول کے بچوں کو خون میں نہلایا گیا ۔۔۔ کتنے پاکستانی سڑکوں پر احتجاج کو نکل کر حکومت پر دباو ڈالا کہ حکمرانو !!!! دہشت گردی کا قلع قمع کرو وگرنہ ہم تمھارا جینا حرام کردیں گے ؟ وہاں تو ہم حدیثیں ڈھونڈتے ہیں کہ حکمرانوں کو برا بھلا بھی نہ کہو !
    ماڈل ٹاون میں دن دیہاڑے خون کی ہولی کھیلی گئی اور آج تک 14 لاشوں اور 90 معذور زخمیوں کو عدالتوں کے چکر لگوائے جارہے ہیں۔ ہم نے بطور قوم قاتلوں ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کیا کاوش کی ؟ کیا یہ مسلمان اور انسان نہیں ؟
    کراچی بلدیہ ٹاون میں بھتہ نہ دینے پر 250 لوگوں کو کوئلے کی طرح جلا کر جھلسا دیا گیا ۔۔ ہم بطور قوم تماشائی بنی بیٹھی رہی ۔ کراچی میں کئی عشروں سے بھتہ خوری، بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کا راج تھا۔ شکریہ فوج اور رینجرز کا کہ انہوں نے حالات کسی حد تک قابو کرلیے۔
    لیکن آج بھی انتخابات میں ہم بطور قوم ووٹ انہی قاتلوں ، بھتہ خوروں اور چوروں کو ہی دیتے ہیں۔
    ہمارے اپنے ملک میں بلوچستان علیحدگی کی تحریک بھارتی حمایت یافتہ ایجنٹوں کے ذریعے زور پکڑ رہی ہے۔ ہم بطور قوم اسکے تدارک کرنے کے لیے کیا کررہے ہیں۔ کلبھوشن پکڑا گیا۔ ہم نے بطور قوم باہر نکل کر حکومت یا بااختیار اداروں پر کتنا دباو ڈالا کہ کلبھوشن کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے اور ایسے اگر درجنوں یا سینکڑوں کلبھوشن اور بھی ہیں تو انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے ؟
    معصوم زینب پر چند دن جذبات دکھانے والی قوم اب کہاں سو گئی ہے؟ زینب سے پہلے بھی اور بعد بھی کتنی ہی اور بچیاں اور بچے ایسے ہی ظلم کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور اس سارے گھناونے کھیل کے پیچھے جنسی درندگی کا پورا مافیا کارفرما ہے۔۔ ہم نے بطور قوم صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے حکمرانوں یا صاحبان اختیار پر کتنا دباو ڈالا کہ اس سارے مافیا کو انجام تک پہنچاو ورنہ ہم تمھارا گھروں سے باہر نکلنا دوبھر کردیں گے ؟
    معذرت چاہتا ہوں مجھ سمیت ہم مجموعی طور پر بے حس قوم ہیں۔ بے غیرت بھی ہیں ۔ الاماشاءاللہ ۔
    تبلیغ، اصلاح، جہاد سب کچھ اپنی ذات ۔ اپنے ارد گرد، اہل قرابت سے شروع کرنے کا حکم ہے۔
     
    Last edited: ‏2 مارچ 2018
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ بہت خوبصورت جوابات سے آپ نے نوازا ہے
    ایک طالبہ کے لیے اس سے بہتر جوابات سیکھنے کے لیے نہیں مل سکتے
    مشکور و ممنون ہوں

    بس ایک بات واضح کرنا چاہونگی کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا کسی پر تنز نہیں ایک سوال تھا کہ عام مسلمان کے لیے کیا حکم ہے اور یہ گھڑا نہیں مطلب اخذ کیا تھا
    جب تک ہمیں شرعی حکمران نہیں ملتا تب تک دنیا کے ہر ظلم کو برداشت کرنے کا سبق بھی اچھا ہے
    نیز اسلام اور جہاد کی کوئی حدود معین ہو تو وہ بھی جاننا چاہونگی کیوں کہ جب کسی ماڈرن مولوی مفتی سے جہاد کا سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے معاشرتی برائیوں کا رونا لے کر بیٹھ جاتا ہے.

    آپ نے مجھے شام جانے کا جو مشورہ دیا .......... تو آپ ہی کی شیئر کردہ احادیث کے مطابق اللہ نے موقع دیا تو ضرور جاؤنگی جو بھی ٹیم پاکستان سے کبھی بھی جائےگی تو میری اولین کوشش رہےگی میری فیلڈ کا کام ہی خدمت خلق ہے.
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افغانستان سے شاید زیادہ آسانی سے "ٹیم" مل جائے (ازراہِ تفنن :D)
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میری بہن آپ تو مولویوں یا مفتیوں کو ماننے کی بجائے ڈائریکٹ کتاب و سنت سے ھدایت لینے پر اصرار فرماتی ہیں نا؟
    تو سیرتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ فرمالیں۔ اب چونکہ تعلیماتِ قرآن و حدیث ایک سمندر کی مانند وسیع و عمیق ہیں اور ہر غوطہ خور اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں سے موتی نکال سکتا ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جو اپنی طاقت سے جو جوہر و گوہر آپ کو اس سمندر سے ملیں وہ مجھ جیسے کم عقل کو بھی نصیب ہوسکیں۔ اس لیے بلاشبہ آپ اپنے فیصلے میں آزاد ہیں۔
    مجھے قرآن و سیرتِ نبوی سے یہ سمجھ آتی ہے کہ اسلام محض جذباتیت و حماقت کا دین نہیں بلکہ عقل و شعور اور دانش و حکمت کا دین ہے۔ و من یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا (القرآن) اس لیے فقط"عالم" ہونا چھوٹا درجہ ہے اور علم و حکمت یکجا نصیب ہونا اعلی و اولی درجہ ہے جو براہ راست رحمتِ الہی اور فیضانِ نبوت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصیب ہوتا ہے۔
    اب علم یہ ہے کہ جہاں ظلم دیکھو "بندوق" اٹھاو اور جہاد پر چڑھ دوڑو ۔ مرجاؤ۔ شہادت پاؤ اللہ سے اجر حاصل کرو۔
    لیکن قرآنی آیات کے مکی و مدنی ادوار کے نزول اور سیرتِ طیبہ کے مکی و مدنی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک دو بدو جہاد کے لیے مناسب معاشی، عسکری و لشکری قوت نہ دستیاب ہوسکے اس وقت مکی سرداروں کے ظلم وستم بھی سہتے رہو اور محض تبلیغ و اصلاحِ احوال کا کام جاری رکھو۔ جب تک مناسب قوت و ماحول نہ ہو تو شعبِ ابوطالب میں سالوں تک معاشرتی بائیکاٹ کا بھی چپ چاپ سامنا کرو۔ یہ بھی تعلیماتِ اسلام اور سیرتِ پاک ہی کا حصہ ہیں لیکن اس دوران فروغِ دعوت، اصلاحِ احوال اور اپنی قوت میں اضافے کا مشن جاری رکھو۔
    حتی کہ اگر اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر بظاہر کافروں کی ہنسی کا نشانہ بھی بننا پڑے تو کبھی حبشہ تو کبھی مدینہ کی طرف ہجرت بھی کرجاؤ۔ ضروری نہیں کہ کم قوت کے ساتھ کافروں کے ساتھ مقابلہ شروع کردو اور دشمن تمہارا تیا پائنچا کردے ۔۔۔۔
    (مقامِ فکر : آئیے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کیا کوئی عالم، سکالر یا رہبر نیک نیتی کے ساتھ ریسرچ ورک ، تحقیق و تبلیغ و دیگر مقاصد کے لیے پاکستان سے باہر دنیا بھر میں دوروں پر جائے ۔۔وہاں کی مسلم نوجوان جنریشن کو شراب خانوں کی بجائے مسجدوں کا راستہ دکھائے اور انہیں اسلام کا امن پسند چہرہ سمجھا کر انہیں مغربی معاشروں میں باکردار مسلمان بنانے کی کوشش کرے تو ہم پاکستانی اور ہمارا میڈیا اسکی کس انداز میں تذلیل کرتا ہے؟ )
    پھر مدینہ شریف پہنچ کر جب مسلمان صحابہ کرام زیادہ ہوجائیں تو پھر بھی اپنی عددی طاقت بڑھتی دیکھ کر آپے سے باہر نہ ہوجاو بلکہ مواخاتِ مدینہ کے ذریعے پہلے مسلمانوں کے معاشی مسائل حل کرو۔۔ انکے لیے باعزت روزگار انکے اہل و عیال کو مالی تحفظ فراہم کرو اس دوران یہودونصاری و منافقین جیسے طبقات سے "سیاسی و سماجی معاہدات" بھی کرنے پڑیں تو اپنی معاشی ،علمی، تبلیغی، تربیتی کاوشوں کے ذریعے پختہ فکر افرادی قوت میں اضافے کے لیے وہ بھی کرو ۔۔۔ یہ سب بھی سیرتِ نبوی کا حصہ ہے۔
    تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مدنی دور میں بھی بدر و احد کی جنگیں مسلمانوں کی طرف سے پیش قدمی سے نہیں ۔۔ بلکہ براہ راست کافروں کی پہل کی وجہ سے دفاعی انداز میں لڑی گئیں۔ اگر یہ دونوں جنگیں مسلط نہ کی جاتیں تو شاید علم و تعلیم، دعوت و تبلیغ، تربیت و اصلاح اور معاشی ترقی کا سفر شاید مزید جاری رہتا (خیر یہ سب مشیتِ ایزدی تھی)
    پھر جب بفضلِ اللہ تعالی، مسلمان انتہائی مناسب قوت حاصل کرچکے اور مقامِ حدیبیہ ہوا تو صلحِ حدیبیہ کی شرائط بھی پڑھ لیں ۔۔ بظاہر سبھی شرائط کافروں کے حق میں تھیں۔ سیدنا فاروق اعظم اور سیدنا علی المرتضی سمیت کئی جلیل القدر اصحابِ کبار رضوان اللہ عنھم جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں کہ یارسول اللہ ! اتنی کمزور شرائط پر معاہدہ کیوں ؟ ( آج اگر کوئی عالم رہنما حکمت و دانش کے ساتھ دوراندیشی و وسیع البصیرتی سے اس طرح کے اقدامات کرتا ہے تو ہم اور ہمارا میڈیا اسکو کون کون سے طعنوں اور القابات سے نوازتے ہیں۔ ہنود ویہود کا ایجنٹ ، کافروں کا پٹھو وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن سیرتِ رسول صل اللہ علیہ وسلم سے براہ راست روشنی لینے والا سچا مسلمان ایسا کبھی نہیں سوچے گا)
    پھر جہاد کا وقت بھی آیا ۔۔ پھر قرآنی احکامات بھی اترے پھر اللہ پاک نے بھی حکم دیا کہ (مفہوما") اب جیسے انہوں نے تمھیں گھروں سے بےگھر کیا تھا اور تمھارے اوپر ظلم و ستم کیا تھا اب تم بھی ان سے بدلہ لو ۔۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا بدلہ و انتقام میں بھی توازن قائم رکھنا۔۔ حد سے نہ بڑھنا ۔ اللہ پاک حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
    پھر ریاستِ اسلامی قائم ہوئی ۔ سیاسی وسماجی، عدالتی و معاشی ، عسکری اصولوں سے لے کر انسانی حقوق تک سب کچھ واضح ہوگیا ۔
    اور علم و ٹیکنالوجی کی ترغیب و جدوجہد اس قدر کی گئی کہ کافروں کے جنگی قیدیوں سے بھی مدینہ کے ان پڑھ مسلمانوں کو تعلیم دلوائی گئی ۔ آج کسی مسلمان عالم دین کا بچہ اعلی تعلیم کے لیے مغربی ملک چلا جائے تو ہم فورا اسکی مسلمانی اور پاکستانیت پر طعنہ زنی شروع کردیتے ہیں۔
    پھر خلفائے راشدین کے دور میں جب مسلمانوں کی معاشی ترقی و خوشحالی اور معاشرتی امن و امان کا یہ عالم ہوگیا کہ زکوۃ و خیرات لینے والا کوئی نہ ملتا تھا ۔۔ اور لوگ عدلِ فاروقی کے ڈر سے ادنی سے ادنی جرم بھی نہ کرتے تھے ۔۔ پھر اسلام کی فوجیں اعلائے کلمۃ الحق کے لیے روم و فلسطین تک بھی پہنچیں اسلامی سلطنت کا پرچم چہار دانگِ عالم میں لہرایا گیا ۔
    تو عرض کرنے کے مقصد یہ ہے کہ سیرتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہردور کے تقاضوں کے مطابق حکمت و دانش سے اسلامی احکامات کا اطلاق ہوتا ہے۔
    غریب مسلمان بھوک و افلاس سے مررہے ہوں ۔۔ چور لٹیرے قاتل جابر حکمران اپنے معاشرے میں مسلط ہوں اور ہم اس ظلم کو روکنے، اس ظالم کے ہاتھ توڑنے کی بجائے سات سمندر پار مسلمانوں کی مدد کو دوڑنا شروع کردیں تو یہ جذباتیت ہوسکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق دانش و حکمت نہیں۔
    اگر سارے کا سارا اسلام صرف جہاد ہی ہوتا اور سارا جہاد صرف "قتال" ہی ہوتا تو پھر کوہِ صفا والی پہلی دعوت سے ہی جہاد و قتال کا اعلان کردیا جاتا۔۔
    پھر حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم اور انکے ساتھیوں کو مکی سرداروں کے سالہا سال تک ظلم و ستم چپ چاپ سہنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    تاجدارِ کائنات صل اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر اوجھڑی اور کافروں کی طرف سے مجنون و دیوانہ وغیرہ جیسے الفاظ سن کر صبر و تحمل قائم رکھنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    سیدنا بلال رض کو تپتی ریت پر لیٹے رہنے اور پھر آزاد ہونے کے بعد بھی صبر کرتے رہنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    سیدنا عمار اور سیدہ سمعیہ رض کی قربانیوں پر بھی صبر کی تلقین کیوں ؟
    سیدنا ابوبکر صدیق رض کو کافروں کے ہاتھوں تا لبِ مرگ زدوکوب ہوتا دیکھ کر بھی صبر قائم کیوں رکھا گیا ؟
    ابی طالب کی گھاٹی میں ڈھائی سال تک معاشرتی مقاطعہ یعنی سوشل بائیکاٹ برداشت کرکے بھی جہاد کا اعلان کیوں نہ کیا گیا؟
    ہجرت کیوں کی گئی؟ رات کے سناٹے میں چھپ چھپا کر، چپ چاپ اپنا گھر بار کیوں چھوڑا گیا ؟
    الغرض سیرتِ طیبہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ پہلے اپنے اپنے معاشرے کو سنوارا جائے۔ علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کی جائے۔ فکری و نظریاتی طور پر پختہ مسلمان بنائے جائیں، اہل ، صالح، دیندار مسلمانوں کو مسلمان معاشرے کی قیادت اور ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جائے اسکے ذریعے معاشی ترقی اور معاشی خوشحالی لائی جائے۔ جب معاشرے پرامن ہوں، خوشحال ہوں، اور اسکے ساتھ علم و ٹیکنالوجی میں ترقی بھی ہو تو پھر ایسی اسلامی ریاست دنیا میں دیگر مسلمان ریاستوں کے لیے رول ماڈل بن کر انہیں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔ بعدازاں امت مسلمہ کا معاشی و جغرافیائی اتحادی بلاک یا زیادہ بلاکس بھی بن سکتے ہیں۔ انہیں اسلامی یونین کا نام دیا جائے، اسلامی اقوامِ متحدہ کا نام دے لیا جائے یا اسلامک اکنامک بلاک کہا جائے یا ماڈرن سٹائل کی اسلامی خلافت کا عنوان دے دیا جائے۔ لیکن اسکے بعد پھر کسی بھی اسلام دشمن کو چھوٹے سے چھوٹے اسلامی ملک کو میلی آنکھ دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی۔
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جذاک اللہ خیرا
    میرا مقصد پورا ہوا محترم
    اب آپ نے جو جواب دیا وہی سننا چاہتی تھی
    صرف معاشرے کا رونا رو کر کسی طالب علم کو ایک راہ پر نہیں لگایا جا سکتا
    حقائق کو چھپانا بھی نہیں چاہیے جہاد کا جو حکم ہے اسے پس پشت بھی نہیں ڈالنا چاہیے
    جہاد کی تیاری بھی کرنی چاہیے بس مجھے پاکستان کا ایٹمی طاقت بننے پر تعجب ہے
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں مثنی بن حارثہ (جو کہ ایک ایرانی عرب قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور اسلام قبول کر چکے تھے ) نے اپنے قبیلے کے چند نوجواں کو ساتھ ملا کر ایران کی حکومت کے خلاف باقاعدہ جہاد کا اعلان کر دیا تھا ، حالانکہ اس وقت ابھی ایران سے مسلمانوں کی باقاعدہ جنگ نہیں شروع ہوئی تھی ۔ ۔ ۔
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    خود اسلامی حکومتوں کے خلاف مختلف خروج تاریخ کا حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ بنوامیہ کے خلاف ہنو ہاشم کا خروج ۔ ۔ ۔ وغیرہ ۔ ۔ ۔
     
  15. زاھرا
    آف لائن

    زاھرا ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2019
    پیغامات:
    55
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    nice sharing amazing one keep sharing
     

اس صفحے کو مشتہر کریں