1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خواب میں دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏8 فروری 2018۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حديث ۔۔۔

    عن أبي ھریرہ رضی اللہ عنہ قال: قال الرسول الله صلى الله عليه وسلم : من رآنی فی المنام فقد رآنی فان الشیطان لا یتمثل بی ۔

    صحیح البخاری : ۱۱۰ العمل ، صحیح مسلم : ۲۲۶۶ ا لرؤیا

    ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا ، اصلاً کہ شیطان میری مثال نہیں بنا سکتا میری صورت اختیار نہیں کر سکتا

    ﴿ صحیح بخاری و صحیح مسلم ﴾

    تشریح : ہر مسلمان کی یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کا دیدار کر لے ، اوریہ خواہش اسکے سچے محب ِرسول ہونے کی دلیل ہے -

    جیسا کہ نبی صلى الله عليہ وسلم کا ارشاد ہے:

    میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں

    ﴿ صحیح مسلم ، مسند احمد ﴾
    آپ صلى الله عليہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کی غُمازی کر رہا ہے کہ اس اُمت میں ایسے بھی محبِ رسول پیدا ہوں گے جنکے نزدیک آپ صلى الله عليہ وسلم کی صحبت اور آپ صلى الله عليہ وسلم کے نورانی چہرے کی طرف نظرسے بڑھ کر کوئی اور چیز نہ ہوگی ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے انکے اس نیک جذبے کی قدر کی اور خود حبیب الہی رسول اکرم صلى اللہ عليہ وسلم بھی ان لوگوں سے ملاقات کے متمنی رہے جیسا کہ ایک بار آپ صلى اللہ عليہ وسلم قبرستان کی طرف نکلے ، اہل قبور کو سلام کیا اور صحابہ کرام سے فرمایا :ہماری خواہش ہے کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ ہمارے ساتھی ہو ، ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے

    ﴿صحیح مسلم ، مسند احمد ﴾

    آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے اس دنیا سے رُخصت ہوجانے کے بعد حالت بیداری میں تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم کا دیدار ممکن نہیں ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اپنے محبوب نبی اکرم صلى اللہ عليہ وسلم کا دیدار خواب میں کرا دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس خصوصیت سے نوازا کہ شیطان آپ صلى اللہ عليہ وسلم کی شکل اختیار نہیں کر سکتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ قدرت دی ہے کہ جس مخلوق کی شکل چاہے اختیار کر لے سوا ئے نبی صلى اللہ عليہ وسلم کے، تاکہ جو شخص بھی آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو خواب میں دیکھے اسکا خواب سچا ہو، جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہوتا ہے لہذا جو شخص خواب میں نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کو دیکھتا ہے ، تو یہ سمجھا جائے گا کہ یقیناًوہ شخص رؤیت نبوی سے مشرف ہوا ہے ، البتہ اس سلسلے میں یہاں چند اہم باتیں دھیان میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔

    • ضروری ہے کہ خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کو اس شکل میں دیکھا جائے جس شکل میں آپ صلى اللہ عليہ وسلم دنیا میں موجود رہے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ شیطان کسی بزرگانہ شکل میں آئے اور اس مغالطے میں ڈال دے کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ہیں درآں حالیکہ وہ صورت کسی اور بزرگ کی ہو کیونکہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے یہ فرمایا کہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا ۔ اسی لئے صحیح بخاری میں زیر ِبحث حدیث کے بعد امام محمدبن سیرین کا یہ قول مذکور ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے ۔ اسی طرح ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اورعرض کرتا ہے کہ میں نے آج رات نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے ، انھوں نے فرمایا کہ جسے دیکھا ہے اسکی صفت بیان کرو ، اس نے کہا کہ وہ شکل حسن بن علی رضي اللہ عنهما جیسی تھی تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنهما نے فرمایا : تم نے حقیقت میں دیکھا ہے

    ﴿ فتح الباری ۱۲ص ۳۸۴ ﴾

    • محبِ رسول کو چاہیے کہ آپ کے حلیہ مبارک کو یاد رکھے تاکہ شیطان اسکو دھوکہ میں نہ ڈال سکے ۔ کسی عالم سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے خواب میں اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کی داڑھی بالکل سفید تھی وغیرہ ، اُس عالم نے اسے فوراً ٹوکا اور فرمایا کہ یہ خواب سچا نہیں ہے کیونکہ وفات تک نبی صلى اللہ عليہ وسلم کی داڑھی کے صرف چند بال ہی سفید ہوئےتھے ۔

    • علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتلائںم یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا کیونکہ اولاً تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم کی وفات سے قبل دین مکمل ہو چکا تھا ، ثانیا آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا لیکن یہ نہیں فرمایا کہ شیطان میری طرف کوئی بات منسوب نہیں کرسکتا ۔

    • اگر کوئی شخص نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کو خواب میں دیکھتا ہے تو اس رؤیت کی وجہ سے وہ صحابی شمار نہ ہوگا اور نہ ہی یہ اسکے متقی وپرہیزگار ہونے کی دلیل ہے ۔

    • نبی صلى اللہ عليہ وسلم کے دیدار کی خواہش رکھنے والے کو چاہیے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو کثرت سے یاد رکھے ، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کی سیرت و شمایل کا مطالعہ کرے ، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کی محبت اپنے دل میں راسخ کرنے کی کوشش کرے ، آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر بکثرت درود بھیجے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کا دیدار کرادے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے دیدار کے حصول کا یہی سب سے بڑا اور کامیاب نسخہ ہے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کو نہ دیکھتا ہوں ﴿ الشفا ﴾ البتہ اسکے لئے خصوصی نمازیں پڑھنا اور اس میں کچھ خاص قسم کے اذکار کا اہتمام کرنا غیر شرعی اور بدعی طریقہ ہے ۔

    فوائد :

    • نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت کہ شیطان مردود آپ کی صورت اختیار نہیں کر سکتا ۔

    • آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے دیدار کی تمنا ایک نیک خواہش اور محب رسول ہونے کی دلیل ہے ۔

    • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ، البتہ بحیثیت مقام و مرتبہ کے کوئی بھی آپ کا ہم پلہ نہیں ہے ۔

    • صحابہ کرام کی فضیلت کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں صحبت نبوی سے نوازا ہے ۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ،
    برائے مہربانی حدیث شریف سے ثابت کریں
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    شیخ صاحب نے جو بات فوائد میں بیان کی ہے یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو میری نظر میں درست نہیں اور ایسا سوچنا بھی درست نہیں، چند آیات کا مطالعہ فرمانا بہتر رہے گا

    اے ایمان والو الله اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو الله سے ڈرتے رہو بے شک الله سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے (۱) اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو (۲)

    سورۃ الحجرات

    مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

    محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے 40
    سورۃ الاحزاب

    عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.
    '' سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے ( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اے مومنین کی جماعت، تم پر سلامتی ہو، اور بے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔ (پھر آپ نے فرمایا) میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو، ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔''

    (مسلم ، رقم۲۴۹۔ ابن خزیمہ، رقم ۶۔ بیہقی، رقم۷۰۰۱۔ احمد،رقم۹۲۸۱۔ ابو یعلیٰ، رقم ۶۵۰۲)

    یہ حدیث مبارکہ غیر متعلقہ ویب سائٹ سے ملی ہے۔​
     
    Last edited: ‏9 فروری 2018
    نعیم، ھارون رشید اور زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محدثین کے نزدیک یہ روایات سنداً صحیح ہے۔

    عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.
    (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲)

    '' سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا:اے مومنین کی جماعت،تم پر سلامتی ہو،اوربے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔(پھر آپ نے فرمایا میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔صحابہ(رضی اللہ عنہم)نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو،ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔''

    حدیث کے جو الفاظ ہیں انکی رُو سےحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں اس روایت سے دو نظریات لیے جاتے ہیں ایک یہ کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کا ذکر کیا ہےدوسرا نظریہ یہ لیا جاتا ہے کہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کی پیش گوئی کی ہے۔

    فَقَالُوْا:کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْأَنَّ رَجُلاً لَہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ، أَلاَ یَعْرِفُ خَیْلَہٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ. قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، وَأَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ. أَلاَ لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِیْ کَمَا یُذَادُ الْبَعِیْرُ الضَّالُّ، أُنَادِیْھِمْ: أَلاَ ھَلُمَّ! فَیُقَالُ: اِنَّھُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ. فَأَقُوْلُ: سُحْقًا سُحْقًا.

    ''پھر اُنھوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، آپ کی امت کے جو لوگ ابھی آئے نہیں ہیں، آپ ان کو (قیامت میں)کیسے پہچانیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اگر انتہائی سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان میں کسی آدمی کے ایسے گھوڑے موجود ہوں جن کی پیشانیاں اور پیر سفید ہوں توآپ کا کیا خیال ہے ،کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں پائے گا؟صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے جواب دیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں اور پیر سفید اور روشن ہوں گے۔اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔البتہ، یہ بات بھی جان لو کہ کچھ لوگوں کو میرے حوض سے اس طرح واپس دھکیل دیا جائے گا،جس طرح ایک بھٹکے ہوئے اونٹ کو دھکیل دیا جاتا ہے۔میں ان کو پکار پکار کر بلا رہا ہوں گا۔پھر مجھ سے کہا جائے گاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے بعد (دین میں )تبدیلی کردی تھی۔(آپ فرماتے ہیں کہ)اس پر میں ان لوگوں سے کہوں گا:بربادی ہو تمھارے لیے،بربادی ہو
     
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    زنیرہ عقیل صاحبہ
    آپ نے یہ لڑی فیس بک سے کاپی پیسٹ کر کے بنائی ہے اور جو نقطہ میں نے آپ سے پوچھا ہے آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔یہ دین کا معاملہ ہے اور آپ سے گزارش ہے کہ دینی لڑی میں قرآن پاک یا مستند حدیث شریف کا حوالہ دیں ۔
    اور جہاں سے کاپی پیسٹ کریں اس کا لنک بھی یہاں پیسٹ کریں ۔
     
    Last edited: ‏9 فروری 2018
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کو میں جواب دے چکی ہوں ذرا پھر سے پڑھ لیجیے

    محدثین کے نزدیک یہ روایات سنداً صحیح ہے۔

    عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.
    (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲)

    '' سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا:اے مومنین کی جماعت،تم پر سلامتی ہو،اوربے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔(پھر آپ نے فرمایا میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔صحابہ(رضی اللہ عنہم)نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو،ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔''

    حدیث کے جو الفاظ ہیں انکی رُو سےحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں اس روایت سے دو نظریات لیے جاتے ہیں ایک یہ کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کا ذکر کیا ہےدوسرا نظریہ یہ لیا جاتا ہے کہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کی پیش گوئی کی ہے۔

    فَقَالُوْا:کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْأَنَّ رَجُلاً لَہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ، أَلاَ یَعْرِفُ خَیْلَہٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ. قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، وَأَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ. أَلاَ لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِیْ کَمَا یُذَادُ الْبَعِیْرُ الضَّالُّ، أُنَادِیْھِمْ: أَلاَ ھَلُمَّ! فَیُقَالُ: اِنَّھُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ. فَأَقُوْلُ: سُحْقًا سُحْقًا.

    ''پھر اُنھوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، آپ کی امت کے جو لوگ ابھی آئے نہیں ہیں، آپ ان کو (قیامت میں)کیسے پہچانیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اگر انتہائی سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان میں کسی آدمی کے ایسے گھوڑے موجود ہوں جن کی پیشانیاں اور پیر سفید ہوں توآپ کا کیا خیال ہے ،کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں پائے گا؟صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے جواب دیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں اور پیر سفید اور روشن ہوں گے۔اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔البتہ، یہ بات بھی جان لو کہ کچھ لوگوں کو میرے حوض سے اس طرح واپس دھکیل دیا جائے گا،جس طرح ایک بھٹکے ہوئے اونٹ کو دھکیل دیا جاتا ہے۔میں ان کو پکار پکار کر بلا رہا ہوں گا۔پھر مجھ سے کہا جائے گاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے بعد (دین میں )تبدیلی کردی تھی۔(آپ فرماتے ہیں کہ)اس پر میں ان لوگوں سے کہوں گا:بربادی ہو تمھارے لیے،بربادی ہو
     
    Last edited: ‏9 فروری 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ان دونوں سے ہمارا بھائی ہونا ثابت نہیں ہوتا اس پر جواب میں یہی لکھنا بہتر ہو گا کہ صاحب تحریر کی اپنی رائے ہے کیونکہ انہوں نے اسے فوائد میں بیان کیا ہے کوئی مستند حدیث مبارکہ بیان نہیں کی۔

    والسلام
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام
    یہ مسلم کی صحیح حدیث ہے اور یہ ایک ہی حدیث ہے جو دو حصوں میں ہے
    اور محدثین کے نزدیک یہ روایات سنداً صحیح ہے
    اس پر مباحثہ نہیں کرونگی

    واللہ اعلم
     
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    آپ مستند حدیث شریف یا قرآن پاک کی آیت مبارک کا حوالہ دے کر ثابت کریں کہ • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ۔
     
    Last edited: ‏15 فروری 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحیح مسلم کی جو حدیث کوٹ کی ہے وہ محدثین کے نزدیک سنداً صحیح ہے۔ آپ کو اس حدیث پر اعتراض ہے تو آپ اسے غلط ثابت کر دیجیے.

    قرآنی آیات اور احادیث کاپی پیسٹ ہی کی جاتی ہیں تا کہ غلطی کا احتمال نہ رہے ریفرنس کے طور پر یہ پیج بھی ساتھ میں منسلک کر رہی ہوں


    Sahih Muslim Hadees.png

    عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.
    (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲)

    '' سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا:اے مومنین کی جماعت،تم پر سلامتی ہو،اوربے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔(پھر آپ نے فرمایا میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔صحابہ(رضی اللہ عنہم)نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو،ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔''

    حدیث کے جو الفاظ ہیں انکی رُو سےحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں اس روایت سے دو نظریات لیے جاتے ہیں ایک یہ کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کا ذکر کیا ہےدوسرا نظریہ یہ لیا جاتا ہے کہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کی پیش گوئی کی ہے۔

    فَقَالُوْا:کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْأَنَّ رَجُلاً لَہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ، أَلاَ یَعْرِفُ خَیْلَہٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ. قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، وَأَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ. أَلاَ لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِیْ کَمَا یُذَادُ الْبَعِیْرُ الضَّالُّ، أُنَادِیْھِمْ: أَلاَ ھَلُمَّ! فَیُقَالُ: اِنَّھُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ. فَأَقُوْلُ: سُحْقًا سُحْقًا.

    ''پھر اُنھوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، آپ کی امت کے جو لوگ ابھی آئے نہیں ہیں، آپ ان کو (قیامت میں)کیسے پہچانیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اگر انتہائی سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان میں کسی آدمی کے ایسے گھوڑے موجود ہوں جن کی پیشانیاں اور پیر سفید ہوں توآپ کا کیا خیال ہے ،کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں پائے گا؟صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے جواب دیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں اور پیر سفید اور روشن ہوں گے۔اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔البتہ، یہ بات بھی جان لو کہ کچھ لوگوں کو میرے حوض سے اس طرح واپس دھکیل دیا جائے گا،جس طرح ایک بھٹکے ہوئے اونٹ کو دھکیل دیا جاتا ہے۔میں ان کو پکار پکار کر بلا رہا ہوں گا۔پھر مجھ سے کہا جائے گاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے بعد (دین میں )تبدیلی کردی تھی۔(آپ فرماتے ہیں کہ)اس پر میں ان لوگوں سے کہوں گا:بربادی ہو تمھارے لیے،بربادی ہو
     
    Last edited: ‏12 فروری 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ، البتہ بحیثیت مقام و مرتبہ کے کوئی بھی آپ کا ہم پلہ نہیں ہے ۔۔۔
    بجائے اس حقیت کو تسلیم کرنے کے کہ آپ کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتی آپ نے بحث شروع کر دی۔میڈیم۔۔۔• سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ،۔
    آپ نے ثابت نہیں کیا ۔ آپ کو بہت موقعہ دیا لیکن آپ نے حقیت سے ہٹ کر بحث جاری رکھی اس لئے میں یہ لڑی لاک کر رہا ہوں
     
    Last edited: ‏15 فروری 2018
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ہم لوگ اصل موضوع سے ہٹ گئے ہیں ۔ اس لڑی کا عنوان تھا ۔
    خواب میں دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم
    مگر ہم اس جس بحث میں الجھ گئے ہیں اس کے لیے زنیرہ صاحبہ کم از کم پانچ حوالے دیئے ہیں ، وہ دیکھے جا سکتے ہیں ۔
    (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲)
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    دلوں میں قدورتیں اچھی نہیں ہوتی ۔ میں لڑی کو غیر مقفل کر رہا ہوں ، تانکہ ہم میں سے جو بھی ان حوالہ جات کو دیکھے وہ اس بحث کا مثبت اختتام کرے ۔ شکریہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    میں دیکھ چکا ہوں ، مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ۔ باقی احباب بھی دیکھ لیں ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن نسائي
    صفة الوضوء
    ابواب: وضو کا طریقہ

    110- بَابُ: حِلْيَةِ الْوُضُوءِ
    باب: وضو کے زیور کا بیان۔

    حدیث نمبر: 150
    اخبرنا قتيبة، ‏‏‏‏‏‏عن مالك، ‏‏‏‏‏‏عن العلاء بن عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى المقبرة، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، ‏‏‏‏‏‏وددت اني قد رايت إخواننا؟"قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏السنا إخوانك؟ قال:‏‏‏‏ "بل انتم اصحابي، ‏‏‏‏‏‏وإخواني الذين لم ياتوا بعد وانا فرطهم على الحوض"، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏كيف تعرف من ياتي بعدك من امتك؟ قال:‏‏‏‏ "ارايت لو كان لرجل خيل غر محجلة في خيل بهم دهم، ‏‏‏‏‏‏الا يعرف خيله؟"قالوا:‏‏‏‏ بلى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "فإنهم ياتون يوم القيامة غرا محجلين من الوضوء وانا فرطهم على الحوض".

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف نکلے اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» ”مومن قوم کی بستی والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں“ میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے صحابہ (ساتھی) ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو بعد میں آئیں گے کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر کسی آدمی کا سفید چہرے اور پاؤں والا گھوڑا سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہو تو کیا وہ اپنا گھوڑا نہیں پہچان لے گا؟“ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس حال میں آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا“ ۱؎۔

    تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۲ (۲۴۹) مطولاً، سنن ابی داود/الجنائز ۸۳ (۳۲۳۷)، سنن ابن ماجہ/ الزھد ۳۶ (۴۳۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۸۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۶ (۲۸)، مسند احمد ۲/۳۰۰، ۳۷۵، ۴۰۸ (صحیح)

    وضاحت: ۱؎: پیش روسے مراد ”میر سامان“ ہے جو قافلے میں سب سے پہلے آگے جا کر قافلے کے ٹھہرنے اور ان کی دیگر ضروریات کا انتظام کرتا ہے، یہ امت محمدیہ کا شرف ہے کہ ان کے پیش رو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن ابن ماجه
    كتاب الزهد
    کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل

    36- بَابُ: ذِكْرِ الْحَوْضِ
    باب: حوض کوثر کا بیان۔

    حدیث نمبر: 4306
    حدثنا محمد بن بشار ،‏‏‏‏ حدثنا محمد بن جعفر ،‏‏‏‏ حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ عن العلاء بن عبد الرحمن ،‏‏‏‏ عن ابيه ،‏‏‏‏ عن ابي هريرة ،‏‏‏‏ عن النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "انه اتى المقبرة فسلم على المقبرة،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم دار قوم مؤمنين،‏‏‏‏ وإنا إن شاء الله تعالى بكم لاحقون"،‏‏‏‏ ثم قال:‏‏‏‏ "لوددت انا قد راينا إخواننا"،‏‏‏‏ قالوا يا رسول الله:‏‏‏‏ اولسنا إخوانك؟ قال:‏‏‏‏ "انتم اصحابي،‏‏‏‏ وإخواني،‏‏‏‏ الذين ياتون من بعدي،‏‏‏‏ وانا فرطهم على الحوض"،‏‏‏‏ قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله،‏‏‏‏ كيف تعرف من لم يات من امتك،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ "ارايتم لو ان رجلا له خيل غر محجلة،‏‏‏‏ بين ظهراني خيل دهم بهم،‏‏‏‏ الم يكن يعرفها"،‏‏‏‏ قالوا:‏‏‏‏ بلى،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ "فإنهم ياتون يوم القيامة غرا،‏‏‏‏ محجلين من اثار الوضوء"،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ "انا فرطكم على الحوض"،‏‏‏‏ ثم قال:‏‏‏‏ "ليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعير الضال،‏‏‏‏ فاناديهم الا هلموا"،‏‏‏‏ فيقال:‏‏‏‏ إنهم قد بدلوا بعدك ولم يزالوا يرجعون على اعقابهم،‏‏‏‏ فاقول:‏‏‏‏ "الا سحقا سحقا".

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے، اور قبر والوں کو سلام کرتے ہوئے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله تعالى بكم لاحقون» ”اے مومن قوم کے گھر والو! آپ پر سلامتی ہو، ان شاءاللہ ہم آپ لوگوں سے جلد ہی ملنے والے ہیں“، پھر فرمایا: ”میری آرزو ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ فرمایا: ”تم سب میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، اور میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے ہیں آپ ان کو کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ آدمی جس کے گھوڑے سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں خالص کالے گھوڑوں کے بیچ میں ان کو نہیں پہچانے گا“؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اخوان قیامت کے دن وضو کے نشانات سے (اسی طرح) سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں ہو کر آئیں گے“، پھر فرمایا: ”میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا کچھ لوگ میرے حوض سے بھولے بھٹکے اونٹ کی طرح ہانک دئیے جائیں گے، میں انہیں پکاروں گا کہ ادھر آؤ، تو کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے بعد دین کو بدل دیا، اور وہ الٹے پاؤں لوٹ جائیں گے، میں کہوں گا: خبردار! دور ہٹو، دور ہٹو“۔

    تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۰، ۳۷۵) (صحیح)
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    تدویناسلام علیکم
    خواب والی حدیث شریف مستند ہے لیکن اس کے ساتھ جو مواد شامل کیا گیا ہے وہ کسی کی اپنی ذاتی رائے ہے ۔۔۔اور اس مواد کا ایک بھی ثبوت نہیں دیا گیا ۔آپ نے لڑی کھولنے سے پہلے اس کا ثبوت دینا تھا ۔ میں نیچے کاپی پیسٹ کر رہا ہوں ۔اس کا جواب دیں اور ساتھ ثبوت بھی دیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    فوائد :

    • نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت کہ شیطان مردود آپ کی صورت اختیار نہیں کر سکتا ۔

    • آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے دیدار کی تمنا ایک نیک خواہش اور محب رسول ہونے کی دلیل ہے ۔
    • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ، البتہ بحیثیت مقام و مرتبہ کے کوئی بھی آپ کا ہم پلہ نہیں ہے ۔

    • صحابہ کرام کی فضیلت کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں صحبت نبوی سے نوازا ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ،۔
    یہ گستاخی ہے ۔
     
    Last edited: ‏23 نومبر 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    پرویز بھائی ۔ اگر حدیث شریف کے ساتھ موجود مواد کسی کی ذاتی رائے ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے ۔ آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث درست ہے اور حدیث شریف میں یہ الفاظ
    ثم قال:‏‏‏‏ "لوددت انا قد راينا إخواننا"
    تو مسئلہ کیا ہے، اس سے مراد یقینا حقیقی صلبی بھائی ہونا نہیں ہے ۔ اگر کچھ علماء اکرام مشائخ اور عام لوگ اس سے تشریحا یہ مراد لیتے ہیں تو ہم اسے اختلاف رائے کہہ سکتے ہیں، اس میں گستاخی کا کوئی پہلو نہیں، معاملے پر ٹھنڈے دل سے سوچیں، اور بات ختم کریں لڑی کا اصل موضوع
    خواب میں دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم
    میں نے لڑی غیر مقفل ہی اس لیے کی تھی کہ ہم سب بھائی بہن اس موضوع کو مثبت انداز میں ختم کریں ۔
    الحمد اللہ ہم سب مسلمان ہیں ہم میں سے کوئی بھی آقا صلاۃ السلام (میرے ماں باپ قربان )کی گستاخی جا سوچ بھی نہیں سکتا، اگر زنیرہ غلط ہیں تو انہیں دلیل سے سمجھایا جا سکتا ہے ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    • سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ،۔
    ایسا کہنے والا گستاخ ہے اور آپ کہتے ہیں کوئی مسلہ نہیں ہے ۔اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے تو آپ کو لڑی کو چھیڑنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس حدیث میں تین زمانوں کے لوگوں کا ذکر ہے اور تیسرے زمانے کے لوگوں کے بارے میں آپ ﷺ نے خود ہی وضاحت فرمائی ہے
    1. ماضی

    قبرستان کے ان لوگوں کا جو پہلے سے وفات پا چکے تھے اور آپ ﷺ نے ان سب کو مومن قوم کی بستی والو کے نام سے مخاطب کیا اور فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں

    2. حال

    جب موجود لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے صحابہ (ساتھی) ہو

    3. مستقبل

    آپ ﷺ نے فرمایا کہ "میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں" اور پھر آگے ان بھائیوں کو صحابہ پر واضح کر دیا کہ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے

    (اللہ صحابہ کرام کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں کہ ہر بات واضح کر نے کے لیے اللہ ان کے دلوں میں سوالات پیدا فرماتے ہماری خاطر اور آقاﷺ ان سوالات کے جوبات عنایت فرمائے ہماری خاطر.)

    صحابہ نے پھر سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو بعد میں آئیں گے کیسے پہچانیں گے؟
    آپ ﷺ نے بعد میں آنے والے لوگوں کے بارے میں نشانی بتا دی . فرمایا "وہ لوگ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس حال میں آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے

    اس سے زیادہ وضاحت کیا دی جا سکتی ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    کسی بھی زمانے میں یہ الفاظ سرکار دوعالم صلی علیہ وسلم کے لئے نہیں استعمال کیے گے یہ گستاخی ہے لیکن کیونکہ آپ نے کی ہے اور اس پر قائم ہیں۔آپ نے کوئی ثبوت ایسا نہیں دیا کہ ثابت ہو کہ۔۔• سارے مسلمان بحیثیت ایک مسلمان نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے بھائی ہیں ،۔ کہنا صحیح ہے
    اس لئے اب اسے طول نہ دیں ۔ میں نے
    آصف احمد بھٹی سے پوچھا ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    پرویز بھائی چھوڑیں اس بات کو، بحث کو خواہ مخواہ طول دینا مناسب نہیں، دلوں میں میل نہ آنے دیں ہم سب مسلمان ہیں، اور کوءی بھی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس بات کو کیوں طول دے رہے ہیں ۔
    وعلیکم السلام
    یہ دنیاداری کی بات نہیں ہے کہ اپنی انا کا مسلہ بنایا جائے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوئی ہے اور جس نے کی ہے اسے اعتراف ہی نہیں اور آپ بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں ۔صد افسوس ۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏23 نومبر 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام
    یہ دنیاداری کی بات نہیں ہے کہ اپنی انا کا مسلہ بنایا جائے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوئی ہے اور جس نے کی ہے اسے اعتراف ہی نہیں اور آپ بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں ۔صد افسوس
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اب آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔
    میں کسی کا ساتھ نہیں دے رہا، میں تو مسلسل کہہ رہا ہوں کہ اس بحث کو ختم کریں ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    دین اسلام اعتدال کا دین ہے۔ زنیرہ عقیل نے بلاشبہ جہاں سے بھی مضمون لیا ہے۔ یا خود لکھا ہے۔۔۔ تو بھائی والی بات بے محل لکھ ڈالی ہے۔ کیونکہ متعلقہ انتہائی اہم موضوع میں بھائی والی بات کا ذکر کرنا لایعنی اور سمجھ سے بالاتر ہے۔
    زنیرہ بہن سے بھی التماس ہے اور یہ التماس میں پہلے بھی درجنوں بار دہرا چکا ہوں کہ دین اسلام کے اصول یا عقائد محض ایک آیت یا ایک حدیث پر قائم نہیں کیے جاتے۔۔ نہ ہی یہ تاریخ اسلام میں آئمہ و فقہائے کرام کا دستور رہا ہے۔ بلکہ دین اسلام کی بنیاد سمجھنے کے لیے وسیع علم و بے بہا مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
    ہماری بدقسمتی کہ ہم نے تبلیغ کے نام پر چند صفحات رٹ کر ۔۔ خود کو دین اسلام پر ۔۔ اتھارٹی سمجھ کر اسے اور تک پہنچانا اور زبردستی اورروں پر ٹھونسنا شروع کردیا ہے۔۔۔ جو کہ خود علم پر اور دین پر ایک ظلم ہے۔
    دوسری طرف ۔۔۔
    زنیرہ عقیل کے مضمون سے ایک نکتہ پکڑ کر اس پر سیدھا گستاخی کا فتوی صادر کردینا بھی نامناسب ہے۔ کاش ہم فتوی صادر کرنے والےعلماء و آئمہ کرام کا علمی مقام اور علمی خدمات سمجھ لیں تو کبھی کسی پر گستاخی و تکفیر کا فتوی لگاتے ہوئے ہزار بار سوچیں۔
    میں آصف احمد بھٹی بھائی کی تائید کرتا ہوں کہ ہمیں بے وجہ بحث و مباحث سے بچنا چاہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارا مطالعہ بھی محدود ہو ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کو جاننے والی متعلقہ بحث کے لیے مندرجہ ذیل قرآنی آیات کا مطالعہ مفید ہے ۔
    قرآن فرماتا ہے۔
    لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا (پارہ 18 سورہ 24 آیت 63)
    ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (پارہ 26 سورہ 49 آیت 2)
    “رسول کے پکارنے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ان کےسامنے بات چلا کر نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جاویں اور تم کو خبر نہ ہو۔“
    ضبطی اعمال کفر کی وجہ سے ہوتی ہے۔
    مدارج جلد اول وصل از جملہ رعایت حقوق اولیت میں ہے، “مخوانید اور ابنام مبارک اوچنانمکہ می خوایند بعضے از شما بعض را بلکہ بگوئیہ یارسول اللہ یانبی اللہ با توقیر و توضیح۔“ نبی علیہ السلام کو ان کا نام پاک لے کر نہ بلاؤ جیسے بعض بعض کو بلاتے ہیں۔ بلکہ توقیر و عزت کے ساتھ یارسول اللہ ۔۔ یا نبی اللہ کہو۔
    ان آیات کی تفسیر روح البیان زیر آیت لاتجعلوا ہے۔
    والمعنی لاتجعلوا نداءکم ایاہ و تسمیتکم لہ کندآء بعضکم بعضا لاسمہ مثل یامحمد و یا ابن عبداللہ ولکن بلقبہ المعظم مثل یانبی اللہ و یارسول اللہ کما قال اللہ تعالٰی یایھا النبی و یایھا الرسول
    “معنٰی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کو پکارنا یا نام لینا ایسا نہ بناؤ جیسا کہ بعض لوگ بعض کو نام سے پکارتے ہیں جیسے یامحمد اور یا ابن عبداللہ وغیرہ لیکن ان کے عظمت والے القاب سے پکارو جیسے یانبی اللہ یارسول اللہ جیسا کہ خود رب تعالٰی فرماتا ہے یا ایہاالنبی یا ایہاالرسول۔“
    ان آیات قرآنیہ اور اقوال مفسرین و محدثین سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے۔۔۔ بلانے میں، ذکر میں، کلام میں، ہر موقع پر ادب و احترام لازم ہے
    فتاوی عالمگیری و بعض دیگر کتب فقہ میں یہاں تک درج ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کو ھذا الرجل ۔۔ یعنی ۔۔ یہ مرد۔۔ عام مردوں کی برابری یا اہانت کی نیت سے کہے تو کافر ہوجاتا ہے ۔۔ حالانکہ بلاشبہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم ایک مرد بھی ہیں ۔۔۔ لیکن امتی پر ہمیشہ یا رسول اللہ یاحبیب اللہ یا شفیع المذنبین وغیرہ عظمت کے کلمات سے یاد کرنا لازم ہے۔
    تاریخ اسلام گواہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم سے لے کر آج تک آئمہ و بزرگان اسلام نے کبھی رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو بھائی کہنے لکھنے پر اصرار اور تاکید نہیں کی۔ کیونکہ قرآن کریم کے احکامات باری تعالی اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی منصبی عظمت کا تقاضا ہےآقا کریم صل اللہ علیہ وسلم کو آقا و مولا، رسول و نبی و پیغمبر جیسے اعلی اور خوبصورت القابات ہی سے یاد کیا جائے۔ یہی آثار صحابہ کرام ، تابعین و اتباع تابعین ہے۔
    لاکھوں ذخیرہ احادیث میں سے کہیں دکھا دیں کہ کسی صحابی یا صحابیہ نے حدیث روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہو کہ میرے بھائی محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ حتی کہ ازواج مطہرات نے بھی ۔۔ کہیں بیان کیا ہوا کہ ہمارے زوج محمد صل اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔۔۔۔ نہیں ایسا کہیں نہیں ملے گا۔۔۔ بلکہ ہمیشہ رسول اللہ اور نبی اللہ جیسے منصب جلیلہ کے القابات سے ہی حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہی تقاضائے ادب ہے۔
    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں فرمایا۔۔۔ تو اسکا جواب یہی ہے کہ مقام و مرتبہ میں بڑی شخصیت کی عظمت یہی ہے کہ اپنی امت پر اپنے منصب اور مقام و مرتبہ کا رعب جمانے کی بجائے انہیں اپنے قریب کرنے کے لیے حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم ہم پر شفقت فرماتے ہوئے خود کو ہمارے جیسا بشر، ہمارے بھائی یا ہم جیسے انسان جیسے الفاظ استعمال کرلیں۔ البتہ ہمیں قرآن میں اللہ تعالی نے سختی سے منع کردیا ہے کہ حضوراکرم صل اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسے انداز میں سمجھنا تو دووووووووووور کی بات ۔۔ اپنے جیسے الفاظ اور انداز میں مخاطب بھی نہ کرو۔۔ اگر ایسا کیا تو ساری زندگی کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔
    اس لیے ادب مصظفی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہی ہے ۔۔ بھائی۔ مثلیت، ہم جیسا ۔۔ وغیرہ پر اصرار کرکے اپنا ایمان اور اعمال برباد نہ کیے جائیں ۔۔ بلک خود کو ایک امتی کی حیثیت سے اپنے حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو آقا و مولا، رسول اللہ اور ۔۔ بعد از خدا بزرگ توئی جیسے مقام و مرتبہ کے ساتھ ہی بولا اور یاد کیا جائے۔
    والسلام علیکم۔
     
    Last edited: ‏24 نومبر 2018
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ ﷺ کو نعوذ باللہ بھائی کہہ کر اس لڑی میں کسی نے نہیں پکارا نہ ہی کوئی ایسی جسارت کر سکتا ہے
    بلکہ حدیث کی تشریح میں آپ ﷺ کے مبارک لفظوں سے نکلنے والی معنی کا ذکر کیا گیا ہے اور آگے حیثیت و مرتبے کا ذکر بھی کیا گیا ہے
    کفر کے فتوے لگانے کی بجائے حدیث مبارک کی تشریح اگر اپنے عقیدے کے مطابق شئیر کردیں تو بات واضح ہو سکتی ہے
    میری گزارش ہے کہ مجھ گناہگار کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے اگر آپ مجھے حدیث مبارک کی تشریح اپنے الفاظ میں کر دیں
    میرے آقاﷺ کی شان میرے آقا ﷺ کی عظمت و بزرگی مقام و مرتبہ میرے آقاﷺ کی محبت الحمداللہ میرے دل میں آپ سے زیادہ ہوگی کم نہیں ان شاء اللہ
    میرے خیال میں تو گستاخ وہ ہے جو حدیث کا انکار کر دے میں تو نبی کے قدم کی خاک کو بھی اپنے آپ سے اعلیٰ سمجھتی ہوں
    لڑی میں کہیں بھی بھائی نہیں پکارا گیا بلکہ نبیﷺ نے بعد والوں کو بھائی کہہ کر ذکر فرمایا اس کی تشریح میں مسلمان کو بحثیت مسلمان نبی پاک ﷺ کے بھائی کا ذکر ہوا ہے.
    نبی پاک ﷺ کی برابری کائنات میں کوئی ہستی نہیں کر سکتی
    میرے آقاﷺ کی شان مبارک پر میں قربان
    اگر اس لڑی میں ہم سے بے ادبی کا ذرا بھی احتمال ہو اہو تو اللہ سے ہم معافی کے طلبگار ہیں اور دل سے استعفراللہ پڑھتے ہیں
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے آمین
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت

    حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب کی فردیت کے علاوہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان فردیت کے درج ذیل تین گوشے بھی بطور خاص قرآن و حدیث کے مطالعہ سے سامنے آتے ہیں:

    1. اسلوب و اندازِ خطاب میں فردیت
    2. شانِ محبوبیت میں فردیت
    3. بچپن بھی شانِ فردیت کا حامل
    اسلوب و اندازِ خطاب میں فردیت
    قرآن مجید میں جتنے انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہوا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کا نام لے کر ان سے براہ راست خطاب فرمایا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

    • قُلْنَا يٰـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ.
    ’’اور ہم نے حکم دیا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو‘‘

    (البقرة، 2: 35)

    • يٰــنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا.
    ’’اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ‘‘

    (هود، 11: 48)

    • يٰـاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ يَا.
    ’’اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا‘‘

    (الصافات، 37: 104-105)

    • يٰمُوْسٰی اِنِّیْ اَنَا اﷲُ رَبُّ الْعٰـلَمِيْنَo
    ’’اے موسیٰ! بے شک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)‘‘

    (القصص، 28: 30)

    • يٰـدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِيْفَةً فِی الْاَرْضِ.
    ’’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا‘‘

    (ص، 38: 26)

    • يٰزَکَرِيَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِنِ اسْمُهُ يَحْيٰی.
    ’’(ارشاد ہوا) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ (علیہ السلام) ہوگا‘‘

    (مريم، 19: 7)

    • يٰـيَحْيٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّةٍ
    ’’اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘

    (مريم، 19: 12)

    • يٰـمَرْيَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ
    ’’اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو‘‘

    (آل عمران، 3: 43)

    الغرض قرآن مجید میں وہ تمام مقامات جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کو خطاب کرنا چاہا تو ان کا نام لے کر خطاب فرمایا۔ یعنی بلاواسطہ اسلوب و انداز خطاب اختیار فرماتے ہوئے ’’یا‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا۔ مگر جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب فرمایا تو اندازِ خطاب تبدیل فرمادیا۔ الحمد سے والناس تک قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ جب بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ وہ خالق و مالک ہے، جس طرح سے جیسے چاہے خطاب فرماسکتا ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر حوالے سے شان فردیت عطا فرمانا تھی، اس لئے انداز خطاب میں بھی فردیت کو قائم رکھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثیل اور مثل کوئی نہیں۔ آقا علیہ السلام کی شان، عظمت، رسالت، علو، قدر و منزلت، عظمت و تمکنت کا درجہ ہر شے سے افضل، اعلیٰ، ارفع اور منفرد ہے۔ انبیائے کرام میں سے بھی سوائے نفس نبوت کے کسی کو حضور علیہ السلام کے ساتھ برابری نہیں۔ اسی لئے آقا علیہ السلام سے خطاب اور انبیاء علیہم السلام سے خطاب میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا۔ آیئے! اس سلسلہ میں قرآن مجید کی چند آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

    • لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَo
    ’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

    (الحجر، 15: 72)

    • مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo
    ’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں۔‘‘

    (القلم، 68: 2)

    • يٰسo وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِيْمِo اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَo
    ’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں‘‘۔

    (يس، 36: 1-3)

    ان آیات میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قسم کھائی، مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ براہِ راست خطاب کیا ہے مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لینے کے بجائے لقب بیان فرماکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بیان کر دی۔

    • يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ.
    ’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے‘‘۔

    (المائدة، 5: 67)

    • يٰـاَيُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اﷲُ.
    ’’اے نبی (معّظم!) آپ کے لیے اللہ کافی ہے‘‘۔

    (الانفال، 8: 64)

    • يٰـاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo
    ’’اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!) آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)‘‘۔

    (المزمل، 73: 1-2)

    گویا اللہ تعالیٰ نے اندازِ خطاب میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فردیت، نمایاں پن، انفرادیت اور عدم مثلیت کو قائم رکھا۔

    اسلوبِ خطاب میں امت کو تعلیم
    قرآن مجید میں یہ تذکرہ بھی جابجا ملتا ہے کہ پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام کو کس طرح مخاطب کرتی تھیں۔ جب قرآن مجید نے اس چیز کو بیان کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے تصدیق کردی کہ ان اقوام کا اپنے انبیاء کو اس طرح مخاطب کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ بھی ان کے بیان کو اسی طرح بیان کر رہا ہے۔

    • امت نوح علیہ السلام اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے:
    قَالُوْا يٰـنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدَالَنَا.

    ’’وہ کہنے لگے: اے نوح! بے شک تم ہم سے جھگڑ چکے سو تم نے ہم سے بہت جھگڑا کر لیا‘‘۔

    (هود :32)

    • امت نے ’’یا ھود‘‘ کہہ کر پکارتے ہوئے کہا:
    قَالُوْا يٰـهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ.

    ’’وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آئے ہو‘‘۔

    (هود، 11:53)

    • امت نے حضرت صالح علیہ السلام کا نام لے کر ان سے کہا:
    وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَo

    ’’اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہو‘‘۔

    (الأعراف، 7: 77)

    • حضرت عیسی علیہ السلام کی امت آپ کا نام لے کر کہتی ہے:
    اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّکَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ.

    ’’اور (یہ بھی یاد کرو) جب حواریوںنے کہا: اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تمہارا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) خوان اتار دے‘‘

    (المائدة، 5: 112)

    ان آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ سابقہ امتیں اس طرح اپنے نبیوں کو پکارتیں، خطاب کرتیں اور ندا دیتیں مگر اللہ رب العزت نے امت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ سنو! حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اُنہیں یا نوح کہا۔۔۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے یا صالح کہا۔۔۔ حضرت ھود کی قوم نے یا ھود کہا۔۔۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی امت نے یا شعیب کہا۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے یاعیسیٰ کہا۔۔۔ مگر خبردار! امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کوئی شخص میرے محبوب کا نام لے کر انہیں نہ پکارے۔ میں رب ہو کر اپنے محبوب نبی کو نام لے کر نہیں پکارتا لہذا تم امتی ہو کرمیرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہ پکارا کرو، تاکہ میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور شانِ فردیت اس حوالے سے بھی قائم رہے۔ فرمایا:

    لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًا.

    ’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)‘‘۔

    (النور، 24: 63)

    گویا اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے کے انداز میں بھی شانِ فردیت قائم رکھی اور خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرنے کے انداز میں بھی شان فردیت قائم رکھی۔ شان فردیت کے اس تصور کو سمجھنے کے لئے ذہن نشین رہے کہ اللہ کا معاملہ پہلے نبیوں کے ساتھ کیا تھا۔۔۔؟ امتوں کا معاملہ اپنے نبیوں کے ساتھ کیا تھا۔۔۔؟ اللہ کا معاملہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا ہے۔۔۔؟ اور امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ مصطفی علیہ السلام کے ساتھ کیا ہے۔۔۔؟ ان چیزوں پر غور کرنے سے شانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فردیت اُجاگر ہوتی ہے کہ حضور علیہ السلام طبقہ انبیاء اور طبقہ رسل میں سے ہیں اور اس طبقہ میں سے بھی کسی کی شان آقا علیہ السلام کی شان جیسی نہیں ہے تو پھر ہمارے جیسے فروتر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثلیت اور برابری کا کس طرح تصور کر سکتے ہیں۔۔۔؟ جب آقا علیہ السلام کے اندازِ مخاطبت میں برابری نہیں، آقا علیہ السلام کے ذکرِ مبارک میں برابری نہیں، آقا علیہ السلام کے تذکرے میں برابری ممکن نہیں تو آقا علیہ السلام کی ذات اقدس کے ساتھ بشمول جملہ شانوں کے دیگر معاملات میں برابری کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں