1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کچھ جقیقت کچھ کہانی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏18 دسمبر 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    تاتاری فتح کے بعد، ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟
    جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ دخترِ ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔
    عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
    شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ
    اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
    عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
    شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
    عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
    شہزادی: تو کیا اللہ نے آچ ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
    عالم: یقیناً کردیا ہے-
    شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
    عالم: نہیں
    شہزادی: کیسے؟
    عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
    شہزادی: ہاں دیکھا ہے
    عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ
    کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
    شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
    عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی
    طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو
    تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
    شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
    عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
    شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔

    عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں؛
    جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے
    رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا​
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ایک شخص نےاپنے بچوں کے لئے دمشق کے بازارمیں ایک درھم کی ایک خوبصورت رنگین چڑیا خریدی ۔ راستے میں چڑیا نے اس شخص سے کہا ؛ اے شخص مجھ سے تجھے کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا ہاں اگر تو مجھے آزاد کر دے تو تجھے تین نصیحتیں کروں گی اور ہر نصیحت کی اہمیت وقیمت ایک خزانے کے برابر ہے ۔ دو نصیحت تو ابھی کئے دیتی ہوں کہ جب تیرے قبضے میں ہوں اور تیسری نصیحت اس وقت کروں گی جب تو مجھے آزاد کردے گا اس وقت درخت کی شاخ پر بیٹھ کر کروں گی ۔ شخص نے سوچا ایک ایسی چڑیا کی زبانی ایک درھم میں تین نصیحتیں جس نے پوری دنیا دیکھی ہے اور ہر جگہ کا جس نے مشاہدہ کیا ہے گھاٹے کا سودا نہيں ہے ۔ اس نے چڑیا کی بات مان لی اوراس سے بولا چل اپنی نصیحت بیان کر۔
    چڑیا نے کہا کہ : پہلی نصیحت یہ ہے کہ اگر کوئي نعمت تیرے ہاتھ سے چلی جائے تو اس کا افسوس مت کر؛ کیونکہ اگر حقیقت میں وہ نعمت دائمی اور ہمیشہ تیرے پاس رہنے والی ہوتی تو کبھی ضائع نہ جاتی ۔
    دوسری نصیحت یہ ہے کہ اگرکسی نے تجھ سے کوئي محال اور ناممکن باتیں کرے تو اس پر ہرگز توجہ نہ دے اور اس کو نظرانداز کر دے ۔
    مرد نے جب یہ دو نصیحتیں سنیں تو اس نے اپنے وعدے کے مطابق چڑیا کو آزاد کر دیا ۔ چھوٹی چڑیا فورا اڑ گئی اور درخت کی شاخ پرجا بیٹھی ۔
    اب جبکہ چڑیا اس کے قبضے سے آزاد ہوچکی تھی تو وہ شاخ پر بیٹھ کرمسکرائي ۔ مرد نے کہا کہ اے چڑیا اب تیسری نصیحت بھی کردے !
    چڑیا نے کہا : کیسی نصیحت !؟
    اے بیوقوف انسان ، تو نے اپنا نقصان کیا ۔ میرے پیٹ میں دو قیمتی موتیاں ہیں جن کا وزن بیس بیس مثقال ہے میں نے تجھے جھانسا دیا اور تیرے قبضے سے آ‌زاد ہو گئی اگر تجھے معلوم ہوتا کہ میرے پیٹ میں کتنے قیمتی موتی ہيں تو تو مجھے کسی بھی قیمت پرآزاد نہ کرتا ۔
    اب یہ سن کر تو مرد کو بہت ہی غصہ آیا اسےغصے میں یہ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے ؟ وہ مارے افسوس کے اپنا ہاتھ مل رہا تھا اور چڑیا کو برا بھلا کہے جا رہا تھا ۔ بہرحال نے مرتا نہ تو کرتا کیا
    مرد نے چڑیا سے کہا خیر اب جب تو نے مجھے ان دو قیمتی موتیوں سے محروم کرہی دیا ہے تو تیسری نصیحت تو کرہی دے ۔
    چڑیا بولی : اے مرد ! ہاں ! ميں نے تجھ سے کہا تھا کہ اگر نعمت تیرے ہاتھ سے چلی جائے تو اس کا غم مت کرنا لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ تو مجھے رہا کرنے کے بعد کف افسوس مل رہا ہے تجھے اس بات کا صدمہ ہے کہ کیوں مجھے چھوڑدیا ۔ میں نے تجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئي محال اور ناممکن بات کرے تو اس پر توجہ مت دینا لیکن تو نے تو ابھی اسی وقت یہ بات مان لی کہ میرے شکم میں چالیس مثقال کے دوموتی ہيں ۔آخرخود میرا وزن کتنا ہے جو میں چالیس مثقال وزن اپنے شکم میں لے کراڑ سکوں گی ۔ پس معلوم ہوا کہ تو ان دونصیحتوں کے بھی لائق نہيں تھا اس لئے اب تیسری نصیحت بھی تجھے نہيں کروں گی کیونکہ تو اس کی بھی قدر نہيں کرے گا ۔
    چڑیا یہ کہہ کرہوا فضا میں تیزی کے ساتھ اڑی اورمرد کی نظروں سے اوجھل ہوگئي
     
    ناصر إقبال، زنیرہ عقیل اور چھٹا انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا بہتر تھا -
    "ماڈل کالونی چلو گے -"
    " کتنے پیسے لو گے -"
    " جو دل کرے دے دینا سرجی "
    " پھر بھی "
    " سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا - میں ایک جاہل آدمی ہوں -پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے , وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے - توکل اسی کا نام ہے "
    اس کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں - ٹیکسی ابھی تھوڑا آگے گئی کہ مسجد دکھائی دی -
    " سر جی - نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں " اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی
    " آپ نماز ادا کریں گے "
    " کس مسلک کی مسجد ہے یہ " میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا -
    " باؤ جی ! مسلک سے کیا لینا دینا - اصل بات سجدے کی ہے - الله کے سامنے جھکنے کی ہے - یہ الله کا گھر ہے"
    میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا - نماز سے فارغ ہوۓ اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے -
    " سر , آپ نماز با قاعدگی سے ادا کرتے ہیں -
    " کبھی پڑھ لیتا ہوں , کبھی غفلت ہو جاتی ہے " یہی سچ تھا -
    " جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چاہیۓ "
    " معاف کرنا , یہ ذاتی سوال نہیں - اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا - اگر احساس نہیں ہوتا تو --"
    وہ خاموش ہو گیا - اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی -
    " تو کیا " میرا لہجہ بدل گیا -
    " اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں "
    " ہاں بولیں "
    " اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو اپنے آمدن کے وسائل پر غور کریں - اور اپنے الله سے معافی مانگیں , الله آپ سے راضی نہیں "
    ہم منزل پہ آ چکے تھے - میں نے اسکے توکل کی حقیقت جاننے کی لئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا , اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا - میں نے آواز دی , وہ رک گیا -
    " حکم سر جی "
    " تم ان پیسوں میں خوش ہو "
    " جی , مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا - الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا "
    میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے - میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا - وہ مسکرایا -
    " سر جی , دیکھا آپ نے - میرا حق پچاس روپے تھا , اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا "
    وہ چلا گیا , میرے ایمان کو جھنجھوڑ کر....
     
    ناصر إقبال اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﮔﺎﺭﻟﯿﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
    ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
    ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﮞﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﯿﮉﯼ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﯿﮉﯼ ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
    ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ ﺟﯿﮉﯼ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
    ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
    ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " ﺟﯿﮉﯼ ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
    ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
    ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯿﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
    ﺟﯿﮉﯼ ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎﻓﮩﻮﺗﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯿﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺟﯿﮉﯼ ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ ﺟﯿﮉﯼ ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﮐﻮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻟﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ": ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - ﮈﺍﮐﮍ ﺟﯿﮉﯼ ﺍﻟﻔﺮﯾﮉ " ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺴﺰ ﺗﮭﺎﻣﺴﻦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﯿﮉﯼ ﮐﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﯽ ﺳﺮﭘﺮﺍﺋﺰ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮎ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ ﭼﺮﭺ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﭼﺮﭺ ﮐﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺟﯿﮉﯼ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﮉﯼ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ --------------------------------------------"!!ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، ﺟﯿﮉﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ
     
  5. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عبد اللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ اور عشق الٰہی:
    ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺫﻭﺍﻟﺒﺠﺎﺩﯾﻦ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ"- ﺟﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ ﻭﻟﺴﻼﻡ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﯼ ﭼﮭﭙﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺎ،ﻭﺁﭘﺲ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﺌﮯ۔ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﺗﮭﮯ،ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻭﮦﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭼﮭﭗ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯﺗﻮﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻠﮯ،ﻣﮕﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺗﮯ....ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ،ﺑﺘﺎﻭٴ ﺑﮭﺊ !ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ؟ "ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ۔" ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ! ﺍﺏ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩﻭ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ؛ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ، ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ'': ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺩﯾﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﻣﺎﺭﺍ ﭘﯿﭩﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﻟﺌﮯ۔ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﭙﮍﺍ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﻣﺎﮞ ﺁﺧﺮ ﻣﺎﮞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.... ﺷﻮﮨﺮﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻇﺎﮨﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﯽ ،ﻟﯿﮑﻦ ! ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺘﺮ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﯿﻨﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺣﺼﮯ ﮐﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺳﺘﺮ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯽ۔ ''ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ '' ﺫﻭﺍﻟﺒﺠﺎﺩﯾﻦ '' ﯾﻌﻨﯽ ﺩﻭ ﭼﺎﺩﺭﻭﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﮯ....
    ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺪﻡ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ! ﺍﮮ ﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻮﮌ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺍﺏ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ ، ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺻﻔﺎ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮐﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔
    ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺑﮍﯼ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻟﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﺍﻭٴ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ،ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﺍﻟﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﯿﻔﯿﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺬﺏ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﺘﮯ...ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ نے ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﮈﺍﻧﭩﺎﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﻋﻤﺮ(ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ) ! ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ، ﯾﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﺧﻼﺹ ﺳﮯ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ...... ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻏﺰﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺑﺨﺎﺭ ﺁﮔﯿﺎ، ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ، ﯾﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﭼﮩﺮﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ! ﮔﻮﺩ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﻭﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ.... ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﻣﺒﺎﺭﮎ عطا فرماﺋﯽ... ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ! ﻭﺍﮦ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺩﺍﻧﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺑﺪﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﻧﻨﮕﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﮐﻤﻠﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ....ﺧﻮﺩ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ '' : ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﺟﺎ۔''
    ﯾﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﻪ ﻭﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﮯ،ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ'' ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ؛ ﮐﺎﺵ ! ﺁﺝ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﯿﺖ ﮨﻮﺗﯽ'' ....
    ﺑﻴﺸﻚ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﺎﮞ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﺪﻟﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ...ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﻭﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
     
  6. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم شب معراج میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے مصر کے قریب ایک مقام سے گزرے تو انہیں نہایت ہی اعلیٰ اور زبردست خوشبو آنے لگی ۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟
    جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی باندی مشاطہ اور اس کی اولاد کی قبر سے آرہی ہے
    پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کا قصہ بیان کیا کہ مشاطہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ تھی اور وہ خفیہ طور پر اسلام لا چکی تھی ایک دن فرعون کی لڑکی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی ۔ وہ اٹھانے لگی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ اس پر شہزادی نے کہا کہ تو نے آج عجیب کلمہ بولا رب تو میرے باپ فرعون ہی ہیں تو پھر تم نے یہ کس کا نام لیا ہے؟
    اس نے جواب دیا فرعون رب نہیں بلکہ رب وہ اللہ ہے جو مجھے اور تجھے اور خود فرعون کو روزی دیتا ہے ۔
    شہزادی نے کہا اچھا تو میرے باپ کے سوا کسی اورکو اپنا رب مانتی ہے ؟
    اس نے جواب دیا ہاں ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ ،سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
    شہزادی نے اپنے باپ سے کہلوایا ۔وہ سخت غضبناک ہوا اور اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا اور کہا،کیا تو میرے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟
    اس نے کہا کہ میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بلندیوں اور بزرگی والا ہے ۔
    فرعون نے اسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے ،اس کو خوب تپایا جائے اور جب بالکل آگ جیسی ہوجائے تو اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈال دیا جائے ۔آخر میں خود اسے بھی اسی میں ڈال دیا جائے ۔
    چناچہ وہ گرم کی گئی ۔جب آگ جیسی ہو گئی تو حکم دیا کہ اس کے بچے کو ایک ایک کر کے اس میں ڈالنا شروع کرو ۔
    اس نے کہا بادشاہ ایک درخواست میری منظور کر،وہ یہ کہ میری اور میرے ان بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈال دینا ۔
    اس نے کہا اچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں ۔اس لئے یہ منظور ہے
    اسکے دونوں بچے اسکی آنکھوں کے سامنے اس میں ڈال دئیے گئے اور وہ فورا" جل کر راکھ ہو گئے پھر سب سے چھوٹے کی باری آئی جو ماں کی چھاتی سے لگا ہوا دودھ پی رہا تھا ۔
    فرعون کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا تو اس نیک بندی کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اسی وقت زبان دے دی اور اس نے با آواز بلند کہا اماں جان ! افسوس نہ کر ،اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو ۔حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے ۔
    چنانچہ انہیں صبر آگیا ۔اس بچے کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا ۔ اور آخر میں ان کی ماں کو بھی اسی آگ میں جلا کر مار دیا یہ خوشبو کی مہکیں اسی کے جنتی محل سے آرہی ہیں ۔
    آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے ساتھ ہی بیان فرمایا کہ چار چھوٹے بچوں نے گہوارے ہی میں بات چیت کی ۔ایک تو یہی بچہ اور ایک وہ بچہ جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی شہادت دی تھی ،اور ایک وہ بچہ جس نے حضرت جریج ولی اللہ کی پاکدامنی کی شہادت دی تھی ،اور ایک حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تھے ۔

    مسند احمد(1/309۔310) صحیح (5/31)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
    لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
    شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"

    مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
    "میں ہوں جنید بغدادی۔"
    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
    بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
    پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔
    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    مصری لطیفہ بنانے کے ماہر ہیں - فوجی حکومت کے بعد جب پریس پر پابندیاں عائد هو گئیں اور لوگوں کے لئے باقاعده شکل میں اظہار خیال کا موقع نہیں رہا تو مصر کے لوگ لطیفوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے -
    مصر کے ایک صاحب نے اس سلسلہ میں ایک لطیفہ بتایا جو 1965 کی جنگ کے بعد بنایا گیا تها - 1965 کی جنگ میں اسرائیل کے مقابلہ میں مصر کو شکست هوئی تهی - مصریوں نے لطیفہ بنایا کہ ایک بار مصر میں اسرائیل کی سلطنت قائم هو گئی - جمال عبدالناصر اور جنرل عبدالحکیم کے لئے کوئی کام نہ رہا - چنانچہ دونوں نے مل کر ایک هوٹل کهول دیا -
    ایک روز جنرل موشے دایان قاہره کی سڑکوں پر گهومتا هوا مزکوره هوٹل میں آ گیا - اس نے هوٹل میں داخل هو کر مخ (بهیجہ کا سینڈوچ ) مانگا - ناصر نے اس سے کہا :
    ما عندنا ش مخ ، عندنا لسان بس - ہمارے پاس بهیجہ ( کا سینڈوچ ) نہیں ہمارے پاس صرف زبان ( کا سینڈوچ ) ہے -
    یہ لطیفہ موجوده زمانہ میں پوری مسلم دنیا پر صادق آتا ہے - موجوده زمانہ میں ہر مسلم ملک میں کثرت سے قائدین پیدا هوئے - مگر ہر ایک بس صاحب لسان تها ، صاحب فہم ان میں سے کوئی بهی نہیں - اور بلاشبہہ موجوده زمانہ میں مسلمانوں کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے -
    ڈائری 3 جنوری 1984
    مولانا وحیدالدین خان
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

    سیٹھ محمد عمر/ رام جی لال گپتا
    میں لکھنؤ کے قریب ایک قصبے کے تاجر خاندان میں 6 دسمبر 1939ء میں پیدا ہوا۔ گپتا ہماری گوت ہے۔ میرے پتا جی کریانے کی تھوک کی دکان کرتے تھے۔ ہماری چھٹی پیڑھی سے ہر ایک کے یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے۔ میں اپنے پتا جی (والد صاحب) کا اکیلا بیٹا تھا۔ نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا۔ میرا نام رام جی لال گپتا میرے پتا جی نے رکھا۔
    گھر کا ماحول بہت دھارمک (مذہبی) تھا، ہمارے پتا جی (والد صاحب) ضلع کے بی جے پی، جو پہلے جن سنگھ تھی، کے ذمہ دار تھے۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔ 1986 ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر بابری مسجد کی مسماری کے گھناؤنے جرم تک اس پوری تحریک میں آخری درجے کے جنون کے ساتھ شریک رہا۔ میری شادی ایک بہت بھلے اور سیکولر خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے ان کے گھر والوں کے بالکل گھریلو تعلقات تھے۔ میری بارات گئی تو سارے کھانے اور شادی کا انتظام ہمارے سسر کے ایک دوست خان صاحب نے کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے وہاں انتظام میں تھے، جو ہم لوگوں کو بہت برا لگا تھا اور میں نے ایک بار تو کھانا کھانے ہی سے انکار کر دیا تھا کہ کھانے میں مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے، ہم نہیں کھائیں گے، مگر بعد میں میرے پتا جی (والد صاحب) کے ایک دوست تھے پنڈت جی۔ انھوں نے سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ بڑی کراہت کے ساتھ بات نہ بڑھانے کے لیے میں نے کھانا کھا لیا۔ 1952ء میں میری شادی ہوئی تھی۔ نو سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نو سال کے بعد مالک نے 1961 ء میں ایک بیٹا دیا۔ اس کا نام میں نے یوگیش رکھا۔ اس کو میں نے پڑھایا اور اچھے اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے کہ پارٹی اور قوم کے نام سے اس کو ارپت (وقف) کروں گا، اس کو سماج شاستر، علم سماجیات (Sociology) میں پی ایچ ڈی کرائی۔ شروع سے آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف مائل رہتا۔ فرقہ وارانہ مزاج سے اس کو الرجی تھی۔ مجھ سے، بہت ادب کرنے کے باوجود، اس سلسلے میں بحث کر لیتا تھا۔ دو بار وہ ایک ایک ہفتے کے لیے میرے رام مندر تحریک میں جڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں نے فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔
    مسلمانوں کو میں اس ملک پر قبضہ کرنے والا مانتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں نے رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنائی ہے۔ میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے لیے میں نے تن من دھن سب کچھ لگایا۔ 1987ء سے لے کر 2005 ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے والے کارسیوکوں پر اور وشوا ہندو پریشد کو چندے میں کل ملا کر 25 لاکھ روپے اپنی ذاتی کمائی سے خرچ کیے۔ میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے تھے۔ یوگیش کہتا تھا کہ اس دیش پر تین طرح کے لوگ آ کر باہر سے راج کرتے آئے ہیں۔ ایک تو آرین آئے، انھوں نے اس دیش میں آ کر ظلم کیا۔ یہاں کے شودروں کو داس بنایا، اور اپنی ساکھ بنائی۔ دیش کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ آخری درجے کے اتیا چار (ظلم) کیے، کتنے لوگوں کو مارا، قتل کیا، کتنے لوگوں کو پھانسی لگائی۔
    دوسرے نمبر پر مسلمان آئے۔ انھوں نے اس دیش (ملک) کو اپنا دیش (ملک) سمجھ کر دیش کو ترقی دی۔ یہاں لال قلعہ بنایا۔ تاج محل جیسا دیش کے گورو کا پاتر (قابل فخر عمارت) بنائی۔ یہاں کے لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا۔ بولنا سکھایا۔ یہاں پر سڑکیں بنوائیں۔ سرائیں بنوائیں۔ خسرہ کھتونی، ڈاک کا نظام اور آب پاشی کا نظام بنایا۔ نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے ایک بڑا بھارت بنایا۔ ایک ہزار سال تک الپ سنکھیا (اقلیت) میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی۔ وہ مجھے تاریخ کے حوالوں سے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی، وہ نہ بدلی۔ تیسرے نمبر پر انگریز آئے وہ یہاں سے سب کچھ لوٹ کر چلتے بنے۔
    30 دسمبر 1990 کی کارسیوا میں بھی میں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 5دسمبر 1992 کو تو میں خود ایودھیا گیا۔ میرے ذمے ایک پوری ٹیم کی کمان تھی۔ بابری مسجد گرا دی گئی تو میں نے گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی۔ میرا بیٹا یوگیش گھر سے ناراض ہو کر چلا گیا۔ میں نے خوب دھوم دھام سے جیت کی تقریب منائی۔ رام مندر کے بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے ایک عجیب سا ڈر تھا، جو میرے دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے والی ہے۔ 6 دسمبر 1993 آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے پر تھے، شارٹ سرکٹ ہونے سے دونوں میں آگ لگ گئی۔ اور تقریباً دس لاکھ روپے سے زیادہ کا مال جل گیا، اس کے بعد تو میں اور بھی زیادہ سہم گیا۔ ہر 6 دسمبر کو ہمارا پورا پریوار (خاندان) سہما سا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا۔ 6 دسمبر 2005 کو یوگیش ایک کام کے لیے لکھنؤ جا رہا تھا، اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے۔ اس کا نو سال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے۔ یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ کاروبار چھوڑ کر در بدر مارا پھرتا۔ میری بیوی مجھے بہت سے مولوی لوگوں کو دکھانے لے گئی۔ ہر دوئی میں بڑے مولوی صاحب کے مدرسے میں لے گئی۔ وہاں پر بہار کے ایک قاری صاحب ہیں، وہاں کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستے پر ہوں، مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔
    میں نے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک چھوٹی کتاب پڑھی، اس کے بعد ”اسلام کیا ہے؟” پڑھی۔ ”اسلام ایک پریچے” شیخ علی میاں جی کی پڑھی۔ 5 دسمبر 2006 کو مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کی چھوٹی سی کتاب ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں” ایک لڑکے نے لا کر دی۔ 6 دسمبر کی تاریخ اگلے روز تھی۔ میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا۔ اس کتاب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرے سے جان بچ سکتی ہے اور میں 5 دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے پاس گیا، مجھے مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے رہے، کوئی آدمی مجھے مسلمان کرنے کو تیار نہ ہوا۔
    میں نے 5 دسمبر 2006 کو مسلمان ہونے کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر اس سال 22 جنوری تک مجھے کوئی مسلمان کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مولوی کلیم صاحب کو ایک لڑکے نے جو ہمارے یہاں سے جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو رام جنم بھومی تحریک میں بہت خرچ کرتے تھے، مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو مولوی صاحب نے محمد عامر ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجد کی مسماری میں سب سے پہلے کدال چلانے والے تھے) بھیجا، وہ پتا ٹھیک نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تین دن تک دھکے کھاتے رہے۔ تین دن کے بعد 22 جنوری کو مجھے ملے اور انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مولوی صاحب کا سلام بھی پہنچایا۔ صبح سے شام تک وہ مولوی صاحب سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر مولوی صاحب مہاراشٹر کے سفر پر تھے۔ شام کو کسی ساتھی کے فون پر بڑی مشکل سے بات ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سیٹھ جی سے ملاقات ہو گئی ہے اور الحمد للہ! انھوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں۔ مولوی صاحب نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔
    میں نے جب مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت! مجھ ظالم نے اپنے پیارے مالک کے گھر کو ڈھانے اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے میں اپنی کمائی سے 25 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، اب میں نے اس گناہ کی معافی کے لیے ارادہ کیا ہے کہ 25 لاکھ روپے سے ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ جب اس کریم مالک نے اپنے گھر کو گرانے کو میرے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے والوں کی فہرست سے نکال کر اپنا گھر بنانے والوں میں لکھ لیں۔
    میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ میرا کوئی اسلامی نام بھی رکھ دیجیے۔ مولوی صاحب نے فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی، اور میرا نام محمد عمر رکھا۔ میرے مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا۔ اگر میرا رواں رواں، میری جان، میرا مال سب کچھ مالک کے نام پر قربان ہو جائے تو بھی اس مالک کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے کہ میرے مالک نے میرے اتنے بڑے ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔
    میرے مالک کا کرم ہے کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے بھی مسلمان ہو گئے ہیں۔ میں نے الحمد للہ، گھر پر ٹیوشن لگائی ہے۔ ایک بڑے نیک مولوی صاحب مجھے مل گئے ہیں۔ وہ مجھے قرآن بھی پڑھا رہے ہیں، سمجھا بھی رہے ہیں
    مولوی کلیم صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے ہمارے خونی رشتے کے بھائی بابری مسجد کی مسماری میں غلط فہمی میں شریک رہے۔ آپ کو چاہیے کہ ان پر کام کریں۔ ان تک سچائی کو پہنچانے کا ارادہ کریں۔ میں نے اپنی یادداشت سے ایک فہرست بنائی ہے۔ اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں، مگر جتنا دم ہے، وہ تو اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ اس کے بندوں تک پہنچانے میں لگنا چاہیے۔
    میرے یوگیش کا غم مجھے ہر لمحہ ستاتا ہے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے۔ موت تو وقت پر آتی ہے اور بہانہ بھی پہلے سے طے ہے، مگر ایمان کے بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے ظالم اور اسلام دشمن، بلکہ خدا دشمن کے گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو، اسلام کے بغیر مر گیا۔ اس بچے کا حق ادا نہ کرنے کا احساس میرے دل کا ایسا زخم ہے، جو مجھے کھائے جا رہا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے جوان، بوڑھے موت کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی خبر لیں۔
    ٭
    (بشکریہ ،ماہنامہ’اللہ کی پکار، دہلی’ جولائی 2009)



     
    Last edited: ‏22 دسمبر 2016
  10. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے کچھ مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جن پر اذان کی آواز کوئی اثر نہیں کرتی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلاح وہی پاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے ۔
    آج مختصر سوانح عمری ایک شخص رُونی کی جو سکاٹ لینڈ کا ایک غیر مُسلم رہائشی تھا ۔ اُس کی کبھی کسی مسلمان سے ملاقات بھی نہ ہوئی تھی ۔ اپنی سوانح عمری میں رُونی لکھتے ہیں میں نے زندگی بھرکبھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور نہ کبھی کسی مسلمان سے میری ملاقات ہوئی تھی ۔ میں ترکی میں چھٹیاں گذارنے گیا ۔ وہاں اذان کی آواز سنی جس میں اتنی کشش تھی کہ میں ترکی سے اسکاٹ لینڈ کے شہر اینفرینس پہنچتے ہی ایک مقامی کُتب خانے گیا اور قرآن کریم کا انگریزی ترجمے پر مشتمل نسخہ خریدا ۔ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اس نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے اندر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ میں نے قرآن کریم کو 3 بار مکمل پڑھا اور ہر بار پہلے کی نسبت زیادہ آگاہی حاصل ہوئیمیں نے اسلام کے بارے میں مطالعے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پرنومسلم حضرات کے بارے میں بھی پڑھا جن کےقبول اسلام کا ہر ایک کا اپنا منفرد سفر تھا مگر ان میں جو چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ہر ایک نے اسلام کو شعوری طورپر قبول کیا اور باریک بینی سے مطالعے کے بعد دائرہءِ اسلام میں داخل ہوا
    میں نے انٹرنیٹ پر عربی میں نماز کا طریقہ سیکھا اور قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔ اسلامی موسیقی سُنی۔ موسیقی میری کمزوری تھی ۔ اس لئے اسلامی موسیقی سے بھی بہت محظوظ ہوا ۔ بہر حال اسلام کے بارے میں حقائق تک پہنچنے میں 18 ماہ کا عرصہ لگا ۔ ڈیڑھ سال کے بعد میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا ۔ نماز پنجگانہ شروع کردی ۔ ماہ صیام کے روزے رکھے ۔ حلال وحرام کی تمیزشروع کردی
    میرے محلے میں ایک چھوٹی مسجد بھی ہے ۔ میں مسجد پہنچا ۔ اپنا تعارف کرایا اور اندر داخل ہوگیا ۔ مسجد میں موجود تمام لوگ حیران ہوئے ۔ انہوں نےمجھے اسلام کے بارے میں اہم معلومات پرمبنی کُتب دیں ۔ اب میں اس مسجد کے اہم ارکان میں سے ایک ہوں
     
  11. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    غازی ممتاز حسین قادری شہیدؒ کے حوالے سے چند کھری باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    1 ایک صاحب نے پوچھا : آپ ممتاز قادری کی پھانسی کو جائز سمجھتے ہیں ؟ اور کیا وہ شہید ہے ؟ میں نے کہا : پاکستان کے قانون کے مطابق جائز ہے اور اسلام کے قانون کے مطابق ظلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے قانون کے مطابق شہید ہے اور پاکستان کے قانون کے مطابق دہشتگرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    2 ۔۔۔۔ ایک صاحب کہنے لگے اگر ہر کوئی ملک کا قانون ہاتھ میں لے گا تو کیسے چلے گا؟ کل کوئی اور بھی گستاخی کرے تو پھر لوگ بندوق اُٹھا کر اُسے ماریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو پورا ملک خالی ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا : آپ یہ بتائیے ، تاثیڑ کے قتل کے بعد کسی نےگستاخی کی ؟ کہنے لگا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا تو اطمینان رکھیں آئندہ بھی نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر تاثیڑ کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تو آج ہزاروں گستاخ پیدا ہوچکے ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    3۔۔ ممتاز قادری کا تعلق ایلیٹ فورس سے تھا ، یوں سمجھ لیں ممتاز قادری پولیس والا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور پنجاب پولیس قتل و غارت گری میں مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلے سال عدالت سے بے گناہ قرار دیئے جانے والے 14 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں شہید کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راولپنڈی میں ایک نوجوان کو فائرنگ سے قتل کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ ایک عورت کی عصمت دری سے لے کر ہزاروں واقعات ہوئے مگر کسی نے کسی '' پولسیے '' کو ''ڈنڈا'' بھی نہ مارا ۔۔۔۔ آخر کیوں ؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ پھانسی دی تو قادری کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اس واقعے کا تعلق اسلام سے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں سے تھا ،،،، ہمارے آقا و مولا ﷺ سے تھا ،،، ان کی ناموس سے تھا ،،،،،، اور ریاستی ادارے اسلام کو نماز و مسجد تک محدود کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    4۔۔ علماء خصوصا'' بریلوی مسلک کے علماء کا کردار بہت ہی عجیب رہا ۔۔۔۔۔ الیاس قادری اپنی جھگی سے باہر نہیں آئے ۔۔۔۔ پیر حسنات قادری صاحب وزیرِ حکومت ہونے کے باوجود بھی کچھ نہ کر پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حنیف قریشی ڈر کر پیچھے ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعجاز قادری نے ممتاز قادری کے واقعے کو صرف اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا ۔۔۔۔۔۔۔ تاہم خادم حسین رضوی سمیت کچھ جید بریلوی علماء اور مولانا محمد احمد لدھیانوی ( اہلسنت و الجماعت ) ، مولانا فضل الرحمان ( جے یو آئی ) سمیت کچھ دیوبندی علماء نے '' بیک ڈور '' میں کافی کاوشیں کیں ۔۔۔۔۔۔ دیگر دیوبندی علماء نے صرف '' اخلاقی حمایت '' تک ہی خود کو محدود رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کینیڈین اسلام کے شیخ الاسلام نے تو ممتاز قادری کو قاتل اور باطل قرار دے کر اپنے ہی مسلک میں اتنی بڑی تقسیم کردی کہ ، کانفرنس کا عنوان تو غازی ممتاز کانفرنس ہوتا مگر اس میں نہ غازی ممتاز ہوتا ، نہ سلمان تاثیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بریلوی علماء کی جانب سے اپنے ہی شیخ طاہر کو گالیاں دی گئیں ۔۔ مشرف ، اور دیگر کے تلوے چاٹنے والا '' عالمِ دین '' مولانا عامر لیاقت بھی کچھ نہ کر سکا کیوں کہ اس میں انٹرٹینمنٹ نہیں تھی 5۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دیوبندی علماء اور بریلوی علماء مل بیٹھ کر مشترکہ حکمتِ عملی بنالیتے تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    6۔ خیر ممتاز قادری تو اپنی حقیقی منزل کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کا شکر ہے عزت کی موت یعنی شہادت کی موت پاگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کسی سے بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    7آپ ،مانیں تو بھی قادری شہید ہے نہ مانیں تو بھی
    ، آخر میں 3 پیغامات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔۔ احتجاج کے نام پر مسلمان بھائیوں کی املاک کو نقصان پہنچانے سے بچیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2۔۔ آئیے جیسے مل کے احتجاج کیا ، اسی طرح بریلوی ، دیوبندی اور دیگر مسلکی تقسیموں سے بالاتر ہوکر اچھے شہری ، پاکستانی اور مسلمان بنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3۔۔ اگر فصل اُگانی ہو تو بیج زمین میں ڈالنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے گستاخانِ رسول ﷺ کے خلاف ایک عشاق کی فصل تیار کرنی تھی اس لیے بیج بو دیا

    [​IMG]
     
  12. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    تفسیرِ قرآنی سے منقول ــــ
    حضرت سلمان علیہ السلام کو ایسی بے مثال حکومت اور سلطنت حاصل تھی کے صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی اُن کی حکومت تھی ۔۔۔ مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی

    بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی ملک شام میں جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ
    السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا ٹھیک اسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی مگر عمارت پوری ہونے سے قبل ہی حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ اور آپ نے اپنے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی

    چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی۔ جنات کی طبعیت میں سرکشی غالب تھی۔۔۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فورا کام چھوڑ بیٹھیں اور تعمیر رہ جائے یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت بھی قریب آگیا اور عمارت مکمل نہ ہو سکی تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ الٰہی میری موت جنوں کی جماعت پر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ برابر عمارت کی تکمیل میں مصروف رہیں اور ان سبھوں کو علم غیب کا جو دعویٰ ہے وہ بھی باطل ٹھہر جائے۔
    یہ دعا مانگ کر آپ محرا ب میں داخل ہو گئے اور اپنی عادت کے مطابق اپنی لاٹھی ٹیک کر عبادت میں کھڑے ہو گئے اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی مگر جن مزدور یہ سمجھ کر کہ آپ زندہ کھڑے ہوئےہیں۔برابر کام میں مصروف رہےاور عرصہ دراز تک آپ کا اس حالت میں رہنا جنوں کے گروہ کے لیے کچھ باعث حیرت اس لیے نہیں ہوا کہ وہ با رہا دیکھ چکے تھے کہ آپ ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں کھڑے رہا کرتے تھے۔
    یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کے عصا کو کھا لیا اور عصا گر جانے کے سے آپ کا جسم مبارک زمین پر آگیا اور اس وقت جنوں کی جماعت اور تمام انسانوں کو پتہ چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے۔
    قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہےکہ
    "پھر جب ہم نے ان (حضرت سلیمان ) پر موت کا حکم بھیجا تو جنوں کو ان کی موت دیمک ہی نے بتا ئی جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی پھر جب حضرت سلیمان زمیں پر آگئے تو جناں کی حقیقت کھل گئی اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ اس ذلت کے عذاب میں اتنی دیر تک نہ پڑے رہتے۔" (سورہ سبا) رکوع2 پارہ22
     
  13. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    "ایک واقعہ:ایک سبق"

    امام حرم،امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
    ایک لڑکا تھا،اس کی عمر یہی کوئی نو،دس برس رہی ہوگی۔وہ بھی اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح شریر تھا،بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی.......
    ( یہ وہ دور تھا،جب نہ آج کی طرح بجلی پنکھے تھے،نہ گیس کے چولہے،گھر بھی مٹی کے،چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا،اور نہ اس زمانہ میں دولت کی اس قدر ریل پیل تھی،جو آج دیکھی جارہی ہے )
    ایک دن اس کے گھر مہمان آگئے، اس کی ماں نے اپنے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا،بچہ نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی۔
    اب آپ خود ہی اس ماں کی مشکل کا اندازہ کر سکتے ہیں،غصے کا آنا بھی فطری تھا........
    غصہ سے بھری ماں نے صرف اتنا کہاکہ :
    "جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنادے"
    اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے:
    آپ جانتے ہو کہ یہ شریر لڑکا کون تھا؟
    پھر خود ہی جواب دیتے ہیں:
    وہ شریر لڑکا "میں" تھا،جسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہوا ہے۔
    ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،
    20100 تک کے عالمی سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ امام کعبہ عبد الرحمان السدیس اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔اللہ نے ان کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت عطا کی کہ ان کو اپنے گھر کا امام بنادیا،اب نہ صرف وہ امام کعبہ ہیں، بلکہ حرمین کی نگران کمیٹی کے صدر اور امام اﻷئمة ہیں۔
    ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس یہ واقعہ کئی بار سنا چکے ہیں،اور جب بھی سناتے ہیں،جذباتی ہوجاتے ہیں۔
    ابھی پچھلے ماہ یہ واقعہ سنا کر انہوں نے ماؤں کو اس جانب توجہ دلائی ہے کہ وہ اولاد کے معاملے میں ذرا دھیان دیں،اور غصہ یا جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی اولاد کو برابھلا نہ کہہ بیٹھیں۔کیونکہ ماؤں کے لب کی "ہلکی سی جنبش"اولاد کا نصیب لکھ دیتی ہے۔
    توجہ طلب بات یہ ہیکہ ہمارے معاشرہ میں والدین، بالخصوص مائیں اولاد کی غلطیوں پر ان کو برا بھلا کہہ دیتی ہیں،اور انکے لئے ہدایت اور صالح بننے کی دعا کرنے بجائے بددعا کر بیٹھتی ہیں۔
    آپ سب یاد رکھئے کہ ایمان اور صحت کے بعد اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت "اولاد" ہے۔حتی کہ قرآن میں اولاد کو "آنکھوں کا قرار" کہا گیا ہے،زندگی کی رونق مال یا مکان یا خوبصورت لباس سے نہیں ہے،بلکہ زندگی کی تمام تر بہاریں اور رونقیں اولاد کے دم سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہیکہ ابراہیم علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں نے 'نبوت' کی سعادت رہنے کے باوجود اللہ سے اولاد مانگیں؛
    لہذا ہر اس عورت کا جو "ماں" ہے،فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی قدر کریں،اور ہمیشہ ان کے لئے دعا کرتے ہیں،بچے تو بچے ہی ہوا کرتے ہیں،وہ شرارت نہ کریں تو کیا بوڑھے شرارت کریں؟؟؟
    کبھی بچوں کی شرارت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا مت کہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہوسلم نے بھی اس سے منع کیا ہے،ہم یہاں حدیث کا مفہوم ذکرکررہے ہیں:
    اپنے لئے،اپنے بچوں کے لئے،اپنے ماتحت لوگوں کے لئے اللہ سے بری (غلط) دعا نہ مانگو،ہوسکتا ہے کہ جب تم ایسا کررہے ہو،وہ وقت دعاؤں کے قبول کر لئے جانے کا وقت ہو.......
    ماں باپ کے منہ سے نکلے جملے کبھی اولاد کا مقدر لکھ دیتے ہیں۔اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ:
    اپنی اولاد کو عزت دو،اور ان کی قدر کرو،کیونکہ وہ تمہارے بعد تمہارا نشان بن جاتے ہیں۔(یعنی والدین کی وفات کے بعد اولاد کے دم سے ان کا نام باقی رہتا ہے)

     
  14. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ !

    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ:
    ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ۔
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
    ﺧﯿﺮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ،ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺍ ۔ ۔ ۔
    ﺍﻭﺭ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺳﻨﮑﮍﻭﮞ ﻟﻮﮒ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ،
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ '' ﻓﺎﺋﻨﻞ ﺭﺍﺅﻧﮉ '' ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ '' ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﯾﺎ۔
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ، ﻭﮦ '' ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ '' ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﻮﭦ ﮔﯿﺎ،
    ﺍﮎ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ،
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﺮﺽ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ،
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺫﻥِ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺎ۔
    ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ،
    '' ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ۔ ۔ ۔ ﺁﭖ ﻟﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ، '' ؟
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ '' ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﭨﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺭﮨﺎﮨﻮﮞ، ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ، ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﻟﯿﭩﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮬﮯ !''
    ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ '' ﻭﺍﭘﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ؟ "
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮯﺑﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ '' ﮨﺎﮞ ۔ ۔ ۔ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ !''
    '' ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﯾﻘﯿﻨﺎََ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻣﺤﻞ، ﺑﮍﮮ ﺑﺎﻏﯿﭽﮯ، ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ، ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﯿﮕﻤﺎﺕ، ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﻣﺎﻥِ ﻋﯿﺶ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮬﻮﮔﺎ !" ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
    ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﺭﻭﭘﮍﺍ۔
    ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ،ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﭘﮍﺍ ﮬﮯ۔
    '' ﻧﮩﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ ۔ ۔ ۔ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮑﻠﯽ،
    '' ﮐﯿﺎ ۔ ۔ ۔ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ۔۔ ۔ ﺁﭖ ﺳﺐ ﺳﮯﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﺁﭘﮑﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮬﻮﮔﺎ '' ۔ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ.
    '' ﺍﻓﺴﻮﺱ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺁﮦ ! ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺗﮭﺎ
    ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺍﭨﮭﺎ۔
    ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭﺍ۔
    ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ
    '' ﺗﻮ ﭘﮭﺮﺣﻀﻮﺭ ۔ ۔ ۔ ﺍﺱ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ''

     
  15. جعفررضا
    آف لائن

    جعفررضا ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2016
    پیغامات:
    65
    موصول پسندیدگیاں:
    36
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ۔۔۔ اللہ کرے زورقلم اورزیادہ۔۔ ایک مشورہ ہے کوشش کریں کہ املاکی غَلَطیاں نہ ہوں۔۔ تحریرکاحُسن ماندپڑجاتاہے۔۔ جولکھیں اسے ’ارسال‘کرنے سے پہلے تنقیدی نگاہ سے پڑھ لیں ۔۔ مشورہ ہے۔۔ قبول کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ کرناآپ کی مرضی۔۔!
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    آدھا کمبل
    ایک دولت مند سوداگر کی بیوی مر گئی تھی، تھوڑے عرصے کے بعد وہ خود بھی دمے کے مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس نے اپنی کل جائداد اپنے جوان بیٹے کے نام کردی۔
    ہزاروں کی جائداد پاکر پہلے پہلے تو نوجوان لڑکا اور اس کی بیوی بچے سب سوداگر کی خوب اچھی طرح خاطر داری کرتے رہے مگر برس چھ مہینے میں جوش ٹھنڈا ہوکر حالت یہ ہوگئی کہ علاج معالجہ بھی چھوٹ گیا اور کھانا بھی وہی ملنے لگا جو معمولی انداز کا گھر میں پکتا تھا؛ بلکہ ایک دن تو نوجوان بیٹے نے صاف کہہ دیا کہ بابا! آپ اپنی چارپائی ڈیوڑھی میں بچھالیں تو بہتر ہو کہ ہر وقت کھانستے رہنے سے بچوں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
    بیمار باپ کو صبروشکر کے سوا چارہ ہی کیا تھا،اس نے کہا مجھے تو عذر نہیں مگر ایک کمبل اوڑھنے کو چاہیے کہ ابھی سردی باقی ہے۔
    نوجوان نے چھوٹے بیٹے سے کہا: دادا کے لیے گائے کو اوڑھنے والا کمبل اُٹھا لاؤ۔ لڑکا جھٹ کمبل اُٹھا لایا،اور دادا سے کہا: لو دادا،اس میں سے آدھا تم پھاڑ لو اور آدھا مجھے دے دو۔ دادا بولا: بھلا آدھے کمبل سے سردی کیا جائے گی؟باپ نے بھی بیٹے سے کہا کہ دادا کو سارا ہی کمبل دے دو۔
    جس پر چھوٹے لڑکے نے باپ کو مخاطب کر کے جواب دیا: گھر میں ایسا کمبل تو ایک ہی ہے، اگر سارا دادا کو دے دیا تو جب تم بوڑھے اور بیمار ہوکر ڈیوڑھی میں چارپائی بچھاؤ گے تو میں تمہیں کیا دوں گا!۔
    نوجوان باپ لڑکے کی یہ بھولی بات سن کر سُن ہوگیا اور باپ سے معافی مانگ کر پوری اطاعت اور خدمت کرنے لگا جس سے باپ بھی خوش ہوگیا اور اس کی اپنی عاقبت بھی سنور گئی۔
    ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے کیا خوف فرمایا تھا : ’’اپنے باپ کی فرماں برداری کرو جب تک وہ حیات سے ہیں اور(کسی حال میں) ان کی نافرمانی نہ کرو‘‘۔
    اَطِعْ أبَاکَ مَا دَامَ حَیًّا وَ لاَ تَعْصِہٖ

    (مسند احمد بن حنبل: ۱۳؍ ۲۹۰حدیث: ۶۲۵۲۲)
     
  17. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ اچھی تنقید کو قبول کرلیا جائے تو اس سے لکھنے والے کا ہی فائدہ ہے ،،،
     
  18. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص ایسا تھا جو اپنی توبہ پر کبھی ثابت قدم نہیں رہتا تھا۔جب بھی وہ توبہ کرتا،اسے توڑ دیتا یہاں تک کہ اسے اس حال میں بیس سال گزر گئے۔
    اللّہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی،میرے اس بندے سے کہہ دو میں تجھ سخت ناراض ہوں۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس آدمی کو اللّہ کا پیغام دیا تو وہ بہت غمگین ہُوا اور جنگلوں کی طرف نکل گیا۔وہاں جا کر بارگاہِ ربّ العزت میں عرض کی،اے ربّ ذوالجلال!
    " تیری رحمت کم ہو گئی یا میرے گناہوں نے تجھے دُکھ دیا؟تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے یا بندّوں پر تیری نگاہِ کرم نہیں رہی؟تیرے عفو و درگزر سے کون سا گناہ بڑا ہے؟تُو کریم ہے،میں بخیل ہوں،کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آ گیا ہے؟اگر تُو نے اپنے بندّوں کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا تو وہ کس کے دروازے پر جائیں گے؟اگر تُو نے دھتکار دیا تو وہ کہاں جائیں گے؟اے ربِّ قادر و قہار! اگر تیری بخشش کم ہو گی اور میرے لیے عذاب ہی رہ گیا ہے تو تمام گناہ گاروں کا عذاب مجھے دے دے میں اُن پر اپنی جان قربان کرتا ہوں۔ "
    اللّہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا،جاؤ اور میرے بندّے سے کہہ دو کہ تُو نے میرے کمالِ قدرت اور عفو و درگزر کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔اگر تیرے گناہوں سے زمین بھر جائے تب بھی میں بخش دوں گا۔
    مُکاشِفۃُ القلُوب = صفحہ 170,171
    مصنف = حضرت امام غزالی رحمتہ اللّہ علیه.
     
  19. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    سعودی عرب کے رہائشی ایک شخص نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا اس فون نمبر پر رابطہ کرو اور فلاں شخص کو عمرہ کراوٴ۔ فون نمبر بڑا واضح تھا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص محلے کی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے بتایا: امام مسجد نے کہا فون نمبر یاد ہے تو پھر اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو۔
    اگلے روز اس شخص نے خواب میں بتلایا ہوا نمبر ڈائل کیا ، جس شخص نے فون اٹھایا اس سے ضروری تعارف کے بعد اس نے کہا: مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔ جس آدمی کو اس نے فون کیا وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا کونسے عمرہ کی بات کرتے ہو؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز بھی ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!!
    جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ اس سے اصرار کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا۔ خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے وآپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے......
    وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو خواب والے شخص نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا...
    دونوں شخص مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ، انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔
    اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔ حرم سے نکلنے لگے تو وہ شخص جو بہت کوشش سے عمرہ کرنے پر آمادہ ہوا تھا کہنے لگا: '' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔''
    اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا .....
    جب کافی دیر گزرگئی تو اس کے دوست نے اسے ہلایا ... جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھی کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی....
    اپنے ساتھی کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش ! ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا......
    اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی.....
    اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، خواب دیکھنے والے شخص نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا....
    چند ایام گزرنے کے بعد خواب دیکھنے والے شخص نے اس فوت ہونے والے کی بیوہ کو فون کیا۔ تعزیت کے بعد اس نے کہا : '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی نیکی یا عادت تھی کہ اس کا انجام اسقدر عمدہ ہوا۔ اسے حرمِ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی.....
    بیوہ نے کہا: بھائی تم درست کہتے ہو میرا خاوند کوئی اچھا آدمی نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا۔ اور شراب پینے کا عادی تھا، میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی .... ہاں ! مگر اس کی ایک عادت یہ تھی کہ ''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جہاں اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ ''
    یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور ساتھ میرے خاوند کے لئے دعا کرتی:
    '' اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے''
    اسطرح اس بیوہ کی دعا اللّٰہ تعالٰی نے قبول فرمالی۔ اور اس شرابی کا اتنے عمدہ طریقے پر خاتمہ ہوا کہ اس پر ہر مسلمان کو رشک آتا ہے
     
  20. جعفررضا
    آف لائن

    جعفررضا ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2016
    پیغامات:
    65
    موصول پسندیدگیاں:
    36
    ملک کا جھنڈا:
    خوش رہیں اور ایسی تحاریرسے محفل کومہکاتی رہیں۔۔۔
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    یہ واقعہ گزشتہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ایک نوجوان کا ہے جو کہ بڑا نافرمان تھا۔ اتنا کہ شہر والوں نے بیزار ہو کر اسے شہر بدر کر دیا۔ چلتے چلتے وہ ایک ویرانے میں جا پہنچا ۔ حالات کی تنگی اس پر آ پڑی ۔ کھانا پینا ختم ہوا ۔ پھر بیماری نے آ لیا ۔ یہاں تک کہ مرض الموت میں گرفتار ہوا۔ ایسے میں اس نے اللہ کو پکارا: اے وہ ذات جو معاف کرے تو گھٹتا نہیں اور عذاب دے تو بڑھتا نہیں۔ اے اللہ ! اگر مجھے معاف کرنے سے تیرے ملک میں کوئی کمی آتی ہو یا مجھے عذاب دینے سے تیری سلطنت میں اضافہ ہو تو پھر میرا کوئی سوال نہیں۔ اے میرے رب ساری عمر تیری نافرمانی میں کٹ گئی آج تک کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ ۔۔اے میرے رب میرا آج کوئی سنگی ساتھی نہیں رہا، میرا آج تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رہا۔سب ناتے رشتے ٹوٹ گئے۔ آج میرے جسم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔ تو مجھے معاف فرما دے۔۔اے میرے رب مجھے معاف فرما دےکہ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے کہ تو غفور الرحیم ہے۔ اسی حال میں اس کی جان نکل گئی۔
    موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی : اے موسیٰ! میرا ایک دوست فلاں جنگل میں مر گیا ہے اس کےغسل کا انتظام کرو۔اس کا جنازہ پڑھواور لوگوں میں اعلان کردو کہ آج جو شخص اس کا جنازہ پڑھے گا اس کی بخشش کر دی جائے گی۔چناچہ موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کروا دیا۔ لوگ بھاگے جنگل کی طرف کہ دیکھیں کون اللہ کا دوست مر گیا۔۔۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے شہر سے نکال دیا تھا۔وہ موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے اے موسیٰ علیہ السلام یہ تو بہت گناہ گار شخص تھا ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا دوست ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا: اے اللہ ! یہ تو گناہ گار شخص تھا ہماری نظر میں ۔ آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی کہ یہ تیرا دوست بن گیا!!
    اللہ تعالی نے فرمایا ۔اے موسیٰ! یہ واقعی ایسا ہی تھا جیسا آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں نے اسے دیکھا کہ یہ ذلیل ہو کر،فقیر ہو کر تنہاہی میں مر رہا ہے۔ آج اس کا کوئی دوست یار نہیں تھا۔کوئی اس کی پکار سُننے ولا تھا نہ ہی اس کی پکار کا جواب دینے والا۔۔ پھر اس نے مجھے پکارا ۔ تم ہی بتاؤ کہ کیا میری غیرت یہ گوارا کر سکتی تھی کہ میں بھی اس کی پکار کو نہ سنوں؟ مجھے میری عزت کی قسم! اگر وہ اس وقت پوری انسانیت کی بخشش کی دعا مانگتا تو میں سب کو معاف فرما دیتا
     
  22. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    یہ واقعہ امت مسلمہ کے ابتدائی دور کے ایک بزرگ کا ہے جن کا نام ہے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ ۔ جو کہ بہت نامور محدث اور مشہور اولیائے کرام میں سے ہیں۔ یہ پہلے زبردست ڈاکو تھے ۔ ایک مرتبہ ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے کسی مکان کی دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اتفاقاً اس وقت مالک مکان تلاوت قرآن مجید میں مشغول تھا ۔ اس نے یہ آیت پڑھی:
    أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ

    ترجمہ: جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، کیا ان کے لئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لئے اور جو حق اترا ہے ، اس کے لئے پسیج جائیں؟

    جونہی یہ آیت ان کی سماعت سے ٹکرائی توخشیت الٰہی سے تھر تھر کانپنے لگے اور بے اختیار منہ سے نکلا: آگیا ۔ میرے رب ! اب اس کا وقت آ گیا۔ چنانچہ روتے ہوئے دیوار سے اتر پڑے اور ایک سنسان کھنڈر نما مکان میں جا بیٹھے ۔ اور مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر آپ نے سچی توبہ کی اور توبہ کی پختگی کی خاطر ارادہ کیا کہ اب ساری زندگی بیت اللہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاروں گا۔ وہاں علم حدیث پڑھنا شروع کیا ، یہاں تک کہ اپنے وقت کے بلند پایہ محدث بنے ۔
    گناہگاروں کی توبہ کے ایسے بے شمار واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے
     
  23. جعفررضا
    آف لائن

    جعفررضا ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2016
    پیغامات:
    65
    موصول پسندیدگیاں:
    36
    ملک کا جھنڈا:
    شایدکہ دل میں اترجائے’تیری‘بات ۔۔۔۔ ماشااللہ
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    انشا اللہ
     
  25. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    افضل البشر بعد الانبیا ابوبکر

    "ابوبکر! تم نے اپنے بوڑھے باپ کو تھپڑ مارا؟"
    "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے آپ کی توہین کی تھی، اگر تلوار پاس ہوتی تو سر قلم کر دیتا۔"

    "بابا! بدر کے میدان میں آپ میرے سامنے آئے تھے لیکن میں نے والد جان کر تلوار روک دی۔"
    "لیکن بیٹا اگر تم میرے سامنے آتے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن جان کر قتل کردیتا۔"

    "ابوبکر! گھر والوں کیلئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟"
    "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کیلئے اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔"

    "خدا کی قسم اگر جنگل کے درندے آکر میرے پاؤں نوچ رہے ہوں تب بھی جیش اسامہ جائے گا کیونکہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔"

    "اگر کوئی شخص زکوۃ میں دی جانے والی اونٹ کی رسی بھی جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں دیا کرتا تھا روکے گا تو ابوبکر اس سے بھی جہاد کرے گا۔"

    "میرے لیے اتنا وظیفہ کافی ہے جتنی عام مزدور کی دیہاڑی ہے، اگر اس میں گزارا نہ ہوا تو میں مزدور کی مزدوری بڑھا دوں گا۔"

    "مجھے پرانے کپڑوں میں ہی دفنا دو، کہ نئے کپڑے زندوں کیلئے ہوا کرتے ہیں۔"

    ابوبکررضی اللہ عنہ
    11217570_1140631272636743_235157708085811432_n.png

     
  26. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت علی رضی تعالی عنہ کی بہادری

    حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ وُد (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے ۔جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے اللہ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں۔اس نے کہاہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اللہ و رسول (جل جلالہ ، صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچادیا ۔

    محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمرو عبدِ وُد میدان میں اس طرح پر نکلا کہ لوہے کے زر ہیں پہنے ہوئے تھا اور اس نے بلند آواز سے کہا ۔ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ۔اس آواز کو سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور مقابلہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا بیٹھ جاﺅ۔ یہ عَمرو بن عبدِ وُد ہے ۔دوسری بار عَمرو نے پھر آواز دی کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرنی شروع کی ۔کہنے لگا تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہوکہ جو بھی تم میں سے مارا جاتا ہے وہ سیدھے اس میں داخل ہو جاتا ہے ۔میرے مقابلہ کےلئے کسی کو کیوں نہیں کھڑا کرتے ہو ۔دوبارہ پھر حضرت علی نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی مگر آپ نے پھر وہی فرمایا کہ بیٹھ جاﺅ تیسری بارعَمرو نے پھر وہی آواز دی اور کچھ اشعار بھی پڑھے۔ راوی کا بیان ہے کہ تیسری بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلوں گا۔آپ نے فرمایا کہ یہ عَمرو ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا چاہے عَمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تیسری بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دیدی ۔حضرت علی چل کر اس کے پاس پہنچے اور چند اشعار پڑھے ۔
    عَمرو نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی ہوں۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ہو؟آپ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں۔اس نے کہاں اے میرے بھائی کے بیٹے !تیرے چچاﺅں میں سے ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے زیادہ ہیں میں تیرا خون بہانے کو برا سمجھتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مگر خدا کی قسم میں تیرا خون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔یہ سن کر وہ غصہ سے تلملا اُٹھا ۔گھوڑے سے اتر کر آگ کے شعلہ جیسی سونت لی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف لپکااور ایسا زبر دست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی یہاں تک کہ آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرہ تکبیر سناجس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اسے جہنم میں پہنچادیا
    سبحان الله
    800x480_IMAGE54854092.jpg
     
  27. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    دولت رہی نا ،،
    اب وہ گلیوں میں مارا مارا کیوں پھرتا ہے؟ احمد کے والد شہر کے امیر ترین آدمی تھے احمد کو اپنے والد کی دولت پر بڑا ناز تھا ۔ معمول کی مطابق صبح اٹھا ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر سکول پہنچ گیا آج اس کا موڈ اچھا نہ تھا ۔ اردو کا پیریڈ شروع ہوگیا آج اس کا عنوان تھا ”میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا“ سر اسد نے شروع کیا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے ۔ کسی نے کہا میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا ۔ کسی نے کہا میں فوج میں جاﺅں ،میں ٹیچر بنو ں گا ۔ جب احمد کی باری آئی تو اس نے کہا مجھے کچھ بننے یانوکری کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس دولت ہی اتنی ہے کہ گھر بیٹھ کر کھا سکیں ۔ سر اسد نے اسے سمجھایا کہ محنت کرو اور اپنا نام روشن کرو ، دولت آنی جانی چیز ہے اپنے پاپا کی دولت پر ناز نہ کروں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ احمد پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اگلی کلاس انگلش کی تھی اتفاق سے انگلش کی کلاس میں بھی یہی عنوان تھا ۔ مس عائشہ نے بھی سب سے باری باری یہی سوال کیا ۔ سب بچوں نے وہی جواب دیا ۔ احمد کا جواب سن کر مس کو بڑی حیرت ہوئی ۔ مس نے احمد کو سمجھایا لیکن احمد کا موڈ خراب تھا اس لئے اس نے مس سے بدتمیزی کی وہ احمد کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئی ۔ لیکن احمد نے ہیڈ ماسٹر سے بھی بدتمیزی کی اور سکول سے چلا گیا گھر جاتے ہی کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگا ۔
    دن گزرتے گئے اب وہ بیس سال کا تھا آوارہ لڑکوں کے ساتھ وقت گزارتا اور رات کو واپس آتا اس کے والد سمجھتے کہ وہ پڑھ کر تھک گیا ہے وہ حقیقت سے بے خبر تھے ان کا اکلوتا بیٹا کیا گل کھلا رہا ہے اپنا وقت کس طرح سے ضائع کررہا ہے ۔ ایک دن احمد کے گھر ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ اس کے پاپا کی فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے اور وہ آگ مذاق مذاق میں تمہارے آوار دوستوں نے لگائی ہے ۔اب وہ وقت بھی آگیا والد ین دُنیا سے کوچ کر گئے ۔ اس پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی والدین کی وفات کے بعد اب وہ اکیلارہ گیا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ گھر کسی اور کا ہے اور اس کے ابو پر بہت سے قرضے تھے یہ سنتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا ۔ اب وہ گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے،اس کے سر پر والدین کا سایہ نہ دولت رہی ۔اب وہ کس بات پرغرور کرتا​
     
  28. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں ایک قارون بھی تھا۔ اس نے موسی علیہ السلام کا دین بھی قبول کرلیا تھا اللہ کا قرآن کہتا ھے: ”ھم نے اسے مال ودولت کے اتنے خزانے دیے کہ انھیں اٹھانا ایک طاقتور گروہ کے لئے بھی مشکل تھا قارون کے پاس اس قدر سونا چاندی اور قمیتی اموال تھے کہ ان کے صندوقوں کو طاقتور لوگوں کا ایک گروہ بڑی مشکل سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا تھا ۔“ قرآن قارون اور اس جیسے دیگر افراد کو ایک سخت جواب دیتا ھے: ”کیا اسے معلوم نہ تھا کہ خدا نے اس سے پھلے کئی قوموں کو ھلاک کردیا جو اس سے زیادہ طاقتور تھیں،علم میں بڑھ کر تھیں اور سرمایہ بھی ان کے پاس زیادہ تھا“۔ تاریخ کی کتابوں میں اس واقعے کے متعلق بہت سے افسانے اور داستانیں ذکر هوئی ھیں ۔بعض موٴرخین نے لکھا ھے کہ قارون چار ہزار خادموں کی قطار کے ساتھ بنی اسرائیل کے درمیان سے گزرا، جبکہ چار ہزار خادم گراں قیمت گھوڑوں پر سرخ پوشاکیں پہنے هوئے سوار تھے۔اس کے ساتھ خوش گل کنیزیں بھی تھیں جو سفید خچروں پر سوار تھیں جن پر سنھری زین کسے هوئے تھے۔ ان کی پوشاکیں سرخ اور سب سونے کے زیورات پہنے هوئی تھیں ۔بعض لوگوں نے اس کے خادموں کی تعداد ستر ہزار لکھی ھے اور اسی طرح کی اور باتیں بھی لکھی ھیں۔ قرآن میں فرمایا گیا ھے: ”جو لوگ دنیاوی زندگی کے طلب گار تھے۔انھوں نے کھا کہ کاش ھمارے پاس بھی اتنی دولت هوتی جتنی قارون کے پاس ھے“۔ قارون بھی آجکل کے قارونوں کی طرح نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا مگر بلا کا ریاکار اورکمزور عقیدہ کا انسان تھا وہ چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تاکہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستاخرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا۔ ایسے ھی جیسے آجکل مخصوض کاروباروں پہ ایک خاص سٹاکسٹ طبقہ براجمان ھے۔ قارون معاملات میں کم تولتا دھوکا اور بے انصافی کرتا تھا۔ سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی قاروں خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عیش وعشرت میں خرچ کرتا تھا آجکل جیسے انگلینڈ دبئی فرانس،امریکہ،سپین اور پاکستان میں ھمارے قارونوں کے محل ھیں ایسے ھی قارون نے بھی بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے درودیوار کو سونے اور مختلف قسم کے جواہرات سے مزین کیا حتی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اورکنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ براسلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گر پڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں ۔ ایسے ھی جیسے ھم غلام عوام آجکل اپنے آقاوں کی قدم بوسی کرتے ھیں۔ مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کررکھا ہے ، کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو ۔ قارون تکبر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہيں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں مومن اسے وعظ کرتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہيں ہوتی اگر تونے نا انصافی نہ کی ہوتی اور سودنہ کھایا ہوتا تواتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا ۔ قارون جواب میں کہتا نہيں ! میں دوسروں کی طرح نہيں ! میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے اور دولت مند ہوا ہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تاکہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کی مدد کروں. ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کے عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے اور جواہرات کے دیکھنے پر حسرت کررہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پرگر پڑتے اور کہتے کتناخوش نصیب ہے قارون ! کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے ایک دن اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکوٰۃ دیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوٰۃ دے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی علیہ السلام سے کہا زکوٰۃ کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تاکہ دولت کمالیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصہ غریبوں اورناداروں کو دے تاکہ وہ بھی زندگی گذارسکیں لیکن قارون نے حضرت موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ دی اور کہا اے موسی (علیہ السلام) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو ! زکوٰۃ کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پرا یمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اور اب آپ کو خراج بھی دیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تند روی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکوٰۃ کوئی میں اپنے لئے تو لے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کا حکم ہے قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کو اذیت بھی پہنچانے لگا قارون کے ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا۔ اس نے کہا کہ میں نے ایک بہت اچھی تدبیر سوچی ھے۔ میرا خیال ھے کہ مجھے موسیؑ کے خلاف ایک منافی عصمت سازش کرنی چاہئے۔ اس نے بنی اسرائیل میں سے ایک فاحشہ عورت کو تلاش کرکے موسیؑ کے پاس بھیج دی عورت سے کہا ”تو جو کچھ مانگے گی تجھے دیںگے بشرطیکہ تو یہ گواھی دے کہ موسیؑ کا تجھ سے زنا کا تعلق تھا۔“ دوسری طرف قارون موسیؑ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ”بہتر ھے کہ آپ بنی اسرائیل کو جمع کریں اور انھیں الٰھی احکامات سنائیں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ پیش کش منظور کر لی اور بنی اسرائیل کو جمع کیا۔ جب لوگ جمع هوگئے توقارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ ھمیں خدا کے احکام سنائیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ ”بجز اس کے کسی کی پرستش نہ کرو“ صلہٴ رحم بجا لاؤ،ایسا کرو اور ویسا کرو زنا کار آدمی کے لئے خدا نے حکم دیا ھے کہ اگر وہ زنائے محصنہ کرتا ھے تو اسے سنگسار کیا جائے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ الفاظ کہے تو بنی اسرائیل کے دولت مند سازشی لوگوں نے کہا: ”خواہ وہ مجرم تو خود ہی هو۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا۔”ھاں ٹھیک ھے خواہ میں خود ہی هوں۔“ اس پر ان بے شرموں نےگستاخی کی حد کردی اور کہا کہ: ”ھم جانتے ھیں کہ تو خود اس فعل کا مرتکب هوا ھے۔اور فلاں بدکار عورت سے تیرا تعلق رھا ھے۔“ پھر انھوں نے اس عورت کو بلایا اور اس سے کہا کہ تو شہادت دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس عورت کی طرف رخ کیا اور کہا کہ”میں تجھے خدا کی قسم دیتا هوں کہ تو اصل حال بیان کر۔ “ جب اس بدکارہ عورت نے یہ بات سنی تو کانپ گئی ،اس کی حالت بدل گئی اوراس نے کہا جب آپ مجھ سے سچ بات پوچھتے ھیں تو میں حقیقت حال بیان کرتی هوں۔ وہ یہ ھے کہ ان لوگوں نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ میں آپ پہ الزام لگاوں۔ اس کے بدلے میں انھوں نے مجھے ایک کثیر رقم دینے کاوعدہ کیا تھا۔ مگر میں گواھی دیتی هوں کہ آپ با عفت ھیں اور اللہ کے رسول ھیں۔“ حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور آپکا دل ٹوٹا اور خدا وند عالم سے درخواست کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کی سزا دے ۔ اللہ کے حکم سےزمین لرزي اورایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو محل سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہوا قارون کے محل کے کھنڈرات آج بھی قاہرہ مصر کی ایک جگہ فایوم پر موجود ھیں۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔۔۔
    زکوٰۃ حق ہے غریبوں کا ہم پر ،،جو الله نے پیسے والوں پر فرض کیا ہے ،، یہ وہ فرض ہے جو نماز کی طرح ادا کرنا ہے سال کے آخر میں اپنے مال کا حساب کر کے ،، حقداروں کا حق ادا کریں ، الله آپ سب کے مال میں برکت ڈالے گا ،، انشا الله
     
  29. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    انوکھا بیج : ایک سبق آموز کہانی

    ایک تاجر اپنی محنت سے کامیاب ہوا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دلچسپ ترکیب نکالی ۔ اُس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی اسلئے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ سب کو ایک ایک بِیج دوں گا ۔ اسے بَونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا”
    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا
    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب خوبصورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا وہ خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے”۔ اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اُگا”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا
    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی ۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانتداری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیئے تھے جو اُگ نہیں سکتے ۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیئے”
    اے بندے ۔ مت بھول کہ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا تو پیدا کرنے والا دیکھ رہا ہوتا اسلئے دیانت کا دامن نہ چھوڑیں​
     
  30. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﻼﺅ......
    کسی ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﻝ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ، ﮐﭽھ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺏ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺑﺎﻗﯽ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ، ﮐﻨﯿﺰﯾﮟ ، ﺳﺒﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﺍﺳﯽ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
    ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﺑﮭﮍﮎ ﺍﭨﮭﯽ۔ ﺁﮒ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﻮﺭ ﻣﭻ ﮔﯿﺎ ، ﺳﺒﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﭼﻼﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ " ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﻼﺅ ، ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﻼﺅ ۔ " ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﻭ ﭘﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﮭﯽ " ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﻼﺅ ، ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﻼﺅ ۔ "
    ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺟﻮﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﭘﻼ ﺑﮍﮬﺎ تھا ، ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﺎ ﮨﻮﺳﮑﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻳﮏ ﻣﺮﺩ ﮨﯽ ﮨﮯ۔
    ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻏﻔﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺒﮭﯽ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ " ﺿﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﺟﮕﺎﺅ ، ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﺟﮕﺎﺅ " ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﻳﮏ ﺿﻤﯿﺮ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﮕﺎﯾﺎ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں