1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ جقیقت کچھ کہانی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏18 دسمبر 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    وہ ہانپتی کانپتی سیڑھیاں چڑھتی چھت پر پہنچی جانے کیوں نیچے جانے کے بجائے وہ اوپر آ گئی،،،،
    ٹرن ٹرن ۔۔ فون بجنے لگا یک دم سے نے اس نے سائلنٹ کا بٹن دبایا اور سیڑھیوں کی جانب دیکھنے لگی،،، "حارس"
    وہ فون اٹھاتے بوہکلائے انداز میں بولی میں نے سب سامان تیار کر لیا ہے تم کہا ہوں بولتے بولتے اس نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا، میں بس پہنچنے والا ہوں تم اطمینان رکھو اور ہاں جلدی سے نیچے آنا ہمارے پاس وقت بہت کم ہے حارس نے جلدی سے جواب دیتے فون بند کر دیا،،،،
    رانی کے لئے یہ انتظار اتنا طویل ہو گیا جیسے برسوں وہ اس انتظار میں گزری ہو گھبراتے ہوئے وہ چھت کی دیوار کے پاس آئی اور یوں ہی نیچے جھانکنے لگی تھی مگر یہ کیا اسکا دل لمحے کے ہزارویں حصے میں جیسے روک سا گیا ہو،،،،
    حارس گلی کے نکڑ پر بائیک پر اپنے دو دوستوں کے ساتھ تھا اور اسکے دونوں دوست بائیک سے اتر کر ایک سائیڈ پر ہو گئے اور حارس کا رخ اس کے گھر کی جانب تھا،،،،
    رانی نے دوبارہ اپنا فون نکالا اور حارس کا نمبر ملایا اٹھاتے ہی حارس نے بولا جلدی نیچے آو میں آگیا ہوں اور ہاں دیکھو اپنا زیور اور نقدی لےساتھ لیا ہے نا ؟؟؟؟
    تم اکیلے آئے ہو نا؟ رانی نے اسکے سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا، ہاں میں نے اکیلے آنا تھا تو ظاہر ہے اکیلا ہی آیا ہوں نا،
    حارس جھنجھلاتے ہوئے بولا تم فورا آو وقت کم ہے وہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ بولا،،،،
    مگر رانی پر تو جیسے سکوت طاری ہو گیا تم سچ کہ رہے ہو تم اکیلے آئے ہو؟؟؟؟
    رانی کی سوئی وہی اٹکی ہوئی تھی حارس پر جیسے شک گزرا وہ فورا نرم انداز اپنے ہوئے بولا، کیا کوئی اپنی زندگی سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے؟؟؟ میں تمھیں کس طرح یقین دلاؤں کے میں تنہا ہوں تم آؤ اور خود دیکھ لو میں تنہا آیا ہوں اب کی بار وہ کچھ زیادہ ہی تفصیل سے جواب دے گیا،،،،
    دونوں طرف سکوت چھا گیا،،،،
    رانی کی آواز نے سکوت توڑا تو جیسے حارس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا،،،
    وہ کانپتی آواز میں بولی""""""
    چلے جاؤ اور اب دوبار کبھی میرے گھر کا رخ نا کرنا اگر تم یہاں آئے تو جان لو مجھ سے برا کوئی نا ہوگا اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی،،،،
    کونسی دوست تھی میری ایسی جس نے مجھے تم سے ملنے سے نا روکا ہو مگر میں نے کسی کی نا سنی یہاں تک اپنی ماں باپ کو دھوکہ دینے چلی تھی انکی آنکھوں میں دھول جھونک کر میں نے تمھیں اہم جانا اور تم نے تم آج بتا دیا مجھ سے بڑھ کوئی پاگل ہو ہی نہیں سکتا،،،
    بے دردی سے وہ گال رگڑتی کال بندی کرنے لگی تھی،،،،،،،،
    وہ گویا ہوا تم اگر میری اصلیت جان ہی چکی ہو تو سیدھی طرح زیور اور نقدی مجھے دے دو ورنہ میں تمھاری تصاویر سوشل میڈیا پر دونگا پھر تم کسی کو تو کیا اپنے گھر والوں کو منہ دکھانے کے قابل نا رہو گی غصے سے بولتا وہ چپ ہوا،،،
    ہر بےایمان انسان کیطرح وہ اپنی اصلیت پر اتر آیا مگر رانی پر اس کا اثر نا پڑا،،،،
    وہ پھٹ پڑی
    جاؤ جو جی میں کر لو میں کسی صورت تمھیں پھوٹی کوڑی نہی دینے والی،،،، اور ایک بات یاد رکھنا جب کوئی توبہ کرے تو وہ اس نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا وہ کسی کی توبہ رد نہیں کرتا اور جب آزماتا ہے تو اپنے بندے کو رسوا نہی کرتا یہ کہتے ہی اس نے فون بند کرتے ہی دیوار پر دے مارا اور ایسے رونے لگی جیسے اسکا کوئی اپنا مر گیا،،،
    مر ہی تو گیا تھا ناں اسکا ضمیر
    آہ کیا ہوتا اگر میں چھت پر نا آتی اور اسکے دوستوں کو نا دیکھ لیتی یقینا میرا بھی ذکر ان لڑکیوں میں ہوتا جو اپنے والدین کی نافرمان ہوتی ہیں در در ٹھوکریں کھانے والی جہنیں پھر کبھی عزت نہی ملتی جو ماں باپ کی عزت کو اسکی دہلیز پر روند کر اپنی خواہشات کے پیچھے گھر سے نکلتی ہیں!!!
    پچھتاوے کے آنسو بھاتی وہ اب سیڑھیاں اترتے نیچے آ رہی تھی جیسے صدیوں کا بوجھ اسکے کاندھوں پر آ پڑا ہو،،،،
    یہ تو بہت کم ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کو وقت پر عقل آ جائے یا عاشق کی اصلیت سامنے آ جائے،،، اکثر کو بھاگ کر سمجھ آتی ہے کہ ان نے کتنی بڑی غلطی کر دی،، لیکن اس وقت پچھتاوے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا،،،

     
  2. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خوبصورت واقعہ ۔۔۔!!!

    ایک مرتبہ سید الانبیاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے ۔ ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے ہوئے پایا جس کی زبان پر "یاکریم یاکریم" کی صدا تھی ۔ حضور اکرم نے بھی پیچھے سے یا کریم پڑھنا شروع کردیا ۔ وہ اعرابی رُکن یمانی کیطرف جاتا تو پڑھتا یاکریم ، سرکار دوعالم بھی پیچھے سے پڑھتے یاکریم ۔ وہ اعرابی جس سمت بھی رخ کرتا اور پڑھتا یاکریم ،، سرکار بھی اس کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے یاکریم پڑھتے ۔
    اعرابی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف دیکھا اور کہا کہ اے روشن چہرے والے ! اے حسین قد والے ! اللہ کی قسم اگر آپ کا چہرہ اتنا روشن اور عمدہ قد نہ ہوتا تو آپ کی شکایت اپنے محبوب نبی کریم کی بارگاہ میں ضرور کرتا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں .
    سید دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تو اپنے نبی کو پہچانتا ہے ؟
    عرض کیا : نہیں ۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ایمان کیسے لائے ؟
    عرض کیا : بِن دیکھے ان کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا، مانا اور بغیر ملاقات کے میں نے انکی رسالت کی تصدیق کی۔ آپ نے فرمایا : مبارک ہو ، میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کرونگا۔
    وہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گرا اور بوسے دینے لگا۔ آپ نے فرمایا : میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے مجھے متکبر وجابر بناکر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے ۔
    راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئےاور عرض کیا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ اس اعرابی کو بتادیں کہ ہم اسکا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا : یا رسول اللہ! کیا اللہ میرا حساب لے گا؟ فرمایا : ہاں، اگر وہ چاہے تو حساب لے گا ۔
    عرض کیا کہ اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اسکا حساب لونگا۔
    آپ نے فرمایا کہ تو کس بات پر اللہ سے حساب لیگا؟
    اس نے کہا کہ اگر وہ میرے گناہوں کا حساب لیگا تو میں اسکی بخشش کا حساب لونگا۔ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ اسکی بخشش؟
    اگر اس نےمیری نافرنیوں کا حساب لیا تو میں اسکی معافی کا حساب لونگا۔
    اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے فضل و کرم کا حساب لونگا۔
    حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سماعت کرنے کے بعد اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
    پھر جبریل علیہ السلام آئے۔عرض کیا : اے اللہ کے رسول! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ رونا کم کریں۔ آپ کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بھلا دی ہے۔ اپنے امتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اسکا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سنادیں یہ جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔

    کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
    ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
    ۔
    کتاب : مسند احمد بن حنبل





     
  3. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    1987 ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﺗﮭﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﮨﺮﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ " ﺟﺎﻧﯽ ﺭﯾﺌﺲ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯﭘﻮﭼﮫ ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺕ ﮨﯿﮟ " ﺭﯾﺌﺲ ﺍﻣﺮﻭﮨﻮﯼ ﻓﮑﺮ ﺳﺨﻦ ﻣﯿﮟﻣﺤﻮ ﺗﮭﮯ۔ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺳﺐ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﺎ۔۔ﻻﻟﻮ ﮐﮭﯿﺖ ﺳﭙﺮﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ " ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺤﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﻃﮧ ﺯﻥ۔۔۔۔ﺑﮍﯼﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯﭘﮩﻠﮯﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﮏ
    ﭘﮩﻨﭽﺎﺩﯾﺎ۔ﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﮯ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﺌﮯ ﺑﺎﻭﺭﭼﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﻭﭘﺮ ﻟﭩﮭﮯ ﮐﯽ ﻭﺍﺳﮑﭧ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻟﻨﮕﯽ۔ﺳﺘﺮﮐﮯ ﭘﯿﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺑﺪﻥ ﺳﺮ ﺳﯿﺪ ﺧﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺁﻭﺍﺯ۔ﻭﮨﯿﮟ ﭘﭩﯽ ﭘﺮ ﭨﮏ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﻣﺪﻋﺎ ﮐﯽ۔ﺭﯾﺌﺲ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﻗﻄﻌﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﮔﺮﻡ ﻣﺴﺎﻟﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺁﺝ۔۔ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ ۔۔ﺧﯿﺮﻣﯿﺎﮞ۔۔۔ﮐﯿﺎ ﮐﮭﻼﻭﮔﮯﺑﺎﺭﺍﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ۔ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﻧﮯ ﻟﮕﮯ "ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ " ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺑﻨﺎﺭﮨﮯﮨﯿﮟ۔ﺧﻔﮕﯽﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔ﻧﺌﯽ ﮔﺎﺟﺮ ﮨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻭﺍﻟﯽ۔۔
    ﮐﮭﻮﮰ ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻭ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺭﮐﮭﻮﮔﮯ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﮰ ﯾﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ " ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ۔ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻣﻮﺭ ﻃﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ " ﻣﯿﮟ ﺭﯾﺌﺲ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ " ۔ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﯽ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻟﮕﺘﯽ۔۔ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﺪﯼ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮔﺎﺗﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﯿﮟ۔۔ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ۔ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﻧﮯ ﺭﯾﺌﺲ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﻟﺤﺎﻅ ﮐﯿﺎ۔ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﺭﺍﺕ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﯿﻞ ﭘﺮﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ
    ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺵ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﺎ ﺗﮭﺎﻝ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ۔۔ﮐﺴﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ۔ﺑﻮﻟﮯ " ﻟﻮ ﻣﯿﺎﮞ۔ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ " ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺯﻭﮐﯽ ﻣﯿ ں ﺑﯿﭩﮫ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔۔ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﻋﺒﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﻨﮑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﺑﻨﮍﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﮓ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ " ۔ﻣﯿﮟ ﺳﭩﭙﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ " ۔ ﻭﮦ ﮨﻨﺴﮯ ﺍﻭﺭﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ۔۔ﺧﯿﺮﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮔﮯﮨﻢ " ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻮﭨﮯ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺷﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﯽ ﺩﻭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺩﯾﮕﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﻻﮰ۔۔ ۔ﺧﻮﺩ ﺳﻨﮩﺮﮮ ﻃﺮﮮ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮕﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺼﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﺎ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻓﺎﺭﻍ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮈﺍﻧﭧ ﻟﮕﺎﺗﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﻮ؟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺗﻢ۔۔ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻮﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ۔ﮐﺴﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﻢ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ " ﺭﺧﺼﺘﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮﻭﮦ ﻏﺎﺋﺐ۔۔ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔۔ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ؟ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺳﻤﯿﺖ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻭﻟﯿﻤﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﮐﯽ ﺭﺳﻢ۔۔ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﻥ ﻓﺮﺻﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮈﺍﻟﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﻠﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮐﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮﭼﻠﮯ ﺁﮰ " ۔ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ۔ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ
    ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ " ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﻮ،ﺍﺱ ﺑﺎﻭﺭﭼﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻃﺮﮦ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﻭﺿﻌﺪﺍﺭﯼ ﻓﺮﺍﺧﺪﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﮐﻞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻣﯿﮟ ﻣﺎﻭﻧﭧ ﺍﯾﻮﺭﺳﭧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﺝ ﮐﮯ ﮐﻢ
    ﺳﮯ ﮐﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﻻﮐﮫ ﺗﻮ ﺗﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ۔ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﮌﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﺍﺏ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
    ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ۔ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ
    ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ
    ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ
    ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ "

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﮔﮯ ﮔﺮ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﻣﻠﮑﻮﮞ ، ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻧﺎﯾﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ۔۔۔۔۔ احمد اقبال ۔۔۔​
     
  4. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    پروفیسر صاحب انتہائی اہم موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، جیسے ہی آپ نے تختہ سیاہ پر کچھ لکھنے کیلئے رخ پلٹا کسی طالب علم بے سیٹی ماری۔

    پروفیسر صاحب نے مڑ کر پوچھا کس نے سیٹی ماری ہے تو کوئی بھی جواب دینے پر آمادہ نا ہوا۔ آپ نے قلم بند کر کے جیب میں رکھا اور رجسٹر اٹھا کر چلتے ہوئے کہا؛ میرا لیکچر اپنے اختتام کو پہنچا اور بس آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
    پھر انہوں نے تھوڑا سا توقف کیا، رجسٹر واپس رکھتے ہوئے کہا، چلو میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں تاکہ پیریڈ کا وقت بھی پورا ہوجائے۔
    کہنے لگے: رات میں نے سونے کی بڑی کوشش کی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ سوچا جا کر کار میں پٹرول ڈلوا آتا ہوں تاکہ اس وقت پیدا ہوئی کچھ یکسانیت ختم ہو، سونے کا موڈ بنے اور میں صبح سویرے پیٹرول ڈلوانے کی اس زحمت سے بھی بچ جاؤں۔
    پھر میں نے پیٹرول ڈلوا کر اُسی علاقے میں ہی وقت گزاری کیلئے ادھر اُدھر ڈرائیو شروع کردی۔
    کافی مٹرگشت کے بعد گھر واپسی کیلئے کار موڑی تو میری نظر سڑک کے کنارے کھڑی ایک لڑکی پر پڑی، نوجوان اور خوبصورت تو تھی مگر ساتھ میں بنی سنوری ہوئی بھی، لگ رہا تھا کسی پارٹی سے واپس آ رہی ہے۔
    میں نے کار ساتھ جا کر روکی اور پوچھا، کیا میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں؟
    کہنے لگی: اگر آپ ایسا کر دیں تو بہت مہربانی ہوگی، مجھے رات کے اس پہر سواری نہیں مل پا رہی۔
    لڑکی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی، گفتگو انتہائی مہذب اور سلجھی ہوئی کرتی تھی، ہر موضوع پر مکمل عبور اور ملکہ حاصل تھا، گویا علم اور ثقافت کا شاندار امتزاج تھی۔
    میں جب اس کے بتائے ہوئے پتے ہر اُس کے گھر پہنچا تو اُس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے مجھ جیسا باشعور اور نفیس انسان نہیں دیکھا، اور اُس کے دل میں میرے لیئے پیار پیدا ہو گیا ہے۔
    میں نے بھی اُسے صاف صاف بتاتے ہوئے کہا، سچ تو یہ ہے کہ آپ بھی ایک شاہکار خاتوں ہیں،
    مجھے بھی آپ سے انتہائی پیار ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی میں نے اُسے بتایا کہ میں یونیوسٹی میں پروفیسر ہوں، پی ایچ ڈی ڈاکٹراور معاشرے کا مفید فرد ہوں۔ لڑکی نے میرا ٹیلیفون نمبر مانگا جو میں نے اُسے بلا چوں و چرا دیدیا۔
    میری یونیورسٹی کا سُن کر اُس نے خوش ہوتے ہوئے کہا؛ میری آپ سے ایک گزارش ہے۔
    میں نے کہا؛ گزارش نہیں، حکم کرو۔
    کہنے لگی؛ میرا ایک بھائی آپ کی یونیوسٹی میں پڑھتا ہے، آپ سے گزارش ہے کہ اُس کا خیال رکھا کیجیئے۔
    میں نے کہا؛ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، آپ اس کا نام بتا دیں۔
    کہنے لگی؛ میں اُس کا نام نہیں بتاتی لیکن آپ کو ایک نشانی بتاتی ہوں، آپ اُسے فوراً ہی پہچان جائیں گے۔
    میں نے کہا؛ کیا ہے وہ خاص نشانی، جس سے میں اُسے پہچان لوں گا۔
    کہنے لگی؛ وہ سیٹیاں مارنا بہت پسند کرتا ہے
    پروفیسر صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ کلاس کے ہر طالب علم کی نظر غیر ارادی طور پر اُس لڑکے کی طرف اُٹھ گئی جس نے سیٹی ماری تھی۔
    پروفیسر صاحب نے اُس لڑکے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا، اُٹھ اوئے جانور، تو کیا سمجھتا ہے میں نے یہ پی ایچ ڈی کی ڈگری گھاس چرا کر لی ہے کیا؟
     
  5. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ٭٭٭مکافات اے عمل ٭٭٭
    کافی پرانی بات ہے۔ کہو تو اب اپنا قصہ نہیں لگتا، کسی اور کی کہانی لگتی ہے۔ یہ وقت کا جادو ہے۔ میں چھوٹا سا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ پہلی دفعہ کسی بچے کو گود میں لینے کی اجازت ملی تھی۔یہ میری چھوٹی بہن تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور خوب دھند۔ میں نظر بچا کر باہر گلی میں نکل آیا اوراس دھند میں چھُٹکی کو اٹھائے گلی میں گھومتا رہا اور خود کو بڑا اور معتبر سمجھتا رہا۔
    ابوجی کا بچوں کے ساتھ برتاؤ بہت سپیشل ہوتا تھا، اب بھی ہے۔ انہیں کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی کسی بچے کو "تُو"یا "اوئے" سے مخاطب کرتے نہیں سنا۔ ہمیشہ "تسی" یا نام لے کر پکارتے تھے۔ چھوٹی کے ساتھ لیکن ان کا لگاؤ کچھ الگ ہی تھا۔اس کو خصوصی پروٹوکول دیتے تھے۔ رویّوں پر تو شاید اختیار ہوتا ہے محبت پر نہیں ہوتا۔
    چھوٹی شاید ایک ڈیڑھ سال کی تھی کہ بیمار ہوئی۔ ایک ٹانگ پر پولیو کا شدید اثر ہوا۔ سارے شہر کے اسپتال اور ڈاکٹر چھان مارے۔ لیکن سب کا یہی کہنا تھا کہ ٹانگ ناکارہ ہوگئی ہے۔ چلنا مشکل ہوگا۔ مناسب وسائل رکھنے والا خاندان جتنی دوڑ بھاگ کرسکتا ہے اس سے زیادہ کوشش کی۔ کوئی امید نظر نہیں آئی۔
    نڑوالا چوک سے جناح کالونی کی طرف آئیں تو دائیں ہاتھ پر لاؤڈ سپیکرز، ایمپلی فائر وغیرہ کی مارکیٹ ہوا کرتی تھی ۔جہاں سے اکثر "ہیلو ہیلو۔۔ مائیکرو فون ٹیسٹنگ۔۔ہیلو ہیلو" کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ انہی کے درمیان حکیم طفیل کا مطب تھا، اب بھی ہے۔ حکیم صاحب تو انتقال کرچکے ، اب ان کے صاحبزادے مطب سنبھالتے ہیں۔ ابوجی کی حکیم طفیل سے پرانی یاد اللہ تھی۔ نزلہ زکام ، ہلکے پھلکے بخار کے لیے دوا انہی سے لی جاتی تھی۔ مختلف اقسام کے شربت، مربےّ، مزے دار میٹھے خمیرے۔ بچوں کو اسی لیے حکیم کی دوائی پسند تھی۔ نہ انجکشن کا ڈر نہ کڑوے شربت۔ چورن جیسا سفوف اور بزوری یا بنفشے کا مزے دار شربت اور میٹھے خمیرے۔۔ ہاں کبھی کبھار کڑوے جوشاندے بھی پینے پڑتے تھے لیکن اتنی سی قربانی دی جاسکتی ہے تو ہنسی خوشی دوا کھا لیتے تھے۔ قصہ مختصر۔۔۔۔ ابو نے حکیم صاحب سے ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک تیل بنانا پڑے گا لیکن اس میں بہت محنت ہے اور اس کے اجزاءبہت مشکل ہے کہ مل سکیں۔ ابو کے اصرار پر انہوں نے اجزاء اور اس کی تیاری کا طریقہ لکھ دیا۔
    ابو بتاتے ہیں کہ ساری چیزیں اکھٹی کرنے میں انہیں تقریبا تین مہینے لگے۔ تیل بنانے کا عمل چھٹی والے دن انجام پایا۔ ایسی ناگوار اور تیز بُو تھی کہ ساتھ والی گلی تک اس کا اثر جاتا تھا۔ شفا منجانب اللہ ہوتی ہے۔ خاک سے بھی مل جاتی ہے۔ تقریبا ایک سال تک اس تیل کی مالش کی گئی۔ متاثرہ ٹانگ جو حرکت نہیں کرتی تھی اب اس پر وزن ڈالنا ممکن ہوگیا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی نے ٹانگ گھسیٹ کے لنگڑا کے چلنا بھی شروع کردیا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب جو ہمارے ہمسائے تھے، وہ بھی اس بحالی پر حیران تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی چل تو سکتی تھی لیکن دوسرے بچوں کی طرح دوڑنا بھاگنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ شاید اسی لئے اس کی طبیعت میں تلخی، گرم مزاجی اور چڑچڑا پن آتا گیا۔
    انہی دنوں گلی میں کچھ نئے لوگ آئے۔ نکڑ والے مکان کے اوپر ی پورشن میں آنے والے کرائے دار کا نام شیخ طاہر تھا۔ لحیم شحیم، گورے چٹّے۔ سوتر منڈی میں بروکری کا کام کرتے تھے۔ طبیعت میں گرم مزاجی اور بڑبولا پن تھا جسے پنجابی میں پونکا بھی کہتے ہیں۔ ان کی بیگم البتہ بالکل الٹ تھیں۔بہت نرم لہجے اور سبھاؤ والی مہذب اور پڑھی لکھی خاتون۔ کچھ ہی عرصے میں شیخ صاحب کا نام طاہر سے موٹا طاہر میں تبدیل ہوگیا۔ ہر خاص و عام ان کو اسی نام سے یاد کرنے لگا۔ قریبا ایک ہی سال میں انہوں نے اسی گلی میں بابے حاجی کے ساتھ والا مکان خرید لیا۔ ویسپے کو سوزوکی کیری ڈبے سے بدل لیا۔ ہماری گلی میں پہلا اے سی بھی انہی کے گھر لگا تھا۔
    شیخ صاحب کی تلخ مزاجی اور بد گوئی کا شکار افراد کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ کئی دفعہ بات تلخ کلامی سے ہاتھا پائی تک بھی پہنچی۔ ان کی بدمزاجی کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے جو پلٹ کر جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ مولوی صادق اور استاد خالد سے مار کھانے کے بعد وہ اس ضمن میں کافی احتیاط برتا کرتے تھے۔
    متوسط طبقے کے محلّوں میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ گلی ہی ہوتی ہے۔ بچّے کھیلتے ہیں۔ لڑتے ہیں۔ پھر سب کچھ بھلا کے کھیلنے لگتے ہیں۔ دل میں مَیل نہیں رکھتے۔شیخ صاحب کی بیٹی بھی چھوٹی کی ہم عمر تھی۔ ایک دن کھیلتے ہوئے شاید لڑائی ہوگئی۔ وہ روتی ہوئی گھر چلی گئی۔ اس کے بعد شیخ صاحب جب بھی چھوٹی کو گلی میں دیکھتے تو اسے "لنگڑی" کے نام سے پکارتے۔ وہ گھر آکے خوب چلاّ چلاّ کے روتی کہ وہ مجھے لنگڑی کہتے ہیں۔ امی جی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر اسے چپ کرادیتیں۔ یہ معمول طول پکڑ گیا تو امی نے محفل میلاد میں آئی شیخ صاحب کی بیگم سے اس کا ذکر کیا۔ وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن شیخ صاحب اپنی طرز کے واحد انسان تھے۔ چھوٹی کو لنگڑی کہنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ بھی رو پیٹ کے چپ ہوجاتی تھی۔
    وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی سکول جانے لگی۔ میں بھی سکول کے آخری درجات میں پہنچ گیا۔ خون گرم تھا۔ ایک دو دفعہ شیخ صاحب سے گلی میں کرکٹ کھیلنے پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ایک کی تین سنیں تو شیخ صاحب مجھ سے کترانے لگے۔ میں کچھ ہتھ چھُٹ بھی مشہور تھا تو شاید یہ وجہ بھی تھی۔ بہرحال انہی دنوں شیخ صاحب ایک اور بیٹے کے باپ بنے۔ بہت خوبصورت، گول مٹول ، گورا چٹّا بچّہ۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ پیارا بچہ بالکل حرکت نہیں کرسکتا۔ شاید سر کو تھوڑی بہت حرکت دے سکتا تھا۔ سن اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ شیخ صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں اور ہاتھ جوڑ کے کہہ رہی تھیں کہ ہمیں معاف کردیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے امی جی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
    پس ڈوبنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی
    بہتا ہے بہت سُست مکافات کا دریا​
     
  6. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنےباغ میں درختوں کو پانی دےرہےتھےکہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیکاگزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتےہوئےگئےاور حضرت ابراہیم قندوزی کےہاتھوں کو بوسہ دیا۔
    حضرت ابراہیم قندوزیایک نوجوان کےاس جوش عقیدت سےبہت متاثر ہوئی۔ انہوں نےکمال شفقت سےآپ کےسر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگےجانےلگےتو آپ نےحضرت ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔
    حضرت ابراہیم نےمحبت بھرےلہجےمیں پوچھا اےنوجوان! ”آپ کیا چاہتےہیں؟“
    حضرت خواجہ معین الدین چشتی نےعرض کی کہ آپ چند لمحےاور میرےباغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہےکہ یہ سعادت مجھےدوبارہ نصیب ہوتی ہےکہ نہیں۔ آپ کالہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سےانکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سےبھرےہوئےدو طباق لئےآپ حضرت ابراہیم کےسامنےرکھ دئیےاور خود دست بستہ کھڑےہو گئے۔
    اس نو عمری میں سعادت مندی اورعقیدت مندی کا بےمثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم حیران تھے۔ انہوں نےچند انگور اٹھا کر کھا لئے۔ حضرت ابراہیم کےاس عمل سےآپ کےچہرےپر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی نےفرمایا۔ معین الدین بیٹھ جائو!
    آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ فرزند! تم نےایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہی۔ یہ سرسبز شاداب درخت‘ یہ لذیذ پھل یہ ملکیت اورجائیداد سب کچھ فنا ہو جانےوالا ہے۔ آج اگریہاں بہار کا دور دورہ ہےتو کل یہاں خزاں بھی آئےگی۔ یہی گردش روزوشب ہےاور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائےگا۔ پھر اللہ تعالیٰ تجھےایک اور باغ عطا فرمائےگا۔ جس کےدرخت قیامت تک گرم ہوائوں سےمحفوظ رہیں گے۔ ان درختوں میں لگےپھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لےگا پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھےگا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نےاپنےپیرھن میں ہاتھ ڈال کر جیب سےروٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔
    یہ کہہ کر خشک روٹی کاوہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی کےمنہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سےنکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سےچل دیئے۔
    حضرت ابراہیم کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نےایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑےکا حلق سےنیچےاترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    حضرت امیر خسرو رحمته الله علیه نے ایک بار بہت خوبصورت نعتیه رباعی لکھی اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمته الله علیه کی خدمت میں پیش کی .
    حضرت نے رباعی سن کر فرمایا " خسرو ! رباعی خوب هے لیکن
    سعدی رحمة الله عليه کی جو رباعی هے بلغ العلے بکماله ، اسکا جواب نہیں "
    اگلے دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے پہلے سے زیادہ محنت سے مزید اچھی رباعی لکھی اور پیرو مرشد کو سنائی تو انھوں نے سن کر پھر فرمایا که خسرو رباعی خوب هے لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں . حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے کئی بار محنت کی لیکن پیرو مرشد هر بار یہی فرماتے که خسرو ! رباعی خوب هے لیکن سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں . آخر ایک دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کی " سیدی ! سعدی رحمة الله عليه نے بھی نعتیه رباعی لکھی اور میں بھی کئی دن سے نعت لکھ کر پیش کر رها هوں لیکن آپ هر بار یہی فرماتے هیں که سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں، ایسا کیوں هے ؟

    پیرو مرشد نے فرمایا : اچھا ، جاننا چاهتے هو تو آج آدھی رات کے وقت آنا .

    چنانچہ امیر خسرو رحمة الله عليه آدھی رات کے وقت حاضر خدمت هوئے تو مرشد کو وظائف میں مشغول پایا . فرمایا ، " خسرو ! ادھر آؤ ، میرے پاس بیٹھو اور دیکھو"
    مرشد کی توجه هوئی اور حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے دیکھا که دربار رسالت صلی الله علیه وآله وسلم آراستہ هے صحابه کرام اور هزاروں اولیاء کرام موجود هیں . شیخ سعدی رحمة الله عليه دربار میں موجود هیں اور پڑھ رهے هیں ،

    بلغ العلے بکماله ،
    کشف الدجا بجماله
    حسنت جمیع خصاله
    صلوا علیہ و آلہ


    اور نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں ، سعدی ! پھر پڑھو ،
    سعدی رحمة الله عليه کہتے هیں لبیک یا سیدی ! اور پھر رباعی پڑهنے لگتے هیں ، رباعی ختم هوتی هے اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فرماتے هیں، سعدی ! پھر پڑھو اور سعدی پھر پڑھنے لگتے هیں .
    یه دیکھ کر امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کیا ، پیرو مرشد ! لکھتا تو میں بھی خوب هوں لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں.

    اور واقعی اس رباعی کا جواب نہیں. کہتے هیں جب حضرت سعدی نے یہ رباعی لکھی تو تین مصرعے لکھ لئے ،

    بلغ العلے بکماله
    کشف الدجا بجماله
    حسنت جمیع خصاله

    لیکن چوتھا مصرع موزوں نہیں هو رها تها اسی پریشانی میں سو گئے تو خواب میں نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ سرکار صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں، سعدی کہتے کیوں نہیں :
    صلوا علیه وآله
    تب سے یه رباعی زبان زد عام هے اور آج بھی اس کی مقبولیت میں فرق
    نہیں آیا.

    بلغ العلے بکماله ،
    کشف الدجا بجماله
    حسنت جمیع خصاله
    صلوا علیه وآله.

     
  8. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ
    ﺟﺐ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺮﺍﻡ ﻣﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖؓ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ’’ ﺍﺷﮑﺮ ‘‘ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﮯ ﺁﭖؓﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ،ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ ﮐﮯ ﺗﺮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ، ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ، ﺧﻨﺠﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺰﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻏﻼﻡ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﻭ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻠﻄﻨﺘﻮﮞ ‏( ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ‏) ﮐﮯ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎﺋﮯ،ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ﺁﭖؓ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺎﯾﺎ،ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯼ۔ ﺻﺤﺎﺑﮧؓ ﻧﮯ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺷﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻌﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﮨﺮ ﺩﻭ ﺟﻤﻌﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧؓ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪؓﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ۔ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ : ﻣﻮﺕ ﻟﮑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻮﺕ ﺧﻮﺩ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺟﺐ ﻣﻮﺕ ﻣﻘﺪﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﻭﮌﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﻟﭙﭧ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯽ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﺰﺩﻝ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺪﺍ ﻥ ﺟﮩﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺁﺗﯽ۔​
     
  9. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    جھوٹ بولنے کی اجازت کب ہے
    ۔۔۔

    حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جھوٹ بولنے کی کہیں بھی رخصت نہیں ، مگر تین مقامات ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے اور میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا۔

    (١)''لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے وہ ایسی بات کرتا جس سے اس کا مقصد
    لوگوں کے درمیان صلح کرانا ہوتا ہے ۔''

    (٢)''دوران جنگ'' کہ جنگ کے بارے میں فرمایا گیا کہ جنگ دھوکے کا نام ہے

    (٣)''مردکا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے مرد سے اس وجہ سے جھوٹ بولنا کہ ان کے درمیان نفرت ختم ہو جائے

    ''(ابوداؤد ،الحدیث 4275 ،الشاملہ)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ".. اسلام کا چھٹا رُکن .."
    حضرت نظام الدین اولیاء رح بیان فرماتے ہیں کہ اجودھن کے قریب ایک مُلا صاحب رهتے تھے جنھیں اپنے ظاہری علم پر بہت ناز تھا۔ اور وہ اکثر بابا فرید رح کی مجلس میں اپنی عملیت کے قصے سناتے جنھیں آپ رح بےحد دلچسپی سے سنا کرتے۔ لوگوں کو مُلا صاحب کا انداز برا لگتا لیکن وه احترامِ شیخ میں خاموش رهتے۔ ایک بار آپ نے پوچھا: "مولانا.! اسلام کے کتنے رُکن هیں.؟"
    مُلا صاحب بولے: "شیخ آپ نھیں جانتے؟ اس کا جواب تو کوئی عام مسلمان بھی جانتا ہو گا۔ اسلام کے پانچ ارکان هیں توحید, نماز, روزه, زکوۃ اور حج۔" آپ مسکرائے اور فرمایا: "مولانا ! میں نے تو سنا هے اسلام کا چھٹا رکن بھی هے اور وه رکن روٹی هے۔" مُلا صاحب ایک دم بھڑک اٹھے "استغفر اللّٰہ آپ نے بالکل غلط سنا"
    آپ رح نے تحمل سے فرمایا: "لیکن میں نے تو معتبر اهل علم سے سنا هے۔"
    یہ سن کر مُلا صاحب اٹھ کھڑے هوئے اور قرآن کریم کی وه آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ هے "نصیحت کرنے کے بعد ظالم قوم کے پاس مت بیٹھ" لہذا میں چلتا هوں۔
    بابا فرید رح بھی کھڑے ہو گئے اور محبت سے مُلا صاحب کا هاتھ پکڑا اور فرمایا: "مولانا ! اختلاف رائے اپنی جگه لیکن هم سے ناراض ہو کر تو نہ جائیں۔" لیکن مُلا صاحب نے اپنا هاتھ چھڑایا اور غضب ناک ہو کر چل دیے۔
    اسکے بعد مُلا صاحب حج کیلئے روانہ ہو گئے۔ حج کی سعادت حاصل کی، مکه مکرمہ اور مدینہ منوره میں سات سال قیام کیا اور پھر وطن واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ واپسی کے سفر میں اچانک سمندر میں سخت طوفان آیا اور مُلا صاحب ایک تختے پر تیرتے ہوئے کسی جزیرے تک جا پہنچے۔ جزیره دیکھا تو نہ پانی نہ درخت نہ گھاس۔ تین دن بھوکے پیاسے ایک غار میں بیٹھے دعا کرتے رہے کہ "اے پالنے والے ! اس عذاب سے نکال۔" تین دن بعد کہیں سے ایک شخص آیا اور آواز لگائی کہ "روٹی خرید لو۔" مُلا صاحب نے اسے بلایا اور اپنی دکھی داستان سنائی۔ وه بولا: "میرے پاس روٹی بھی هے اور پانی بھی مگر مفت میں نہیں دوں گا۔" مُلا صاحب نے بے بسی سے کہا: "بھائی میرے پاس ایک پیسه تک نہیں ہے۔" پھر پوچھا: "کیا تم مسلمان ہو؟" تو وه بولا: "الحمد اللّٰہ میں مسلمان ہوں۔" مُلا صاحب نے فوراً بھوکوں کو کھانا کھلانے کی روایات بیان کرنا شروع کیں تو وه بولا: "میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے ثواب سے واقف ہوں لیکن رزق حلال کمانے کا حکم بھی اللّٰہ نے ہی دیا هے۔" مُلا صاحب نے اسے اپنی نماز، روزے، زکوۃ اور سات حجوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی لیکن وه ٹس سے مس نہ ہوا۔ آخر بولا: "چلیے میں آپ پر رحم کھاتا ہوں۔ اپنے سات حجوں کا ثواب مجھے دیدیں میں آپکو روٹی کھلا دیتا ہوں۔"
    مُلا صاحب نے سوچا زبانی ثواب دے دینے سے کیا ہو گا؟ لہذا بولے: "چلو سات حجوں کا ثواب تمهیں دیا۔" مُلا صاحب نے روٹی کھائی تو جان میں جان آئی۔ اس سے پوچھا: "تم کہاں رهتے ہو؟ قریب میں کوئی آبادی هے؟" لیکن اس نے برتن اٹھائے اور غار سے نکل گیا۔ مُلا صاحب نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن وه غائب ہو گیا۔ تین دن بعد پھر سے جب بھوک سے مُلا صاحب کی حالت خراب ہونے لگی تو وه کہیں سے پھر نمودار ہوا اور اس بار مُلا صاحب کے روزوں کا ثواب لے کر چلتا بنا۔ پھر تین دن بعد نمازوں اور اس کے تین دن بعد زکوۃ کا ثواب بھی اس نے لے لیا۔ پھر اگلے تین دن گزرے اور جب وه آیا تو مُلا صاحب رونے لگے۔ "اب میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا۔" تو وه بولا: "آج آپ بس اتنا کریں کہ مجھے تمام ثواب تحریری طور پر دے دیں۔" مُلا صاحب نے کاغذ پر لکھ کر دے دیا کہ میں نے اپنی تمام عمر کی نمازیں، روزے، زکوۃ اور حج اس شخص کے ہاتھ روٹی کے بدلے فروخت کئے اور نیچے اپنے دستخط کر دیے اور روٹی کھاتے ہوئے سوچا کہ تین دن بعد گزاره کیسے ہو گا؟ اس لئے آج اس کا پیچھا ضرور کرنا ہے۔ مُلا صاحب نے کافی دور تک اس کا پیچھا کیا لیکن آگے جا کر وه پھر کہیں غائب ہو گیا۔ سمندر سامنے تھا مُلا صاحب ذرا سانس بحال کرنے کیلئے بیٹھ گئے اتفاق سے اسی وقت ایک جہاز قریب سے گزر رها تھا۔ مُلا صاحب نے اپنی قمیض اتار کر دیوانه وار ہوا میں لہرائی جس سے جہاز والوں کی نظر ان پر پڑی اور انھوں نے کشتی بھیج دی۔ خدا کی قدرت یہ کہ وہ هندوستانی حاجیوں کا ہی جہاز تھا لہذا انھوں نے مُلا صاحب کی خوب خدمت کی اور وه بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچ گئے۔
    کچھ دن بعد وہ اپنی عبادت و ریاضت کا حال سنانے بابا فرید رح کی خانقاه پہنچے۔ بابا فرید رح نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور فرمایا "مُلا صاحب ! بہت عرصے بعد تشریف لائے۔" مُلا صاحب خشک لہجے میں بولے: "یہاں ہوتا تو آتا نا۔ میں حج کرنے گیا تھا۔ سات سال تک مکه مکرمہ اور مدینه منوره میں قیام کیا۔ حرمین شریفین اور مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں نمازیں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔"
    آپ رح نے خوش مزاجی سے فرمایا: "آپ تو واقعی خوش قسمت هیں مولانا ! اب تو آپ هم سے ناراض نہیں ہیں؟ سات سال پہلے آپ هم سے ایک چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر گئے تھے۔" مُلا صاحب بابا فرید رح کی عاجزی سے اور مغرور ہو گئے اور بولے: "مجھے تو کچھ یاد نہیں، آپ یاد دلائیں تو شاید یاد آ جائے۔" آپ رح نے فرمایا: "میں نے عرض کیا تھا کہ اسلام کا چھٹا رکن روٹی هے اور آپ همیں ظالم قرار دے کر چلے گئے تھے۔ پھر بھی هم آپکو یاد کرتے رهے۔" مُلا صاحب طنزیہ انداز میں هنسے اور بولے: "درویش اپنی کم علمی کے باعث اکثر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں لیکن سچ یہی هے کہ اسلام کا کوئی چھٹا رکن نہیں ہے۔" آپ رح نے فرمایا: "میں کم علم ہوں لیکن میں نے یہ بات لکھی ہوئی دیکھی هے۔" پھر آپ نے حاضرین سے فرمایا: "میں کچھ دیر تنہائی چاهتا ہوں۔" تنہائی میں آپ رح نے ایک کتاب مُلا صاحب کے حوالے کی۔ انھوں نے کتاب کھولی تو ایک صفحے پر وہی تحریر تھی جو مُلا صاحب نے جزیرے میں روٹی فروخت کرنے والے کو لکھ کر دی تھی۔ مُلا صاحب چند لمحے حیرت سے سکوت کے عالم میں بیٹھے رهے پھر آپ کے قدموں میں گر پڑے اور بولے: "شیخ ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔" آپ رح نے محبت سے فرمایا: "مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے مولانا ! ایک معمولی اختلاف تھا سو وه آج دور ہو گیا۔" اس کے بعد مُلا صاحب آپ رح کے مرید ہو گئے۔ مرید ہونے کے بعد کسی نے انھیں بات کرتے نہیں دیکھا۔ جب تک زنده رہے، هر وقت روتے رهتے تھے۔
    پنج رُکن اسلام دے ، تے چھیواں فریدا ٹُک
    جے لبھے نہ چھیواں ، تے پنجے ای جاندے مُک
    اردُو ترجمہ:
    اسلام کے پانچ رُکن بیان کئے جاتے ہیں۔
    لیکن اے فرید ! ایک چھٹا رُکن بھی ہے
    اور وہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ روٹی ‘‘
    اگر یہ چھٹا نہ مِلے، تو باقی پانچوں بھی جاتے رہتے ہیں۔...​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ماں جی آپ نے اپنا دل صاف کرنا کس سے سیکھا؟
    انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ دودھ والے سے۔
    سارہ بھی اس بات پر ہنس پڑی، پھرکچھ دیر قبل جیٹھانی سے فون پر اپنی تلخ کلامی پر شرمندہ ہوتے ہوئے ساس سے مخاطب ہوئی پتہ نہیں غصّے میں زیادہ ہی بول جاتی ہوں، بڑی ہیں مجھ سے لیکن انکی عادتیں بھی تو دیکھیں پچھلی بار بھی ..
    خیر چھوڑیں آپ بتائیں ناں ماں جی جیسے میں آپ سے اکثر باتیں سیکھتی ہوں آپ نے یہ بات کہاں سے سیکھی ؟کیونکہ میں نے اتنے عرصے میں آپکو لوگوں کی شکایتیں کرتے نہیں دیکھا ،حالانکہ کچھ لوگوں کے بہت غلط رویے بھی آپ کے ساتھ دیکھے ہیں میں نے۔
    ماں جی نے بڑی بہو کیساتھ سارہ کی بدکلامی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوۓ مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
    "پتر مذاق نہیں سچ بتا رہی ہوں۔ واقعی دودھ والے ہی نےسکھایا تھا یہ سبق ، میں چھوٹی تھی جب کوئی بارہ سال کی رہی ہونگی ،فجر پر بھائی اور ابّا جی تو مسجد گۓ ہوتے امّاں جی صحن میں قران پڑھ رہی ہوتیں کہ دودھ والے بابے کی سائیکل کی گھنٹی بجنی شروع ہو جاتی میں باورچی خانے سے دیگچی لے کر اسے دیتی تو وہ غور سے اسے چیک کرتا۔ سونگھ کر کہتا اے نئیں کڑیے دوجا بھانڈہ لے کے آ، ایدے وچ تےہالی تکر سالن دی بو نئیں مکی ، (یہ نہیں بیٹا، دوسرا برتن لے کر آؤ۔ اس میں سے تو ابھی تک سالن کی بو نہیں ختم ہوئی) کسی دن کہتا
    نہ پتر اے ویکھ سیڈاں تے پرانا دودھ نالے چپکا پڑا اے ، اینج تے نواں دودھ فھٹ جاناں اے (نہیں بیٹا، یہ دیکھو سا ئڈ پر پرانا دودھ چپکا ہوا ہے، یوں تو نیا دودھ پھٹ جائے گا۔)
    جس دن کبھی دودھ پھٹ جاتا امّاں جی سے ڈانٹیاں بھی خوب پڑتیں اتنا دودھ ضائع ہونے پہ ...
    تین چار سال یہی سلسہ چلتا رہا پھر میری شادی ہو گئی ،کچھ عرصے بعد مسائل شروع ہو گۓ جو نبیڑے نئیں تھے جاتے مجھ سے۔ میں گھٹ گھٹ کے رو رو کے اللہ جی سے دعا کرتی۔ ایک دن صبح کو اٹھی دیکھا تو چاۓ بنانے کو دودھ نہیں ڈھیر سارا دودھ پھٹ چکا تھا، مجھے یاد آیا اماں جی اس سے طرح طرح کی مٹھائیاں اور پنیر بنا لیا کرتی تھیں۔ سو میں نے بھی آدھے دودھ سے قلاقند آدھے کے پنیر کے پکوڑے بنا لیے، ناشتے میں اتنا اہتمام دیکھ کر سب گھر والے بڑے خوش ہوۓ بڑی تعریفیں ہوئیں سسر نے نیا جوڑا خریدنے کے پیسے انعام میں دیے اس دن مجھے شدت سے احساس ہوا کہ لوگ اتنے برے بھی نہیں ہوتے ،یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ہر بار نئے معاملات کو پچھلی ناراضگی سے بھی جوڑ لیتا ہے کہ اس وقت اس نے یوں کیا تھا یوں کہا تھا۔ یہی میری غلطی تھی۔
    تب سمجھ آئی کہ دل کی دیگچی کو بھی ایسے ہی ستھرا کرنا پڑتا ہے کہ پھر نیا دودھ پھٹے بھی نہ، اس میں پرانے سالن کی بو بھی نہ آۓ ،اور کبھی غلطی سے پھٹ جاۓ تو ایسے ہی خوب چینی ڈال ڈال کر اسکی مٹھائی بنا لیتے ہیں..!!​
     
  12. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک صاحب ایک نیم صحرائی علاقے میں تانگے پر سفر کر رہے تھے کہ اتنے میں آندھی کے آثار ظاہر ہوئے۔ تانگے والے نے بتایا کہ اس علاقے میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے۔ وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا کر لے جاتی ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ اس وقت اسی قسم کی آندھی آرہی ہے اس لیے آپ تانگے سے اتر کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔
    جب آندھی آئی تو ہم ایک درخت کی طرف بڑھے تا کہ ہم اسکی آڑ میں پناہ لے سکیں۔
    تانگے والے نے ہمیں درخت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو چیخ پڑا۔ اس نے کہا اس آندھی میں بڑے بڑے درخت گر جاتے ہیں، اس لئے اس موقع پر درخت کی پناہ لینا بہت خطرناک ہے۔ اس آندھی کے مقابلے میں بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ کھلی زمین پر اوندھے ہو کر لیٹ جائیں۔
    تانگے والے کے کہنے پر ہم زمین پر منہ نیچے کر کے لیٹ گئے۔ آندھی آئی اور بہت سے درختوں اور ٹیلوں تک کو اڑا کر لے گئی۔ لیکن یہ سارا طوفان ہمارے اوپر سے گزرتا رہا اور زمین کی سطح پر ہم محفوظ پڑے رہے۔
    آندھیوں میں کھڑے ہوئے درخت تو اکھڑ جاتے ہیں مگر زمین پر پھیلی ہوئی گھاس بدستور قائم رہتی ہے۔ آندھی سے بچاؤ کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ وقتی طور پر اپنے آپ کو نیچا کر لیا جائے۔
    زندگی کے طوفانوں سے بچنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جب آندھی اٹھے تو وقتی طور پر اپنا آپ نیچا کرلو۔
    اگر اپنی انا کھڑی رکھو گے تو اکھاڑ دیے جاؤ گے.بس بقا نیچا رہنے میں ہی ہے۔
     
  13. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت جگر مرادآبادی مستی کے عالم میں کئی کئی مہینوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک دن جو بے قراری بڑھی تو اُن کے قدم ایک طوائف کے گھر پہنچ گئے۔
    اُس کا نام روشن فاطمہ تھا۔ حسین، شوخ، چنچل، کمسن۔
    “حضور کی تعریف؟ ” اُس نے پوچھا۔
    جگر آنکھیں جُکھائے اُس کے سامنے کھڑ ے تھے۔ شاید نگاہ بھر کے اُسے دیکھا تک نہیں تھا۔ جواب میں دو شعر پڑھ دیے۔
    سراپا آرزو ہوں، درد ہوں، داغِ تمنا ہوں
    مجھے دنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دنیا ہوں
    کبھی کیفِ مجسم ہوں، کبھی شوقِ سراپا ہوں
    خدا جانے کس کا درد ہوں، کس کی تمنا ہوں
    “سبحان اللہ ” طوائف کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
    بے چارے عاشق معلوم ہوتے ہیں۔
    جگر نے پھر ایک شعر پڑھ دیا.
    ۔ُمجھی میں عشق کا عالم، مجھی میں عشق کی دنیا
    نثار اپنے پہ ہو جاؤں اگر سو بار پیدا ہوں“

    حضور اس غریب خانے کو کیسے رونق بخشی؟

    ”کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کاورنہ
    پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے


    اس شعر کا سُننا تھا کہ روشن فاطمہ پھڑک گئی، طوائف تھی، چہرہ شناس تھی، سُخن فہم تھی۔ بار بار اس شعر کو پڑھتی تھی اور داد دیتی تھی۔
    “میں اب تک کیوں آپ سے محروم رہی؟ کیا آپ اس شہر کے نہیں ہیں؟ ہیں تو یہاں کب سے ہیں؟ اور اب تک یہاں کیوں نہیں آئے؟ ”

    جگر یہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے بیٹھ گئے۔

    نہ پوچھ دہر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ہوں
    جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ہوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ہوں”


    دیکھئے میں پاگل ہوجاؤں گی۔ اللہ کے واسطے آپ اپنا نام تو بتائیے آپ ہیں کون ؟

    ”دیکھا تھا کل جگر کو سرِ راہِ میکدہ
    اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چُور تھا


    وہ پھر بھی نہیں سمجھی۔ شاید اُس نے جگر کا نام سُنا ہی نہیں تھا یا پھر وہ یہ سمجھی کہ وہ یہاں کہاں آئیں گے، کوئی اورجگر ہوگا۔اسی وقت ایک مہمان اور آ گیا۔ یہ جگر کا واقف کارتھا۔ دن کا وقت تھا اس لیے محفل گرم نہیں ہوئی تھی۔
    ” جگر صاحب مجھے کسی نے بتایا کہ آپ یہاں آئے ہیں۔”

    پھر وہ شخص روشن فاطمہ سے مخاطب ہوا۔
    ” آپ واقف ہیں ان سے؟ مشہور شاعر جگر مرادابادی ہیں۔”
    “آؤ بھئی چلیں میں نے بہت زحمت دے لی انہیں” جگر نے کہا۔
    “ایسے تو نہیں جانے دوں گی۔” روشن فاطمہ نے جگر کا ہاتھ تھام لیا۔ ” یہ طوائف کا کوٹھا ہے یہاں وہ آتا ہے جس کی جیب میں مال ہوتا ہے۔”
    جگر نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے نوٹ ہاتھ میں آئے اُس کے سامنے رکھ دیے۔
    ” نہیں حضور قیمت تو گاہک کی حیثیت دیکھ کر طے ہوتی ہے۔ ایسے نوٹ تو مجھے کوئی بھی جاہل سیٹھ د ے سکتا ہے۔ آپ تو مجھےغزل سُنائیں۔”
    ” شعر سمجھتی ہو؟ ”
    “حضور پہلے سمجھتی ہوں پھر گاتی ہوں۔ ”
    ابھی روشن کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ جگر کی پُرسوز آواز نے دن کو قیامت کا دن بنا دیا۔

    کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
    اف کر کے وہیں بیٹھ گیا درد جگر بھی

    کیا دیکھیں گے ہم جلوہ محبوب کہ ہم سے
    دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی

    واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے

    دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

    اس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
    اس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو ادھر بھی

    ہے فیصلۂ عشق جو منظور تو اٹھیئے
    اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی.

     
  14. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    وہ بہت مصروف صبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک بوڑھا شخص جو 80 سال کا ہو گا اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نِکلوانے کيلئے آيا۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے۔ اُس بزرگ کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اُس کے زخم کا مُعائنہ کيا تو زخم مندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اُس کے ٹانکے نِکال کر پٹی کر دی۔
    ميں نے اسی اثناء ميں بزرگ سے پوچھا کہ "کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے۔۔؟؟
    وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
    اُس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
    ميں نے پوچھا کہ "اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی۔۔؟؟
    اُس بزرگ نے جواب ديا کہ "وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے"
    ميں نے حيران ہو کر پوچھا "اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں۔۔؟؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں۔۔؟؟
    بزرگ نے مسکرا کر کہا "درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے"
    يہ سُن کر ميں نے بڑی مُشکل سے اپنے آنسُو روکے
    ميں نے سوچا "يہ ہے مُحبّت جو ہر عورت کے نصیب میں نہیں ہوتی " آپ کی بیوی بہت خوش قسمت ہے ـــ​
     
  15. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے ایک مہنگے اور شہر میں مشہور ہوٹل کے ویٹر کی توجہ ڈش نمبر 65 کی طرف مبذول کرائی اور مسکرا کر پوچھا ”یہ کیسی رہے گی“ ویٹر نے جھک کر مینیو کارڈ دیکھا اور مسکرا کر بولا ” یہ رائسینیا ہے‘ یہ ہمارے ریستوران کی مشہور ترین ڈش ہے‘ یہ آپ کےلئے پرفیکٹ رہے گی“ وہ اس کے بعد سیدھا ہوا اور نہایت شستہ انگریز میں ڈش کے اجزاءاور اس کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے لگا‘
    اس نے بتایا ڈش کے چاول برازیل کے قدرتی کھیتوں میں قدرتی کھاد میں پروان چڑھتے ہیں‘ زیرہ چین کے دور دراز علاقوں سے منگوایا جاتا ہے‘ دھنیا‘ دالیں اور نمک انڈیا سے لایا جاتا ہے‘ یہ سارے اجزاءفرانس کے نیم گرم چشموں کے پانی میں دھوئے جاتے ہیں‘ یہ جاپانی مٹی کی ہانڈی میں ڈالے جاتے ہیں‘ ان میں ملائیشیا کا کوکونٹ آئل ملایا جاتا ہے‘ ڈش کو ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور یہ کھانا آخر میں برطانوی پلیٹ میں ڈال کر میرے سامنے رکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔میں اس نجیب الطرفین ڈش کے پس منظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مجھے محسوس ہوا میں نے ڈش نمبر65 پر انگلی رکھ کر اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘ میں نے مینو کارڈ فولڈ کر کے ویٹر کے حوالے کیا‘ لمبی سانس لی اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘ ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوا تھا‘ میں لوگوں کو کھانا کھاتے‘ گپ شپ کرتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا‘ میرا آرڈر بیس منٹ میں تیار ہونا تھا‘ میں یہ وقت دائیں بائیں دیکھ کر گزارتا رہا‘ میں نے بڑی مشکل سے وقت پورا کیا‘ مجھے آخر میں دو ویٹر اپنی طرف آتے دکھائی دیئے‘ ایک نے چاندی کی بڑی سی ٹرے اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرا میرے آرڈر کو پروٹوکول دے رہا تھا‘ پروٹوکول آفیسر نے مسکرا کر میری طرف دیکھا‘
    میرے سامنے پڑی پلیٹ اٹھائی‘ جگہ بنائی‘ نہایت عزت کے ساتھ ٹرے میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور میرے سامنے رکھ دی‘ میں اشتیاق کے عالم میں پلیٹ پر جھک گیا‘ دونوں ویٹرز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ”انجوائے یور میل سر“ کہا اور لیفٹ رائیٹ کرتے ہوئے واپس چلے گئے‘ میری پلیٹ کے ایک کونے میں کھیرے کی دو قاشیں پڑی تھیں‘
    اس سے ایک انچ کے فاصلے پر سبز دھنیے کی چٹنی تھی اور اس چٹنی سے دو انچ کے فاصلے پر چار چمچ کے برابر چاولوں کی ڈھیری تھی‘ میں نے چھری کے ساتھ وہ ڈھیری کھولی‘ چاولوں سے کانٹا بھرا‘ وہ کانٹا منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی میری ہنسی نکل گئی‘ اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ رائسینیا پھیکی کھچڑی تھا اور میں کھچڑی کی ان چار چمچوں کےلئے بیس منٹ انتظار کرتا رہا تھا‘ میں نے لمبا سانس لیا‘ کھیرے کی قاش منہ میں رکھی‘
    کوکا کولا کا لمبا گھونٹ بھرا‘ کھچڑی (معذرت چاہتا ہوں) رائسینیا کو زہر مار کیا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کر دیا‘ و ہ بل کی بجائے ڈیزرٹس کا مینو کارڈ لے آیا اور مجھے انوکھی انوکھی سویٹ ڈشز چیک کرنے کا مشورہ دینے لگا‘ میں نے نہایت شائستگی کے ساتھ معذرت کر لی‘ وہ مایوس ہو کر واپس گیا اور بل لے آیا‘ میں نے بل کو غور سے دیکھا‘
    مجھے کوکا کولا کا ایک گلاس پانچ سو روپے میں پڑا اور چار چمچ پھیکی کھچڑی اڑھائی ہزار روپے میں‘ بل میں سروس چارجز اور جی ایس ٹی بھی شامل تھا‘ یہ سب ملا کر پونے چار ہزار روپے بن گئے ‘ میں نے پے منٹ کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا‘ ریستوران کے آدھے عملے نے مجھے جھک کر رخصت کیا‘ باوردی دربان نے دروازہ کھولا‘ میری گاڑی پورچ میں آ گئی‘ میں گاڑی میں بیٹھ گیا‘ ریستوران کا بیرونی عملہ بھی میرے سامنے جھک گیا‘ مجھے بڑی عزت کے ساتھ روانہ کیا گیا۔
    میں راستے میں سوچنے لگا‘ پونے چار ہزار روپے میں چار چمچ کھچڑی‘ کیا یہ ظلم نہیں؟ہاں یہ ظلم تھا لیکن میں اپنی فطرت کے برعکس اس ظلم پر خاموش رہاں‘ کیوں؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا‘ میں منہ پھٹ آدمی ہوں‘ میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بات کہہ سکتا ہوں لیکن میں اس ریستوران میں یہ ظلم چپ چاپ کیوں سہہ گیا؟ میں کھوجتا رہا یہاں تک کہ وجہ کا سرا میرے ہاتھ میں آگیا‘ یہ سب ریستوران کی مارکیٹنگ کا کمال تھا‘
    مارکیٹنگ کھچڑی کو دنیا کی بہترین اور مہنگی ڈش بھی بنا سکتی ہے اور اس ڈش کی زد میں آنے والے مظلوموں کے منہ پر ٹیپ بھی لگا سکتی ہے اور مظلوم کے پاس ظلم سہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ مجھے ہنسنا چاہیے بھی تھا‘ میں بھول گیا تھا ہم مارکیٹنگ کی اس ایج میں زندہ ہیں جس میں ٹیلی ویژن کا اشتہار یہ فیصلہ کرتا ہے مجھے کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہیے‘
    مجھے کس کمپنی کی چائے‘ دودھ‘ چینی‘ انڈے‘ شیمپو‘ صابن‘ ڈٹرجنٹ پاﺅڈر‘ پانی‘ فریج اور اے سی خریدنا چاہیے اور مجھے کس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیادہ فرحت محسوس ہو گی وغیرہ وغیرہ‘ یہ مارکیٹنگ ہے جو کھچڑی کو رائسینیا‘ آلو کے چپس کو فرنچ فرائز‘ چھلی کو کارن سٹک‘ لسی کو یوگرٹ شیک اور برف کے گولے کو آئس بال بنا دیتی ہے‘ کمپنی اپنی مارکیٹنگ کے زور پر دس روپے کی چیز ہزار روپے میں فروخت کرتی ہے اور گاہک کو اعتراض کی جرات تک نہیں ہوتی‘
    میں یہ بھی بھول گیا تھا‘ یہ مارکیٹنگ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں ہوتی‘ مارکیٹنگ کی ضرورت انسانوں اور ملکوں کو بھی ہوتی ہے مثلاً آپ اسامہ بن لادن‘ صدام حسین‘ کرنل قذافی کی مثال لے لیں‘یہ چاروں مارکیٹنگ کا تازہ ترین ثبوت ہیں‘ امریکا نے دس سال اسامہ بن لادن‘ صدام حسین اور کرنل قذافی کی نیگیٹو مارکیٹنگ کی‘ یہ ان تینوں کو سولائزیشن کےلئے عظیم خطرہ ثابت کرتا رہا یہاں تک کہ پوری دنیا نے انہیں ولن تسلیم کر لیا‘
    امریکا نے اس نیگیٹو مارکیٹنگ کی آڑ میں پوری دنیا کا نقشہ‘ پوری دنیا کی فلاسفی بدل دی‘ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر پہنچ گئی لیکن یہ دنیا ”تین عظیم ولن“ کی ہلاکت پر امریکا کےلئے تالیاں بجاتی رہی‘‘ آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجئے‘ بھارت ممالک کی مارکیٹنگ کا خوفناک ثبوت ہے‘ بھارت کے نیشنل ڈیٹا سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 2016ءمیں سب سے زیادہ بم دھماکے بھارت میں ہوئے‘
    بھارت کی دس ریاستوں چھتیس گڑھ‘ مغربی بنگال‘ مقبوضہ کشمیر‘ کیرالہ‘ منی پور‘ اڑیسہ‘ تامل ناڈو‘ آندھیرا پردیش‘ پنجاب اور ہریانہ میں پچھلے سال 337 بم دھماکے ہوئے‘ یہ تعداد 2015ءکے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ تھی‘ 2015ءمیں بھارت میں 268 دھماکے ہوئے تھے ‘ عراق 2016ءمیں دوسرے نمبر پر رہا ‘وہاں 221 دھماکے ہوئے‘ پاکستان کا نمبر تیسرا تھا
    یہاں 161 دھماکے ہوئے جبکہ افغانستان 132 دھماکوں کے ساتھ چوتھے‘ ترکی 92 دھماکوں کے ساتھ پانچویں اور تھائی لینڈ 71 دھماکوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہا‘ بھارت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں دس برسوں سے ہر سال اوسطاً 227 دھماکے ہوتے ہیں لیکن آپ کمال دیکھئے بھارت اس کے باوجود ”شائننگ انڈیا“ ہے ‘ یہ دنیا میں سیاحت‘ موسیقی‘ فلم‘ انڈسٹری اور سپورٹس کا بڑا مرکز ہے‘
    وہاں کامن ویلتھ گیمز بھی ہوتی ہیں‘ ورلڈ کپ بھی اور آئی پی ایل بھی‘ بھارت میں میچز کے دوران پورا صوبہ فوج کے حوالے کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی انڈیا کی طرف انگلی نہیں اٹھاتا جبکہ تیسرے نمبر پر ہونے باوجود دنیا پاکستان کو خطرناک ترین ملک سمجھتی ہے‘ یہاں 8 سال سے کرکٹ اور سیاحت بند ہیں‘ دنیا کے خوف کا یہ عالم ہے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے دوبئی میں بیٹھ کر پاکستانی حکام سے میٹنگ کرتے ہیں۔
    یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ ہم نے کبھی سوچا‘ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکوں کے باوجود کیوں شائننگ ہے اور ہم تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود دنیا کا خطرناک ترین ملک کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے ہم مارکیٹنگ میں مار کھا رہے ہیں‘ ہمارا پرسیپشن خراب ہے‘ہمیں ہرحال میں مارکیٹنگ کی اچھی ٹیم چاہیے‘ ایک ایسی ٹیم جو ہماری کھچڑی کو رائسینیا بنا دے......

    جاوید چودھری
     
  16. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ایک روز جلال الدین رومیؒ,
    اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر ایک کھیت میں پہنچے۔ یہ ان کے پڑھانے اورعلم سکھا نے کا انداز تھا۔ وہ زندہ مقالوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو بڑی سے بڑی بات آسانی سے سمجھا دیا کرتے تھے،
    اس لیے آج وہ اپنے شاگردوں کو لےکر ایک کھیت میں آئے تھے۔ ان کے شاگرد سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کو ن سا سبق ہے جو ہم مدرسے میں حاصل نہیں کر سکتے تھے اور جسے حاصل کرنے کے لیے ہم اتنی دور اس کھیت میں آئے ہیں۔ لیکن کھیت میں پہنچ کر جو سبق انہوں نے حاصل کیا اس نے تمام شاگردوں کو یہ سمجھا دیا کہ وہ غلط تھے اور ان کے استاددُرست۔
    اس کھیت میں ایک کسان بالکل کسی پاگل آدمی کی طرح زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ دراصل وہ اپنے کھیت کے لیے ایک کنواں کھودنا چاہتا تھا مگر جب تھوڑی گہرائی تک زمین کھود کر پانی نہ نکلتا تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ زمین کھودنے میں لگ جاتا اور اس طرح اُس کسان نے آٹھ جگہوں سے زمین کھود ڈالی تھی مگر حاصل اسے کچھ بھی نہ ہوا تھا۔ مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا:کیا تم کچھ سمجھ سکتے ہو؟۔
    تھوڑے وقفے کے بعد اپنے شاگردوں کی جانب دیکھ کر دوبارہ گویا ہوئے۔ ’’اگر یہ آدمی اپنی پوری طاقت، قوت اور وقت صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتا تو ابھی تک کافی گہرائی میں جا کر اسے اپنی محنت کا پھل مل چکا ہوتا۔ ایک ہی جگہ اگر یہ کسان زمین کھودتا رہتا تو اب تک وہ پانی حاصل کر چکا ہوتا لیکن اس نے اس قدر محنت بھی کی اور حاصل حصول کچھ نہ ہوا جبکہ الٹا اس نے اپنا کھیت خود ہی اجاڑ دیا اوراُسے مایوسی الگ ہوئی۔ اگر ایسی محنت وہ صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتا تو کب کا پانی حاصل کر چکا ہوتا۔‘‘
    پھر وہ اپنے شاگردوں کی جانب پلٹے اور کہا :’ کیا تم لوگ بھی اس کسان کی پیروی کرنا چاہو گے کہ کبھی ایک راستے پر کبھی دوسرے راستے پر؟ کبھی ایک کی مانو گے کبھی دوسرے کی؟ کبھی کسی کی بات سنو گے کبھی کسی کی؟
    اس طرح شاید تم بہت علم تو حاصل کر لو گے مگر وہ سارا علم بے کار ہوگا کیونکہ وہ علم نہ تو تمہیں روشن خیال بنا پائے گا اور نہ ہی تمہیں بصیرت دے پائے گا‘‘۔
    ایک چھوٹے سے عمل سے مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ اگر واقعی آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک جگہ اپنا ذہن اور اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جبھی آپ کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔
    ہمیں اپنے آس پاس بے شمار ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس بے شمار علم ہے لیکن وہ علم مع عمل ان کی اپنی زندگی میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر آپ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں گے تو اپنی تمام قوتیں اسی مقصد کو حاصل کرنے میں صرف کریں گے، لیکن جب آپ کا مقصد ہی شفاف نہیں ہوگا تو آپ کی قوت، طاقت، ذہانت سب بکھر جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
    حکايت رومی​
     
  17. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بڑے چوھدری صاحب کے بیٹے کی شادی تھی چوھدری صاحب نے ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ پورے گاؤں کو اس خوشی میں شامل کیا جائے اس کے لیے انہوں نے اعلان کروا دیا کہ بیٹے کی شادی کی خوشی میں پنڈ کے ھر ھر گھر میں ایک جانور تحفے میں دیا جاۓ گا جس گھر میں مرد کا راج ھو گا وہاں ایک گھوڑا اور جس گھر میں عورت کا راج ھو گا وہاں ایک مرغی دی جائیگی۔
    گامے کو جانوروں کی ترسیل کا کام سونپ دیا گیا پہلے ھی گھر میں گاما دونوں میاں بیوی کو سامنے بٹھا کر پوچھتا ھے گھر میں پردھان کون ھے یعنی گھر کے فیصلے کون کردا ہے۔
    مرد بولا : میں
    گامے نے جواب دیا کہ جناب چوھدری ہوراں دے سارے گھوڑے کسی نہ کسی کے ھو گئے ھیں اب صرف تین بچے ھیں
    ایک کالا . ایک سرخ . ایک چینا
    جو تمھیں پسند ھے وھ بتا دو مرد نے فورا جواب دیا کہ مجھے چینا پسند ھے ۔
    پاس ہی بیٹھی بیوی منہ بناتے ہوئے اپنے خاوند کو ٹوکا اور اونچی آواز سے بولا۔
    نئیں نئیں ھم کالا لیں گے میں نے دیکھا ھوا ھے اس کے ماتھے پے سفید پھلی ھے۔ وہ بڑا سوہنا ہے۔
    گاما آرام سے اٹھا اور تھیلے سے ایک مرغی نکال کر اگلے گھر چلا گیا۔

    گاما بتاتا ھے کہ سارے گاؤں میں ھر گھر میں اسے مرغی ھی دینا پڑی۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    " چیونٹیاں گوشت کھا رہی تھیں ''

    حضرت بِشر حافی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی راہِ سُلوک کی ابتداء میں جزیرۂ عَبّادان کا قصد کِیا۔وہاں میں نے ایک شخص کو پایا کہ اندھا،کوڑھی اور مجنوں ہے۔وہ زمین پر پڑا ہُوا ہے اور چیونٹیاں اس کا گوشت کھا رہی ہیں۔میں نے اس کا سر زمین سے اُٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور بار بار اس سے کلام کِیا۔جب اس کو کچھ افاقہ ہُوا تو کہنے لگا:
    '' میرے اور ربّ عزوَجل کے درمیان دخل اندازی کرنے والا یہ کون ہے؟ اگر وہ میرا ایک ایک عضو کاٹ ڈالے تو بھی میری محبّت میں اضافہ ہی ہو گا۔ ''
    حضرت بِشر حافی رحمتہ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:
    '' اس واقعے کے بعد سے میں نے بندّے اور ربّ عزوَجل کے درمیان کسی مُعاملے کو اذیّت نہیں سمجھا کہ اس کو ناپسند کروں۔ ''

    نام کتاب = اِحیاءُالعُلُوم مترجم ( جِلد ۵ )
    صفحہ = ۱۷۱
    مؤلف = حضرت اِمام محمد بِن محمد غزالی شافعی رحمتہ اللّہ علیہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    وہ سردیوں کی ایک جما دینے والی ٹھنڈی رات تھی عید کا چاند نظر آچکا تھا تمام لوگ اپنے گھروں کو جا رہے تھے
    قاسم ایک لمبی قطار میں دوپہر دو بجے سے کھڑا تھا جو کہ آہستہ آہستہ آگئے بڑھ رہی تھی
    گھڑی نے شام کے ساتھ بجا دیے تھے اور قاسم اب کاونٹر سے صرف تین بندے پیچھے تھا کاونٹر والی لڑکی جو کہ گاڑی نمبر 912 کے ٹکٹس دے رہی تھی اس نے آہستہ سے کہا یہ آخری گاڑی ہے اور اسکی بھی صرف دس نشستیں باقی تھی قاسم تک یہ آواز پہنچ چکی اسنے سوچا کہ ضرور مجھے اب مل جائے گی چھ گھنٹوں کی محنت کام آنے والی ہے اور اب واقعی میں عید اپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ کرونگا جنہیں اسنے کل روانہ کر دیا اور خود چھٹی نہ ہونے کی سبب اس کوفت سے گزر رہا تھا
    اسکے آگئے والے دو بندوں نے دو دو سیٹس لیں اب اسکا نمبر تھا اور کل چھ نشتیں باقی تھی مسکراہٹ اس کے چہرے پر دن بھر کی تھکن کے باوجود نمایاں ہو گئی
    اسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی
    ایک منٹ رکیں سر
    قاسم کو جواب ملا
    قاسم ایک بھی سیکنڈ نہیں رکنا چاہتا تھا
    "جی سر اچھا سر جی سر
    جیسے آپ کہیں اوکے سر "
    قاسم کو کاونئٹر کے اندر سے یہ آوازیں سنائی دی
    فون رکھتے ہی لڑکی نے جواب دیا
    سوری سر سیٹ نہیں مل سکتی
    قاسم نے غصہ سے دانت بھینچ لیے ایسا کیسے ہوسکتا ہے ابھی تو دس سیٹیں تھی دو دو انہوں نے لی باقی کی چھ؟؟
    آپکو کس نے کہا کہ دس تھی ؟ لڑکی نے قاسم کو جواب دیا
    اسی وقت آفس کا دروازہ کھلا کاوئنٹر میں ایک یونیفارم میں ملبوس شخص داخل ہوا اور بولا بریگیڈیر صاحب کے چھ ٹکٹس دے دیجیے . کمپیوٹر رائز رسید کٹ رہی تھی گاڑی نمبر 912 سرینگر کو روانہ ہونے کو تیار تھی اس شخص نے رسید پکڑتے ہی قاسم کی طرف دیکھا اور فاتحانہ انداذ سے چل دیا
    قاسم رونی سی صورت بنائے کوٹ میں ہاتھ ڈالے واپسی اپنے فلیٹ کو چل دیا
    خود کو دنیا کا ناکام ترین شخص سمجھنے لگا راستہ میں اندھیرے میں برفباری کے اداس منظر میں اپنی گالوں پر گرم گرم آنسو محسوس کر رہا تھا جو کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اسے کہتے ہیں ناکامی یہ ہوتا ہے ناکام شخص سارے دن کی محنت کے بعد اے خدا تو نے مجھے کیا دیا
    مخص ناکامی یہ کیسا امتحان ہے یہ کیسی عید ہے
    آخری گاڑی سرینگرکو چل دی اور قاسم اپنے فلیٹ کو گاڑی سے نکلتا دھواں بھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے منہ چڑا رہا ہو

    کمرے کا دروازہ کھول کر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا اسے لگا سارا گھر اس پے ہنس رہا ہے چلا رہا ہے قاسم اب نیم پاگل تھا سامنے پڑھی انگھیٹی کو ایک لات رسید کی جس میں کوئلے ختم ہو چکے تھے..
    لائٹ آن کی نہ چاہتے ہوئے ٹی وی کا بٹن بھئ دب گیا
    یہ خبروں کا چینل تھا
    بریکنگ نیوز اور نیوز کاسٹر نے آسمان سر پے اٹھا رکھا تھا
    گاڑی نمبر 912 ایک کھائی میں جا گری تھی جس مین بریگیڈ یر مجید اپنی پانچ فیملی ممبر کے ساتھ سفر کر رہے تھے
    قاسم کے سامنے اب حقیقت کھلی کہ وہ ناکام نہیں تھا بلکہ کامیاب تھا ناکامی بس کی نشست کھو دینا نہیں بلکہ پا لینا تھا
    وہ واقعی ہی کامیاب تھا اب آنسو کا مطلب بدل گیا اب نا شکری نہین بلکہ رب کی محبت مین بہنے والے آنسو تھے
    اے میرے رب تو ہی بہتر جانتا ہے کہ کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا ہے اے میرے اللہ تیرا لاکھ شکر جو تونے مجھے بچا لیا واقعی کامیابی کو صرف تو ہی جانتا ہے
    ہماری زندگی بھی ایسی ہی ہے بظاہر ناکام حقیقتاً کامیاب ہوتے ہیں اگر آپکو کوئی فیلڈ نہیں ملی کوئی جاب نہیں ملی تو اپ نے کیسے سوچ لیا آپ ناکام ہیں؟
    وہی جانتا ہے کہ آپکی کامیابی کیا ہے اور آپ کس لیے بنائے گئے​
     
  20. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    سلطان محمود غزنوی نے دنیا میں تینتیس 33 سال حکومت کی اور اس وقت کا دنیا کا شجاعت اور دنیا پر اثر و رسوخ رکھنے والا دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا۔ پہلے نمبر پر چنگیز خان تھا دوسرے نمبر پر محمود غزنوی تھا تیسرے نمبر پر سکندر یونانی تھا چھوتھے پر تیمور لنگ تھا اور یہ دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا سلطان محمود غزنوی۔ 410 ہجری میں سلطان محمود غزنوی کی وفات ہوئی اور دنیا پر تینتیس سال حکومت کی ہے یہ واقعہ سچا اور انفرادی حثیت رکھتا ہے کہ 1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیا جس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے اور تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت ، ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو جس آدمی نے کھولا تو پلٹ کر پیچھے گرا اور بےہوش ہوگیا تو جب پیچھے لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور ہزار سال مرے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دیکھائی کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ بادشاہ بھی ہو گئے تو وہ اللہ کے محبوب بن کے اللہ کے پیارے بن کے اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہوگے۔زندگی مختصر ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے وقت کے آگے طاقت ور سے طاقت ور بادشاہ کمزور اور بے بس ہے وقت کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن وقت پر جس شخص نے اللہ کی مخلوق کی بہتری، بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا وہی شخص مرنے کے بعد بھی لافانی ہے۔​
     
  21. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک دفعہ میں اپنے استاد صاحب کی
    خدمت میں حاضر ہوا،میں نے سوال کیا: حضرت قران کہتا ہے:
    ”بے شک نماز بْرےاور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔
    (سورہ عنکبوت آیت 45)
    لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور سود بھی کھاتے ہیں،جھوٹ بھی بولتے ہیں، بے حیائی کے کام بھی کرتے ہیں۔ ہم خود بھی نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو پاتے۔ تو اِس آیت کا کیا مطلب ہوا؟
    فرمانے لگے:
    بیٹا۔قران کی آیت پر نہیں اپنی نمازوں پر شک کرو۔ کہ ان نمازوں میں ایسی کون سی کمی ہےجو تمہیں گناہوں سے نہیں روک پا رہیں۔ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نےکبھی یہ سوال نہیں کیا،کیونکہ انکی نمازیں واقعی نمازیں تھیں۔اب بھلا سوچو اگر ایک شخص کو دن میں پانچ بار عدالت میں جج کا سامنا کرنا ہو توکیا وہ جرم کرنے کا سوچے گا بھی؟ جرم تو وہ کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ عدالت سے بچ جائیگا۔یہ جواب سن کر مجھے وہ حدیث یاد آگئی کہ بہت سے
    نمازیوں کی نمازیں انکے منہ پر مار دی جائینگی۔
    یا اللہ ہمیں اصلی اور سچی نمازیں پڑھنے اور اس پر پابند ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔
    آمین​
     
  22. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    طائر فاروق اعوان صاحب کی بہترین تحریر
    مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں (رمضان کی نسبت سے ایک پر اثر تحریر)

    جب میں عمرہ کرنے گیا تو آصف شیخ مجھے ساتھ لے کر ایک ڈاکٹر علوی صاحب کو مبارکباد دینے گیا کہ انہیں بادشاہ نے شہریت دی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی کیا کمال کے تھے۔ پوچھنے لگے”شاہ صاحب، کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ میں نے کہا” جدہ کا قصد کیا ہے“ کہنے لگے آپ میرے ساتھ چلیں گے۔جب یہ پتہ چلا کہ وہ مجھے پڑھتے ہیں اور بھی خوشی ہوئی۔سفرکا آغاز ہوا تو انہوں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک عجیب و غریب سوال کردیا ”مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں؟“ اپنا علم تو وہیں دھرا رہ گیا۔ وہ پھر گویا ہوئے” شاہ صاحب میں نے دنیا کے کئی پہاڑ دیکھے مگر وہ مکہ کے پہاڑوں کی طرح بنجر اور بے آب و گیاہ نہیں ہیں؟ اس کے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے“؟ میںنے تو سر نڈر کر دیا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے ”قبلہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہیں بنایاجائے گا۔ بات دل کو لگی۔

    یہ پرانا واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا؟اس کے پیچھے ہمارے دوست انگریزی ادب کے استاد اسد اعوان ہیں جنہوں نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی اور ساتھ تاکید کی کہ یہ جو رمضان شریف میں چینلز پر طوفان بدتمیزی چل رہا ہے اس کے خلاف لکھیں۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی تو چونک اٹھا۔ اس میں ایک عالم دین بڑی صراحت ‘و ضاحت کے ساتھ موجودہ سحر و افطار پر لگنے والے میلوں کی حقیقت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ بات سمجھ میں آئی، دل کو لگی۔ سچ کہا انہوں نے کہ یہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مختلف میڈیا مالکوں کو کروڑوں روپے دیئے جارہے ہیں کہ رمضان کا تقدس پامال کرو، سحر و افطار کے اوقات کو تفریح بنا دو۔ انہوں نے مکہ کے اس عکاس میلہ کا حوالہ دیا کہ قبل اسلام جب لوگ مکہ میں خانہ کعبہ عبادت کے لئے آتے تو وہاں عکاس کا میلہ لگا ہوتا تھا۔ گویا زمانہ جہالت میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس کا چھوٹا موٹا عکس درباروں پر لگنے والے عرسوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں سرکسی موت کا کنواں اور کئی اور خرافات ہوتی ہیں۔ مجھے معاً خیال آیا کہ واقعی رمضان کوئی فیسٹیول نہیں ہے۔

    خدا کے لئے آﺅ بیٹھ کے سوچیں واقعی سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ وہ اوقات جو اللہ کی رحمتیں لوٹنے کے ہیں سب ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ گھڑیاں جو دعائیں مانگنے کی ہوتی ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سراسر لہو و لعب ، کھیل تماشہ اور رنگ بازی، نام اس کا رمضان سپیشل ہوتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے ۔ میں نے کراچی کے اس ڈرامہ مولوی کو دیکھا ۔ یقین کیجیئے یہ کلپ کسی نے بھیجا۔ وہ حضرت زبان نکال کر کے اداکاری کر رہے ہیں۔ دو سنگرز کچھ گا رہی ہیں۔ حاضرین تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ کہیں انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور کہیں موبائل بانٹے جارہے ہیں۔ بجا کہا ان عالم دین نے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیکٹ کرنے والوں نے پروگرام کے لئے ماڈل کو ضروری قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ دین فروش مولوی بھی ہائر کر لئے جاتے ہیں تاکہ اس پروگرام کو اسلامی کہا جا سکے۔ وہ عالم دین کہنے لگے میں تو دو تین سال پہلے تو بہ تائب ہو گیا اور کسی چینل پر نہیں جاتا۔

    معزز قارئین! میں بھی ان پروگرامز کو نہ صرف جائز سمجھتا تھا بلکہ میں نے ان کے حق میں لکھا بھی کہ کیا حرج ہے کہ اداکار اور اداکارائیں اسی بہانے اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کر لیتی ہیں۔ اور یقیناً اچھی باتیں ان پر اثر انداز بھی ہوتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے میرے دل میں کہیں یہ خواہش بھی چھپی ہو کہ روشن خیالوں اور دنیا داروں سے میں خوب داد پاﺅں گا۔ جہالت کے پا س حق سے زیادہ دلیلیں ہوتی ہیں۔ مگر اخلاص اور سچائی نہیں ہوتی۔ اسد اعوان کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھ کر میں چونک اٹھا اور حقیقت ذہین نشین ہوئی کہ نہیں بھئی یہ تو ہمیں شوگر کوٹڈ زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ واقعی ایسا ہے کہ ہماری عبادات کے تقدس کو برباد کرنے کا پروگرام ہے کہ ہماری مذہبی روایات و اقدار کی روح مار دی جائے۔ یہ شیطان ہی ہے جو اپنے حیلوں اور بہانوں سے ہماری خواہشات پر ڈھلے ہوئے کاموں کو دین بنا دیتا ہے۔ وہ گناہ کے کاموں کونہایت دلفریب اور خوب صورت بنا دیتا ہے مثلاً اچھے اچھے شاعر اپنے تئیں کئی گانوں کو مشرف بہ نعت کرتے رہے کہ گانوں کی دھنوں پر نعتیں کہتے رہے۔ اللہ معاف کرے ،۔ نعت سن کر دھیان فلم کے سین پر چلا جاتا ہے گانے والے کی طرف۔
    کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ٹی وی کی لغویات سنتے ہوئے روزہ اچھی طرح گزر جاتا ہے حالانکہ روزہ انہی شیطانی کاموں سے بچنے کا نام ہے وگرنہ اللہ کو ہمارے بھوکا رکھنے سے کیا مطلب، روزہ اللہ کے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ کے پاس ہے بلکہ وہ خود اس کا اجر دے گا۔ روزہ سحری سے افطار تک عبادت ہی تو ہے بلکہ اس کا اہتمام بھی عبادت ہے۔ یہ مہینہ اللہ کے لئے سر نڈر کرنے اور خود سپردگی کا نام ہے۔ چاہیے تو یہ کہ سحری سے پہلے تلاوت کی جائے ، افطار کے بعد تراویح کی فکر کی جائے ، یہ مہینہ کھیل تماشہ دیکھنے کا تو نہیں۔ روزہ محسوس کرنے کا نام ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا نام۔ مجھے تو اب جاکے احساس ہوا کہ اللہ نے مکہ کے پہاڑ اس قدر بنجر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔
    اللہ توجہ چاہتا ہے وگرنہ وہ بہت بے نیاز ہے اتنا بے نیاز ہے کہ بندہ سراسر زنگ ہو جاتا ہے، دل سیاہ ہو جاتا ہے اور عقل کے در بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی توجہ ہی تو روشنی ہے۔ سب کچھ انسان پر عیاں کر دیتی ہے۔ شرط وہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، طلب پیدا کی جائے اور دامن وا کیا جائے۔ جس طرح کے میلے ٹھیلے ٹی وی پر ہو رہے ہیں اللہ تو انسان کو ویسے ہی بھول جاتا ہے۔ وہاں تو اپنی خواہشات کو جو س پلایا جارہا ہوتا ہے۔ اب بھی وقت ہے میڈیا مالکان سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ کس کاسٹ پر کام کررہے ہیں۔ ان علمائے دین کو تو ضرور سوچنا چاہیے جو چند ٹکوں، شہرت یا پھر دل پشوری کے لئے ان پروگراموں میں جا بیٹھتے ہیں جہاں حضور کریم کے دین کو مسخ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ جہاں پرلے درجے کے جاہل اور فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے دینی مسائل بتا رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات مفتی کے منصب پر آن بیٹھتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم پیمرا کا بھی کوئی اس میں عمل دخل ہے کہ نہیں ۔ چلیے اگر اخلاقیات کا ہی وہ کچھ خیال کریں تو کوئی لائحہ عمل وہ بنا سکتے ہیں ۔ سب رنگینیوں میں گم ہیں اس لئے روزہ داروں ہی کو کچھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عظیم عمل کی حفاظت کریں۔ رسول پاک نے جبرائیل ؑ کی ایک دعا پر کہ جس کو رمضان شریف ملے وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، اس پر لعنت ہو، آمین کہی تھی۔ برکتوں والے اس مہینے کو قیمتی بنائیں اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں۔ سچ کہا ان عالم دین نے سحر اور افطار کے وقت جو غل غپاڑا ہوتا ہے ایسے میں اللہ کی برکتیں اوuر رحمتیں کہاں اتریں گی۔ ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا ان دو ایک اینکرز کو سلام جنہوں نے اپنے پروگرام میں ایسی فضولیات کو شامل کرنے سے انکار کردیا ۔لئیق احمد بھی انہی میں سے ایک ہیں۔​
     
  23. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بعض قصے بہت شاندار اور دلفریب اور ہوتے ہیں ۔ تاریخ اسلامی ایثار و بے نفسی کی ایسی لازوال داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ آیئے ایک ایسے ہی قصے پر نظر ڈالتے ہیں ۔ مسلمانوں میں مساجد کی تعمیر کا ذوق و شوق ہر دور میں موجود رہا ہے ۔ ایک اسلامی معاشرے میں ہر بستی کے مکینوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی ادائیگی اور دیگر فلاحی امور کی تکمیل کے لیے اپنی آبادی میں مسجد تعمیر کریں ۔ دمشق کے ایک محلہ ‘‘ مہاجرین ’’ کے مکین بھی ایک دفعہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کر رہے تھے ۔ اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے لوگ دور دور سے عطیات لے کر آرہے تھے ۔ عطیہ پیش کرتے وقت یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیش نظر رہتا تھا :
    " جو کوئی اللہ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر تیار کرے گا"
    ایک خاتون بھی تعمیر مسجد میں حصہ لینے کے لیے اپنا عطیہ لے کر حاضر ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی ۔جس میں سونے کی پچاس اشرفیاں تھیں ۔ اہل محلہ میں سے کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا ۔ خاتون نے تھیلی مسجد بنانے والوں کے حوالے کی اور جلدی سے واپسی کے لیے چل دی ۔ انہوں نے آواز دی : محترمہ ! اپنا نام تو بتا دیں تا کہ آپ کے نام کی رسید کاٹی جا سکے ، مگر خاتون کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان یاد تھا ۔
    " یعنی سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی روز قیامت اپنے عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا ۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں میں ایسے شخص کا بھی ذکر فرمایا کہ جو اللہ کو راضی کرنے کے لیے کوئی صدقہ کرے اور اسے لوگوں سے اس قدر خفیہ رکھے کہ بائیں ہاتھ تک کو پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا ہے ۔"
    چنانچہ خاتون نے کہا : میں جس کی خاطر یہ رقم دے رہی ہوں اسے میرا نام اچھی طرح معلوم ہے ۔ مجھے کسی رسید کی ضرورت نہیں ۔ یہ کہا اور نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔
    -----------
    سنہری کرنیں ​
     
  24. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔
    ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔
    اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔
    تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔
    ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:
    ”جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔“
    معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:
    ”میرے اﷲ! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔“
    روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
    ”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے
    ، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“
    ”میرے اﷲ! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"
    "اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جائے اور بہترین اور صرف اﷲ کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے.....میرے اﷲ! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے.​
     
  25. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
    ''گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبہ حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر ریگزین کےگتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ہی ریٹ بھی لکھےہوئے ہیں۔
    اور اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں، تو میری طرف سے لے لینا, اجازت ہے!
    واللہ خیرالرازقین!
    ادھر اُدھر دیکھا، پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھے، میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہواور پھر شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا۔افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی داڑھی آدھی کالی آدھی سفید ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وه ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور بولا"صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا ۔"
    نام پوچھا تو بولا خادم حسین
    پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
    چائے آئی، کہنے لگا "پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے، میرا کوئی بال بچہ نہیں، بیوی مر گئی ہے، صرف میں ہوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اس لئے مجھے ہروقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے"
    اک دن میں نے اماں کے پاؤں دباتے ھوئے بڑی نرمی لجالت سے کہا، "اماں! تیری تیمار داری کو تو بڑا جی کرتا ہے. پر جیب میں کچھ نہیں تو مجھے کمرے سے ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے، تُو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی بتا میں کیا کروں؟ "
    اب کیا غیب سے کھانا اترے گا ؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں! یہ سن کر اماں نے ہانپتے کانپتے اٹھنے کی کوشش کی, میں نے تکیہ اونچا کر کے اس کو بٹھایا ,ٹیک لگوائی، انھوں نے جھریوں والا چہره اٹھایا اپنے کمزور ہاتھوں کا پیالا بنا یا، اور نہ جانے رب العالمین سے کیا بات کی، پهر بولی " تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا"
    ، میں نے کہا " اماں کیا بات کرتی ھے, وہاں چھوڑ آؤں گا تو کوئی چور اچکا سب کچھ لے جائے گا، آجکل کون لحاظ کرتا ھے؟ بنا مالک کے کون خریدار آئے گا؟"
    کہنے لگی "تو فجر کو ریڑھی پھلوں سے بھر کرچھوڑ کر آجا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، اگر تیرا روپیہ گیا تو یہ خالدہ ثریا الله سے پائی پائی وصول کر لے گی".
    "ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی!صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتاھے، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ کر رکھ گئی "اماں کے لیے۔"
    اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کھجور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل بیچنے کے لئے، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، اور بیچ باچ جاتا ہے، بھائی! وه سوھنا رب اک تو رازق ھے، اوپر سے ریٹیلر بھی ھے، اللہ اللہ
    آخر میں مجھے اپنے بچوں سے کہنا ھے اگر آپ فارغ ہوں اور اپنے والدین کو کام کرتے دیکھیں تو فورأ اٹھ کر انکی مدد کریں اور انہیں کہیں "امی جان!
    ابا جان! "لائیے میں آپکی مدد کرتا / کرتی ھوں"
    پهر دیکهیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں کیسے تمھارے قدم چومتی ہے! انشاءالله!
     
  26. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے کہ ایک دفعہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ راستہ میں ایک قوم سے ملاقات ہوئی،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا:
    تم کون ہوِ؟'
    کہنے لگے ہم مسلمان ہیں۔یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک خاتون بیٹھی چولہا سلگا رہی تھی،اس کے قریب اس کا ننھا بچہ بھی تھا،جب آگ خوب جل اٹھی تو وہ بچے کولے کر رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور کہنے لگے؛
    آپ اﷲ کے رسول ہیں؟
    سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛"اں میں اﷲ کا رسول ہوں"۔
    پھر بولی میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔کیا ایک ماں جس قدر مہربان ہے اﷲ تعالی اپنے بندے پر اس سے زیادہ مہربان نہیں؟نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا؛
    کیوں نہیں بلاشبہ تو درست کہتی ہے۔اس نے کہا اے اﷲ کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پھر ماں اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی تواﷲ اپنے بندے کو آگ میں کیسے ڈالے گا؟اس صحرانشین صحابیہ رضی اﷲ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر سخت رقت طاری ہوگئی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رونے لگے پھرآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا:
    "اﷲ اپنے بندے کو عذاب میں نہیں ڈالے گا جو اﷲ کی نافرمانی پر ڈٹا رہے اور اس کو ایک نہیں مانتا﴿اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتاہے﴾"
    ابن ماجہ​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حیران کن واقعہ
    اب ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ ذکر کیا جس نے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیاتھا۔ اس نے گواہ مانگا تو قرض طلب کرنے والے نے جواب دیا: اﷲ بطور گواہ کافی ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ کوئی ضامن لے کر آؤ۔ قرض خواہ نے کہا کہ اﷲ بطور ضامن کافی ہے۔ دوسرے نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔چنانچہ ایک متعین مدت کے لئے اسے قرض دے دیا۔ وہ شخص سمندر پار تجارت کے لئے نکل گیا۔ متعینہ مدت پر قرض کی ادائیگی کی خاطر واپس پہنچنے کے لئے کشتی تلاش کی تو اسے کوئی کشتی نہ مل سکی۔ بالآخر اس نے ایک لکڑی لی ، اس کے اندر سوراخ کیا پھر اس میں ایک ہزار دینار اور جس سے قرض لیا قرض لیا تھا اس کے نام ایک خط رکھ کر اسے بند کردیا۔
    پھر سمندر کے پاس آیا اور یہ دعا کی: اے اﷲ ! تو یقینا جانتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے ، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا کہ اﷲ بطور ضامن کافی ہے چنانچہ وہ تیرے نام پر راضی ہوگیا پھر اس نے گواہ طلب کئے تو میں نے کہا: اﷲ بطور گواہ کافی ہے پس وہ تیر ی گواہی پر راضی ہوگیا۔ اے اﷲ! میں نے اس کی رقم اس تک پہنچانے کے لئے کشتی کی تلاش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مجھے کشتی نہیں مل سکی۔ اے اﷲ ! اب یہ مال میں تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی دریا میں ڈال دی۔ وہ لکڑی سمندر میں ڈوب گئی اور یہ شخص واپس پلٹ گیا۔ اس کے بعد بھی یہ شخص اس شہر تک پہنچنے کے لئے کشتی کی تلاش میں لگارہا۔
    دوسری طرف وہ شخص جس نے قرض دیا تھا اس تلاش میں نکلا کہ شاید کوئی کشتی اس کا مال لے کر آئی ہو۔ اچانک اسے ایک لکڑی نظر آئی جسے اس نے اپنے گھر میں بطور ایندھن استعمال کے لئے لے لیا۔ یہ وہی لکڑی تھی جس میں مال رکھ کر اس شخص نے بھیجا تھا ۔ جب گھر پہنچ کر اسے چیرا تو مال کے ساتھ ایک خط بھی ملا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ شخص حاضر ہوا جس نے قرض لئے تھے اور ایک ہزار دینار پیش کرنے لگا۔ ساتھ ہی معذرت کے ساتھ کہنے لگا : اﷲ کی قسم! میں آپ کا مال آپ تک پہنچانے کے لئے مسلسل کشتی کی تلاش میں لگارہا لیکن آج سے پہلے مجھے کوئی کشتی نہ مل سکی۔دوسرے نے کہا : کیا تم نے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کو بتلارہا ہوں کہ آج آنے سے پہلے تک مجھے کوئی کشتی نہ مل سکی۔ دوسرے نے جواب دیا کہ اﷲ تعالی نے آپ کی طرف سے مال ادا کردیا ہے۔ آپ نے لکڑی میں جو رکھ کر بھیجا تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ اب آپ اپنا یہ ایک ہزار لے کرجو ابھی اپنے ساتھ لائے ہیں بخیروعافیت واپس جائیے۔
    صحیح بخاری، کتاب الحوالات، باب الکفالۃ فی القرض والدیون
     
  28. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست
    میرے آنسو میرے قابو میں نہیں رہے اب
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بےشک اللہ معاف کرنے والا ہے بس ہم معافی مانگنے والے بن جائیں
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ نے درست فرمایا میں بہت حساس طبیعت کی ہوں
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں